Skip to main content

مکتوبات نبوی



آپ نے جس طرح صحابہٴ کرام کو اپنے ارشادات سے نوازا‘ اسی طرح ان لوگوں تک بھی اپنے پیغامات پہنچائے جو حاضری کی سعادت سے محروم رہے۔ ان پیغامات میں جس طرح اسلام کی دعوت کے لعل وجواہر جڑے ہوئے ہیں‘ اسی طرح ان کی روشن جبیں پر گرانقدر نصائح‘سیاسی نکات اور اصولِ جہاں بانی وحکمرانی کے بیش بہا موتی بھی گندھے ہوئے ہیں۔ عرب کی مخالفت کی وجہ سے صلح حدیبیہ ۶ھ تک دعوت اسلام کا دروازہ بند تھا‘ اس صلح نے دعوت کا دروازہ کھول دیا اور اب وہ وقت آگیا کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام ساری انسانیت کو پہنچادیا جائے اور اسلام کے عظیم الشان پروگرام ومنشور کی طرف دنیا کو دعوت دی جائے‘ اب تک جو لوگ دائرہٴ اسلام میں داخل ہوئے تھے‘ انہیں آغوشِ اسلام میں آتے ہی احساس ہوا کہ انسانیت کے لئے جتنے بھی فضائل‘ محاسن اور آداب ہوسکتے ہیں وہ تمام کے تمام اسلام کی ابدی تعلیمات کا جزو لازم ہیں‘ اسلام کی انہی ابدی صدا قتوں سے دیگر اقوام عالم کو روشناس کرانے کے لئے آپ ا نے ضروری سمجھا کہ سلاطینِ عالم تک خطوط کے ذریعے اس پیغام کو پہنچایا جائے‘ تاکہ آپ ا اپنے فریضہ ٴ تبلیغ سے کما حقہ عہدہ برآہوسکیں‘ چنانچہ آپ ا نے صلح حدیبیہ سے واپسی پر ماہ ذی الحجہ ۶ھ میں بادشاہوں کے نام دعوتی خطوط بھیجنے کا ارادہ کیا‘ اس موقع پر آپ ا نے صحابہٴ کرام سے مشورہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو! میں تمام عالم کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں‘ تمام دنیا کو یہ پیام پہنچاؤ‘اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے گا‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریین کی طرح اختلاف نہ کرنا کہ اگر قریب جانے کو کہا تو راضی ہوگئے اور اگر کہیں دور جانے کا حکم دیا تو زمین پر بوجھل ہوکر بیٹھ گئے“۔ (۱) صحابہٴ کرام جو اطاعت وجانثاری کے لئے ہروقت تیار رہتے تھے اور اپنے خلوص‘ تعمیلِ ارشاد اور وفا شعاری کے بڑے سخت سے سخت مراحل میں بھی اعلیٰ درجہ کی کامیابی کی سند اور رضی اللہ عنہ کا طلائی تمغہ حاصل کرچکے تھے‘ انہوں نے اس خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھا اور تعمیلِ ارشاد کے لئے دل وجان سے تیار ہوگئے مگر بایں ہمہ آپ کی خدمت اقدس میں ایک مشورہ بھی پیش کیاکہ یا رسول اللہ! جس خط پر مہر نہ ہو‘ سلاطین اس کو قابل وثوق اور قابل اعتماد نہیں سمجھتے ‘حتی کہ ایسے خط کو پڑھتے تک نہیں۔ آپ ا نے صحابہٴ کرام کے مشورہ سے ایک مہر کندہ کروائی‘ جس کا حلقہ چاندی کا تھا تونگینہ بھی چاندی ہی کا تھا‘ مگر صنعت حبشہ کی تھی اس پر مہر کی شکل میں ”محمد رسول اللہ “ کندہ تھا صورت یہ تھی:
اللہ رسول محمد
سب سے نیچے لفظ محمد‘ سب سے اوپر لفظ اللہ اوردرمیان میں لفظ رسول تھا۔ (۲) چنانچہ آپ ا نے یہ مہر لگاکر سلاطین وامراء کے نام خطوط روانہ فرمائے‘ ان کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور یہ بھی واضح فرمادیا کہ رعایا کی گمراہی کی ذمہ داری تم پر عائد ہوتی ہے۔ واقدی کے قول کے مطابق آپ ا نے یہ خطوط ۶ھ کے اخیر ماہ ذو الحجہ میں صلح حدیبیہ کے بعد روانہ کئے اور بعض کے نزدیک ۷ھ میں روانہ کئے گئے۔ ممکن ہے کہ آپ ا نے سلاطین عالم کے نام یہ خطوط بھیجنے کا ارادہ تو ۶ھ کے آخر میں فرمایا ہو اور پھر ۷ھ میں خطوط روانہ کئے ہوں۔ (۳) بہر حال حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ سے پہلے یہ خطوط روانہ کئے گئے۔ (۴) مکتوبات نبوی ا میں جن لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے‘ ان میں چار مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں: ۱:- مشرکین عرب۲:- عیسائی۳:- یہودی اور۴:- رزرتشی (مجوسی)۔ آپ ا نے ہرقل اور مقوقس کے نام جو خطوط لکھے‘ ان میں آپ ا نے اپنے نام کے ساتھ خصوصیت کے ساتھ عبد اللہ (خدا کا بندہ) لکھا‘ جس سے مخاطب کے عقیدے کی نہایت لطیف پیرائے میں تردید کردی گئی ہے کہ انبیاء ومرسلین خدا کی اولاد نہیں‘ بلکہ مخلوق ہوتے ہیں۔ فارس خسر وپرویز کے نام جو نامہٴ مبارک ارسال کیا گیا‘ اس میں عقیدہٴ توحید کو خاص طور پر اجاگر کیا گیا‘ کیونکہ فارس میں دو خداؤں کا عقیدہ موجود تھا‘ اس کے بعد اسلام کے عالمی مذہب ہونے اور آپ ا کے تمام اقوام کی جانب مبعوث ہونے کا صاف لفظوں میں اظہار کیا گیا۔ یہود کے نام خط میں تورات کے حوالے دے کر اپنی نبوت کا اثبات کیا گیا اور مشرکینِ عرب کے نامہٴ مبارک میں توحید خدا پر زور دے کر غیر خدا کی عبادت سے روکا گیا۔ قیصر روم (جو کہ مذہباً عیسائی تھا) نے آپ ا کے دعوتی خط کے بعد احوال کا جائزہ لے کر آپ ا کی نبوت ورسالت کا اقرار کیا‘ مگر اسلام قبول نہ کیا۔ اسی طرح عزیز مصر مقوقس نے بھی (جوکہ مذہبا نصرانی تھا) آپ اکی نبوت ورسالت کا اعتراف کیا‘ مگر حلقہٴ اسلام میں داخل نہ ہوا‘ نجاشی شاہ حبشہ (جوکہ عیسائی تھا) حلقہ بگوش اسلام ہوا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ا نے ایک خط اہل سندھ کی جانب بھی ارسال فرمایا تھا جو نتیجہ خیز ثابت ہوا اور سندھ کے کچھ خوش قسمت حضرات حلقہ بگوش اسلام ہوکر دربار رسالت مآب امیں حاضر ہوئے۔ (۵) آپ ا نے ہمسایہ ممالک کے حکمرانوں اور عرب کے قبائلی سرداروں کے نام جو خطوط تحریر فرمائے ہیں‘ ان کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ آپ ا نے دنیا میں کس طرح کا ذہنی ‘ فکری اور عملی انقلاب برپا کیا؟ اور انسانیت کے لئے کیسے کیسے زریں اصول وضع فرمائے؟ تمدن اور معاشرت کو کن راہوں پر ڈالا؟ اور انسانیت کے فطری تقاضوں کی کس حد تک تکمیل فرمائی؟۔ کسی شخصیت کا مطالعہ اس کے خطوط کی روشنی میں بہترین مطالعہ قرار دیا گیا ہے۔ خطوط کے ذریعے مکتوب نگار کی سیرت‘ شخصیت‘ روز مرہ پیش آنے والے حالات وواقعات‘ معاشرتی وسیاسی تغیرات اور اس عہد کے معاشرتی وسیاسی اور تاریخی عوامل با آسانی معلوم ہوجاتے ہیں‘ نیز کسی شخص کے انفرادی واجتماعی حالات معلوم کرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا‘ کسی مفکر کا قول بھی ہے کہ خطوط انسانی زندگی کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ آپ انے اپنی زندگی میں بڑے بڑے بادشاہوں‘ قبائل عرب کے سرداروں اور گورنروں کے نام جو خطوط لکھے ‘ وہ کتب حدیث میں محفوظ ہیں۔ ان کی تعداد تین سو کے قریب ہے‘ ان میں سے ۱۳۹ خطوط ایسے ہیں جن کا اصل متن محفوظ ہے اور ۸۶ خطوط وہ ہیں جن کا صرف مفہوم کتب میں ذکر کیا گیا ہے۔ (۶) آپ ا کے مکاتیب کو سب سے پہلے حضرت عمرو بن حزم انصاری نے مرتب کیا تھا‘ انہوں نے آپ ا کے ۲۱ مکاتیب گرامی جمع کئے تھے‘ ابن طولون نے بھی اپنی کتاب ”مفاکہة الخلان فی حوادث الزمان“ میں مکاتیب پر لمبا چوڑا نوٹ لکھا ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے ” الوثائق السیاسیہ“ کے نام سے بہت جامع کام کیا ہے‘ جس کا اردو ترجمہ ” رسول اکرم ا کی سیاسی زندگی“ کے نام سے دستیاب ہے۔ اس موضوع پر اردو میں اب تک جنہوں نے سب سے زیادہ قابل قدر کام کیا ہے‘ وہ مولانا سید محبوب رضوی صاحب ہیں‘ موصوف نے اپنی کتاب ”مکتوبات نبوی ا“ میں آقائے نامدار ا کے تین سو کے قریب مکاتیب جمع کردئے ہیں اور بہت تحقیقی کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ مولانا حفظ الرحمن صاحب نے ”بلاغ مبین“ میں آپ ا کے مکاتیب کو جمع کیا ہے اور صاحبزادہ عبد المنعم خان نے ”رسالات محمدیہ“ میں مکتوبات نبوی اکی کافی تعداد جمع کردی ہے۔ گذشتہ دوصدیوں میں آپ ا کے چھ مکتوبات اپنی اصلی حالت میں دستیاب ہوچکے ہیں‘ یہ مکاتیب نجاشی شاہ حبشہ‘ منذر بن ساوی گورنر بحرین‘ قیصر روم ہرقل ‘ شاہ مصر واسکندریہ مقوقس‘ شہنشاہ ایران خسرو پرویز کسریٰ‘ شاہ عمان جیفر وعبدان کے نام ہیں اور انہیں مولانا عبد العزیز محمدی صاحب ڈیرہ اسماعیل خان نے ایک خوبصورت چارٹ کی صورت میں شائع کیا ہے۔ اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا سب سے بہتر اور مؤثر طریقہ وہی ہے جو آپ ا نے اختیار فرمایا‘ مکتوبات نبوی امیں اسی طریقہ کو پیش کیا گیا ہے‘ آپ ا کے ان خطوط سے جو بات نمایاں طور پر سمجھ میں آتی ہے‘ وہ یہی ہے کہ اسلام کو غیر مسلموں کے سامنے کس انداز سے پیش کرنا چاہئے؟ اور مسلمانوں کو غیر مسلموں سے تعلقات ومعاملات میں کن امور کا لحاظ رکھنا چاہئے؟ مکتوبات نبوی ا کے ایک ایک لفظ سے مخاطب کے لئے ہمدردی وخیر اندیشی کے جذبات ٹپکتے ہیں‘ سرور عالم ا کے خطوط میں طوالت ‘ تکلف وتصنع اور بیان کی شوخی کی بجائے لطافت‘ انشأ پردازی‘ سادگی‘ حقیقت پسندی اور ایجاز واختصار کا پہلو نمایاں ہے‘ ان میں پیغمبرانہ امانت وصداقت کے انتہائی عزم ویقین کے ساتھ حق کی دعوت ہے‘ ان خطوط میں تبلیغی جذبے کی آبیاری کا سامان بھی ہے اور تزکیہٴ باطن واصلاح نفس کے لئے رہنمائی بھی۔ اصول دین کی تبلیغ بھی ہے اور اسلام کے احکام ومصالح اور تشریعی مسائل کا ذکر بھی۔ آپ انے شاہانِ عالم کے نام جو خطوط ارسال فرمائے ہیں‘ یہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ آپ اکی نبوت ورسالت فقط جزیرہٴ عرب کے امیین کے ساتھ مخصوص نہیں تھی‘ بلکہ آپ اکی رسالت عرب وعجم‘ جن وانس‘ یہود ونصاری‘ مشرکین اور مجوس اور پوری دنیا کے سب جنوں‘ انسانوں کے لئے ہے۔
حوالہ جات
۱- کاندھلوی ‘ ادریس‘ مولانا‘ سیرت المصطفی:ج:۲‘ص:۴۰۹۔ ۲- طبری‘ ابن جریر‘ تاریخ الامم والملوک: ج:۳‘ ص:۸۴۔ابن سعد‘ محمد‘الطبقات الکبری بیروت‘ دارصادر ج:۱‘ صں۴۷۵‘ زرقانی‘ محمد بن عبد الباقی‘ شرح مواہب لدنیہ‘ مصر‘ مطبع ازہریہ‘ ج:۳‘ص:۳۳۴۔ ۳- عبد الحق محدث دہلوی شیخ‘ مدارج النبوت‘ ج:۲‘ص:۲۹۴۔ ۴- ابن کثیر‘ اسماعیل بن عمر‘ الہدایہ والنہایہ‘ ج:۴‘ص:۲۶۲۔ ۵-رضوی‘ محبوب‘ مولانا‘ مکتوبات نبوی‘ طبع پاکستان‘ ص:۴۲۔ ۶- رضوی‘ محبوب‘ مولانا مکتوبات نبوی‘ طبع پاکستان‘ ص:۳۰۵۔

Comments

Popular posts from this blog

حمود الرحمن کمیشن رپورٹ

تعارف ترميم حکومت  پاکستان  نے وزارتِ صدارتی امور کے نوٹیفیکشن نمبر ایس آر او(١) 71مورخہ 26 دسمبر1971کے ذریعے اس انکوائری کمیشن کو قائم کرتے ہوئے اس کے ذمہ یہ فرائض سونپے تھے کہ وہ ان حالات کی تحقیقات کرے، جن کے تحت کمانڈر، ایسٹرن کمانڈ اور ان کے زیر کمان پاکستان کی مسلح افواج نے دشمن کی فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈالے، بھارت اور  مغربی پاکستان  کی سرحدوں پر جنگ بندی کے احکامات صادر کیے گئے نیز جموں اور کشمیر کی سیز فائر لائن پر بھی جنگ بندی کا حکم دیاگیا پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ مجریہ1956ء کے تحت قائم ہونے والا یہ کمیشن درج ذیل افراد پر مشتمل تھا؛۔ 1) مسٹر جسٹس حمود الرحمٰن (ہلال پاکستان) چیف جسٹس، سپریم کورٹ آف پاکستان، بحیثیت صدر۔ 2) مسٹر جسٹس انور الحق، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بحیثیت رکن۔ 3) مسٹر جسٹس طفیل علی عبد الرحمن چیف جسٹس سندھ بلوچستان ہائیکورٹ بحیثیت رکن کمیشن کی سفارشات پر لیفٹنٹ جنرل الطاف قادر( ریٹائرڈ) کو بحیثیت ملٹری ایڈوائزر اور اسسٹنٹ رجسٹرار سپریم کورٹ آف پاکستان، مسٹر ایم اے لطیف کو بحیثیت سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ ٣) وزارت صدارتی امور کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیک

Pathar Ke Sipahi Part 12 Namwar Series M A Rahat

4shared Download BOX DOWNLOAD AND ONLINE READ MEDIAFIRE DOWNLOAD AND ONLINE READ

Rooh Ki Pyas Namwar 3 by M A RAHAT

4shared Download BOX DOWNLOAD AND ONLINE READ MEDIAFIRE DOWNLOAD AND ONLINE READ