قرآن مجید کے متعدد نام ہیں جو اس کے مقام وشرف اور فضیلت کی گواہی دیتے ہیں۔ناموں کی یہ کثرت باہم اشتراک بھی رکھتی ہے اور امتیاز بھی۔امتیاز اس معنی میں کہ ہر نام مختصر ہے اور دوسرے مختصر نام کے مقابلے میں مخصوص معنی رکھتا ہے جو اپنے تمام مطالب اور غرض و غایت کی طرف اشارہ کردیتے ہیںجو عنوان بن جاتے ہیں۔مثلاً: قرآن کریم کا ایک نام ہُدًی ہے یعنی یہ کتاب ہدایت ہے اور ایک نام ذِکْر ہے یعنی اس میںنصیحت ہے۔ نصیحت ہوگی تو ہدایت نصیب ہوگی۔ یہ اشتراک بھی ہے اور امتیاز بھی۔مثلاً امام ابنؒ تیمیہ فرماتے ہیں:
السَّیْف، الصَّارِم اور المُہَنَّد تلوار کو کہتے ہیں جو مشترک ہیں مگر اپنے مخصوص معنی کی وجہ سے ہر لفظ دوسرے سے جدا اور ممتاز بھی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نام ، رسول اللہ ﷺ کے نام اور کتاب اللہ کے نام بھی مشترک اور ممتاز ہیں۔(مجموع الفتاوی ۲۰؍۴۹۴)
لوگوں کی عادت ہے کہ وہ جس چیز کو محبوب رکھتے ہیں اس کا ایک نام رکھنے کی بجائے پیار ومحبت سے اسے سینکڑوں ناموں سے پکارتے اور بیسیوں بار دہراتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس قوم کو جس چیز کی زیادہ ضرورت ہو اس کے لیے اس کے پاس بکثرت الفاظ ہوتے ہیں وہ اس کا بار بار نام لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس کثرت و تکرار سے قرآن کے نام لیے ہیںوہ اس کی محبت اور ہماری ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں۔ان ناموں کو قرآن مجید کے ساتھ کیا مناسبت ہے۔ اس کا بیان کرنابھی ضروری ہے۔ صرف معنی پر نظر ڈال کرہر شخص فیصلہ کرسکتا ہے کہ ان میں سے ہر نام قرآن مجید کی اعلی صفات، اس کے محاسن ،اس کی غرض وغایت کی طرف اشارہ کررہا ہے۔( ماخوذ از بصائر ذوی التمییز ۱؍۸۸، مقالات سلیمان جلد سوم)
یہ وصفی نام قرآن مجید کی عظمت، برکت، تاثیر اور جامعیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ علماء نے ان ناموں پر کتب لکھی ہیں۔ علامہ ابوالمعالی جو شَیذَلہ کے نام سے بھی معروف تھے ان کی رائے کے مطابق قرآن کے پچپن (۵۵) نام ایسے ہیں جو خود اس کی آیات کریمہ میں موجود ہیں۔ (البرہان از زرکشی ۱؍۲۷۳) ان ناموں میں چندمخصوص نام ایسے ہیں جو قرآن مجید کے سوا کسی اور کے لئے مستعمل نہیںہوتے ۔ یہ نام فرقان، مصحف ، الکتاب اور قرآن ہیں۔الکتاب اور فرقان، قرآن کے مشہور نام ہیں۔ ان سے زیادہ مصحف اور ان دونوں سے مشہورتر قرآن ہے۔
Œ القرآن: عربی زبان کے امام جاحظ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کانام "قرآن" رکھا ہے یہ ایسا نرالا اور بے مثال نام ہے جسے عربوں نے کبھی اپنے کلام کے مجموعوں کو یہ نام دیا اور نہ ہی کبھی دنیا میں کسی کتاب کا یہ نام رکھا گیا۔قرآن میں ارشاد ہے :
{شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۰ۚ} (البقرہ:۵ ۱۸) رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ یہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور جس میں ہدایت کی روشن نشانیاں اور فرقان موجود ہے۔
قرآن کا نام اللہ تعالیٰ نے ہی موسوم کیا ہے۔نیزاول روز سے یہ سپرد تحریر ہوا اور نماز کے علاوہ محافل ومجالس میں بھی پڑھا اور تلاوت کیا جانے لگا۔صرف لیبیا میں اس کے حفاظ کی تعداد اتنی ہے جو شاید یورپ میں تورات یا انجیل پڑھنے والوںکی نہ ہو۔
الفرقان: فرقان کا کیا معنی ہے ؟ اس کی وضاحت کے لئے یہ آیت پڑھنے کے قابل ہے۔
{اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللہِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ} [الأنفال : ۴۱] اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر، اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن اتاری جو دن حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن تھا۔
اس آیت میں جنگ کو یوم الفرقان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ جنگ ِ بدر نے حق و باطل اور کفر و اسلام کے درمیان صحیح فیصلہ کردیا تھا۔ مومن کون ہے اور منافق کون؟ یوم فرقان نے بتادیا۔قرآن کوفرقان کہنے کا بھی یہی مطلب ہے: حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب۔ فرقان مصدر ہے۔عربی زبان میں مصدر فُعْلاَن، اکثر اسم فاعل کے معنی دیتا ہے۔ جس سے یہ لفظ بھی مشتق ہیں: {فَالْفَارِقَاتِ فَرْقاً} (المرسلات) قسم ہے۔ان چیزوں کی جو حق و باطل میں فیصلہ کرنے والی ہیں۔ اس آیت میں فارق کے معنی: دلائل وبراہین کے ساتھ فیصلہ کن یا ممتاز کردینے والی کتاب۔
{يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللہَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا} [الانفال: ۲۹]ایمان والو! اگر اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے فرقان بنا دے گا۔
یہاں بھی فرقان، فارق کے معنی میں ہے جو اسم فاعل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ مسلمانو! اگر اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہیں قوتِ فیصلہ یا قوت ممیّزہ عطا کرے گا۔ اسی معنی میںفرقان کا لفظ قرآن مجید میں متعدد جگہ مستعمل بھی ہوا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِہٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا۱ۙ } (الفرقان: ۱) بہت با برکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کی تا کہ وہ جہان والوں کے لیے تنبیہ کرنے والا ہو۔
{وَاَنْزَلَ التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ۳ۙ مِنْ قَبْلُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ ۔۔}(آل عمران:۳۔۴) اور تورات اور انجیل کو اس سے پہلے لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا اور فرقان اتارا۔
یہی وجہ ہے کہ فرقان کا لفظ صرف تورات او رقرآن کے لئے استعمال ہوا ہے کیونکہ بنو اسرائیل کے لئے تورات میں قانون تھے۔ اور قرآن میں اس امت کے لئے۔ باقی صحیفے صرف روحانی او راخلاقی احکام پر مشتمل تھے۔ حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنا قانون کا کام ہوتا ہے۔ اس لیے فرقان کا لفظ انہی صحائف کو دیا گیا جو قانون پر مشتمل تھے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ فرقان نام اس لئے ہے کہ قرآن ، فرق فرق سے یعنی الگ الگ نازل ہوا ہے۔اس کا فرقہ یا فرق سے کوئی تعلق نہیں۔ جو ٹکڑے یا حصے کو کہتے ہیں اور جسے یہود تورات کے مختلف اوراق کے لیے استعمال کیا کرتے۔ قرآن مجید نے فرقہ کا لفظ ٹکڑے یا حصہ کے معنی میں استعمال کر دیا ہے۔
Ž مصحف: عرب دنیا میں قرآن کریم کو مصحف کہا جاتا ہے۔ اس کی دو وجہیں بتائی جاتی ہیں:
پہلی وجہ: سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے قرآن کریم کی تدوین کے بعد لوگوں سے فرمایا اس کے لیے کوئی مناسب نام تلاش کرو۔ چنانچہ کسی نے کہاکہ اس کا نام سفر رکھا جائے جو یہود کی مذہبی کتاب کا نام تھا۔یہودی اور عیسائی آج بھی تورات کے اجزاء کو أسفار کہتے ہیں۔ مگر یہ رائے ناپسند کی گئی۔
دوسری وجہ: ہجرت حبشہ کرنے والے صحابہؓ میں سیدنا ابن مسعودؓ یا سالم مولی ابی حذیفہؓ نے یہ رائے دی کہ اہل حبشہ اپنی مذہبی کتاب کو مصحف کہتے ہیں۔ یہ نام رکھ لیا جائے۔ بقول بعض یہ رائے بہت پسند کی گئی اور قرآن مجید کو مصحف کہا جانے لگا۔
مگر یہ دونوں واقعات درست نہیں۔ اس لئے کہ یہود کی مشابہت سے صحابہ بچے اور حبشہ کے عیسائیوں کی تقلید کر ڈالی؟
علماء کہتے ہیں کہ یہ خالص عربی لفظ ہے۔ عربی زبان میںصحیفہ چند اوراق کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جو کتاب کی شکل میں جمع کر دیا جائے ۔(لسان العرب ۱۲؍۸۸) اور مصحف اسم مفعول ہے۔یہ نام یوں متعارف ہوا کہ قرآن مجید عہدِ رسالت میں تحریری طور پر اجزاء اور اوراق میں تھا۔ خلافت صدیقی میں اسے جب یکجا کیا گیا تو واقعہ کے اعتبار سے اس کا نام مصحف ہی زیادہ موزوں تھا۔ آپﷺ کے عہد میںیہ نام اس لئے نہیںرکھا گیا کہ ابھی تو وہ نازل ہورہا تھا اس لئے نہ مصحف تھا، نہ مرتب تھا اور نہ ہی مرتب ہو سکتا تھا۔ وحی بھی جاری تھی اس لئے مصحف نام خلاف واقعہ ہوتا۔ ہاں قرآن اس وقت صحف (اوراق) میں ضرور تھا۔اس لئے قرآن نے اپنے آپ کو صحف کے نام سے بھی یاد کیا ہے۔
{كَلَّآ اِنَّہَا تَذْكِرَۃٌ۱۱ۚ فَمَنْ شَاۗءَ ذَكَرَہٗ۱۲ۘ فِيْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَۃٍ۱۳ۙ مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍؚ۱۴ۙ} (عبس : ۱۱۔۱۴) ہرگز نہیں! یہ نصیحت ہے جو چاہے یاد رکھے یہ نصیحت۔ ایسے صحف میں ہے، جو بزرگ، بلند اور پاک ہیں۔
اس لئے فقہی مسئلہ یہ بھی ہے کہ بیع مصحف کہنا جائز ہے مگر بیع قرآن کہنا ناجائز۔کیونکہ مصحف ایک بشری عمل ہے اور اس کی کارکردگی ہے جس سے کوئی اگر رزق کماتا ہے تو یہ کسب حلال ہے۔مگر قرآن نہیں۔اسی طرح قرآن عثمان، قرآن علی یا قرآن أُبیَ کہنا بھی درست نہیں ۔ہاں مصحف عثمان ، مصحف علی یا مصحف أُبی کہا جاسکتاہے۔
الکتاب: قرآن کا یہ چوتھا نام ہے جو اس لئے ہے کہ قرآن کریم صرف زبانی کلام نہیں بلکہ الفاظ وحروف کا لکھا ہوامجموعہ بھی ہے ۔ لوح محفوظ میں بھی مکتوب ہے۔اسی لئے لفظ قرآن میں تلاوت کا مفہوم ملتا ہے اور لفظ کتاب میں قلم سے لکھے ہوئے کا۔ دونوں اعتبار سے یہ نام اسم بامسمی ہے۔ قرآن کی حفاظت بھی انہی دونوں طریقوں سے ہوئی کہ یہ سینوں میں بھی محفوظ ہوااور سفینوں میں بھی ۔ اگر حافظ نہ ہوں تو لکھا ہوا مل جائے گا اور اگر لکھا ہوا نہ ملے تو حفاظ سے اس کا دفاع ہوگا۔اسی معنی میں فرمایا:
{ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ۰ۚۖۛ فِيْہِ۰ۚۛھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۲ۙ } (البقرہ :۲) یہ کتاب ہے جس میں کو ئی شک نہیں۔ متقیوں کے لئے باعث ہدایت ہے۔
مزیدصفاتی نام: قرآن مجید کے کچھ اوروصفی نام بھی ہیں جو جابجا اللہ تعالیٰ نے ذکر کئے ہیں ۔جن میں:
ذکر: قرآن کا ایک وصفی نام ہے۔ جس کا لغوی معنی: ذکر کرنا یابھولی ہوئی چیز کو یاد کرناہے۔قرآن مجید انسان کو زندگی کا بھولا ہو اسبق یاد دلاتا ہے۔ اس لئے یہ ذکر ہے۔اسے بار بار پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے اس لئے یہ ذکر ہے کیونکہ یہ ایک بار پڑھنے سے یاد نہیں رہتا بلکہ بہت بڑی بھول کا سبب بن سکتا ہے۔نیزگذشتہ اقوام کے انجام کی روشنی میں خیر خواہی اور حکمت پر مبنی نصائح ہیں تاکہ اللہ عزوجل کی رضا اور غضب کا فرق ملحوظ رہے۔
{وَھٰذَا ذِكْرٌ مُّبٰرَكٌ اَنْزَلْنٰہُ۰ۭ اَفَاَنْتُمْ لَہٗ مُنْكِرُوْنَ۵۰ۧ }(الانبیاء :۵۰) اور یہ مبار ک ذکر ہے جسے ہم نے نازل کیا۔ کیا تم اس کے منکر بنتے ہو؟
ذکر بمعنی شرف کے بھی ہے۔ قرآن مجید میں ہے وَإِنَّۂ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ یہ قرآن آپ کے لئے اور آپ کی قوم قریش کے لئے باعث شرف بھی ہے۔یہی شرف ہی بہت ہے کہ جس نے اسے مانا اس کا ذکر خیر اس میں ہوگیا اور جس نے مان کر نہ دیا اس کا ذکر شربھی کردیا۔
‘تنزیل: قرآن کریم کا ایک نام تنزیل بھی ہے جو بتدریج نازل ہونے کو کہتے ہیں۔ اس لئے علماء تفسیر قرآن کی بجائے تنزیل کالفظ زیادہ استعمال کرتے ہیں۔
{وَاِنَّہٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۱۹۲ۭ }(الشعراء :۱۹۲) او ر بے شک یہ سب جہانوں کے پرور دگار کا نازل کردہ ہے۔
’حدیث:قرآن کے لئے اللہ تعالیٰ نے لفظحدیث استعمال کیا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی ہم انسانوں سے خیر خواہی پر مبنی گفتگو ہے۔جس میں عقائد کی درستگی اور عمل صحیح کی اٹھاں کی دعوت ہے۔
{اَللہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ} (الزمر:۲۳) اللہ نے بہترین بات اتاری۔
اسیھدی و بشریٰ بھی کہا گیا ہے۔مراد یہ کہ جو اسے کتاب ہدایت سمجھے وہ اپنی مراد پاکر خوشخبری کا مستحق بنتا ہے ورنہ بدبختی کا۔
{طٰسۗ۰ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ۱ۙ ہُدًى وَّبُشْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ۲ۙ}(النمل :۱۔۲) طٰس، یہ قرآن مجید کی اور کتاب مبین کی آیات ہیں۔ مومنوں کے لئے باعث ہدایت و خوشخبری ہیں۔
“نور: اس مقدس کتاب کا ایک یہ وصف بھی ہے۔ کتاب منیر بھی اسے فرمایاجو تاریکی میں چراغ کا کام دیتی ہے۔ اسی طرح بصارت کو بصیرت کی نعمت بھی یہ کتاب عطا کرتی ہے۔ ارشادِ باری ہے۔
{وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ نُوْرًا مُّبِيْنًا۱۷۴ }(النساء : ۱۷۴) اور ہم نے تمہاری طرف نور مبین نازل کیا ہے۔
”موعظۃ: اس صفت سے یوں لگتا ہے جیسے قرآن مجید ہمارے حالات سے بخوبی واقف ہے اور حالات و واقعات کو جس پیرائے میں بیان کرتا ہے وہ ہم پر ہی منطبق ہوتے ہیں۔ یوں اس کی نصیحت دل پر اثر کرتی ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے:
{يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ۰ۥۙ وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۵۷ } (یونس:۵۷) لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نصیحت آچکی ہے اور سینوں میں جو تکالیف اوربیماریاں ہیں ان کیلئے شفا بھی اور اہل ایمان کے لئے رحمت بھی۔
موعظۃ یہ بھی کہ دنیا و آخرت میں کامیابی کے حصول کیلئے توازن بہت ضروری ہے ورنہ انسان بالکل صوفی و تارک الدنیا بن جائے یا بالکل دنیادار ۔ شفاء بھی ہے کہ دل میں بسے آبائی، معاشرتی اور رسمی خیالات وخرافات کو جڑ سے اکھاڑ کر اچھے اور درست عقائد اور اعمال کی طرف قرآن راہنمائی کرتا ہے اورجو ضرررساں ہیں ان سے بچاتا ہے۔
•مجید: بڑی شان والا، وہ اس طرح کہ یہ ساتویں آسمان کے اوپرموجود لوح محفوظ سے آسمان دنیا میں اترا، پھر جبریل امین u اسے لے کر دنیا کے سب سے بڑے ہادی وراہنما کے قلب اطہر پر ، رمضان المبارک کی شب قدر میں ، دنیا کے مرکز مکہ مکرمہ میں ، اس خوش قسمت امت کی راہنمائی کے لئے اتارنے کا آغاز کرگئے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{بَلْ ہُوَ قُرْآنٌ مَّجِیْدٌ} (البروج:۲۱) نہیں! بلکہ وہ قرآن ہے بڑی شان والا۔
اللہ تعالیٰ نے اسے روح بھی کہا جس سے واقعی قلبی وروحانی حیات ملتی ہے:
{وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا۰ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ۔۔۔۔۔} (الشوری: ۵۲) اسی طرح ہم نے آپ ﷺ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا، آپ ﷺ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا؟
اسی طرح قرآن مجید کو کتاب مبارک بابرکت کتاب، الکتاب المبین واضح وظاہر کرنے والی کتاب، الکتاب الحکیم دانائی والی محکم کتاب جو حاکم بھی ہے اور کتاب عزیز پیاری کتاب بھی کہا گیا ہے۔ دیگر صفات مثلاً بیان، العلم، القصص، الحق، وغیرہ۔بھی ہیں جو کم و بیش ایک سو چالیس مقامات میں بیان ہوئی ہیں۔
السَّیْف، الصَّارِم اور المُہَنَّد تلوار کو کہتے ہیں جو مشترک ہیں مگر اپنے مخصوص معنی کی وجہ سے ہر لفظ دوسرے سے جدا اور ممتاز بھی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نام ، رسول اللہ ﷺ کے نام اور کتاب اللہ کے نام بھی مشترک اور ممتاز ہیں۔(مجموع الفتاوی ۲۰؍۴۹۴)
لوگوں کی عادت ہے کہ وہ جس چیز کو محبوب رکھتے ہیں اس کا ایک نام رکھنے کی بجائے پیار ومحبت سے اسے سینکڑوں ناموں سے پکارتے اور بیسیوں بار دہراتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس قوم کو جس چیز کی زیادہ ضرورت ہو اس کے لیے اس کے پاس بکثرت الفاظ ہوتے ہیں وہ اس کا بار بار نام لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس کثرت و تکرار سے قرآن کے نام لیے ہیںوہ اس کی محبت اور ہماری ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں۔ان ناموں کو قرآن مجید کے ساتھ کیا مناسبت ہے۔ اس کا بیان کرنابھی ضروری ہے۔ صرف معنی پر نظر ڈال کرہر شخص فیصلہ کرسکتا ہے کہ ان میں سے ہر نام قرآن مجید کی اعلی صفات، اس کے محاسن ،اس کی غرض وغایت کی طرف اشارہ کررہا ہے۔( ماخوذ از بصائر ذوی التمییز ۱؍۸۸، مقالات سلیمان جلد سوم)
یہ وصفی نام قرآن مجید کی عظمت، برکت، تاثیر اور جامعیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ علماء نے ان ناموں پر کتب لکھی ہیں۔ علامہ ابوالمعالی جو شَیذَلہ کے نام سے بھی معروف تھے ان کی رائے کے مطابق قرآن کے پچپن (۵۵) نام ایسے ہیں جو خود اس کی آیات کریمہ میں موجود ہیں۔ (البرہان از زرکشی ۱؍۲۷۳) ان ناموں میں چندمخصوص نام ایسے ہیں جو قرآن مجید کے سوا کسی اور کے لئے مستعمل نہیںہوتے ۔ یہ نام فرقان، مصحف ، الکتاب اور قرآن ہیں۔الکتاب اور فرقان، قرآن کے مشہور نام ہیں۔ ان سے زیادہ مصحف اور ان دونوں سے مشہورتر قرآن ہے۔
Œ القرآن: عربی زبان کے امام جاحظ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کانام "قرآن" رکھا ہے یہ ایسا نرالا اور بے مثال نام ہے جسے عربوں نے کبھی اپنے کلام کے مجموعوں کو یہ نام دیا اور نہ ہی کبھی دنیا میں کسی کتاب کا یہ نام رکھا گیا۔قرآن میں ارشاد ہے :
{شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۰ۚ} (البقرہ:۵ ۱۸) رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ یہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور جس میں ہدایت کی روشن نشانیاں اور فرقان موجود ہے۔
قرآن کا نام اللہ تعالیٰ نے ہی موسوم کیا ہے۔نیزاول روز سے یہ سپرد تحریر ہوا اور نماز کے علاوہ محافل ومجالس میں بھی پڑھا اور تلاوت کیا جانے لگا۔صرف لیبیا میں اس کے حفاظ کی تعداد اتنی ہے جو شاید یورپ میں تورات یا انجیل پڑھنے والوںکی نہ ہو۔
الفرقان: فرقان کا کیا معنی ہے ؟ اس کی وضاحت کے لئے یہ آیت پڑھنے کے قابل ہے۔
{اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللہِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ} [الأنفال : ۴۱] اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر، اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن اتاری جو دن حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن تھا۔
اس آیت میں جنگ کو یوم الفرقان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ جنگ ِ بدر نے حق و باطل اور کفر و اسلام کے درمیان صحیح فیصلہ کردیا تھا۔ مومن کون ہے اور منافق کون؟ یوم فرقان نے بتادیا۔قرآن کوفرقان کہنے کا بھی یہی مطلب ہے: حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب۔ فرقان مصدر ہے۔عربی زبان میں مصدر فُعْلاَن، اکثر اسم فاعل کے معنی دیتا ہے۔ جس سے یہ لفظ بھی مشتق ہیں: {فَالْفَارِقَاتِ فَرْقاً} (المرسلات) قسم ہے۔ان چیزوں کی جو حق و باطل میں فیصلہ کرنے والی ہیں۔ اس آیت میں فارق کے معنی: دلائل وبراہین کے ساتھ فیصلہ کن یا ممتاز کردینے والی کتاب۔
{يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللہَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا} [الانفال: ۲۹]ایمان والو! اگر اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے فرقان بنا دے گا۔
یہاں بھی فرقان، فارق کے معنی میں ہے جو اسم فاعل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ مسلمانو! اگر اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہیں قوتِ فیصلہ یا قوت ممیّزہ عطا کرے گا۔ اسی معنی میںفرقان کا لفظ قرآن مجید میں متعدد جگہ مستعمل بھی ہوا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِہٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا۱ۙ } (الفرقان: ۱) بہت با برکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کی تا کہ وہ جہان والوں کے لیے تنبیہ کرنے والا ہو۔
{وَاَنْزَلَ التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ۳ۙ مِنْ قَبْلُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ ۔۔}(آل عمران:۳۔۴) اور تورات اور انجیل کو اس سے پہلے لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا اور فرقان اتارا۔
یہی وجہ ہے کہ فرقان کا لفظ صرف تورات او رقرآن کے لئے استعمال ہوا ہے کیونکہ بنو اسرائیل کے لئے تورات میں قانون تھے۔ اور قرآن میں اس امت کے لئے۔ باقی صحیفے صرف روحانی او راخلاقی احکام پر مشتمل تھے۔ حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنا قانون کا کام ہوتا ہے۔ اس لیے فرقان کا لفظ انہی صحائف کو دیا گیا جو قانون پر مشتمل تھے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ فرقان نام اس لئے ہے کہ قرآن ، فرق فرق سے یعنی الگ الگ نازل ہوا ہے۔اس کا فرقہ یا فرق سے کوئی تعلق نہیں۔ جو ٹکڑے یا حصے کو کہتے ہیں اور جسے یہود تورات کے مختلف اوراق کے لیے استعمال کیا کرتے۔ قرآن مجید نے فرقہ کا لفظ ٹکڑے یا حصہ کے معنی میں استعمال کر دیا ہے۔
Ž مصحف: عرب دنیا میں قرآن کریم کو مصحف کہا جاتا ہے۔ اس کی دو وجہیں بتائی جاتی ہیں:
پہلی وجہ: سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے قرآن کریم کی تدوین کے بعد لوگوں سے فرمایا اس کے لیے کوئی مناسب نام تلاش کرو۔ چنانچہ کسی نے کہاکہ اس کا نام سفر رکھا جائے جو یہود کی مذہبی کتاب کا نام تھا۔یہودی اور عیسائی آج بھی تورات کے اجزاء کو أسفار کہتے ہیں۔ مگر یہ رائے ناپسند کی گئی۔
دوسری وجہ: ہجرت حبشہ کرنے والے صحابہؓ میں سیدنا ابن مسعودؓ یا سالم مولی ابی حذیفہؓ نے یہ رائے دی کہ اہل حبشہ اپنی مذہبی کتاب کو مصحف کہتے ہیں۔ یہ نام رکھ لیا جائے۔ بقول بعض یہ رائے بہت پسند کی گئی اور قرآن مجید کو مصحف کہا جانے لگا۔
مگر یہ دونوں واقعات درست نہیں۔ اس لئے کہ یہود کی مشابہت سے صحابہ بچے اور حبشہ کے عیسائیوں کی تقلید کر ڈالی؟
علماء کہتے ہیں کہ یہ خالص عربی لفظ ہے۔ عربی زبان میںصحیفہ چند اوراق کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جو کتاب کی شکل میں جمع کر دیا جائے ۔(لسان العرب ۱۲؍۸۸) اور مصحف اسم مفعول ہے۔یہ نام یوں متعارف ہوا کہ قرآن مجید عہدِ رسالت میں تحریری طور پر اجزاء اور اوراق میں تھا۔ خلافت صدیقی میں اسے جب یکجا کیا گیا تو واقعہ کے اعتبار سے اس کا نام مصحف ہی زیادہ موزوں تھا۔ آپﷺ کے عہد میںیہ نام اس لئے نہیںرکھا گیا کہ ابھی تو وہ نازل ہورہا تھا اس لئے نہ مصحف تھا، نہ مرتب تھا اور نہ ہی مرتب ہو سکتا تھا۔ وحی بھی جاری تھی اس لئے مصحف نام خلاف واقعہ ہوتا۔ ہاں قرآن اس وقت صحف (اوراق) میں ضرور تھا۔اس لئے قرآن نے اپنے آپ کو صحف کے نام سے بھی یاد کیا ہے۔
{كَلَّآ اِنَّہَا تَذْكِرَۃٌ۱۱ۚ فَمَنْ شَاۗءَ ذَكَرَہٗ۱۲ۘ فِيْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَۃٍ۱۳ۙ مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍؚ۱۴ۙ} (عبس : ۱۱۔۱۴) ہرگز نہیں! یہ نصیحت ہے جو چاہے یاد رکھے یہ نصیحت۔ ایسے صحف میں ہے، جو بزرگ، بلند اور پاک ہیں۔
اس لئے فقہی مسئلہ یہ بھی ہے کہ بیع مصحف کہنا جائز ہے مگر بیع قرآن کہنا ناجائز۔کیونکہ مصحف ایک بشری عمل ہے اور اس کی کارکردگی ہے جس سے کوئی اگر رزق کماتا ہے تو یہ کسب حلال ہے۔مگر قرآن نہیں۔اسی طرح قرآن عثمان، قرآن علی یا قرآن أُبیَ کہنا بھی درست نہیں ۔ہاں مصحف عثمان ، مصحف علی یا مصحف أُبی کہا جاسکتاہے۔
الکتاب: قرآن کا یہ چوتھا نام ہے جو اس لئے ہے کہ قرآن کریم صرف زبانی کلام نہیں بلکہ الفاظ وحروف کا لکھا ہوامجموعہ بھی ہے ۔ لوح محفوظ میں بھی مکتوب ہے۔اسی لئے لفظ قرآن میں تلاوت کا مفہوم ملتا ہے اور لفظ کتاب میں قلم سے لکھے ہوئے کا۔ دونوں اعتبار سے یہ نام اسم بامسمی ہے۔ قرآن کی حفاظت بھی انہی دونوں طریقوں سے ہوئی کہ یہ سینوں میں بھی محفوظ ہوااور سفینوں میں بھی ۔ اگر حافظ نہ ہوں تو لکھا ہوا مل جائے گا اور اگر لکھا ہوا نہ ملے تو حفاظ سے اس کا دفاع ہوگا۔اسی معنی میں فرمایا:
{ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ۰ۚۖۛ فِيْہِ۰ۚۛھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۲ۙ } (البقرہ :۲) یہ کتاب ہے جس میں کو ئی شک نہیں۔ متقیوں کے لئے باعث ہدایت ہے۔
مزیدصفاتی نام: قرآن مجید کے کچھ اوروصفی نام بھی ہیں جو جابجا اللہ تعالیٰ نے ذکر کئے ہیں ۔جن میں:
ذکر: قرآن کا ایک وصفی نام ہے۔ جس کا لغوی معنی: ذکر کرنا یابھولی ہوئی چیز کو یاد کرناہے۔قرآن مجید انسان کو زندگی کا بھولا ہو اسبق یاد دلاتا ہے۔ اس لئے یہ ذکر ہے۔اسے بار بار پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے اس لئے یہ ذکر ہے کیونکہ یہ ایک بار پڑھنے سے یاد نہیں رہتا بلکہ بہت بڑی بھول کا سبب بن سکتا ہے۔نیزگذشتہ اقوام کے انجام کی روشنی میں خیر خواہی اور حکمت پر مبنی نصائح ہیں تاکہ اللہ عزوجل کی رضا اور غضب کا فرق ملحوظ رہے۔
{وَھٰذَا ذِكْرٌ مُّبٰرَكٌ اَنْزَلْنٰہُ۰ۭ اَفَاَنْتُمْ لَہٗ مُنْكِرُوْنَ۵۰ۧ }(الانبیاء :۵۰) اور یہ مبار ک ذکر ہے جسے ہم نے نازل کیا۔ کیا تم اس کے منکر بنتے ہو؟
ذکر بمعنی شرف کے بھی ہے۔ قرآن مجید میں ہے وَإِنَّۂ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ یہ قرآن آپ کے لئے اور آپ کی قوم قریش کے لئے باعث شرف بھی ہے۔یہی شرف ہی بہت ہے کہ جس نے اسے مانا اس کا ذکر خیر اس میں ہوگیا اور جس نے مان کر نہ دیا اس کا ذکر شربھی کردیا۔
‘تنزیل: قرآن کریم کا ایک نام تنزیل بھی ہے جو بتدریج نازل ہونے کو کہتے ہیں۔ اس لئے علماء تفسیر قرآن کی بجائے تنزیل کالفظ زیادہ استعمال کرتے ہیں۔
{وَاِنَّہٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۱۹۲ۭ }(الشعراء :۱۹۲) او ر بے شک یہ سب جہانوں کے پرور دگار کا نازل کردہ ہے۔
’حدیث:قرآن کے لئے اللہ تعالیٰ نے لفظحدیث استعمال کیا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی ہم انسانوں سے خیر خواہی پر مبنی گفتگو ہے۔جس میں عقائد کی درستگی اور عمل صحیح کی اٹھاں کی دعوت ہے۔
{اَللہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ} (الزمر:۲۳) اللہ نے بہترین بات اتاری۔
اسیھدی و بشریٰ بھی کہا گیا ہے۔مراد یہ کہ جو اسے کتاب ہدایت سمجھے وہ اپنی مراد پاکر خوشخبری کا مستحق بنتا ہے ورنہ بدبختی کا۔
{طٰسۗ۰ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَكِتَابٍ مُّبِيْنٍ۱ۙ ہُدًى وَّبُشْرٰي لِلْمُؤْمِنِيْنَ۲ۙ}(النمل :۱۔۲) طٰس، یہ قرآن مجید کی اور کتاب مبین کی آیات ہیں۔ مومنوں کے لئے باعث ہدایت و خوشخبری ہیں۔
“نور: اس مقدس کتاب کا ایک یہ وصف بھی ہے۔ کتاب منیر بھی اسے فرمایاجو تاریکی میں چراغ کا کام دیتی ہے۔ اسی طرح بصارت کو بصیرت کی نعمت بھی یہ کتاب عطا کرتی ہے۔ ارشادِ باری ہے۔
{وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ نُوْرًا مُّبِيْنًا۱۷۴ }(النساء : ۱۷۴) اور ہم نے تمہاری طرف نور مبین نازل کیا ہے۔
”موعظۃ: اس صفت سے یوں لگتا ہے جیسے قرآن مجید ہمارے حالات سے بخوبی واقف ہے اور حالات و واقعات کو جس پیرائے میں بیان کرتا ہے وہ ہم پر ہی منطبق ہوتے ہیں۔ یوں اس کی نصیحت دل پر اثر کرتی ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے:
{يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ۰ۥۙ وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۵۷ } (یونس:۵۷) لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نصیحت آچکی ہے اور سینوں میں جو تکالیف اوربیماریاں ہیں ان کیلئے شفا بھی اور اہل ایمان کے لئے رحمت بھی۔
موعظۃ یہ بھی کہ دنیا و آخرت میں کامیابی کے حصول کیلئے توازن بہت ضروری ہے ورنہ انسان بالکل صوفی و تارک الدنیا بن جائے یا بالکل دنیادار ۔ شفاء بھی ہے کہ دل میں بسے آبائی، معاشرتی اور رسمی خیالات وخرافات کو جڑ سے اکھاڑ کر اچھے اور درست عقائد اور اعمال کی طرف قرآن راہنمائی کرتا ہے اورجو ضرررساں ہیں ان سے بچاتا ہے۔
•مجید: بڑی شان والا، وہ اس طرح کہ یہ ساتویں آسمان کے اوپرموجود لوح محفوظ سے آسمان دنیا میں اترا، پھر جبریل امین u اسے لے کر دنیا کے سب سے بڑے ہادی وراہنما کے قلب اطہر پر ، رمضان المبارک کی شب قدر میں ، دنیا کے مرکز مکہ مکرمہ میں ، اس خوش قسمت امت کی راہنمائی کے لئے اتارنے کا آغاز کرگئے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{بَلْ ہُوَ قُرْآنٌ مَّجِیْدٌ} (البروج:۲۱) نہیں! بلکہ وہ قرآن ہے بڑی شان والا۔
اللہ تعالیٰ نے اسے روح بھی کہا جس سے واقعی قلبی وروحانی حیات ملتی ہے:
{وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا۰ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ۔۔۔۔۔} (الشوری: ۵۲) اسی طرح ہم نے آپ ﷺ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا، آپ ﷺ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا؟
اسی طرح قرآن مجید کو کتاب مبارک بابرکت کتاب، الکتاب المبین واضح وظاہر کرنے والی کتاب، الکتاب الحکیم دانائی والی محکم کتاب جو حاکم بھی ہے اور کتاب عزیز پیاری کتاب بھی کہا گیا ہے۔ دیگر صفات مثلاً بیان، العلم، القصص، الحق، وغیرہ۔بھی ہیں جو کم و بیش ایک سو چالیس مقامات میں بیان ہوئی ہیں۔
Comments
Post a Comment