Skip to main content

Posts

Showing posts from November, 2014

حکایت

حضرت شیخ الاسلام امام غزالی نے احیاء العلوم میں ایک حاسد آدمی کی یہ حکایت فرمائی ہے کہ ایک شخص بادشاہ کے سامنے کھڑا ہوکر یہ کہا کرتا تھا کہ نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرو اور محسن کے احسان کا بدلہ دو کیوںکہ برائی کرنے والے کی برائی تمہاری طرف سے خود کفایت کرے گی۔ یہ شخص بادشاہ کے سامنے یہ نصیحت کیا کرتا تھا جس سے اس کی بڑی عزت تھی۔ اس کی عزت، عظمت اور مرتبہ کو دیکھ کر ایک شخص کو حسد پیدا ہوگیا۔ اس نے بادشاہ سے شکایت کی کہ یہ شخص حضور کے سامنے کھڑا ہوکر گندہ دہن بتاتا ہے۔ بادشاہ نے کہا اس کی تصدیق کیسے ہو؟ حاسد نے کہا جب وہ آپ کے پاس آئے تو آپ اسے اپنے قریب بلا لیجیے، جب وہ آپ کے بالکل قریب آجائے گا تو اپنی ناک بند کرلے گا، تاکہ آپ کے منہ کی بدبو نہ آنے پائے۔ بادشاہ نے کہا بہت اچھا، کل امتحان کریں گے۔ ادھر اس حاسد نے بادشاہ سے یہ کہا، ادھر اس نے جاکر اس ناصح و نیک آدمی کی دعوت کرکے ایسا کھانا کھلایا جس میں لہسن بہت سا تھا۔ یہ کھانا کھا کر فارغ ہی ہوا تھا کہ دربار کا وقت آگیا۔ بدستور سابق بادشاہ کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے وہی جملہ کہا جو کہا کرتا تھا۔ بادشاہ نے اس کو اپنے پاس بلانے کا

فرعونیوں پر عذاب

فرعون بڑا سرکش تھا۔ باوجود ربوبیت کے دعویٰ کے بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کراتا تھا اور بنی اسرائیل پر حد سے زیادہ ظلم کرتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے اُسے سمجھانے کے لیے موسیٰ علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا۔ لیکن اس نے ایمان لانے سے انکار کردیا اور باقاعدہ اُس سے مقابلہ کیا۔ مناظرہ کرایا۔ اُس نے معجزات طلب کیے۔ اتمامِ حجت کے لیے فرعون اور اس کی قوم کو ید بیضا اور عصا کے علاوہ اور بھی نشانیاں دکھائی گئیں اور وہ یہ نشانیاں تھیں (۱) سنین قحط سالیاں (۲) نقص ثمرات، پیداوار میں کمی (۳) طوفان سیلاب (۴) جراد ٹڈی (۵) قمل جوئیں (۶) ضفادع مینڈک (۷) دم خون۔ تفسیر معالم التنزیل اور تاریخ ابن الاثیر میں ہے کہ جب قوم فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اطاعت سے انکار کیا اور سارے معجزات کو جادو بتایا، قِسم قِسم کے ظلم و ستم بنی اسرائیل پر کرنے لگے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی قوم کے لیے جناب باری میں دُعا کی۔ حق تعالیٰ نے قومِ فرعون پر پانی کا عذاب نازل کیا۔ کالا ابر آیا اور سات دن تک برابر مینہ برستا رہا۔ قبطیوں کے گھروں میں پانی جمع ہوا، قومِ فرعون کے گھر پانی کے چشمے بنے۔ ہر مرد عورت ک

قرآن مجید کے چند مشہور نام

قرآن مجید کے متعدد نام ہیں جو اس کے مقام وشرف اور فضیلت کی گواہی دیتے ہیں۔ناموں کی یہ کثرت باہم اشتراک بھی رکھتی ہے اور امتیاز بھی۔امتیاز اس معنی میں کہ ہر نام مختصر ہے اور دوسرے مختصر نام کے مقابلے میں مخصوص معنی رکھتا ہے جو اپنے تمام مطالب اور غرض و غایت کی طرف اشارہ کردیتے ہیںجو عنوان بن جاتے ہیں۔مثلاً: قرآن کریم کا ایک نام ہُدًی ہے یعنی یہ کتاب ہدایت ہے اور ایک نام ذِکْر ہے یعنی اس میںنصیحت ہے۔ نصیحت ہوگی تو ہدایت نصیب ہوگی۔ یہ اشتراک بھی ہے اور امتیاز بھی۔مثلاً امام ابنؒ تیمیہ فرماتے ہیں: السَّیْف، الصَّارِم اور المُہَنَّد تلوار کو کہتے ہیں جو مشترک ہیں مگر اپنے مخصوص معنی کی وجہ سے ہر لفظ دوسرے سے جدا اور ممتاز بھی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نام ، رسول اللہ ﷺ کے نام اور کتاب اللہ کے نام بھی مشترک اور ممتاز ہیں۔(مجموع الفتاوی ۲۰؍۴۹۴) لوگوں کی عادت ہے کہ وہ جس چیز کو محبوب رکھتے ہیں اس کا ایک نام رکھنے کی بجائے پیار ومحبت سے اسے سینکڑوں ناموں سے پکارتے اور بیسیوں بار دہراتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس قوم کو جس چیز کی زیادہ ضرورت ہو اس کے لیے اس کے پاس بکثرت الفاظ ہوتے ہیں و

تعلیم قرآن

تعلیم: علم الصرف میںلفظ تعلیم ، تفعیل کے وزن پر ہے۔ جس کی خصوصیت میں تصییر(ہوجانا، بنانا) کا معنی ہوتا ہے۔ جیسے: وَتَّرَ القَوْسَ۔ اس نے کمان کو زرہ دار بنایا۔اسی طرح تعلیم کا معنی ہوگا کہ بتدریج مگر تسلسل کے ساتھ کسی کو علم کی روشنی سے منور کرنا۔ تاکہ وہ تاریکیوں میں نہ بھٹکے۔ عربی میں لفظ تعلیم میں علم دینے کے ساتھ دینی، اخلاقی اور عملی تربیت و صحیح راہنمائی کا پہلو بھی ہے۔اس لئے تعلیم القرآن کا مطلب کسی ناواقف کو بتدریج قرآنی علم سے آراستہ کرکے اسے عملی اور اخلاقی اعتبار سے صاحب قرآن بنانا۔ اسے ایسے علم سے مزین کرنا جو قرآن کے الفاظ وعبارات کو اور ان کے مفاہیم کو رسوخ سے پہچان پائے اور عالم ربانی کہلائے۔ظاہر ہے یہ تعلیم، قرآن کو ایک بار پڑھنے سے نہیں بلکہ بار بار پڑھنے اور غورو فکر سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کی اہمیت وضرورت : قرآن کریم کتاب ہدایت ہے۔ اس کے بے شمار ایسے پہلو ہیں جن کا جاننا ضروری ہے۔ اس کی اپنی لغت ہے ضرب الامثال ہیں،غریب، مشکل، مترادف الفاظ ہیں مثلاً: قلب، فؤاد اور صدر میں کیا فرق ہے۔، اور متباین کلمات ہیں، یَشْرِیْ، المَولٰی وغیرہ یا اضداد میں سے ہیںجیسے لفظ ظن او

قرآن کریم کی خصوصیات

کلام اللہ: قرآن میں صرف اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ کسی انسان، جن یافرشتے کا کلام اس میں شامل نہیں۔ اسے اللہ تعالیٰ نے خود ہی کلام اللہ یا آیات اللہ فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {۔۔ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللہِ} (التوبۃ:۶) ....تاکہ وہ کلام اللہ کو سن لے۔ {۔۔۔یَتْلُوْنَ آیَاتِ اللہِ}( آل عمران: ۱۱۳)  وہ اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں۔ غیر مخلوق: قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور کلام کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اس لئے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرح غیر مخلوق ہے۔گوہم اس صفت کی حقیقت نہیں جانتے اور نہ ہی اسے مخلوق کی طرح سمجھتے ہیں۔ بس اتنا جانتے ہیں کہ {لَيْسَ كَمِثْلِہٖ شَيْءٌ}۔ اس جیسا کوئی ہے ہی نہیں۔ دو فرقے اس بارے میں گمراہ ہوگئے۔ ایک قدریہ معتزلہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے ظاہری معنی کو چھوڑ کر تاویلیں کرتا ہے۔ تاویل سے صفات کی تخفیف وانکار لازم آتا ہے جو انتہائی کفر ہے۔ دوسرا فرقہ مشبہہ مجسمہ ہے وہ اس صفت کو مخلوق کے مشابہ بتاتا ہے یہ بھی پہلے سے کم گمراہ نہیں۔ مناسب یہی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی صفات قرآن کریم اور حدیث رسول میں آئی ہیں ان کے لفظی معنی معلوم ہونے کے بع

جھوٹ

جھوٹ کے معنی دروغ گوئی اور غلط بیانی کے ہیں۔ اور یہ نہایت ہی قبیح وصف ہے۔ جس میں یہ بُری صفت یعنی جھوٹ بولنے کی عادت پائی جاتی ہے وہ خدا اور انسانوں کے نزدیک بہت بُرا ہے اور اس کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔ کتاب و سنت میں جھوٹ کی بڑی مذمت آئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اِنَّ اللہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ کَاذِبٌ کَفَّارٌ۔ (زمر:۳) بے شک اللہ تعالیٰ اس کو راہ نہیں دکھاتا جو جھوٹا ہے، احسان نہیں مانتا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: کہ جھوٹ گناہ (فجور) کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ میں، اور جھوٹ بولتے بولتے آدمی خدا کے ہاں جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی، یا رسول اللہ ! جنت میں لے جانے والا کام کیا ہے، فرمایا سچ بولنا۔ جب بندہ سچ بولتا ہے تو نیکی کا کام کرتا ہے اور جو نیکی کا کام کرتا ہے وہ ایمان سے بھرپور ہوجاتا ہے اور جو ایمان سے بھرپور ہوا وہ جنت میں داخل ہوا۔ اس نے پھر پوچھا کہ یارسول اللہﷺ! دوزخ میں لے جانے والا کام کیا ہے۔ فرمایا جھوٹ بولنا، جب بندہ جھوٹ بولے گا تو گناہ کا کام کرے گا اور جب گناہ کے کام کرے گا تو ک

ایمان لانے سے پہلے کیا کریں؟؟؟

لقول اللّٰہ تعالٰی: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُوْلاً أَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ  ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کردیا کہ ’’اﷲ تعالیٰ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔(النحل : ۶۳)۔ قولہ :الطاغوت طغیان سے مشتق ہے، اس کے معنی حد سے تجاوز کرنے کے ہیں۔ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: الطاغوت الشیطان ’’طاغوت کا اطلاق شیطان پر ہوتا ہے‘‘۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اﷲ حسان بن قائد عبیسی عن عمر نقل کرتے ہیں کہ : ’’ جبت سے جادو اور طاغوت سے شیطان مراد ہے ‘‘۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اﷲ علیہ مزید فرماتے ہیں: ’’طاغوت کے معنی شیطان زیادہ صحیح ہے کیونکہ دور جاہلیت میں جتنا بھی شرو فساد تھا اس کا اصل مرکز و محور شیاطین ہی توتھے کیونکہ لوگ شیاطین سے مدد طلب کرتے تھے ،انہی کے ہاں سے فیصلے کرواتے،اور شیاطین ہی بتوں کی پوجا کاسبب بنے۔‘‘ علامہ ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی یہی مفہوم بیان فرمایا ہے ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ألطوا غیت کھان کانت تنزل علیھم الشیاطین  طاغوت کاہنوں کو کہتے ہیں ان کے پاس شیاطین مختل

رسول اکرمﷺ بحیثیت ایک معلم

آپ ﷺ معلم قرآن تھے۔یہی آپ ﷺ کا منصب تھاجو اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا اور اسے اپنا ایک احسان عظیم فرمایا:  {كَـمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ}۔  جیسا کہ ہم نے تم میںایک رسول بھیجا جو تم میں سے ہی ہے جو تم پر ہماری آیات کو تلاوت کرتا ہے ، تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور تمہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ کچھ سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے۔ اسی طرح  {اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ} (الرحمٰن:۱،۲) غور کریں توکتاب کے پہلے معلم الرحمن ہیں، پھر اسے لے کر آنے والے جبریل امین اور پھر جناب رسول اکرم ﷺ معلم ومربی ہیں۔ سورہ نحل کی آیت (۴۴) میں قرآن کریم کی وضاحت وبیان کو رسول اکرم ﷺ کی ذمہ داری قرار دیا گیا۔اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانیوں کا ذکر یوں فرمایا: {وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ} (النساء:۱۱۳)۔ اللہ نے آپ ﷺ کو وہ وہ تعلیم دی اور سکھادیا جسے آپ ﷺ پہلے نہیں جانتے تھے۔اور پھر آپﷺ کو اس کی تعلیم {عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْ