Skip to main content

آپ فن لینڈ کا ماڈل ملاحظہ کیجئے

آپ فن لینڈ کا ماڈل ملاحظہ کیجئے‘ فن لینڈ یورپ کے شمال میں چھوٹا سا ملک ہے‘ رقبہ تین لاکھ 38ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی 55 لاکھ ہے‘ یہ سکینڈے نیویا کا حصہ ہے‘ موسم شدید سرد ہے‘موسم سرما میں درجہ حرارت منفی 45 ڈگری تک گر جاتا ہے‘ لوگ مہذب‘ صلح جو اور نرم خو ہیں‘ جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں‘ یہ ملک ٹریفک قوانین میں باقی دنیا سے مختلف ہے‘ پوری دنیا میں آپ کی آمدنی میں جوں جوں اضافہ ہوتا جاتا ہے آپ میںٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا رجحان بڑھتا جاتا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ آپ قانون شکنی کو جرمانے میں تولنے لگتے ہیں‘ غلط پارکنگ کا جرمانہ پچاس ڈالر‘ کوئی بات نہیں‘ اشارہ ٹوٹ گیا جرمانہ دو سو ڈالر‘ نو پرابلم‘ گاڑی لگ گئی کوئی مسئلہ نہیں انشورنس کمپنی پے کر دے گی اور سپیڈ زیادہ ہوگئی‘ او کوئی ایشو نہیں میرا دفتر جرمانہ ادا کر دے گا وغیرہ وغیرہ چنانچہ آپ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے چلے جاتےہیں لیکن فن لینڈ میں ایسا نہیں ہوتا‘ آپ اس ملک میں جوں جوں امیر ہوتے جاتے ہیں آپ ٹریفک قوانین کے معاملے میں اتنے ہی محتاط اور شریف ہوتے چلےجاتے ہیں یہاں تک کہ آپ اگر ارب پتی ہیں تو آپ ذاتی کار چلانا بند کر دیتے ہیں اور آپ ٹیکسی‘بس‘ ٹرین اور ہوائی جہاز استعمال کرتے ہیں‘ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں امراءگاڑی چلانا بند کر دیتے ہیں اور یہ گاڑیاں خریدنا بھی چھوڑ دیتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ فن لینڈ میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر آپ کا جرم نہیں دیکھا جاتا‘ آپ کی آمدنی دیکھی جاتی ہے‘ آپاگر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ کو”اوور سپیڈنگ“ پر زیادہ سےزیادہ پانچ سو یوروجرمانہ ہو گا لیکن آپ اگر خوش حال‘ امیر یا رئیس ہیں تو آپ کو دس ہزار‘ پچاس ہزاراور ایک لاکھ تین ہزاریورو جرمانہ ہو جائے گا‘ فن لینڈ میں ایسے کیس بھیسامنے آئے جن میں گاڑی چلانے والا سپیڈ لمٹ سے صرف پندرہ کلو میٹر فی گھنٹہ اوپر گیا اور اسے ایکلاکھ تین ہزار یورو جرمانہ ہو گیا جبکہ پچاس ہزاریورو اور دس ہزار یوروجرمانے کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں‘ ملک میں جس شخص کو پچاس ہزاریا لاکھ یورو جرمانہ ہوجاتا ہے وہ گاڑیاں چلانا بند کر دیتا ہے اور وہ باقی زندگی نہایت شریفانہ گزارتا ہے‘ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ ذرائع آمدنی ہے‘ فن لینڈ کی حکومت نے 1920ءکی دہائی میں اندازہ لگایا تھا‘ ایک شخص ماہانہ پانچ سو مارکہ کماتا ہے‘ یہ جرم کرتا ہے‘ عدالت اسے پانچ سو مارکہ جرمانہ کر دیتی ہے‘ یہ رقم اس کےلئے بہت بڑی ہے‘ یہ پانچ سو مارکہ حکومت کو دے کر باقی مہینہ شدید مسائل کا شکار رہے گا جبکہ دوسریطرف ایک شخص گھنٹے میں پانچ سو مارکہ کماتا ہے‘ عدالت اسے پانچ ہزار مارکہ جرمانہ کر دے تو بھی اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ یہ جرمانہ ادا کرے گا اور بھول جائے گا لیکن اگر اسے پانچ لاکھ مارکہ جرمانہ کردیا جائے تو یہ مستقبل میں یہ غلطی نہیں دہرائے گا چنانچہ حکومت نے قانون بنا دیا جو شخص سڑک پر ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کرے اسے جرم کی نوعیت پر جرمانہ نہیں ہو گا‘ وہ اپنی آمدنی کے مطابق سزا بھگتے گا‘ آج پولیس کے پاس تمام شہریوں کا ڈیٹا موجود ہوتا ہے‘ یہ چند سیکنڈ میں شہری کےذرائع آمدنی دیکھتے ہیں‘ اسکی ٹیکس ریٹرنز‘ پراپرٹیز اور بینک اکاﺅنٹس دیکھتے ہیں اور اسے اس کے مطابق جرمانہ”ٹھوک“ دیتے ہیں‘ ملزم اعتراض کرے تو پولیس اہلکاروں کے پاس خصوصی اختیارات ہیں‘ یہ اکاﺅنٹ سے رقم نکال لیتے ہیں یا پھر اس کی کوئی جائیداد جرمانے کے ساتھ منسلک کر دیتے ہیں‘ وہ شخص جب تک جرمانہ ادا نہ کرے‘ وہ اس وقت تکاپنی پراپرٹی بیچ نہیں سکتا اور اگر اس نے وہ پراپرٹی کرائے پر دے رکھی ہے تو وہ اس کا کرایہ وصول نہیں کر سکے گا‘ حکومت پہلے کرائے سے اپنا جرمانہ وصول کرے گی اور اس کےبعد اسے کرایہ وصول کرنے کی اجازت دے گی چنانچہ یہ اس قانون کا کمال ہے‘ آپ فن لینڈ میں جتنا ترقی کرتے جاتے ہیں آپ اتنا ہی محتاط ہوتے جاتےہیں‘ آپ اتنا ہی قانون کی پابندی کرتے ہیں‘ آپ جانتے ہیں آپ کی غلطی آپ کی پوری زندگی کی محنت اکارت کر دے گی اور یہ قانون کا وہ خوف ہے جس کی وجہ سے فن لینڈ کے امراءگاڑی چلانے کا رسک نہیں لیتے اور یہ ٹیکسیوں‘ پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں۔آپ فن لینڈ سے اب پاکستان میں آئیے‘ ہمارے ملک میں سڑکیں انتہائی غیر محفوظ ہیں‘ آپ اسلام آباد‘ لاہور اور کراچی کی سڑکوں پر نکل جائیں‘ آپ جی ٹی روڈ اور موٹر وے پر سفر کر کے دیکھ لیں‘ آپ کے دائیں بائیں سے گاڑیاں ساں ساں کر کے گزریں گی‘ آپ کو کوئی شخص سپیڈ لمٹ کا خیال رکھتا نظر نہیں آئے گا‘ کیوں؟ کیونکہ پاکستان میں جرمانے انتہائی کم ہیں‘ آپ سپیڈ لمٹ سے خواہ پچاس کلو میٹر اوپر چلے جائیں آپ کو اڑھائیسو سے ساڑھے سات سو روپے جرمانہ ہو گا ‘ یہ رقم قانون شکنیوں کےلئے مونگ پھلی سےزیادہ اہمیت نہیں رکھتی‘ میں نے موٹر وے پر ایسے مناظر بھی دیکھے ہیں جب ایک شخص قانون توڑتا جا رہا ہے اور اس کےپیچھے موجود اس کی اضافی گاڑیاں اس کے جرمانے ادا کرتی جا رہی ہیں یہاں تک کہ وہ دو گھنٹے میں اسلام آباد سےلاہور پہنچ گیا‘ میں نے یہ بھی دیکھا موٹروے پولیس نے گاڑی کو زبردستی روکا‘ ڈرائیور چالان کروانے میں مصروف ہو گیا‘ صاحب اترے‘ دوسری گاڑی میں سوار ہوئے اور آگے روانہ ہو گئے‘ آپ کسی روز رات کے وقت اسلام آباد کے سیونتھ ایونیو‘ نائنتھ ایونیو اور مارگلہ روڈ پر سفر کر کےدیکھیں‘ آپ کو لوگ نشےمیں دھت اوور سپیڈنگ کرتے دکھائی دیں گے‘ آپ کو بچے ویلنگ کرتے بھی ملیں گے اور ریس لگاتے بھی‘ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ ملک میں جرمانہ جرم پر کیا جاتا ہے‘ مجرم کی پوزیشن پر نہیں‘ موٹروے پر دو سو روپے سے لے کر ساڑھے سات سو روپے جرمانہ ہے‘ یہ رقم ہر معمولی خوش حال شخص آسانی سے ادا کر سکتا ہے لہٰذا پھریہ اوور سپیڈنگ کیوں نہ کرے؟ یہ قانون کیوں نہ توڑے؟ملک میںویلنگ اور ریس بھی بڑے جرائم نہیں ہیں‘ نوجوان معمولی جرمانہ ادا کرتے ہیں یا گڑگڑا کر جان چھڑا لیتے ہیں لہٰذا یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے‘ پنجاب 20 دن سموگ کا شکار رہا‘ یہ سموگ پچاس جانیں لے گئی مگرگاڑیوں پر فوگ لائیٹس نہیں لگیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ سرے سے جرم ہی نہیں‘یہ درست ہے ہم غریب ملک ہیں‘ ہماری اکانومی بھی ریکارڈ میں نہیں آئی اور ہم فن لینڈ نہیں بن سکتے لیکن ہم بڑی آسانی سے جرمانوں کو گاڑیوں کی مالیت سے تو نتھی کر سکتے ہیں‘ آپ سائیکل اور موٹر سائیکل سوار سے ساڑھے سات سو روپے جرمانہ وصول کریں لیکن آپ مرسیڈیز‘ بی ایم ڈبلیو‘ لینڈ کروزر‘ اڈوی اورپراڈو کے مالک کو لاکھ روپے جرمانہ کریں‘ ہم دیکھتے ہیں یہ لوگ اس کے بعد کیسے اوور سپیڈنگ کرتے ہیں‘ یہ کیسے اشارہ توڑتےہیں اور یہ کیسے غلط لائین سے اوورٹیک کرتے ہیں‘ آپ اسی طرح لائسنس کے بغیر ڈرائیو کرنےوالوں کی گاڑیاں ضبط کرلیں‘ آپ یقین کریں ملک میں جس دن دو گاڑیاں آکشن ہوجائیں گی‘ لوگ لائنوں میں لگ کر لائسنس حاصل کریں گے‘ آپ اسی طرح ریس اور ویلنگ کرنے والے نوجوانوں کی فلم بنائیں اور ان کی گاڑیاں اور موٹر سائیکل بھی ضبط کر لیں‘ آپ اگلے دن نتیجہ دیکھ لیجئے اور آپ اسی طرح قانون بنا دیں جو گاڑی پندرہ اکتوبر سے 15 اپریل تک فوگ لائیٹس کے بغیر روڈ پر چڑھے گی اسے لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا‘ آپ اس کے بعد رزلٹ دیکھ لیجئے گا‘ آپ اسی طرح انشورنس اور مینٹیننس کو بھی قانون بنا دیں‘آپ اعلان کریں ملک میں کوئی گاڑی انشورنس اور مینٹیننس کے بغیر سڑکپر نہیں آ ئے گی اور اگر آئی تو اسے ضبط کر لیا جائے گا‘ آپ چند ماہ میں اس کا نتیجہ بھی دیکھ لیجئے گا‘ ہماری سڑکیں اور سفر دونوں محفوظ ہو جائیں گے۔خدا کی پناہ ہمارے ملک میں ہر سال سڑکوں پر اتنے لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں جتنے دس برسوں میں دہشت گردی سے مارے گئے ‘ ہم من حیث القوم اس قتال کے ذمہ دار ہیں‘کیوں؟کیونکہ ہم نے آج تک ٹریفک کے مسائل سے نبٹنے کےلئے کوئی قانون ہی نہیں بنایا اور اگر قانون ہے تو یہ بہتکمزور اور بہت غریب ہے‘

Comments

Popular posts from this blog

حمود الرحمن کمیشن رپورٹ

تعارف ترميم حکومت  پاکستان  نے وزارتِ صدارتی امور کے نوٹیفیکشن نمبر ایس آر او(١) 71مورخہ 26 دسمبر1971کے ذریعے اس انکوائری کمیشن کو قائم کرتے ہوئے اس کے ذمہ یہ فرائض سونپے تھے کہ وہ ان حالات کی تحقیقات کرے، جن کے تحت کمانڈر، ایسٹرن کمانڈ اور ان کے زیر کمان پاکستان کی مسلح افواج نے دشمن کی فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈالے، بھارت اور  مغربی پاکستان  کی سرحدوں پر جنگ بندی کے احکامات صادر کیے گئے نیز جموں اور کشمیر کی سیز فائر لائن پر بھی جنگ بندی کا حکم دیاگیا پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ مجریہ1956ء کے تحت قائم ہونے والا یہ کمیشن درج ذیل افراد پر مشتمل تھا؛۔ 1) مسٹر جسٹس حمود الرحمٰن (ہلال پاکستان) چیف جسٹس، سپریم کورٹ آف پاکستان، بحیثیت صدر۔ 2) مسٹر جسٹس انور الحق، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بحیثیت رکن۔ 3) مسٹر جسٹس طفیل علی عبد الرحمن چیف جسٹس سندھ بلوچستان ہائیکورٹ بحیثیت رکن کمیشن کی سفارشات پر لیفٹنٹ جنرل الطاف قادر( ریٹائرڈ) کو بحیثیت ملٹری ایڈوائزر اور اسسٹنٹ رجسٹرار سپریم کورٹ آف پاکستان، مسٹر ایم اے لطیف کو بحیثیت سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ ٣) وزارت صدارتی امور کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیک

Pathar Ke Sipahi Part 12 Namwar Series M A Rahat

4shared Download BOX DOWNLOAD AND ONLINE READ MEDIAFIRE DOWNLOAD AND ONLINE READ

Rooh Ki Pyas Namwar 3 by M A RAHAT

4shared Download BOX DOWNLOAD AND ONLINE READ MEDIAFIRE DOWNLOAD AND ONLINE READ