پردہ
اپنی مقررہ حدود کے ساتھ ایک شرعی حکم اور دینی ہدایت ہے جس کی بنیادیں
کتاب و سنت ان کی فقہی تشریحات اور تعامل سلف میں قاءم ہیں اور وہ ان ہی
بنیادو ں پر ہر دور میں بلا انقطاع امت مرحومہ کا معمول رہتا آرہا ہے۔ وہ
کوءی فرضی یا اختراعی چیز نہیںجسے کسی فرد یا سوساءٹی نے ہنگامی مصالح کے
تحت تجیز کر لیا ہو اور اس کے رواج پذیر ہوجانے سے مسلمانوں کے ماحول میں
خواہ مخواہ شرعی حیثیت دیدی گءی ہو۔مگر ایک عرصہ سے یہ شرعی حکم افراط و
تفریط کا شکار ہو گیا ہے جس سے عوام میں اسکی شرعی حیثیت اور بنیادی حقیقت
مشتبہ ہو گءی ہے اور وہ مختلف شکوک و شبہات اور سوالات کی آماجگاہ بن کر رہ
گیا ہے۔ زیر نظر رسالہ میں مولف نے اسلام کے نظام عفت و عصمت کا حسین مرقع
پردہ کی ضرورت و اہمیت کا قرآن و حدیث سے ثبوت اور پردہ پر کیے جانیوالے
اشکالات کا بہترین حل پیش کیا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس رسالہ کو مولف
کے لیے توشہ آخرت اور عوام الناس کیلیے ذریعہ ہدایت بناءے ۔آمین
تعارف ترميم حکومت پاکستان نے وزارتِ صدارتی امور کے نوٹیفیکشن نمبر ایس آر او(١) 71مورخہ 26 دسمبر1971کے ذریعے اس انکوائری کمیشن کو قائم کرتے ہوئے اس کے ذمہ یہ فرائض سونپے تھے کہ وہ ان حالات کی تحقیقات کرے، جن کے تحت کمانڈر، ایسٹرن کمانڈ اور ان کے زیر کمان پاکستان کی مسلح افواج نے دشمن کی فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈالے، بھارت اور مغربی پاکستان کی سرحدوں پر جنگ بندی کے احکامات صادر کیے گئے نیز جموں اور کشمیر کی سیز فائر لائن پر بھی جنگ بندی کا حکم دیاگیا پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ مجریہ1956ء کے تحت قائم ہونے والا یہ کمیشن درج ذیل افراد پر مشتمل تھا؛۔ 1) مسٹر جسٹس حمود الرحمٰن (ہلال پاکستان) چیف جسٹس، سپریم کورٹ آف پاکستان، بحیثیت صدر۔ 2) مسٹر جسٹس انور الحق، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بحیثیت رکن۔ 3) مسٹر جسٹس طفیل علی عبد الرحمن چیف جسٹس سندھ بلوچستان ہائیکورٹ بحیثیت رکن کمیشن کی سفارشات پر لیفٹنٹ جنرل الطاف قادر( ریٹائرڈ) کو بحیثیت ملٹری ایڈوائزر اور اسسٹنٹ رجسٹرار سپریم کورٹ آف پاکستان، مسٹر ایم اے لطیف کو بحیثیت سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ ٣) وزارت صدارتی امور کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیک
Comments
Post a Comment