Skip to main content

اردو زبان میں ترجمہ قرآن کے اَدوار اور مختلف زبانوں میں تراجم

کتبِ سماوی بالخصوص قرآنِ حکیم کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انبیا ےکرام ﷩ کلامِ الٰہی کے اصل ترجمان تھے اور ان کے پیروکار یعنی صحابہٴ کرام﷢، تابعین و تبع تابعین ﷭وحی الٰہی کے ابلاغ و ترسیل کے سلسلے میں انبیاےکرام﷩ کے تفسیری ارشادات کے مترجم تھے۔ اس طرح ترجمہ کی روایت اتنی ہی قدیم ہے جتنا خود انسان کا اس کائنات میں اپنا وجود۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فطری طور پر انسان کے اندر تجسس اور غور و فکر کا مادّہ ودیعت کیا ہے۔ اسی بنا پر انسان کو تجسس اور تدبر کا آمیزہ کہا جاتا ہے۔ اسی جذبے کے تحت صدیوں سے انسان ایک دوسرے کو سمجھنے، پرکھنے اور ایک دوسرے تک اپنا مافی الضمیر پہنچانے کے راستے نکالتا رہا ہے۔ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اس صلاحیت کے موٴثر و مستعد استعمال نے انسانی معاشرے، ملک اور قوموں کے درمیان افہام و تفہیم کی فضا پیدا کی ہے اور اس کے برعکس تجسس و تدبر کے جذبہ کی ناپختگی یا اس صلاحیت کے غیر موٴثر استعمال نے فتنہ و فساد کی راہیں بھی کھولی ہیں۔دنیا بھر میں قرآن پاک کے تراجم بے شمار زبانوں میں ہوئے ہیں اور اردو زبان کو یہ شرف حاصل ہے کہ ترجمہ وتفسیر کا سب سے زیادہ مواد اسی میں لکھا گیا ہے۔ کم وبیش 1011 اندراجات موجود ہیں۔’ترجمہ‘ مستقل ایک فن ہے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اس کی ضرورت و اہمیت مسلم ہے۔ تراجم کی مختلف اصناف میں مذہبی تراجم سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اس لیے کہ ایک سروے کے مطابق دنیا بھر کے من جملہ تراجم کی خدمات میں نصف سے زائد خدمات مذہبی تراجم پر مشتمل ہیں۔ قرآن پاک کا ترجمہ سب سے پہلے لاطینی، پھر فرانسیسی اور پھر انگریزی میں ہوا، ایک سروے کے مطابق دنیا میں چھے ہزار پانچ سو زبانیں بولی جاتیں ہیں ان میں سے دو ہزار تین سو پچپن زبانوں میں انجیل کا ترجمہ ہو چکا ہے اور مسلمان تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ قرآن مجید کا ترجمہ دنیا کی اکثر زبانوں میں ہو چکا ہے۔عربی زبان کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا کہ دنیا کی وہ زبان ہے جو نازک سے نازک اور مشکل سے مشکل معنیٰ کو انتہائی جامعیت کے ساتھ ادا کر لیتی ہے۔ جبکہ دوسری زبانیں اس مہارت میں عربی سے کافی حد تک پیچھے ہیں۔ اور اردو چونکہ خود ایک لشکری زبان کے طور پر سامنے آئی۔ بہت سے ارتقائی مراحل تھے جو اردو کو طے کرنے پڑے۔اسی طرح اردو ترجمہ کو بھی موجودہ شکل میں آتے آتے مختلف ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ہر دور میں ترجمہ کرنے والوں کا اصل مقصد یہی رہا ہے کہ قرآنی مطالب ومفاہیم کو ان لوگوں تک پہنچایا جائے جن کی مادری زبان عربی نہیں ہے۔پھر اس مقصد کے ساتھ ساتھ ان کا اس بات پر بھی زور رہا ہے کہ عوام کو آسان ا ور عام فہم پیرایہ میں قرآنی احکامات اور تعلیمات پہنچانی جائیں تاکہ انہیں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ( اردو نثر کے اسالیب تبدیل ہوتے رہے جس کا اثر قرآن کے اردو تراجم پر بھی ہوا۔)اردو تراجم کے ادوار:اپنے اپنے دور اور اپنے دور کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مترجمین نے پر خلوص کوششیں کی ہیں جن کی جزاء یقینا اللہ کے پاس ہے۔ اور وہ درج ذیل ہیں:

  • پہلا دور جو قدیم دور بھی کہلاتا ہے جو دکنی دور سے شروع ہوتا ہے اور اٹھارویں صدی عیسوی کے اختتام تک چلتا ہے۔
  • دوسرادور شاہ رفیع الدین کے ترجمہ سے شروع ہو کر انیسویں صدی کے آخر میں ختم ہوتا ہے۔
  • تیسرا اور آخری دور ڈپٹی نذیر احمد کے ترجمہ سے شروع ہوتا ہے اور موجودہ دور تک چل رہا ہے۔
پہلا دور:اب تک کی دستیاب تحقیقات کے مطابق پہلے دور میں جو تراجم ملتے ہیں وہ تقریبا سبھی نامکمل ہیں۔ حالانکہ وہ خاصی تعداد میں ہیں۔اگر مختلف کتب خانوں مثلا کتب خانہ آصفیہ (حیدر آباد دکن) کتب خانہ، سالار جنگ (حیدر آباد دکن) کتب خانہ، ادارہ ادبیات (حیدر آباد دکن) کتب خانہ انجمن ترقی ، اردو (کراچی) پرنش میوزیم (لندن) اور انڈیا آفس (اردن) کے خطی نسخوں اور مطبوعہ کتب کی فہرستوں کو کھنگالا جائے تو ایسے بہت ترجموں کے حوالے مل جاتے ہیں۔دوسرا دور:پہلے دور کے نامکمل تراجم کے بعد دوسرے دور میں قرآن پاک کا مکمل ترجمہ منظر عام پر آیا تھا۔ اردو بھی اپنی شکل بدل رہی تھی اور ادب پر دکنی اثرات کم ہو گئے تھے۔ بلکہ تقریبا ختم ہونے کو تھے۔اس لیے اس دور میں ملنے والے تراجم میں دکنی اثرات کی جگہ شمالی ہندکے الفاظ، محاورات اور دیگر اسالیب بیان نے سنبھال لی تھی۔اس دور کا معروف اور معتبر ترجمہ شاہ رفیع الدین دہلوی ﷫کا ہے۔آپ شاہ ولی اللہ﷫ کےتیسرے بیٹے تھے۔ آپ کو فارسی اور عربی پر عبور حاصل تھا۔ اگرچہ ان کی علمیت کا چرچا تھا لیکن قرآن کا پہلا مکمل ادور ترجمہ ان کی شہرت کی اصل وجہ بنا۔ اٹھارویں صدی کے اواخر کا پہلا مکمل اردو ترجمہ تھا۔ ترجمہ کرنے کا انداز بھی یہ تھا کہ وہ بولتے جاتے اور ان کے ایک شاگرد سید نجف علی خاں اسے لکھتے جاتے تھے۔ جب قرآن مکمل ہو گیا تو انہوں نے اسے اپنےاستاد محترم کی خدمت میں پیش کر دیا اور اصلاح کروائی۔ شاہ صاحب کا یہ ترجمہ لفظی ہے۔اس میں عربی کی نحوی ترکیب کا اتباع کیا گیا ہے۔ عربی الفاظ کا ترجمہ اردو کے مناسب الفاظ سے کر دیا گیا ہے اور الفاظ کے اضافے سے ترجمے کو بامحاورہ نہیں بنایا گیا۔لفظی ترجمہ ہونے کے باوجود یہ وہ ترجمہ ہے جو قرآن کی روح اور اس کے مزاج کے عین مطابق ہے۔اس صدی کا دوسرا بڑا نام بھی شاہ ولی اللہ﷫ کے بیٹے ہی کا ہے انہوں نے 1790 میں ایک بامحاورہ اردو ترجمہ کر کے شہرت حاصل کی ۔شاہ عبد القادر کا یہ ترجمہ لفظی نہیں ہے بلکہ اردو کے روز مرہ اور محاورے لیے ہوئے ایک وضاحتی انداز رکھتا ہے اسے اردو ہندی لغت کا ایک بڑا خزانہ بھی سمجھا جاتا ہے۔اس ترجمے نے نہ صرف قرآن کا فہم آسان کیا ہے بلکہ ساتھ ساتھ اردو ادب کو بھی ایک بڑا خزانہ دیا ہے۔ شاہ عبد القادر صاحب اپنے ترجمے دیبا چے میں خود فرماتے ہیں:’’اس بندہ ناچیز عبد القادر کے خیال میں آیا کہ جس طرح ہمارےبابا صاحب بہت بڑے حضرت شاہ ولی اللہ﷫ عبد الرحیم کے بیٹے، سب حدیثیں جاننے والے ، ہندوستان کے رہنے والے ، فارسی زبان میں قرآن کے معنیٰ آسان کر کے لکھتے ہیں اسی طرح عاجز نے ہندی زبان میں قرآن کے معنیٰ آسان کر کے لکھے ہیں۔ الحمد للہ یہ آرزو 120 ھ بمطابق 1790ء میں حاصل ہوئی۔‘‘یہ بات واضح ہے کہ پہلے اردو کو ’ہندی‘ کہا جاتا تھا۔ اسی طرح جیسے عرب میں بولی جانے والی زبان کو عربی کہا جاتا ہے۔ اسی لیے شاہ عبد القادر﷫ نے اپنےاردو ترجمے کو ’ہندی‘ لکھا ہے۔حکیم محمد شریف خاں (متوفی 1801ء) کا ترجمہ قابل ذکر ہے یہ کہ ترجمہ شاہ عالم بادشاہ کے کہنے پر ہوا۔ مولوی عبد الحق کی رائے میں اس ترجمے کی زبان شاہ عبد القادر﷫ کے ترجمے کے مقابلے میں زیادہ صاف ہے اور لفظی پابندی میں اتنی سختی نہیں کی گئی ہے۔ اردو زبان کی ترکیب کا نسبتا زیادہ خیال رکھا گیا ہے۔ انیسویں صدی میں جو کہ قرآن کے اردو تراجم کا دوسرا دور تصور کیا جاتا ہے اور بھی بہت سے تراجم اور مترجمین سامنے آتے ہیں۔یہ وہ دور تھا جس میں قرآن مجید کے اردو تراجم کو ضروری سمجھا جانے لگا تھا اور بڑی جانفشانی سے اس پر کام ہو رہا تھا۔ اس میں کچھ ترجمےمکمل اور کچھ جزوی بھی ملتے ہیں۔اس دور میں ایک ترجمہ فورٹ ولیم کالج میں ڈاکٹر جان گلکرسٹ کے حکم پر ہوا ان کی بیماری کی وجہ سے ادھورا رہ گیا جسے اسی کالج کے استاد مولوی امانت اللہ شیدا نے مکمل کیا۔ جن میں میر بہادر علی حسینی اور کاظم علی کا تعاون بھی شامل تھا۔مترجم نے اردو کے روز مرہ کو عمدگی سے استعمال کیا ہے جملوں کی ترکیب عربی نہج پر نہیں بلکہ اردو کے ڈھنگ پر ہے۔تیسرا دور:اردو میں قرآنی تراجم کا تیسرا دور ڈپٹی نذ یر احمد دہلوی کے ترجمہ قرآن سے شروع ہوتا ہے۔ یہ ترجمہ پہلی بار 1896 میں شائع ہوا۔ یہ اپنے بعض خصائص کی بناء پر ایک خاص مقام رکھتا ہے اس ترجمے کو اردو زبان و ادب کا ایک مثالی کارنامہ تصور کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اصل میں یہ ایک عظیم مذہبی خدمت بھی ہے۔ اس کی چند نمایاں خصوصیات کچھ یوں ہیں:

  • زبان بامحاورہ ہے اور قوسین میں تشریحی الفاظ درج کر کے عبارت مسلسل اور مربوط بنا دی گئی ہے۔
  • حاشیے پر فائدے لکھے ہیں، ان میں شاہ عبد القادر کی تفسیر سے مدد لی گئی ہے۔
  • لغات عربی کی تشریح الگ ہے۔
  • مضامین قرآن کی فہرست حوالہ آیات کے ساتھ مرتب کی گئی ہے۔
  • محاورات کا بکثرت استعمال کیا گیا ہے جس پر شدید احتجاج بھی ہوا۔
  • ڈپٹی نذیر احمد کے بعد یوں صدی میں قرآن کے اردو تراجم کی کثیر تعداد سامنے آ گئی۔
ان مترجمین میں مولانا احمد رضا خاں بر یلوی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولوی عاشق الٰہی، فتح محمد جالندھری، محمد حسن دیوبندی، ابو الاکلام آزاد ، عبد الماجد دریا آبادی، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی﷭ وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ مجموعی طور پر یہ دور قرآنی تراجم کےعروج کا دور تھا۔
مختلف زبانوں میں ترجمہ قرآن کی مختصر تاریخ

قرآن پاک کی تلاوت باعث ثواب ہے، خیر وبرکت کا سبب بھی ہے۔ اگر اس کو سمجھ کر پڑھا جائے تو اس میں ہدایت ، شفاء اور رحمت کے پہلو بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس میں موجود تعلیمات سمجھ میں آئیں گی تو کما حقہ تعمیل ہو سکے گی۔ اس لیے ان فوائد کے حصول کے لئے غیر عربی علماے کرام نے جو اپنی زبان کے ساتھ ساتھ عربی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔ قرآن کے ترجمے جیسا عظیم کام کیا ہے۔ قرآن پاک ایشیائی، افریقی، یورپی زبانوں میں ترجمے کیے جا چکے ہیں ، ماہر علوم القرآن ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے مطابق چودھویں صدی کے ربع چہارم میں دنیا کی سو سے زائد زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ڈاکٹر محمد سلیم اسماعیل نے اپنے ایک مقالہ جس کا عنوان ہے : ’ غیر عربی زبانوں میں ترجمہ‘ 69 غیر عربی زبانوں کے تراجم کی فہرست دی ہے: شمار زبان ملک خط مقدار ترجمہ تعداد ترجمہ1 آذری ایشیا عربی وروسی کامل 42 آسامی ایشیا خاص کامل 13 اثیوبی (حبشی) افریقہ خاص کامل 24 اراغونی یورپ لاطینی کامل 25 اردو ایشیا عربی کامل تین سو زائد6 لینڈی یورپ لاطینی جزئی 17 ارمنی ایشیا خاص کامل 58 اڑیا ایشیا خاص جزئی 19 ائسلینڈی یورپ لاطینی جزئی 110 اطالوی یورپ لاطینی کامل 1211 افریقانیہ افریقہ عربی کامل 212 افریکانس افریقہ لاطینی کامل 413 البانی یورپ عربی ولاطینی کامل 414 الخمیادر یورپ عربی کامل 36 مخطوطے15 امہری افریقہ خاص کامل 116 انڈونیسی ایشیا عربی ولاطینی کامل 617 انگریزی یورپ لاطینی کامل 9218 اوکرانی (یوکرانی) یورپ لاطینی جزئی 119 اپیراننو یورپ لاطینی کامل 420 ایستونی یورپ لاطینی جزئی 121 ایوہے افریقہ لاطینی جزئی 122 باشک یورپ لاطینی جزئی 123 بربر افریقہ عربی جزئی 124 برمی ایشیا خاص کامل 425 برنو افریقہ عربی جزئی 126 بروہوی ایشیا عربی کامل 127 بریتونی یورپ لاطینی جزئی 128 بشناق یورپ لاطینی کامل 10بشناق یورپ روسی کامل 4بشناق یورپ عربی جزئی 329 بلغاری یورپ روسی کامل 330 بلوچی ایشیا عربی کامل 331 بھمبرا افریقہ عربی ولاطینی جزئی 232 بنگالی ایشیا عربی وخاص کامل 2533 بویمی (چکو سلواکی) یورپ لاطینی کامل 434 پالی ایشیا خاص جزئی 135 پرتگالی یورپ لاطینی کامل 436 پردو انسانی یورپ لاطینی جزئی 137 پشتو ایشیا عربی کامل 538 پلات وائچ یورپ لاطینی جزئی 139 پنجابی ایشیا عربی کامل 540 پولینڈی یورپ عربی کامل 3پولینڈی یورپ لاطینی کامل 541 تامل ایشیا خاص وعربی کامل 542 ترکستان ایشیا عربی کامل 243 ترکی یورپ وایشیا ویغوی جزئی 2ترکی یورپ وایشیا عربی و لاطینی کامل سو سے زائد44 تلنگی ایشیا خاص کامل 645 تھائی لینڈ ایشیا خاص کامل 246 جاپانی ایشیا خاص کامل 747 جاوی ایشیا عربی کامل 548 جرمن یورپ لاطینی کامل 4949 چینی ایشیا خاص کامل 1350 حوسا افریقہ عربی ولاطینی کامل 251 دانمارکی یورپ لاطینی کامل 652 دکھنی ایشیا عربی کامل 153 دیولا افریقہ لاطینی جزئی 154 روسی یورپ وایشیا روسی بریلی کامل 1155 رومانش یورپ لاطینی جزئی 156 رومانوی یورپ لاطینی کامل 257 زولو افریقہ لاطینی جزئی 158 سارا کولا افریقہ عربی جزئی 159 سریانی ایشیا کاص جزئی 160 سندانی اوقیانوسیہ لاطینی جزئی 161 سندھی ایشیا عربی کامل 3662 سنسکرت ایشیا خاص جزئی 363 سنہالی ایشیا خاص کامل 164 سواحلی افریقہ عربی ولاطینی کامل 265 سونرائی افریقہ عربی جزئی 166 سویڈنی یورپ لاطینی کامل 367 عبرانی ایشیا خاص کامل 568 عربی ساری دنیا عربی ودیگر کامل اصل69 فارسی ایشیا عربی کامل سو سے زائد70 فرانسیسی یورپ لاطینی کامل 4671 خریزونی یورپ لاطینی جزئی 172 فلاتا افریقہ عربی کامل 273 فلاماں یورپ لاطینی جزئی 174 فلینڈی یورپ لاطینی جزئی 175 قنلانی یورپ لاطینی جزئی 276 قشتالی(اسپینی) یورپ عربی ولاطینی کامل 1977 کررجا جنوبی امریکہ لاطینی جزئی 178 کردی ایشیا عربی ولاطینی کامل 279 کرینول افریقہ لاطینی جزئی 180 کشمیری ایشیا عربی کامل 381 کمبوجی ایشیا خاص جزئی 182 کنڑی ایشیا خاص کامل 183 کوتوکولی افریقہ لاطینی جزئی 284 کوریائی ایشیا خاص کامل 285 کوکنی ایشیا عربی جزئی 186 کوہستانی ایشیا عربی جزئی 187 کیوا جنوبی امریکہ لاطینی جزئی 188 گالہ افریقہ عربی جزئی 189 گائلک یورپ لاطینی جزئی 190 گجراتی ایشیا خاص وعربی جزئی 691 گرجستانی(جرجانی ایشیا لاطینی جزئی 192 گروز یورپ لاطینی جزئی 193 گورمکھی ایشیا خاص کامل 194 لاپلینڈی یورپ لاطینی جزئی 195 لاتوی یورپ لاطینی جزئی 196 لاطینی یورپ لاطینی کامل 4497 لوگانڈی یورپ لاطینی جزئی 198 لولینڈی یورپ لاطینی جزئی 199 مجند ناد ایشیا عربی ولاطینی کامل 2100 مرہٹی ایشیا خاص کامل 1101 مکاسری ایشیا خاص جزئی 2102 ملایو ایشیا عربی ولاطینی کامل 5103 ملایا لم ایشیا عربی وخاص کامل 2104 ملتانی ایشیا عربی کامل 2105 مدگاش افریقہ عربی ولاطینی جزئی 2106 میمنی ایشیا عربی جزئی 1107 نارویجی یورپ لاطینی جزئی 2108 ولاپوکی یورپ لاطینی جزئی 1109 ولندیزی (ہالینڈی) یورپ لاطینی کامل 7110 ولوف افریقہ عربی ولاطینی جزئی 2111 ہندی ایشیا خاص کامل 4112 ہنگری یورپ لاطینی کامل 2113 یدش یورپ عبرانی جزئی 3114 یردبا افریقہ لاطینی جزئی 1115 یوروبا افریقہ عربی ولاطینی کامل 1116 یونانی یورپ خاص کامل 5برصغیر پاک وہند میں ہونے والے مختلف زبانوں میں تراجم قرآن ایک مطالعہڈاکٹر ہدایت اللہ نعیم کی تحقیق کے مطابق سترہویں صدی عیسوی سے لے کر 1940 تک 39 زبانوں میں قرآن کریم کے 123 تراجم لکھے گئے۔ 1986 اتک ان کی تعداد 1200 تک جا پہنچی جو 76 مختلف عالمی اور قومی زبانوں میں لکھی گئی۔ 1986ء تک برصغیر پاک وہند میں 12 مختلف زبانوں میں قرآن رکیم کے 252 تراجم ( مکمل ونامکمل ) منظر عام پر آئیں۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے: بلوچی : 01بنگالی : 50انگریزی : 12ہندی : 10پشتوی : 54پنجابی : 15سندھی : 10اردو : 100مذکورہ زبانوں میں قدیم ترین تراجم کی تواریخ حسب ذیل ہیں: سندھی : 370ھ مطابق 980ءپشتو : 1093ھ 1979ءاردو : 1147ھ 1733ء بنگالی : 1247ھ 1828ءہندی : 1333ھ 1915ءپنجابی : بیسوی صدی کے اوائل بلوچی : 1392ھ 1972ء پنجابی تراجم:1۔ ایک تفسیر فیروز الدین صاحب نے لکھی یہ منظوم پنجابی ترجمہ ہے۔ اردو ترجمہ بھی ساتھ درج ہے تین جلدوں میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے 4۔1903 میں شائع ہوا اس کے صفحات کی تعداد 4660 ہے۔2۔ پنجابی ترجمہ میں ایک تفسیر محمد بن بارک اللہ کی ہے جس کا نام تفسیر محمدی ہے۔3۔ قرآن مجید کا پنجابی میں ایک ترجمہ مولوی دلپذیر بھیروی نے کیا یہ ترجمہ جس پر حواشی پنجابی میں ہیں ۔ 1341ھ میں لاہور سے شائع ہوا۔4۔ ایک پنجابی ترجمہ مولوی ہدایت اللہ صاحب کا ہے اس کا پہلا ایڈیشن نایاب ہے ۔ 1969ء میں پنجابی ادبی لیگ نے اسے دوبارہ شائ کیا۔ 5۔ ایک اور اردو ترجمہ ہے جو منظوم ہے اور 65ہزار اشعار پر مشتمل ہے ۔ رسالہ کتاب لاہور کے مطابق یہ پنجابی کا سب سے پہلا ترجمہ ہے۔6۔ ایک ترجمہ نظام الدین حنفی سروری کا ہے جو 1313ھ میں طبع ہوا۔ اس کے کل صفحات 964 ہیں۔7۔ نور علی انور کے نام سے محمد عمرا تالیہ نے بھی ایک ترجمہ کیا اور تفسیر لکھی (پانچ پارے)8۔ ایک منظوم پنجابی ترجمہ محمد نواز ارم صاحب نے کیا۔9۔ گورمکھی رسم الخط میں ایک ترجمہ سنت گورت سنگھ نے کی ، صفحات 782 ہیں، گورمکھی کا یہ ترجمہ 1911ء میں وزیر آباد اور امر تسر سے شائع ہوا۔10۔ قرآن کا مجید کا ایک ترجمہ سردار محمد یوسف مدیر نور نے کیا ۔ 724 صفحات کا یہ ترجمہ 1932ء قادیان امر تسر سے شائع ہوا۔ان کے علاوہ بعض حضرات نے ایک آدھ پارہ یا کوئی خاص سورۃ یا پنجسورہ وغیرہ کا بھی پنجابی میں ترجمہ کیا ہے۔پشتو زبان میں ہونے والے تراجم قرآن:پشتو زبان دنیا کی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے۔ پختونوں کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ یہ من حیث القوم مسلمان ہیں۔ اس لیے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ پشتو زبان کا دامن تراجم وتفاسیر قرآن سے خالی نہ ہوتا لیکن بدقسمتی سے متعد تراجم وتفاسیر کے دست برد سے محفوظ نہیں رہے اور ہم پہنچ نہ سکے۔انیسویں صدی کے اوائل میں جو آدمی بھی پشتو تفسیر اور ترجمہ لکھنے کی جرأت کرتا، نہم ملا قسم کے لوگ اس کی جان کے دشمن بن جاتے اور اسے لینے کے دینے پڑ جاتے۔۔۔ رفتہ رفتہ لوگوں نے محسوس کیا کہ ان کے پاس اپنی زبان میں کلام اللہ کا ترجمہ وتفسیر ہونی چاہیے۔۔۔ چنانچہ رفتہ رفتہ پشتو قرآن مجید سے متعلق قابل قدر ذخیر جمع ہو گیا۔پشتو زبان میں ہونے والے تراجم وتفاسیر قرآن کی بھی بڑی تعداد ہے ، ان میں کچھ تراجم وتفاسیر سیر وہ بھی ہیں جن کا اردو سے پشتو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔نمبر شمار نام ترجمہ وتفسیر نام مترجم سن طباعت1 احسن الکلام مولانا عبد السلام رستمی 1994ء2 اسباب تفسیر (ترجمہ تفسیر شاہ ولی اللہ) ڈاکٹر سعید اللہ جان (مازارہ) 1995ء3 افضل التراجم محمد افضل خان (شیخ شاہ پور) 1983ء4 انعام الرحمٰن حافظ ولی سید غیر مطبوعی5 ترجمہ تفسیر عثمانی تسنیم الحق کاکا خیل 2007ء6 ترجمۃ القرآن مولانا عبد الجبار، باجوڑ غیر مطبوع7 ترجمۃ القرآن حافظ لطف الرحمٰن ادینہ غیر مطبوع8 ترجمۃ القرآن الحکیم ڈاکٹر سراج الاسلام حنیف 1983 تا 2008ء9 ترجمہ قرآن مع فوائد علمائے افغانستان وہندوستان 1287ء بھوپال10 ترجمہ قرآن مولانا عبد الحق داربنگی 1975ء سے پہلے11 ترجمہ قرآن مجید ڈاکٹر حبیب الحق زروبی نامعلوم12 تعلیم القرآن (قرآن مجید کا پشتو ترجمہ) ڈاکٹر محمد دین تاج کتب خانہ، پشاور13 تفسیر ابن کثیر، تالیف امام عماد الدین مولوی زاہدی احمد زئی تاج کتب خانہ 2008ء14 تفسیر انوار القرآن مولانا سید انور الحق کاکا خیل غیر مطبوع15 تفسیر ایوبی مولانا عبید اللہ قندھاری مکبتہ قراءت وتجوید کوئٹہ16 تفسیر بخاری مولانا سید بادشاہ گل بخاری 1956ء17 تفسیر بد منیر (تفسیر حسنی کا پشتو ترجمہ) دوست محمد خٹک 187318 تفسیر بیان القرآن المعروف تشریح القرآن مولوی عبد الشکور طوروی نامعلوم19 تفسیر بےنظیر مترجم نامعلوم 1882ء20 تفسیر تعلیم القرآن مولانا شفیق الرحمن مکتبہ الہدی مردان21 تفسیر تیسیر القرآن شیخ القرآن مولانا محمد طاہر غیر مطبوع22 تفسیر جیبی مولانا حبیب الرحمٰن 1963ء23 تفسیر حسینی کا پشتو ترجمہ میاں عبد اللہ کاکا خیل 1330ھ لاہور24 تفسیر خیر الکلام مولوی امین اللہ معراج کتب خانہ، پشاور25 تفسیر فخر الاسلام مولوی عبد السلام، درگنی ریب آرٹ پبلیشرز، پشاور26 تفسیر فوق الیسیر مولانا عبید الحق داربنگی 1304ھ دہلی و لاہور27 تفسیر فوق الیسیر قاضی عبد اللطیف گالوچ 1925ء28 تفسیر قرآن مجید المعروف بہ تفسیر کابل پختو ٹولنہ کابل 1944۔1948ء29 تفسیر کشاف القرآن حافظ ادریس 1961 جلد اول 1976 دوم30 تفسر لا مثال عبد اللہ فانی معراج کتب خانہ پشاور31 تفسیر مظاہری عبد العزیز مظاہر، طورو غیر مطبوع32 تفسیر معارف القرآن کا پشتو ترجمہ پروفیسر ڈاکٹر قاضی مبارک، مولانا گل خان وغیرہ ۔تاج کتب خانہ ، پشاور33 تفسیر نشر المرجان من مشکلات القرآن محمد افضل خان 1403ھ34 تفسیر وضاحت القرآن مولانا سلطان محمود مردانی نامعلوم35 تفسیر یسیر نامعلوم 1302ھ دہلی؍ لاہور36 تفسیر یسیر مراد علی صاحبزادہ 1866ء37 تفہیم القرآن (مولانا ابو الاعلی مودوی) قیام الدین کشاف، مولانا راحت گل 1980۔ 1989ء38 تلاوت قرآن مشہور بہ تفسیر زبیدہ مولانا امیر توخوی 1968ء39 جمال القرآن (مولانا اشرف علی تھانوی) قاری عبد العزیز 1943ء40 جواہر القرآن، مولانا غلام اللہ خان مولوی گل برخان نامعلوم41 جواہر القرآن، مولانا غلام اللہ خان مولانا عبد الملک کتب خانہ وحیدیہ، پشاور42 خیر الکلام ، پشتو ترجمہ عبد اللہ فانی نامعلوم43 سراج القرآن مولانا روح اللہ نامعلوم44 ضیاء الکلام مولانا عبد المستعان ضیفی کتب خانہ،پشاور45 عزیز التفسیر مولانا عزیز احمد نامعلوم46 القرآن الحکیم (پشتو ترجمہ) میاں فضل رزاق کاکا خیل نامعلوم47 القرآن الحکیم (شاہ ولی اللہ کے ترجمے کا پشتو ترجمہ) نامعلوم نامعلوم48 القرآن المجید (بیان الفرید کا پشتو ترجمہ) مولانا عبد الرحیم49 قرآن مجید، تفسیر وترجمہ صدیق یحتسین 1933ء؍ 1937ء50 قرآن مجید مع منظوم پشتو ترجمہ الحاج سید جعفر حسین شاہ یختونے 1968ء حمیدیہ پریس پشاور51 قرآن مجید مترجم پشتو مع حواشی مولانا عبد الرحیم 1990ء52 قرآن مجید مع تفسیر افضلیہ مولانا رکن الدین53 قرآن مجید (ترجمہ معہ تفسیر دودی) مولانا فضل ودود (پارہ 1 تا 18) مولانا کل رحیم اسماری (19 تا آخر) 1953ء54 قرآن مجید پشتو ترجمہ مولانا محمد امین اضاخیل نامعلوم55 قرآن مجید (مولانا محمود الحسن وشبیر عثمانی) وزرات اطلات وکلچر کابل 1929ء56 قرآن مجید (ترجمہ شیخ الہند کا پشتو ترجمہ) علی محمد نامعلوم57 قرآن مجید انگریزی ترجمہ وتفسیر، عبد اللہ یوسف علی، صباح الدین کشکی 1965ء58 قرآنی پلوشے گل بدین حکمتیار افغانستان59 لغات القرآن (مولانا عبد الکریم ناگپوری) محمد عباس نامعلوم60 مخزن التفاسیر مولانا محمد الیاس کوچانی 1855ء۔ دہلی61 مفتاح القرآن ملا احمد تنگی نامعلوم63 معارف القرآن، مفتی محمدشفیع محمد عباس 1993ءسندھی زبان میں قرآن پاک کے تراجم:سر زمین سندھ عہد صحابہ کرام﷢ میں اسلام کے نور سے منور ہو چکی تھی لیکن محمد بن قاسم کی فتح کے بعد جب اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت اہل سندھ کو دین سکھانے کے لئے سندھی زبان میں کتابں لکھیں گئیں۔دنیا میں سب سے پہلا ترجمہ 670ھ؍ 884ء میں سندھ میں الور کے راجہ کے مقامی زبان میں کیا گیا۔ مسلمانوں کے مقامی دار الحکومت منصورہ کے حاکم عبد اللہ بن عمر بن عبد العزیز کے ایماء پر ہوا۔ یہ بھی مروی ہے کہ راجہ ۔۔ نے جب سورۃ یسین کی آیت ( قال من یحی العظام وہی رمیم) کا ترجمہ سنا تو وہ اپنے تحت سے اترا اور زارو وقطار رونے لگا لیکن یہ ترجمہ ۔۔۔۔ ضائع ہو گیا اور محفوظ نہ رہ سکا۔ ۔ قرآن مجید مترجم (عزیز اللہ مٹیاری)2۔ قرآن مترجم ومحشی (مولانا محمد صدیق نورنگ پوتہ)3۔ قرآن پاک مترجم مع مختصر حاشیہ ( قاضی شرف الدین سیوہانی)4۔ رفیع الشان قرآن عظیم مترجم ( مولانا سید تاج محمود امروٹی)5۔ قرآن مجید وفرقان حمید مترجم( مولانا نور محمد عادلپوری)6۔ مقبول عام قرآن پاک مترجم ( مولانا عبد الرحیم مگسی)7۔ الدہی آداز جو آلاپ (حاجی شاہ محمد پیر زادہ)8۔ قرآن پاک مترجم بیان القرآن ( مولانا عبد اللہ کھڈھری)9۔ قرآن مجید مترجم ( مقتدر ومستند علمائے سندھ)10۔ قرآن مجید مترجم وحواشی ( مولانا قاضی عبد الرزاق)11۔ قرآن شریف مترجم ( مولانا محمد عالم سومرو)12۔ قرآن شریف مترجم ( مولانا محمد مدنی)13۔ قرآن شریف مترجم ( مولانا قاضی عبد الرزاق)14۔ قرآن مجید مترجم ومحشی ( مولانا قاضی عبد الرزاق)15۔ نور القرآن ۔ قرآن پاک کا منظور ترجمہ ( مولانا حاجی احمد ملاح)16۔ قرآن کریم مترجم مع حاشیہ ( مولانا محمد رفیق خوشنوس)17۔ قرآن پاک مترجم ( خاند بہادر امیر گل حسن ٹالپور)18۔ قرآن پاک مترجم ( مولانا عبد الغفور، کھڈے والے)20۔ قرآن پاک مترجم ومحشی ( مولانا فرمان علی)21۔ کلام اللہ مترجم ( مولانا عبد الوارث دل)22۔ قرآن پاک مترجم ( پروفیسر عبد اللہ تنیو)23۔ ترجمہ قرآن مجید چار زبانوں میں اردو، سندھی، انگریزی، (غلام اصغر ونڈیرعلیگ)24۔ بیان القرآن فی الترجمۃ القرآن ( مولانا عبد الوحید جان سرہندی)25۔ قرآن پاک متردجم ( علی خان ابڑو)26۔ قرآن پاک مترجم ( مولانا عبد الکریم قریشی)27۔ درس القرآن ( الاستاذ غلام مصطفیٰ دادوی)28۔ قرآن کان فرقان تائین ( محمد محسن پنہور)29۔ قرآن پاک مترجم ( ڈاکٹر عبد الحئی ابڑو) ۔ تفسیر ’تنویر الایمان‘ مولانا محمد عثمان نورنگ زادہ)31۔ تفسیر مفتاح رشد اللہ (قاضی فتح محمد نظامانی) کئی اور مکمل یا نامکمل تراجم وتفاسیر سندھی زبان میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ بعض اردو تراجم کے سندھی میں تراجم کیے گئے ہیں۔ بلتی زبان میں قرآن کریم کا پہلامطبوعہ ترجمہ:قرآن کریم کا بلتی زبان میں پہلا مطبوعہ ترجمہ خطہ بلتستان کے ممتاز دانشور محقق، ادیب جناب محمد یوسف حسین آبادی نے کیا ہے۔ بقول مترجم یہ ترجمہ 12 مئی 1992ء کو مکمل ہوا ہے۔ اگست 1993ء تک ترجمے پر نظر ثانی کی گئی ہے یہ ترجمہ 1995ء میں شائع ہوا۔ چونکہ ترجمے کا کام کسی خاص ادارے کی جانب سے نہیں ہوا ، اس لیے اس پر کسی ناشر کا نام نہیں ہے۔ ترجمے پر پاکستان میں اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے ثقافتی قونصلر محترم جناب آقای علی نے دیپاچہ لکھا ہے۔ تمہید کے بعد محترم جناب سید محمد رضوی ڈائریکٹر الہدیٰ ثقافتی سکردو بلتستان نے حرف تعارف لکھا ہے۔منظوم تراجم:منظوم ترجمہ ایسی پرخاروادی ہے کہ جس نے بھی اس میں قدم رکھا اس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور بہت مترجمین اپنے دامن کو کانٹوں سے بچا سکے ہیں۔ منظوم ترجمہ کےلئے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ شعر وشاعری انسان کو زیادہ متاثر کرتی ہے اور نثر کی نسبت نظم کو یاد کرنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔قرآن مجید کا کسی غیر عربی زبان میں نثری ترجمہ کرنا، ناممکن حد تک مشکل ہے اس لیے ان کو ا حتیاطاً ترجمانی کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا ۔1۔ مولوی عبد السلام بدایونی، 2۔ شاہ غلام مرتضی جنون 3۔ سلماب اکبر آبادی 4۔ آغا شاعر قزلباش5۔ اثر زبیری 6۔ شمیم رجز 7۔ محمد ادریس کیف بھوپانی 8۔ مولانا سید محمد حسن 9۔ عطا قاضی 10۔ عبد العزیز خالد 11۔ نیساں اکبر آبادی 12۔ قاری محی الدین13۔ جعفر علی 14۔ مرزا قسیم بیگ 15۔ راجہ حسن اختر جوہر آبادی 16۔ مولوی مرزا ابراہیم بیگ 17 ۔مطیع الرحمن خادم علی گڑھ 18۔ عبد الرحمٰن غرشی (15 پاروں کا منظوم ترجمہ 1949 ء میں کیا)19۔ سید غنضفر علی سونی پتی (پہلا منظم پارہ) 20۔ صوفی محمد حسن سرہندی (پہلا منظوم پارہ)21۔ پروفیسر ڈاکٹر احمد حسین قریشی قلعداری22۔ حکیم محمد اشرف کاندھلوی 23۔ عبد الحی قادری 24۔ محبوب ککے زئی (تفسیر القرآن ، پارہ اول منظوم 1952ء)25۔ خواجہ دل محمد 26۔ دلاور فگار 27۔ حاجی عمر الدین 28۔ چوہدری رشید احمد29۔ عقیل روبی 30۔ تنویر پھول 31۔ ساجد مراد آبادی 32۔ قاضی محمد ایوب نادم (غیر مطبوعہ) 33۔ مولانا عبد اللہ 34۔علامہ کوثر وڑائچ (مکمل اور غیر مطبوعہ)45۔ مرزا خادم ہوشیار پوری۔ یہ کوئی حتمی فہرست نہیں بلکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ کچھ تراجم کا ذکر رہ ہی گیا ہو۔  

 محمد اکرم چغتائی، قرآن کے اردوتراجم، المعارف لاہور، جولائی ، اگست 1965، ص 198

 محمد اکرم چغتائی ، قرآن کے اردو تراجم، المعارف لاہور، جولائی اگست، 1985، ص 22

 ڈاکٹر صالحہ عبد الحکیم شرف الدین، قرآن حکیم کے اردو ترجمے: ص 80، قدیمی کتب خانہ کراچی

 محمد اکرم چغتائی ، قرآن کے اردو تراجم، المعارف لاہور، جولائی اگست، 1985، ص 22

 محمد اکرم چغتائی ، قرآن کے اردو تراجم، المعارف لاہور، جولائی اگست، 1985، ص 22۔23

 محمد اسلم اسماعیل، ڈاکٹر، مقالات قرآن کانفرنس ، غیر عربی زبانوں میں ترجم: ج 1 ص 322، دی یونیورسٹی آف بہاولپور، 2008ء

 ڈاکٹر، قمر رئیس، ترجمے کا فن اور روایت: ص 38، تاج پبلیشنگ، لاہور

 محمد حمید، ڈاکٹر، قرآن مجید کے ترجمے، مقالا قرآن کانفرنس، مرتبین : ڈاکٹر سلیم طارق خان، ڈاکٹر عبد الرؤف ظفر:ج2 ص 630۔636، 2009ء

 ہدایت اللہ نعیم، Islamic Leitrature Pashto پی ایچ ڈی مقالہ، 1986ء، ابریا سٹڈی، سنٹرل ایشیاء یونیورسٹی:ص 1۔25

 ہدایت اللہ نعیم، Islamic Leitrature Pashto پی ایچ ڈی مقالہ، 1986ء، ابریا سٹڈی، سنٹرل ایشیاء یونیورسٹی:ص 3

 ڈاکٹر صالحہ عبد الحکیم، کی تحقیق کے مطابق قرآن مجید کا سب سے پہلا اردو ترجمہ، 1087ھ/ 1676ء میں عبد الصمد بن عبد الوہاب خاں نے لکھا ہے۔ ص: 83

 پشتو زبان میں قرآن پاک کی تفاسیر وتراجم، پروفیسر ڈاکٹر معراج الاسلام ضیاء، مکمل پشتو تراجم وتفسیر قرآن کی الف بائی ترتیب (8)

 معراج الاسلام ضیاء، پروفیسر ، ڈاکٹر ،پشتو زبان میں قرآن پاک کے تفاسیر وتراجم:ص233۔241

 ڈاکٹر بلال اے خان، خطبہ صدارت، ’قومی کانفرنس ، مقالات قرآن کانفرنس‘ متربین ڈاکٹر سلیم طارق خان، ڈاکٹر عبد الرؤف ظفر، دی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور : ص 15

 غلام مصطفی قاسم، ڈاکٹر، نور القرآن (مقدمہ): ص 3، 1401ھ

 سلیم طارق خان، ڈاکٹر، سندھی زبان میں قرآن پاک کے تراجم اور ان کی عملی وادبی خصوصیات، مقالات قرآن کانفرنس: ج1 ص 192۔212

 قرآن کریم کے سندھی تراجم اور ان کی خصوصیات، مقالات قرآن کانفرنس: ص 227۔228

 غلام مصطفیٰ قاسمی، مولانا، مقالات قاسمی، سیارہ ڈائجسٹ، ’قرآن نمبر ‘ لاہور

 محمد سعید شیخ، برصغیر میں منظوم تراجم قرآن ، ایک تعارفی جائزہ، مقالات قرآن کانفرنس:ص 121

Comments

Popular posts from this blog

حمود الرحمن کمیشن رپورٹ

تعارف ترميم حکومت  پاکستان  نے وزارتِ صدارتی امور کے نوٹیفیکشن نمبر ایس آر او(١) 71مورخہ 26 دسمبر1971کے ذریعے اس انکوائری کمیشن کو قائم کرتے ہوئے اس کے ذمہ یہ فرائض سونپے تھے کہ وہ ان حالات کی تحقیقات کرے، جن کے تحت کمانڈر، ایسٹرن کمانڈ اور ان کے زیر کمان پاکستان کی مسلح افواج نے دشمن کی فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈالے، بھارت اور  مغربی پاکستان  کی سرحدوں پر جنگ بندی کے احکامات صادر کیے گئے نیز جموں اور کشمیر کی سیز فائر لائن پر بھی جنگ بندی کا حکم دیاگیا پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ مجریہ1956ء کے تحت قائم ہونے والا یہ کمیشن درج ذیل افراد پر مشتمل تھا؛۔ 1) مسٹر جسٹس حمود الرحمٰن (ہلال پاکستان) چیف جسٹس، سپریم کورٹ آف پاکستان، بحیثیت صدر۔ 2) مسٹر جسٹس انور الحق، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بحیثیت رکن۔ 3) مسٹر جسٹس طفیل علی عبد الرحمن چیف جسٹس سندھ بلوچستان ہائیکورٹ بحیثیت رکن کمیشن کی سفارشات پر لیفٹنٹ جنرل الطاف قادر( ریٹائرڈ) کو بحیثیت ملٹری ایڈوائزر اور اسسٹنٹ رجسٹرار سپریم کورٹ آف پاکستان، مسٹر ایم اے لطیف کو بحیثیت سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ ٣) وزارت صدارتی امور کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیک

Pathar Ke Sipahi Part 12 Namwar Series M A Rahat

4shared Download BOX DOWNLOAD AND ONLINE READ MEDIAFIRE DOWNLOAD AND ONLINE READ

Rooh Ki Pyas Namwar 3 by M A RAHAT

4shared Download BOX DOWNLOAD AND ONLINE READ MEDIAFIRE DOWNLOAD AND ONLINE READ