Skip to main content

Posts

Showing posts from November, 2016

ﺍﯾﮏ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺴﺠﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﻟﻨﺪﻥ ﭘُﮩﻨﭽﮯ

ﺳﺎﻟﻮﮞ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺍﯾﮏ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺴﺠﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﻟﻨﺪﻥ ﭘُﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺭﻭﺍﺯﺍﻧﮧ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﺲ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﻧﺎ ﺍُﻧﮑﺎ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ۔ﻟﻨﺪﻥ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﮐﮯ ﮨﻔﺘﻮﮞ ﺑﻌﺪ, ﻟﮕﮯ ﺑﻨﺪﮬﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺭﻭﭦ ﭘﺮ ﺑﺴﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻔﺮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺑﺲ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ ﮐﺎ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﯾﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﺲ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺋﮯ, ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﮐﻮ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺩﯾﺎﺍﻭﺭ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﯿﮑﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﺸﺴﺖ ﭘﺮ  ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ۔ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﮐﮯ ﺩﯾﺌﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﮯﭘﯿﺴﮯ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﭼﻼ ﮐﮧ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺁﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ ﭘﮍ ﮔﺌﮯ, ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺑﯿﺲ ﭘﻨﺲ ﻭﮦ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﺭ ﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﺣﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﭺﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺅ ﺍﻥ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﻮ, ﺍﺗﻨﮯ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻮﻥ ﭘﺮﻭﺍﮦ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ !!!ﭨﺮﺍﻧﺴﭙﻮﺭﭦ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﺍﻥ ﺑﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﭘﺎﺅﻧﮉ ﮐﻤﺎﺗﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮨﮯ, ﺍﻥ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﺳﮯ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻓﺮﻕ ﭘﮍ ﺟﺎﺋﮯﮔﺎ? ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭼﭗ ﮨﯽﺭﮨﺘﺎﮨﻮﮞ … ۔ﺑﺲ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﺳﭩﺎﭖ ﭘﺮ ﺭُﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﻣﺎﻡ

ﺍﯾﮏ شخص ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ کی خدمت میں حاضر ہوا

ﺍﯾﮏ شخص ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسنے ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖﮐﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ !!ﻣﯿﺮﺍ ﺑﺎﭖ ﻣﺠﮫ ﺳﮯﭘﻮﭼﮭﺘﺎ نہیں ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﺎﺭﺍ ﻣﺎﻝ ﺧﺮﭺ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮬﮯ,ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ والد محترم ﮐﻮ بلوایا،ﺟﺐ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﻮ ﭘﺘﺎ ﭼﻼ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ آلہ و ﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﯽﮬﮯ ﺗﻮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﻧﺠﯿﺪﮦ ﮬﻮﺋﮯ… ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ  و آلہ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﻠﮯ…ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻋﺮﺏ ﮐﯽ ﮔﮭﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺗﮭﯽﺗﻮ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺠﮫ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ کہتے ہوئے پہنچے،ﺍﺩﮬﺮ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﺭﺳﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﺒﺮﺍﺋﻞ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮬﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ,ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﺒﺤﺎﻧﮧﻭ ﺗﻌﺎلی ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ معاملہ ﺑﻌﺪﻣﯿﮟ ﺳﻨﺌﯿﮯ ﮔﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺳﻨﯿﮟ ﺟﻮ ﻭﮦ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮨﻮﮮﺁ ﺭﮨﮯ ﮬﯿﮟ, ﺟﺐ ﻭﮦ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﮮ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯﻓﺮﻣﺎﯾﺎ, ﮐﮧﺁﭖ ﮐﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﻦ ﺳﻨﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺳﻨﺎﺋﯿﮯ ﺟﻮ ﺁﭖ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮬﻮﮮ ﺁﺋﮯ ﮬﯿﮟ،ﻭﮦ ﻣﺨﻠﺺ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﺗﮭﮯ,ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﮯ… ﮐﮧﺟﻮ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﺩﺍ بھیﻧﮩﯿﮟ ہوئے، ﻣﯿﺮﮮ اپنے ﮐﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ابھی ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻨﮯ…

ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺗﮭﺎ

ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺗﮭﺎ, ﺑﮍﺍ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻥ ﺗﮭﺎ ﺷﮩﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺎﺋﯿﮑﺎﭦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﻭﯾﺮﺍﻧﮯﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ, ﻭﮨﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﻧﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﺣﺎﻻﺕ ﮐﯽ ﺗﻨﮕﯽ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺁُﭘﮍﮬﯽ۔ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﮍ ﻧﮧ ﭨﻮﭨﯽ۔۔ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﺐ ﺍُﺳﮯ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﻧﻈﺮ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮨﻮﮐﺮ ﺑﻮﻻ ! ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﺳﺎﺭﯼ ﻉﻣﺮ ﺗﯿﺮﯼ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﭧ ﮔﺌﯽ ﺁﺝ ﺗﮏ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﭼﮭﺎ ﮐ ﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟﮐﯿﺎ۔ ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﺍﮔﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﺑﺘﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﮧ ﺗﯿﺮﮮ ﻋﺬﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯﺳﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﻃﺎﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﮕﺘﺎ۔۔ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﻋﺬﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﯾﺎ ﻧﮧ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﻤﯽ ﯾﺎ ﺯﯾﺎﺩﺗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ۔۔۔ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﻣﯿﺮﺍ ﺁﺝ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﻨﮕﯽ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎ, ﻣﯿﺮﺍ ﺁﺝ ﺗﯿﺮﮮ ﺳﻮﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎ۔ﺳﺐ ﻧﺎﺗﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﭨﻮﭦ ﮔﺌﮯ۔ ﺁﺝﻣﯿﺮﮮ ﺟﺴﻢ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ۔ ﺗُﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﮐﯿﻼ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌ۔۔ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﮮ۔۔ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﮮ۔۔ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍُﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ۔ﻣﻮﺳﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﻼﻡ ﭘﺮ ﻭﺣﯽ ﻧﺎﺯﻝﮨﻮﮨﯽ۔ـ ﮐﮧ ﺍﮮ ﻣﻮﺳﯽ ! ﻣﯿﺮﺍ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺖ ﻓﻼﮞ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿ

کسان اپنے گدھے کو اپنے گھر کے سامنے باندھنے کیلئے ہمسائے سے رسی مانگنے گیا

کسان اپنے گدھے کو اپنے گھر کے سامنے باندھنے کیلئے ہمسائے سے رسی مانگنے گیا تو ہمسائے نے انکار کرتے ہوئے کہا؛ رسی تو نہیں ہے میرے پاس، مگر ایک بات بتاؤں، جا کر عمل کرو تو رسی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہمسائے نے کہا؛ اپنے گدھے کے پاس جا کر بالکل ایسی حرکتیں کرو جیسے رسی کو گردن میں ڈال کر کستے اور پھر کھونٹی کے ساتھ باندھتے ہیں، دیکھنا گدھا بغیر کوئی حرکت کیئے ویسے ہی کھونٹے کے پاس کھڑا رہے گا۔ کسان نے  گدھے کے پاس جا کر ہمسائے کی نصیحت پر عمل کیا اور گھر میں جا کر سو گیا۔ دوسری صبح باہر جا کر دیکھا تو گدھا ویسے کا ویساکھونٹے کے پاس بیٹھا ہے۔ کسان نے گدھے کو ہانک کر کام پر لے جانا چاہا تو نئی افتاد آن پڑی کہ گدھا اپنی جگہ سے ہلنے کو تیار نا ہوا۔ کھینچنے، زور لگانے اور ڈنڈے برسانے سے بھی کام نا بنا تو ہمسائے سےجا کر کہا؛ بھئی تیری نصیحت باندھ دینے تک تو ٹھیک تھی مگر اب میرا گدھا کام تو جاتا رہا ہے، اب کیا کروں؟ ہمسائے نے پوچھا؛ آج کام پر جانے سے پہلے کیا تو نے پہلے اس کی گردن سے رسی کھولی تھی؟ کسان نے حیرت سے کہا: کونسی رسی؟ میں نے تو بس رسی باندھنے کی اداکاری کی تھی، اصل رسی تھوڑا باندھی

ایدھی جیل کی وہ جوان لڑکی اور اس کا تعاقب کرتا خیال

ایدھی جیل کی وہ جوان لڑکی اور اس کا تعاقب کرتا خیالکسی کے بھی خلاف صرف فیشن کے طور پر جانا کسی بھی سمارٹ انسان کوزیب نہیں دیتا. کسی بھی ایسی بات کو کہنا جس پر اپ خود ہی نا یقین کرتے ہوں، کسی معیارئ آدمی یا عورت کا کام نہیں. مگر کسی بھیڑ چال میں صرف خوف کے مارے چپ رہنا بہت لوگ کرتے ہیں. مگر میں نے نہیں کبھی نہی کیا. ایدھی صاحب کی وفات کے بعد میں وہی لکھ سکتی ہوں جو میں اس فاؤنڈیشن کے بارے میں جانتی  ہوں . پاکستانیوں کی جذباتیت ان کیبری عادت ہے. زیادہ سوچنے سمجھنے کا رواج نہیں.میں آج یہ بتانا چاہوں گی کہ میری نظر میں ایدھی فاؤنڈیشن کا امیج کب خرابہوا. کسی بھی دوسری تنظیم کو اتنے اعتماد سے پیسے نہیں دیے جاتے جتنا ایدھی فاؤنڈیشن کو. عورتیں اپنا زیور اتار کر دے دیتی تھیں سنا ہے. جانتے ہیں زیور کتنیمشکل سے بنتا ہے؟ شاید ہی کبھی کسی نے دوبارہ سوچا ہو کہ ایدھی کو پیسے کیوں دیے. ایدھی تو غریب آدمی تھا. اس نے اپنا تو ایک پیسا کسی پر نہیں لگایا. بس لوگوں سے لے کر لگایا. کہتے ہیں کہ اربوں روپے دے چکے ہیں لوگ.اربوں روپے. غریب لوگوں کے. غریب لوگوں پر ہی لگے.میں نے جو ایدھی فاؤنڈیشن کا کام دیکھا،

ﮐﯿﺎ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺭﺏ ﺭﺣﻤﺪﻝ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻇﺎﻟﻢ؟

ﮐﯿﺎ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺭﺏ ﺭﺣﻤﺪﻝ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻇﺎﻟﻢ؟الله سبحانہ وتعالی کی رحمت کا ایک عجیب واقعہجناب دائود طائی رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب ایک حکایت ہے کہ ان کے شہر ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﺑﯿﻮﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﺼﯿﺒﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﮩﺎﮌﭨﻮﭦ ﭘﮍﮮ۔ . ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻭﺭ ﮐﻞ ﺟﻤﻊ ﭘﻮﻧﺠﯽ ﺑﺲ ﺗﯿﻦ ﺩﺭﮨﻢ۔ ﺣﺎﻻﺕ ﺳﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﭨﮭﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺳﮯ ﺍﻥ ﺗﯿﻦ ﺩﺭﮨﻢ ﮐﺎ ﺍﻭﻥ ﺧﺮﯾﺪ ﻻﺋﯽ، ﮐﭽﮫ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﺎﻧﭻ ﺩﺭﮨﻢ ﻭﺻﻮﻝ ﭘﺎﺋﮯ۔ . ﺩﻭ ﺩﺭﮨﻢ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺧﺮ ﯾﺪﺍ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﻦ ﺩﺭﮨﻢ ﮐﺎ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺍﻭﻥ ﻟﯿﺘﯽ ﺁﺋﯽ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﮔﺰﺭ ﺑﺴﺮ ﮐﯿﺎ، ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺍﻭﺭﺍﻭﻥ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﻧﺪﮦ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﮌﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻥ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔.ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻞ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﺎ ﯾﻮﮞ ﻟُﭧ ﺟﺎﻧﺎ ﺳﻮﮨﺎﻥ ﺭﻭﺡ ﺗﮭﺎ، ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﮐﯽ ﮨﻮﻟﻨﺎﮐﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﻏﻢ ﻭ ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﭘﺎﮔﻞ ﺳﯽ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ۔ . ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﺳﯿﺪﮬﺎ جناب دائود ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻗﺼﮧ ﺳﻨﺎ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺭﺏ ﺭﺣﻤﺪﻝ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻇﺎﻟﻢ؟ جناب دائود طائی ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺩﺭﺩ ﺑﮭﺮﯼ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺳﻦ ﮐﺮﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﯽ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﮨﻮﺋﯽ، . ﺟﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎﺗﻮ ﺩﺱ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺍﺷﺨﺎﺹ ﮐﻮ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﺎﯾ

بھوک ہڑتال یا خود کشی اسلامی نقطہ ٴ نگاہ سے

بھوک ہڑتال یا خود کشی اسلامی نقطہ ٴ نگاہ سےدور حاضر میں مختلف افراد‘ یونینوں اور اداروں کی جانب سے اپنی ناراضگی کے اظہار اور تنقید کے لئے جو طریقہ استعمال کیا جاتا ہے اسے ”بھوک ہڑتال“ کہتے ہیں‘ یہ ایک معمول بنا ہے کہ اگر آپ کی بات نہ سنی جارہی ہو یا آپ کے مرضی کے مطابق فیصلہ نہ دیا جارہاہو )بغیر اس کے کہ آپ حق پر ہیں یا نہیں( تو اپنی بات منوانے اور فیصلے کو اپنےحق میں کرانے کے لئے انسان بھوکا رہ ک ر اپنے آپ کو ناراض ظاہر کرتا ہے اور احتجاج ریکارڈکراتا ہے‘ اسی سلسلے میں بسا اوقات اس کی جان تک چلے جانے کا اندیشہ رہتا ہے‘ لہذا اسلامی نقطہ نظر سے بھوک ہڑتال قطعاً جائز نہیں‘ کیونکہ زندگی کی تحفظ کے لئے اور اپنی طاقت وتوانائی کو معمول پر برقرار رکھنے کے لئے غذا کھانا واجب ہے۔علامہ سید محمد ابی السعود‘ فتح المعین میںلکھتے ہیں :”الاکل والشرب لدفع الہلاک فرض“ )۱(ترجمہ:․․․ ”دفع ہلاکت کے لئے کھانا پینا فرض ہے“۔ جبکہ فتاویٰ عالمگیری میں درج ہے :”اما الاکل فعلیٰ مراتب‘ فرض وہو ما یندفع بہ الہلاک فان ترک الاکل والشرب حتی ہلک فقد عصیٰ“۔ )۲(ترجمہ:․․․ ”کھانے کے چند درجات ہیں اتنا کھانا جس کے ذریعے ج

مسلمانوں کے لئے بہت نازک وقت ہے

مسلمانوں کے لئے بہت نازک وقت ہےیوں تو لوگ بہت دنوں سے کہہ رہے ہیں کہمسلمان چار وں طرف سے مصائب میں گھرے ہوئے‘ روز بروز تنزل وادبار کا قبضہ عالم اسلامی پر ہوتا جاتا ہے‘ لیکن درحقیقت نازک وقت اب ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول رب العالمین ﷺ نے اپنے خطبہ میں آئندہ زمانہ کے حالات بیان فرمائے ‘ قیامت تک پیش آنے والے فِتن اور مصائب سے آپ نے اپنی امت کو آگاہ فرمایا۔ اسی سلسلہ میں ارشاد فرمایا کہ: ایک زمانہ آنے والا ہے کہ اس وقت دین پر قائم رہنے والے کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ شاید آج وہی زمانہ آگیا۔عالم اسباب میں کسی قوم کے فنا ہوجانے کے جس قدر اسباب ہوسکتے ہیں‘ وہ سب آج ہم میں موجود ہیں اور طرہ یہ کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔آج جو حالات ہمارے بہت زیادہ افسوسناک ہیں اور عام طور پر مشاہدہ میں آرہےہیں‘ انہیں میں سے چند حسب ذیل ہیں۔۱:․․․آج ہم لوگوں میں یعنی اہل سنت وجماعت میں دین اگر ہے تو ہر چیز سے پیچھے ہے۔ کبھی ہماری یہ حالت تھی کہ مال‘ اولاد اور اس سے بھی زیادہ پیاری چیز جان اور اس سے بھی زیادہ پیاری چیز عزت وآبرو ‘ ان سب چیزوں پر دین مقدم تھا۔ ہر مسلم

نومنتخب امریکی صدرڈونلڈٹرمپ

نومنتخب امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کوعام لوگو ں سے لیکرسیاسی ماہرین اورتجزیہ کارو ں تک نے خطرے کی علامت قراردے چکے ہیں لیکن اب ایک پریشان کن پیش گوئی سامنے آگئی ہے کہ بلغاریہ سے تعلق رکھنے والی مشہورزمانہ کاہنہ باباوانگانے بھی بہت ہی خطرناک پیش گوئی کی تھی کہ 2016میں منتخب ہونے والاامریکی صدرنہ صرف مغربی دنیاہی نہیں بلکہ تمام دنیاکیلئے انتہائی منحوس اوربڑیتباہی کی علامت ثابت ہوگا۔رپورٹ کے مطابق باباوانگا نے اس سے پہلے بھی کئی پیش گوئیاں بھی کررکھی تھیں کہ ایک سیاہ فام امریکہ کاصدربنے گااوراس کے بعد امریکہ ٹوٹ جائے گا۔بابا وانگا نے پیشگوئی کی تھی کہ امریکہ کا سیاہ فام صدر جب اقتدار چھوڑے گا تو امریکہ شدید مالی مسائل کا شکار ہوگا اور اس کے بعد امریکی ریاستوں میں بڑے تنازعات شروع ہوجاءں گے اور اس کے بعد امریکہ میں سول وار کا آغاز ہوگا۔بابا وانگا کی پیش گوئیوں کے تناظر میں ہی اگر دیکھاجائے تو امریکہ میں ڈونلڈٹرمپ کے صدربننے کے بعد ان کے خلاف احتجاجی مظاہروں کاسلسلہ شروع ہوچکاہے۔دوسری ریاستوں کے بعد امریکی ریاست کیلیفورنیہ کے ٹاون کالیگزٹ میں بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پرنکل آئے،احتجاجی مظاہرین می

آپ فن لینڈ کا ماڈل ملاحظہ کیجئے

آپ فن لینڈ کا ماڈل ملاحظہ کیجئے‘ فن لینڈ یورپ کے شمال میں چھوٹا سا ملک ہے‘ رقبہ تین لاکھ 38ہزار مربع کلو میٹر اور آبادی 55 لاکھ ہے‘ یہ سکینڈے نیویا کا حصہ ہے‘ موسم شدید سرد ہے‘موسم سرما میں درجہ حرارت منفی 45 ڈگری تک گر جاتا ہے‘ لوگ مہذب‘ صلح جو اور نرم خو ہیں‘ جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں‘ یہ ملک ٹریفک قوانین میں باقی دنیا سے مختلف ہے‘ پوری دنیا میں آپ کی آمدنی میں جوں جوں اضافہ ہوتا جاتا ہے آپ میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا رجحان بڑھتا جاتا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ آپ قانون شکنی کو جرمانے میں تولنے لگتے ہیں‘ غلط پارکنگ کا جرمانہ پچاس ڈالر‘ کوئی بات نہیں‘ اشارہ ٹوٹ گیا جرمانہ دو سو ڈالر‘ نو پرابلم‘ گاڑی لگ گئی کوئی مسئلہ نہیں انشورنس کمپنی پے کر دے گی اور سپیڈ زیادہ ہوگئی‘ او کوئی ایشو نہیں میرا دفتر جرمانہ ادا کر دے گا وغیرہ وغیرہ چنانچہ آپ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے چلے جاتےہیں لیکن فن لینڈ میں ایسا نہیں ہوتا‘ آپ اس ملک میں جوں جوں امیر ہوتے جاتے ہیں آپ ٹریفک قوانین کے معاملے میں اتنے ہی محتاط اور شریف ہوتے چلےجاتے ہیں یہاں تک کہ آپ اگر ارب پتی ہیں تو آپ ذاتی کار چلانا بند کر دیتے ہی

بریک ہونے والاپہلا بحری جہاز

جان بیٹ سن پہلا کباڑیہ تھا اور ایچ ایم ایس TEMERAIRE بریک ہونے والاپہلا بحری جہاز‘ یہ جہاز برطانوی نیوی کی ملکیت تھا‘ دنیا میں اس سے قبل ریٹائر بحری جہازوں کو سمندر میں ڈبو دیا جاتا تھا اور اس سے پہلے جب بحری جہاز لکڑی سے بنائے جاتے تھے‘ ان کو ساحلوں پر جلا دیا جاتا تھا یا پھر انہیں توڑ کر لکڑی ساحلی آبادیوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی لیکن پھر 1838ءآ گیا‘ برطانوی نیوی نے یہ بحری جہاز بھی ڈبونے کا فی صلہ کیا‘ جان بیٹ سن نیول چیف سے ملا اور اسے جہاز آکشن کرنے کا مشورہ دے دیا‘ نیول چیف کو آئیڈیا پسند آیا‘ جہاز آکشن ہوا اور جان بیٹ سن نے یہ جہاز 5 ہزار 5 سو 30 پاﺅنڈ میں خرید لیا‘ وہ جہاز کو دریائےتھیمز میں لے گیا‘ جہاز توڑا‘ تانبا‘ لوہا‘ ایلومونیم‘ پیتل اور ربڑ الگ کیا‘ جہاز کے کیل‘ نٹ بولٹ‘ قبضےاور ہینڈل نکالے اور یہ سارا سامکان دھاتی کارخانوں کو بیچ دیا‘ اس نے بھاری منافع کمایا‘ یہ منافع شپ بریکنگ کی عظیم انڈسٹری کا آغاز ثابت ہوا‘ بحری جہازوں کو ڈبو کر ”مارنے“ کی بجائے توڑ کر بیچنا شروع کر دیاگیا‘ 1892ءتک اس انڈسٹری میں ہالینڈ‘ اٹلی‘ جرمنی اور جاپان بھی شامل ہو گئے‘ پہلی اور دوسری جنگ ع

ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا پرقبضے کاخواب

۱۸۹۸ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر بال میں ۳۰۰ یہودی دانشوروں، مفکروں،فلسفیوں نے ہر ٹزل کی قیادت میں جمع ہو کر پوری دنیا پر حکمرانی کا منصوبہ تیار کیا۔ یہ منصوبہ 19پروٹوکولز کی صورت میں پوری دنیا کے سامنے عرصہ ہوا آچکا ہے ۔ اس منصوبے کو یہودی دانشوروں کی دستاویز بھی کہتے ہیں۔ اس پورے منصوبے میں۳۰ یہودی انجمنوں کے ذہین ترین لوگوں نے حصہ لیا تھا۔ اس دستاویز میں ذرائع ابلاغ کو بنیادی اہمیت دی گئی ۔ بارہویں دستاویز میں صحافت کی غیر معمولی اہمیت ، اس کی تاثیر و افادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے:”اگر ہم یہودی پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے سونے کے ذخائز پر قبضے کو مرکزی اور بنیادی اہمیت دیتے ہیں تو ذرائع ابلاغ بھی ہمارے مقاصد کے حصول کے لئے دوسرا اہم درجہ رکھتے ہیں۔ ہم میڈیا کے سرکش گھوڑے پر سوار ہو کر اس کی باگ کو اپنے قبضے میں رکھیں گے، ہم اپنے دشمنوں کے قبضے میں کوئی ایسا موٴثر اور طاقتور اخبار نہیں رہنے دیں گے کہ وہ اپنی رائے کو موٴثر ڈھنگ سے ظاہر کرسکیں، اور نہ ہی ہم ان کو اس قابل رکھیں گے کہ ہماری نگاہوں سے گزرے بغیر کوئی خبر سماج تک پہنچ سکے۔ہم ایسا قانون بنائیں گے کہ کسی ناشر او

محنت‘ مشقت اور ابتلائیں کامیابی کا ذریعہ ہیں

انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہےدنیا دار المحن ہے اور آخرت دار النعم‘ دنیا میں محنت و مشقت اگر درست رخ پر کرلی گئی تو آخرت میں عیش وآرام ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام وارد زمین ہوئے‘ انہیں سالہا سال تک مشقت ہی اٹھانا پڑی‘ وہ اللہ کی رضا والی جنت میں رہتے تھے‘ تھوڑا سا چوک ہوگئی‘ آزمائش کا دور شروع ہوگیا۔ زمین پر اتارے گئے‘ اماں حوا سے جدائی ہوگئی‘ کتنی ہی گریہ وزاری کے بعد عرفات کے میدان میں دونوں کی ملاقات ہوئی‘ رو رو کر دعا مانگی تو قبول ہوئی‘ پھر انہی کی اولاد سے زمین کو آباد کیا گیا اور اعلان کردیا گیا: ”لقد خلقنا الانسان فی کبد“ (انسان کو بیشک ہم نے محنت ومشقت اٹھانے کے لئے پیدا کیا ہے) حضرت نوح علیہ السلام آئے‘ الٰہی احکام پہنچانے کی ذمہ داری اٹھائی‘ ۵۰/ کم ہزار سال تبلیغ ودعوت کا فریضہ انجام دیا‘ خوش نصیب لوگوں کو ایمان اور عمل نصیب ہوا‘ نبی کی پیروی کی سعادت نصیب ہوئی‘ حضرت نوح علیہ السلام ہی کا بیان ہے کہ انہوں نے رات دن انسانوں کو بھلائی کی دعوت دی‘ مگر انہوں نے راہ فرارہی اختیار کی ،بالآخر حضرت نوح علیہ السلام کی ماننے والے کشتی میں

جذبہٴ ایثارکا عملی مظاہرہ

اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اسے دنیا کے رہن سہن کا سلیقہ سکھایا اور ساتھ ساتھ انسان کو انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا۔انفاق وفیاضی کا ایک بڑا درجہ ایثار ہے‘یعنی دوسروں کو آرام پہنچانے کی خاطراپنا آرام چھوڑنا ‘ خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلانا‘ خود پیاسا رہ کر دوسروں کو پلانا‘ خود تکلیف برداشت کرکے دوسروں کو راحت پہنچانا‘ غرض یہ کہ دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر مقدم رکھنے کوایثار کہتے ہیں۔یہ انسانی شرافت کا بہترین جوہر ہے۔جیساکہ باری تعالیٰ نے صحابہ کرام کی صفات کے متعلق ارشاد فرمایا:  ”یؤثرون علی انفسہم ولو کان بہم خصاصة“ ۔(سورہ حشر:۹) ترجمہ:․․․”اور مقدم رکھتے ہیں ان کو اپنی جان سے اور اگرچہ ہو اپنے اوپر فاقہ“۔اس صفت ”ایثار“ کا اہم درجہ قربانی ہے‘ مثل مشہور ہے: ”الجود بالنفس غایة الجود“ محبوب کی خاطر جان قربان کردینا اعلیٰ درجہ کی فیاضی ہے۔قربانی کا معنی ہے ”ما یتقرب بہ الی الله ‘ یقال: قربت الله“ یعنی قربان اس چیز کو کہتے ہیں‘ جس کے ساتھ انسان خدا تعالیٰ کا قرب ڈھونڈتا ہے‘ چنانچہ کہتے ہیں ”قربت لله قرباناً“ چونکہ انسان قربانی سے قرب الٰہی کا طالب ہ

مروجہ اسلامی بینکاری کے بارے میں سری لنکا کے علماء کا خط اور اس کا جواب

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ محترمین مکرمین حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب اور حضرت مولانا سلیمان بنوری اور حضرات اراکین شوریٰ، حفظہم اللہ ورعاہم۔امید ہے کہ مزاج بخیر ہوں گے اللہ پاک آپ حضرات کی عمر میں برکت نصیب فرمائیں اور تادیربخیر وعافیت وسلامت رکھیں۔میں بندہ رضوی بن ابراہیم اعدادیہ سے لے کر تخصص تک اس ادارہ کا تعلیم یافتہ طالب علم ہوں۔اللہ پاک نے اس بابرکت ادارے کے ذریعہ ہمیں صرف علم دین نہیں‘ بلکہ شفقت ومحبت‘ علو ہمتی اور بلند پایہ کے اخلاق وہمدردی اورباہمی اتفاق جو اس ادارے کی خاص صفات ہیں ان میں سے تھوڑا سا حصہ بھی ہمیں نصیب فرمایا ہے جس کی وجہ سے اس ادارہ کے مستفیدین سارے عالم کے اندر حسن اسلوبی اور باہمی محبت کے ساتھ دین کے مختلف شعبوں میں خدمت کررہے ہیں۔یہ سب ،اس ادارے کے بانی محدث العصرمولانا بنوری اور ان کے جانشین حضرت مولانامفتی احمد الرحمن ‘ مولانا حبیب اللہ مختار اور ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر اور دیگر اساتذہ کرام مولانا مفتی ولی حسن اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی جیسے بزرگوں کی رہبری اور دعاؤں کی برکات ہیں‘ اللہ پاک اس بابرکت ادارہ کی ہرطرح کے شرور وآفات