Skip to main content

رسول اکرمﷺ بحیثیت ایک معلم



آپ ﷺ معلم قرآن تھے۔یہی آپ ﷺ کا منصب تھاجو اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا اور اسے اپنا ایک احسان عظیم فرمایا: 
{كَـمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ}۔ جیسا کہ ہم نے تم میںایک رسول بھیجا جو تم میں سے ہی ہے جو تم پر ہماری آیات کو تلاوت کرتا ہے ، تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور تمہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ کچھ سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے۔
اسی طرح 
{اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ} (الرحمٰن:۱،۲) غور کریں توکتاب کے پہلے معلم الرحمن ہیں، پھر اسے لے کر آنے والے جبریل امین اور پھر جناب رسول اکرم ﷺ معلم ومربی ہیں۔ سورہ نحل کی آیت (۴۴) میں قرآن کریم کی وضاحت وبیان کو رسول اکرم ﷺ کی ذمہ داری قرار دیا گیا۔اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانیوں کا ذکر یوں فرمایا: {وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ} (النساء:۱۱۳)۔ اللہ نے آپ ﷺ کو وہ وہ تعلیم دی اور سکھادیا جسے آپ ﷺ پہلے نہیں جانتے تھے۔اور پھر آپﷺ کو اس کی تعلیم {عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی} (النجم:۵) بہت طاقتور فرشتے جبریل امین نے دی ۔
یہی آپ ﷺ کا منصب تھاجس کی دعا سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی۔آپ خود فرمایا کرتے:

أَنَا دَعْوَۃُ إبْرَاہِیْمَ وَبُشْرٰی عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیہِمَا السَلَامُ۔ میں اپنے بزرگ سیدنا ابراہیم u کی دعا اور سیدنا عیسی بن مریم i کی بشارت ہوں(مسند احمد:۱۴۵۱۵)۔
٭…آپ ﷺ نے ایک طرف پورے قرآن مجید کی تلاوت صحابہ کرام کے سامنے کی تو دوسری طرف ان کے سامنے قرآن مجید کے مطالب ومعانی بھی بیان کئے ۔ چنانچہ تعلیم قرآن ہی کے دوران آپ ﷺ نے اَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ کا معنی ومفہوم واضح کیا اور حج البیت کی تفاصیل بیان کیں۔اسی تعلیم نے اٰتُوا الزَّكٰوۃَ کا معنی متعین کیا اور اسی نے صوم رمضان کی اہمیت کو اجاگر کیا۔روزمرہ کی زندگی اور معاملات میں آپ ﷺ چلتے پھر تے معلم تھے۔کیونکہ آپ ﷺ کا ہر عمل خواہ وہ گھر کی چار دیواری میں ہو یا گھر سے باہر قرآن کریم کی تعلیم کے عین مطابق تھا۔
٭…آپ ﷺ ایک کامیاب معلم تھے۔ کیاعجب تعلیمات تھیں۔عبادات، اخلاقیات ، معاملات ، معاشرت، تجارت، غزوات، دعوت دین کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں آپ ﷺ کی دی ہوئی تعلیم ایک راہنما اصول نہ ہو۔ کتب حدیث میں علماء محدثین کی ان کاوشوںکو بھی بغور دیکھا جاسکتا ہے جو انہوں نے احادیث رسول کو پیش کرنے سے قبل عنوانات کی صورت میں فہرست سازی کی ہے۔
٭… آپ ﷺ نے خود صحابہ کرام کوقرآنی مطالب کی بتدریج تعلیم دی جو ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔دار ارقم ہو یا اصحاب صفہ ہر نیا آنے والا حلقہ رسول میں بیٹھتا ، قرآن مجید کی عبارت کو، اس کے معنی ومفہوم کو قراءت سمیت سیکھتا اور پھر واپس جاکر دوسروں کو سکھاتا۔ ابتدائی دور میں تعلیم قرآن کے لئے خبابؓ بن الأرت اور مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہما مثلاً اس کی ایک مثال ہیں۔صحابہ کا اپنا کہنا ہے کہ جب تک ہم دس آیتیںمعنی ومفہوم کے علاوہ کب ، کہاں اور کیوں اتریں سیکھ نہ لیتے ہم اگلی آیت نہیں پڑھتے تھے۔یہ تعلیم بہت سادہ اوراس دور کے حالات کے عین مطابق تھی۔ اس تعلیم میں قرآن مجید کی تلاوت غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی جسے نہ صرف مسلمان بلکہ غیرمسلم بھی سن کر متأثر ہوئے بغیر نہ رہتے۔ اس لئے لوگ ، قرآن کی آیات والفا ظ کو سنتے جاتے اور اس کے معنی ومفہوم کو قلب ودماغ میں اتارتے جاتے۔صحابہ اپنے محاورات کی روشنی میں اسے سمجھ لیتے۔متشابہات میں وہ پڑتے نہ تھے۔ علم الٰہی جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بخشا ہوتا اس کی روشنی میں آپ ﷺ صحابہ کو تعلیم دیتے۔
٭…آپ ﷺ کی زندگی اسی تعلیم کی عکاس تھی۔اسی کا رنگ تھا جس میں رنگی ہوئی تھی۔جس نے اپنی سرگرمیوںکو بھلائی کے لئے تیز تر کردیا تھا۔چلتا پھرتا ایک متحرک ادارہ آپ ﷺ بن گئے۔جس کے فرد پر اور اس کے محسوسات پر گہرے اثرات تھے۔ مشرکوں کا محاذ ہے۔ رسم ورواج کے بوجھ ہیں۔اخلاقی دیوالیہ پن ہے۔ زندگی کا ہر شعبہ تلپٹ ہوچکا ہے۔بیمار دل بیمار سوچیں عام ہیں۔عبادات ہیں کہ خرافات، انسانی تہذیب ہے کہ درندگی۔یہ سب ماحول تھا جس کی تہہ میں کئی اورالجھنیں تھیں۔راہنما راہزن تھے۔ عباپوش سیاہ پوش تھے۔ قبائیں اپنی حرص وآز کی گواہ تھیں۔اور مذہب اپنی خرافات سمیت غیر محترم تھا۔ معلم قرآن ہادی بن کر اٹھے۔ خیر کی دعوت دی۔ امر معروف اور نہی منکر حکمت وحسن وعظ سے شروع کیا۔ اپنی ذات کو نہیں بلکہ کلام رب کو زیادہ نمایاں کیا۔اس کے فہم پر زور دیا۔انہیں سنوارا۔عمل وعقیدہ کی نوک پلک درست کی۔یوںخیر کے چاہنے والے اردگرد اکٹھا ہوتے گئے اور پھر ان کی صلاحیتوں کو استعمال کیا۔انہیں ذمہ داری دی۔اور بھرپور دی۔ جنہوں نے اس کا حق بھی ادا کیا۔ یہی تھا معلم قرآن کا کردار اور ذمہ داری جس نے رات دن ایک کرکے تیئیس سال کے عرصہ میں امت کو وہ افراد دئے جو شاید کوئی معلم تیار کرسکے۔
٭…آپ ﷺ نے تعلیم قرآن اس طرح دی کہ ہر شخص اس کے ایک ایک لفظ کا صحیح اور حقیقی ادراک کرنے لگا۔کوئی انہونی باتیں نہ آپ نے کیں اور نہ ہی قرآن کریم کی کسی آیت ولفظ کے معنی ومفہوم کو آپ نے چھپایا۔اور نہ ہی دور کی کوڑی لائے۔ فلسفیانہ رنگ تو مشرکوں میں تھا جو ہر بات ، عمل اور معاملہ میں ظاہر وباطن کے قائل تھے۔صحابہ کرام قرآن کریم جب سمجھتے توحقائق کھلتے تو سینہ بھی کھلتا۔اور رب کی عظمت کے آگے ہر شخص جھکنے پر مجبور ہوتا۔سب سے آس لگانے والا صرف ایک اللہ کا ہوجاتا۔یہی وہ تعلیم تھی جو صحابہ رسول نے بھی دی۔

Comments

Popular posts from this blog

Yusufzai (Pashtun tribe)

The  Yūsufzai  (also  Youssofzay ,  Yousefzai ,  Yousafzai ,  Esapzey ,  Yousufi , or  Yūsufi ) (Pashto:  يوسفزی ,Persian and Urdu:  یوسف زئی ) is one of the largest Pashtun (Afghans) tribes. The majority of the Yusufzai tribe reside in parts of Western Afghanistan, Khyber Pakhtunkhwa and Provincially Administered Tribal Areas near the Afghan-Pakistan border. They are the predominant population in the districts of Konar, Ningarhar, Mardan District, Dir, Swat,Malakand, Swabi, Buner, Shangla, Haripur District [Khalabat Town Ship and Tarbela] and in Mansehra and Battagram. There is also a Yusufzai clan of Dehwar tribe in the Mastung district of Balochistan who speak Persian with some mixture of Birahvi words. The descendants of Yusuf inhabit Konar, Jalalabad, Swat, Upper Dir, Lower Dir, Malakand Swabi and Mardan...

عشرة ذوالحجہ

 *✨عشرة ذوالحجہ* *✨مختصر تعارف * 🌿 ذوالحجہ کا پہلا عشره نیکیوں اور اجر و ثواب کے اعتبار سے عام دنوں کے مقابلے میں بہت اہم ہے، جس کی فضیلت قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن مجید میں الله سبحانه و تعالیٰ نے ان دس دن کی قسم کھائی ہے۔ *🌿 وَالْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ*   "قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی" (الفجر : 2-1)  اکثر مفسرین کے نزدیک *’’لَیَالٍ عَشْرٍ‘‘* سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ ان دس دنوں میں کئے جانے والے اعمال الله تعالیٰ کو دیگر دنوں کی نسبت زیاده محبوب ہیں۔ 🌿 رسول الله ﷺ نے فرمایا : "کسی بھی دن کیا ہوا عمل الله تعالیٰ کو ان دس دنوں میں کئے ہوئے عمل سے زیاده محبوب نہیں ہے،  انہوں (صحابہ ؓ) نے پوچھا : اے الله کے رسول ﷺ، جہاد فی سبیل الله بھی نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : "جہاد فی سبیل الله بھی نہیں ہاں مگر وه شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے۔" (سنن ابوداؤد) 🌿 عبدالله ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : "کوئی دن الله تعالیٰ کے ہاں ان دس دنوں سے زیاده عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل الله تعالیٰ...

Hazrat Umar [ra] ka daure haqumat

    Online Watching