Skip to main content

Posts

Showing posts from December, 2015

انیسویں اور بیسویں صدی کے قرانی تراجم

عبد اللہ ہوگلی (1869ء؍ 1245ھ عبد اللہ سید ( 1869ء؍ 1254ھ کا ٹائپ شدہ ترجمہ ادارہ ادبیات اردو حیدر آباد دکن میں موجود ہے یہ ترجمہ آٹھ سو پچاس صفحات پر مشتمل ہے۔ سید علی مجتہد 1836ء؍ 1252ھ کا ترجمہ وتفسیر ’توضیح مجید میں تنقیح کلام اللہ الحمید‘ کے نام سے چار جلدوں میں حیدری پریس سے بمبئی سےشائع ہوا۔ کرامت علی جونپوری 1837ء؍ 1253ھ کا یہ ترجمہ ’ کوکب دری‘ کے سرکار عالی ، حیدر آباد دکن میں موجود ہے۔ مولوی انور علی لکھنوی 1255ھ؍ 1839 میں قرآن کا ترجمہ کیا جو کتب خانہ آصفیہ سرکار عالی حیدر آباد دکن میں موجود ہے۔ شاہ رفیع الدین دہلوی محدث دہلوی ﷫ 1840ء ؍ 1256ھ کے اس ترجمے کی اشاعت شاہ عبد القادر ﷫ کے فوائد ’ موضح قرآن‘ کے ساتھ کلکتہ کے ایک قدیم مطبع بنام اسلامی پریس میں طبع ہوا۔ یہ پہلا ایڈیشن دو جلدوں میں بالترتیب 1838ء؍ 1254ھ اور 1840ء ؍ 1256ھ میں طبع ہوا۔ سید صفدر حسین مودودی 1844ء؍ 1260ھ کا ترجمہ وتفسیر قرآن مجید مع ختم الصحائف مترجم میاں محمود الحسن کا لیہ ضلع لائل پور کی ملکیت میں موجود ہے۔ سکندر علی خاں نواب مالیر کوٹلہ 1852ء؍ 1268ھ کا ترجمہ ’تفسیر رحمانی ‘ کے نام سے مجتبائی

اردو زبان میں ترجمہ قرآن کے اَدوار اور مختلف زبانوں میں تراجم

کتبِ سماوی بالخصوص قرآنِ حکیم کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انبیا ےکرام ﷩ کلامِ الٰہی کے اصل ترجمان تھے اور ان کے پیروکار یعنی صحابہٴ کرام﷢، تابعین و تبع تابعین ﷭وحی الٰہی کے ابلاغ و ترسیل کے سلسلے میں انبیاےکرام﷩ کے تفسیری ارشادات کے مترجم تھے۔ اس طرح ترجمہ کی روایت اتنی ہی قدیم ہے جتنا خود انسان کا اس کائنات میں اپنا وجود۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فطری طور پر انسان کے اندر تجسس اور غور و فکر کا مادّہ ودیعت کیا ہے۔ اسی بنا پر انسان کو تجسس اور تدبر کا آمیزہ کہا جاتا ہے۔ اسی جذبے کے تحت صدیوں سے انسان ایک دوسرے کو سمجھنے، پرکھنے اور ایک دوسرے تک اپنا مافی الضمیر پہنچانے کے راستے نکالتا رہا ہے۔ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اس صلاحیت کے موٴثر و مستعد استعمال نے انسانی معاشرے، ملک اور قوموں کے درمیان افہام و تفہیم کی فضا پیدا کی ہے اور اس کے برعکس تجسس و تدبر کے جذبہ کی ناپختگی یا اس صلاحیت کے غیر موٴثر استعمال نے فتنہ و فساد کی راہیں بھی کھولی ہیں۔دنیا بھر میں قرآن پاک کے تراجم بے شمار زبانوں میں ہوئے ہیں اور اردو زبان کو یہ شرف حاصل ہے کہ ترجمہ وتفسیر کا سب سے زیادہ مواد اسی میں ل

فنِ ترجمہ کی نظری تعریف اور اس کے لوازمات

فنِ ترجمہ کی نظری تعریف:حق کو قبول کرنے اور نیکی کی باتوں کو غور سے سننے، اسے سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے اور ہر زمان و مکان کے انسانوں تک ان کو اس طرح منتقل کرنے کے لیے کہ وہ بھی اس کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوسکیں، اس پیغام اور دعوت کو قرآن مجید نے بڑے خوبصورت پیرائے اور جامع انداز میں پیش کیا ہے۔ معلمِ کائنات سید دوعالم ﷺ کی زبانِ اطہر سے ارشاد ہوتا ہے:﴿ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ‌ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّـهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْ‌آنُ لِأُنذِرَ‌كُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ ﴾ ’’ تم فرماؤ سب سے بڑی گواہی کس کی تم فرماؤ کہ اللہ گواہ ہے مجھ میں اور تم میں اور میری طرف اس قرآن کی وحی ہوئی ہے کہ میں اس سے تمہیں ڈراؤں اور جن جن کو پہنچے۔ ‘‘مفسر قرآن حضرت صدر الافاضل علامہ مولانا نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمة اس آیہٴ کریمہ کی تفسیر میں اپنے حاشیہ خزائن العرفان میں تحریر کرتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہوئے کہ”میرے بعد قیامت تک آنے والے جنہیں یہ قرآن پاک پہنچے خواہ وہ انسان ہوں یا جن، سب کو میں حکمِ الٰہی کی مخالفت سے ڈراتا ہوں۔“اس آیہٴ کریمہ کی تفسی

عہد رسالت میں نازل شدہ قرآن کی تلاوت مسجدنبوی میں اور رمضان میں کیسے ہوتی تھی

رسول اللہﷺ نے پہلے روز سے اس کا اہتمام فرمایا کہ قرآن مجید کے جو حصے نازل ہوتے جائیں صحابہ کرامؓ ان کو زبانی بھی یاد کرتے جائیں اور اس کا بہترین طریقہ نماز میں قرآن کی تلاوت تھی چناچہ نماز کا حکم پہلے دن سے دے دیا گیا تھا۔موجودہ پانچ نمازیں معراج کے موقعہ پر فرض ہوئیں تو اس سے پہلے سے مسلمان نماز پڑھتے چلے آ رہے تھے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کے دن میں دو وقت کی نماز فرض تھی۔جب آپﷺ مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو جو صحابہ آپﷺ کے ساتھ آئے وہ اپنے ساتھ قرآن مجید کے لکھے ہوئے ذخائر بھی لائےاور مدینہ منورہ میں انصاری صحابؓہ نے بھی یہ سلسلہ شروع کر دیا۔مدینہ منورہ تشریف لانے کی بعد جو تین کام پہلے سے ہو رہے تھے یعنی آیات کو زبانی یاد کرنا،انہیں تحریر میں لا کر فوری طور پر محفوظ کر لینا اور دوسروں تک پہنچا دینا،یہ سب کام مدینہ میں جاری رہےرسول اللہﷺ نے اس مقصد کے لیے ایک بہت بڑا مرکز مسجد نبوی میں قائم فرمایا جو صفہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس میں شب و روز بڑی تعداد میں صحابؓہ مقیم رہتے اور دن رات تعلیم حاصل کرتے۔ہر سال رمضان میں آپﷺ قرآن مجید کا ایک دور جبریل امین کے ساتھ فرماتے تھے

اسماء قرآن اور ان کا مادہ اشتقاق

اللہ نے اپنی ارسال کردہ وحی کے لئے چند جدید نام تجویز کئےہیں۔یہ نام عربی کلام کے ناموں سے اجمال و تفصیل کے اعتبار سے مختلف ہیں ۔ان القاب واسماء میں اس بات کو ملحوظ رکھاگیا ہے کہ فلاں نام کیوں رکھا گیا اور اس کا مادہ اشتقاق کیا ہے ۔ان میں سے دو لقب مشہور ہیں ،(الکتاب ،۲،القرآن)۔ ۱۔الکتاب: الکتاب کے نام سے اس جانب اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس کو سطور میں جمع کیا گیا ہے۔کتابت حروف کے جمع کرنے اور الفاظ کے لکھنے کو کہتے ہیں ۔القرآن کہہ کر اس کے سینہ میں محفوظ ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ۔،القرآن اسی طرح مصدر ہے جیسے القراءۃ قراءت سے ایک چیز یاد اور محفوظ ہوجاتی ہے ۔القرآن واضح اور روشن عربی زبان میں اترا ہے اس کی حفاظت و صیانت کا اس قدر اہتمام کیا گیا کہ یہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا ۔جو لوگ اس بازیچہ طفلاں بنانے کے درپے تھے اوراس میں تحریف کرنے کے خواہاں تھے وہ مایوس ہو کر رہ گئے۔اس کی وجہ یہ کہ قرآن کو نہ تو باقی کتابوں کی طرح صرف لکھ کر محفوظ کیا گیا ،اور نہ صرف حفظ کے ذریعہ اس کی حفاظت کا اہتمام ہوا ،بلکہ کتابت کے ساتھ ساتھ تواتر اسناد بھی اس کے حصہ میں آئیں ۔مزید براں اسناد متوا