Skip to main content

تعلیم قرآن



تعلیم: علم الصرف میںلفظ تعلیم ، تفعیل کے وزن پر ہے۔ جس کی خصوصیت میں تصییر(ہوجانا، بنانا) کا معنی ہوتا ہے۔ جیسے: وَتَّرَ القَوْسَ۔ اس نے کمان کو زرہ دار بنایا۔اسی طرح تعلیم کا معنی ہوگا کہ بتدریج مگر تسلسل کے ساتھ کسی کو علم کی روشنی سے منور کرنا۔ تاکہ وہ تاریکیوں میں نہ بھٹکے۔ عربی میں لفظ تعلیم میں علم دینے کے ساتھ دینی، اخلاقی اور عملی تربیت و صحیح راہنمائی کا پہلو بھی ہے۔اس لئے تعلیم القرآن کا مطلب کسی ناواقف کو بتدریج قرآنی علم سے آراستہ کرکے اسے عملی اور اخلاقی اعتبار سے صاحب قرآن بنانا۔ اسے ایسے علم سے مزین کرنا جو قرآن کے الفاظ وعبارات کو اور ان کے مفاہیم کو رسوخ سے پہچان پائے اور عالم ربانی کہلائے۔ظاہر ہے یہ تعلیم، قرآن کو ایک بار پڑھنے سے نہیں بلکہ بار بار پڑھنے اور غورو فکر سے حاصل ہوتی ہے۔
اس کی اہمیت وضرورت : قرآن کریم کتاب ہدایت ہے۔ اس کے بے شمار ایسے پہلو ہیں جن کا جاننا ضروری ہے۔ اس کی اپنی لغت ہے ضرب الامثال ہیں،غریب، مشکل، مترادف الفاظ ہیں مثلاً: قلب، فؤاد اور صدر میں کیا فرق ہے۔، اور متباین کلمات ہیں، یَشْرِیْ، المَولٰی وغیرہ یا اضداد میں سے ہیںجیسے لفظ ظن اور زعم وغیرہ ہیں۔ بعض کلمات ہیں ان کا لفظی مطلب کچھ اور بنتا ہے مگر اس سے مراد کیا ہے۔جیسے رَیْبَ الْمَنُونِ وغیرہ۔ ان سب کو جاننے کے لئے فقہ اللغہ کا علم ضروری ہے۔
٭… قرآن مجید ہر دور کے لئے نئی کتاب ہے۔یہ ایک Living Book زندہ کتاب ہے ۔ اس کی تعلیم وتعلم کے لئے ہر دور کے عصری علوم کا جاننا انتہائی ضروری ہے تاکہ دلوں کے تالے کھلیں،تدبر وتفکر کی عادت طلبہ میں پیدا ہو۔ سورج کی روشنی کی طرح قرآن اپنا نور وعلم پھیلاتاجائے۔ جتنی کھلی اور بڑی کھڑکی ہوگی اتنی سورج کی روشنی زیادہ پہنچے گی ۔قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے بھی جتنا بڑا ظرف ہوگا اتنا ہی فائدہ ہو گا۔
٭…دور حاضر الیکٹرانک میڈیا کا دورہے۔ اس کی جنگ نے نظریاتی سرحدیں برائے نام کردی ہیں۔اس جنگ میں جھوٹ، فحاشی اور استحصال عام ہے۔تعلیم قرآن ہی اس جنگ کا مقابلہ کرسکتی ہے ۔ہماری شکست وریخت کا مداوا اسی کی تعلیم میں ہے۔اگر اللہ کے اس کلام پر ہمارا ایمان ہو تو ہمیںدوست ودشمن کی صحیح تمیز ہوسکتی ہے۔اس میں بہت سی تنبیہات ہیں جن کے اسباق ہمیں بار بار یاد کرائے گئے ہیں جو ہمارے مشکل حالات میں راہنمائی کردیں۔ عباد الرحمن بننا ہمارا کام ہے اور رحمن الدنیا بننا اس کا۔
٭…اس میں پیشین گوئیاں ہیں۔تاریخ ہے جس کی تحدید کرنا بہت مشکل ہے۔ مثلاً: 
{اِذْ قَالُوْا لِنَبِىٍّ لَّہُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا}۔ موسیٰ علیہ السلام کے بعد یہ کون سے نبی تھے؟ اس کا تعین اسرائیلیات کا گہرا مطالعہ چاہتا ہے۔ پھرذرا آگے {وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا} سے کیا مراد ہے کس نے انہیں ان کے علاقوں سے نکالا تھا؟ اور بیت المقدس اگر اس سے مراد ہے تو پھر کون سا وہ بادشاہ تھا جس نے غلبہ پاکر انہیں بے دیس کیا۔اسی طرح{ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ} میں مَرَّتَيْنِسے کیا مراد ہے؟ کیا یہ ہوچکا یا کچھ باقی ہے؟ اس کا تعین خاصا تاریخی مطالعہ چاہتا ہے۔
٭…کائنات کی بے شمار نشانیاں ہیں جن کے لئے بے پناہ عصری علوم کی ضرورت ہے۔جن کا حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔
٭…مختلف مذاہب کے غلط عقائد ونظریات سے قرآن نے آگاہ کیا ہے ؟ انہیں سمجھنے کے لئے ایسے مذاہب کی اصل زبان کا علم ہونا تاکہ اصل مصادر سمجھے جاسکیں،پھر ان کا تقابلی مطالعہ کرنا ایک طالب علم کے لئے بہت ضروری ہے۔
٭…قرآن، عقیدہ توحید کی کتاب ہے جس کی دعوت ہی یہی ہے۔اس میں بیان شدہ شریعت، راہنما شریعت ہے۔اس کے مقابل میں بے شمار نظریات، اور ازم اٹھے، قانون بنے جو وقتی سیاسی غلبہ حاصل کرنے کے بعد مغلوب ہوگئے۔ مگر کیا یہی قوانین انسانوں میں مساوات یا متوازن زندگی کی ضمانت دے سکے؟۔قرآن نے اپنے بہی خواہوں کو تاریخ کی ایک مثال دے کر ضمانت دے دی کہ خلفاء راشدین کے عہد میں ایسا ممکن ہوسکا ہے۔ اس لئے ا س کی تعلیمات سمجھنا اور تسلیم کرنا ضروری ہے۔
٭…تاریخ یہود اور آغاز مسیحت ، دونوں مسخ شدہ ہیں۔اور مشرکانہ مذاہب کا سر پیر نہیں۔ قرآن کریم کے مطابق ، ان کی تاریخ دجل وفریب اور دہشت وبربریت کی تاریخ ہے۔انسانی خون کی ہولی کھیلنے والے کیا انسانیت کے راہنما بن سکتے ہیں۔یہ سب مذاہب جھوٹ کے سہارے چل رہے ہیں۔انٹر نیٹ پر ان کے گھر کے بے شمار بھیدی لنکا ڈھارہے ہیں۔قرآن کریم نے اسی جھوٹ کا انکشاف پندرہ سوسال پہلے کردیا تھا۔اس لئے ایک مومن یہی ایمان رکھتا ہے کہ دونوں نے علمی، روحانی اور اصلاحی بددیانتی کی ہے اور یہی ملزم ہیں۔قرآن کریم پہلی کتب کا مُہَیْمِن یعنی نگران یا ناسخ ہے۔دنیا بھر میں پھیلی مشرکوں کی بین الاقوامی منڈی اور ان کی متنوع مشرکانہ سرگرمیاں اور رسم ورواج کے ہر اہم پہلو پر قرآن نے روشنی ڈال دی ہے کیا مزید کچھ وضاحت کی ضرورت ہے۔ اس گنداور کیچڑ سے لت پت اس دنیا کو صرف قرآن کا طالب علم ہی صاف ستھرا اور امن کا گہوارہ بنا سکتا ہے۔اور سبھی کی گردنیں تبھی ایک ہی رب کی چوکھٹ پر جھکیں گی۔
٭… ابن خلدون اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں: عرب محض اہل زبان ہونے کی بناء پر قرآن کے اجمال وتفصیل سے کما حقہ آگاہ ہوجاتے تھے اور اس کے معنی ومفہوم کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے۔(مقدمہ: ۴۸۰)
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی زبان میں لکھی ہوئی علمی تالیف محض اس زبان کے جاننے سے نہیں سمجھی جاسکتی بلکہ اس تالیف کو سمجھنے اور پڑھنے کے لئے زبان (********) کی معرفت کے ساتھ ساتھ ذہنی وعقلی استعداد کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اہل علم صحابہ میں سے بعض حضرات قرآن مجید کے بعض کلمات کے مفہوم وادراک سے عاجز رہے۔ أباً کیا معنی رکھتا ہے ؟ سیدنا عمر t نے لاعلمی کا اعتراف کیا۔ { أو یأخذہم علی تخوف} میں تَخَوُّفٍ کا معنی کیا ہے برسر منبر صحابہ کرام سے سیدنا عمرؓ فاروق نے اس کا سوال کیا۔ایک ہذلی نے کھڑے ہوکر جواب دیا کہ اس کا معنی تَنَقُّصٍ ہے یعنی اتنی کمی کرنا کہ خوف آنے لگے۔ اور دلیل میں یہ شعر پڑھا:

تَخَوَّفَ الرَّحْلُ مِنْہَا تَامِکًا قَرَدًا کَمَا تَخَوَّفَ عُوْدَ النَّبْعَۃِ السَّفَنُ
اس کی پالان سکڑ کر ایسے کم پڑ گئی جیسے کھردری کھال تیروں کی لکڑی کو کم پڑ جاتی ہے۔(الموافقات:۴۰)
سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں: {فاطر السموات} کا صحیح مفہوم میرے ذہن میں نہیں آرہا تھا حتی کہ دو اعرابی ایک کنویں کے متعلق نزاع میرے پاس لے آئے۔ ان میں سے ایک نے اپنے حق ملکیت کے ثبوت میں کہا: أنَا فَطَرْتُہَا: میں نے ہی پہلی مرتبہ اس کنویں کو کھودا ہے۔ یہ کلمہ سنتے ہی مجھے اس مشکل کا جواب مل گیا کہ فَاطِرَالسَّمٰوٰتِ کا کیا مطلب ہے۔
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے خیط أبیض اور خیط اسود کا جو مفہوم لیا وہ بھی اس خیال کو رد کرنے کے لئے کافی ہے کہ بعض صحابہ قرآن کے معنی ومفہوم کی تہ تک پہنچ جاتے تھے۔آپ ﷺ نے ہی ان کی اصلاح فرماتے ہوئے فرمایا:

إِنَّکَ لَعَرِیْضُ الْقَفَا، إِنَّمَا ہِیَ سَوَادُ اللَّیْلِ وَبَیَاضُ النَّہَارِ۔ تم چوڑی گدی والے ہو یعنی تم خوب موٹے ہو۔ اس سے مراد رات کی سیاہی اور صبح کی روشنی ہے۔
٭…یہ بھی ضروری نہیں کہ صحابہ کرام نے سارے قرآن کو سمجھا ہو۔کیونکہ انہیں سوال کرنے سے منع کردیا گیا تھا۔ دوسرا یہ کہ وہ اپنے دور کی ذہنی رسائی کے مطابق سوچ کر فیصلہ کرلیتے تھے۔ مثلاً فرعون کی لاش کے بارے میں آیت کے یہ الفاظ 
{فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰيَۃً}۔ صحابہ نے یہ سوال نہیں کیا کہ فرعون کی لاش کہاں ہے؟ بلکہ انہوں نے اپنے فہم کے مطابق یہ سمجھ لیا کہ اس دور کے لوگوں کے سامنے اس کی لاش کو اللہ تعالیٰ نے پیش کیا ہوگا اس لئے یہی ان کے لئے ایک بڑی نشانی یا عبرت تھی۔اسی طرح {وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ}۔ ان سواریوں کو اللہ تعالیٰ پیدا کرے گا یاکرتا رہے گا جنہیں تم نہیں جانتے۔گدھے، خچر، گھوڑے اور اونٹ کے علاوہ کون سی ایسی سواریاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پیدا کرتا رہے گا؟ صحابہ کرام نے ایسے سوال نہیں کئے بلکہ ان آیات سے سبق یہی لیا کہ جو ہستی انہیں پیدا کرسکتی ہے وہ بعد بھی قادر مطلق ہے کہ جو چاہے پیدا کرے۔اس لئے زمانہ حال کی سواریاں ہمارا ذہنی کمال ہے اور جس کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
٭… عربی زبان کو جوپختگی اور دوام حاصل ہے اس کی وجہ اس کی فصاحت وبلاغت اور الفاظ کا وسیع ذخیرہ (Vocabulary) ہونا ہے۔ایک خاندانی سسٹم کی طرح اس کا نظام ہے۔ماضی، مضارع، حاضر ومستقبل اور امر ونہی، اسم ظرف وافعل التفعیل کے ہمراہ مبالغے کے صیغے ہیں، مثلاً: اسم فاعل کا مبالغہ فَعَّال ہے۔ انسان زندگی میں ایک آدھ بار جھوٹ بولے تو اسے کاذِب کہتے ہیں۔ اور اگر ہر لفظ یا ہر بار جھوٹ بولے تو اسے کَذَّابٌ کہہ دیتے ہیں۔چڑیوں کی چونچ کو 
زَقْزَقَۃُ الْعَصَافِیْر کہتے ہیں اس لئے کہ اس کے حروف میں زَقْزَقَہ ہوتا ہے۔جو عَسْعَسَ کے بالکل مناسب ہے جو فعل ثنائی ہے۔ جس میں مضعف یا تکرار کا معنی ملتا ہے جیسے: اللَّیْلُ یُعَسْعِسُ۔ رات بتدریج آتی اور بتدریج چلی جاتی ہے۔ اس کی اپنی رموز (Abriviations) ہیں۔ اس میں مترادفات واضداد ہیں۔لسان العرب میں ۸۰ ہزار مادے ہیں۔ ہر مادے کے پچاس یا ساٹھ فعل یا اسم ہیں۔ جبکہ آج کل کی رائج زبانوں میں زیادہ سے زیادہ ۲۵ ہزار الفاظ ہیں۔ان مادوںکے اعراب ہیں اور بڑے دقیق معانی اپنے اندر پوشیدہ رکھتے ہیں۔کبھی ایک ہی حرکت معنی کو بدل دیتی ہے۔ جیسے: قدَم، یعنی سَبَقَہُ بِقَدَمِہِ، قدِمَ بمعنی حَضَرَ، اور قدُم بمعنی قدیم ہوگیا۔حتی کہ حروف کی بھی الفاظ میں مناسبت ہوتی ہے مثلاً: حرف سین جس لفظ میںہوگا وہ داخلی شے ہوگی۔ جیسے: نَفْس، نَفَس، حِسّ، أُنْس، لَمْس، ہَمْس، وَسْوَسَہ، سِرّ۔ جس میں غین ہو نظر سے دور شے کے معنی اس میں ہوتے ہیں جیسے: غائب، غِشّ، غِیبت، غَلاء۔ جس کلمہ میں راء ہو اس میں تتالی یعنی پے در پے اور تکرار فعل کے معنی ہوں گے جیسے: جَرّ، مَرّ، کَرّ، فَرّ۔ قاف جس میں ہو وہ ایک دوسرے کو مارنے یا مزاحمت کرنا کے ہوں گے جیسے: طَرَقَ، بَصَقَ ، لَصِقَ، غَرِقَ۔ یہ محاسن دیگر بدلتی زبانوں میں کہاں ہیں؟ اپنے مدعا کو مختصر اور جامع انداز میں بیان کرنا اس کا شیوہ ہے۔اس میں نرمی وشدت اور شعور وجذبات سے مکمل وابستگی کا عنصر غالب ہے۔ دوسری زبانوں میں ایساقطعاً نہیں۔ بلکہ اس کا عربی صوتی آہنگ دوسری مقدس کتابوں کی آواز کو نگل لیتا ہے۔
٭…اگر دنیاوی منفعت کے لئے دیگر زبانیں سیکھی جاسکتی ہیں تو عربی زبان کیوں نہیں سیکھی جاسکتی۔ عربی زبان کی برکت ہے کہ وہ دنیا کی معیاری اور دائمی ادبی زبان بن گئی ہے ۔ مسلمان بھی بلارنگ ونسل آپس میں اس زبان کی برکت ومحبت کی وجہ سے جڑے ہوئے ہیں۔سپین میں عربی زبان کے رواج نے یورپین زبانوں کو بے شمارعربی الفاظ بخشے جو آج بھی ان زبانوں میںبخوبی جانے جا سکتے ہیں۔
٭…اسلاف امت اس فرض کو جانتے اور نبھاتے تھے۔ وہ قرآن کریم کے الفاظ ومعانی سیکھتے سکھاتے تھے۔یہی ذریعہ تھا جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی مراد سمجھ سکتے تھے۔اس لئے تو یہ کتاب ان کی روح اور خون میں رچ بس گئی تھی۔مشہور تابعی ابو عبد الرحمن السلمی کہتے ہیں ہمیں سیدنا عثمان غنی اور عبد اللہ بن مسعود وغیرہ رضی اللہ عنہم نے بتایا۔۔ جن سے ہم نے قرآن پڑھنا سیکھا۔ جب تک ہم رسول اکرم ﷺ سے دس آیات کی تلاوت کرنا اور ان پر عمل کرنا نہ سیکھ لیتے ہم آگے نہ بڑھتے تھے ۔ وہ کہا کرتے : ہم نے قرآن پڑھنا سیکھا، اس کا صحیح ادراک کیا اور اس پر عمل کیسے کرنا ہے وہ بھی جانا۔
٭…یہ صحابہ تاجر بھی تھے، مزدور بھی، کسان بھی تھے اور بڑھئی بھی، دانشور بھی تھے اور مدبر بھی۔ دیہاتی بھی تھے اور شہری بھی۔ روزگار و پیشے یا دیگر مصروفیات کی بناء پر انہوں نے تعلیم قرآن کو فراموش نہیں کیا۔بلکہ اسے ہر لحاظ سے مفید وبابرکت پاکر سیکھا۔ ہمیں بھی آج ایسا ہی کرنے کی ضرورت ہے۔یہ قرآن سبھی کے لئے اترا تھا ۔اور ہرایک کے لئے تھا اور اسے ہر دل میں اتارنے کا کہا گیا تھا۔ اس لئے اسے کسی کی پراپرٹی نہیں کہاگیا۔
٭…قرآن کا علم انتہائی محترم اور ارفع واعلی علم ہے۔ یہی وہ کورس ہے جو بندہ مومن کو شہادہ عالیہ بخشتا ہے۔اسے رب کے ہاں عزت دیتا اور فرشتوں کے ہاں معزز بناتا ہے۔اسے ہی عام کرنے اور امت کی دینی ودنیاوی تعلیم و تربیت دینے کے لئے رسول اللہ ﷺ کو یہ کام سونپا گیا۔اس کے مقابلہ میں سبھی علم ہیچ ہیں۔یا اس کی معرفت کے بغیردینی معرفت کا دعوی بے کار ہے۔مسلمان سے مطلوب یہی علم ہے۔ اگر وہ دین کے اس اہم مصدر سے ناواقف ہے تو پھر فخر کس بات پر؟ اس لئے ضرورت ہے کہ اسے کتاب اللہ اورعربیت کے صحیح ذوق رکھنے والے عالم ہی سے سیکھا جائے۔تاکہ قرآن فہمی ہو اور جذبہ خدمت قرآن بھی ماند نہ پڑے۔اس کورس کے موضوعات چار ہیں:

{يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْہِمْ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۝۰ۤ ۔۔۔} ( الجمعہ : ۲ ) وہ انہیں قرآن پڑھ سناتا ہے اور ان کا تزکیہ بھی کرتا ہے اور انہیں تعلیم کتاب وحکمت دیتا ہے ۔

Comments

Popular posts from this blog

حمود الرحمن کمیشن رپورٹ

تعارف ترميم حکومت  پاکستان  نے وزارتِ صدارتی امور کے نوٹیفیکشن نمبر ایس آر او(١) 71مورخہ 26 دسمبر1971کے ذریعے اس انکوائری کمیشن کو قائم کرتے ہوئے اس کے ذمہ یہ فرائض سونپے تھے کہ وہ ان حالات کی تحقیقات کرے، جن کے تحت کمانڈر، ایسٹرن کمانڈ اور ان کے زیر کمان پاکستان کی مسلح افواج نے دشمن کی فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈالے، بھارت اور  مغربی پاکستان  کی سرحدوں پر جنگ بندی کے احکامات صادر کیے گئے نیز جموں اور کشمیر کی سیز فائر لائن پر بھی جنگ بندی کا حکم دیاگیا پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ مجریہ1956ء کے تحت قائم ہونے والا یہ کمیشن درج ذیل افراد پر مشتمل تھا؛۔ 1) مسٹر جسٹس حمود الرحمٰن (ہلال پاکستان) چیف جسٹس، سپریم کورٹ آف پاکستان، بحیثیت صدر۔ 2) مسٹر جسٹس انور الحق، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بحیثیت رکن۔ 3) مسٹر جسٹس طفیل علی عبد الرحمن چیف جسٹس سندھ بلوچستان ہائیکورٹ بحیثیت رکن کمیشن کی سفارشات پر لیفٹنٹ جنرل الطاف قادر( ریٹائرڈ) کو بحیثیت ملٹری ایڈوائزر اور اسسٹنٹ رجسٹرار سپریم کورٹ آف پاکستان، مسٹر ایم اے لطیف کو بحیثیت سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ ٣) وزارت صدارتی امور کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیک

Pathar Ke Sipahi Part 12 Namwar Series M A Rahat

4shared Download BOX DOWNLOAD AND ONLINE READ MEDIAFIRE DOWNLOAD AND ONLINE READ

Rooh Ki Pyas Namwar 3 by M A RAHAT

4shared Download BOX DOWNLOAD AND ONLINE READ MEDIAFIRE DOWNLOAD AND ONLINE READ