جھوٹ کے معنی دروغ گوئی اور غلط بیانی کے ہیں۔ اور یہ نہایت ہی قبیح وصف ہے۔ جس میں یہ بُری صفت یعنی جھوٹ بولنے کی عادت پائی جاتی ہے وہ خدا اور انسانوں کے نزدیک بہت بُرا ہے اور اس کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔ کتاب و سنت میں جھوٹ کی بڑی مذمت آئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ اللہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ کَاذِبٌ کَفَّارٌ۔ (زمر:۳)
بے شک اللہ تعالیٰ اس کو راہ نہیں دکھاتا جو جھوٹا ہے، احسان نہیں مانتا۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا: کہ جھوٹ گناہ (فجور) کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ میں، اور جھوٹ بولتے بولتے آدمی خدا کے ہاں جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی، یا رسول اللہ ! جنت میں لے جانے والا کام کیا ہے، فرمایا سچ بولنا۔ جب بندہ سچ بولتا ہے تو نیکی کا کام کرتا ہے اور جو نیکی کا کام کرتا ہے وہ ایمان سے بھرپور ہوجاتا ہے اور جو ایمان سے بھرپور ہوا وہ جنت میں داخل ہوا۔ اس نے پھر پوچھا کہ یارسول اللہﷺ! دوزخ میں لے جانے والا کام کیا ہے۔ فرمایا جھوٹ بولنا، جب بندہ جھوٹ بولے گا تو گناہ کا کام کرے گا اور جب گناہ کے کام کرے گا تو کفر کرے گا اور جو کفر کرے گا وہ دوزخ میں جائے گا۔ (مسند احمد ص ۱۶۷، مصری)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کی بُرائی کی وسعت اتنی ہے کہ کفر بھی اس میں آجاتا ہے، جس سے زیادہ بُری چیز کوئی دوسری نہیں اور جس کے لیے نجات کا کوئی دروازہ کھلا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دائرہ بہت وسیع ہے وہ دنیا کے ذرّہ ذرّہ کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس کی رحمت کی چھاؤں میں ساری کائنات آرام کررہی ہے مگر رحمتِ الٰہی کے اس گھنے سایہ سے وہ باہر ہے، جس کا منہ جھوٹ کی بادِ سموم سے جھلس رہا ہے۔
اسلام کے محاورہ میں سخت ترین لفظ لعنت ہے۔ لعنت کے معنی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور محرومی کے ہیں۔ قرآن پاک میں اس کا مستحق شیطان بتایا گیا ہے اور اس کے بعد یہودیوں، کافروں اور منافقوں کو اس کی وعید سنائی گئی ہے لیکن کسی مومن کو کذب کے سوا اس کے کسی فعل کی بنا پر لعنت سے یاد نہیں کیا گیا۔ جھوٹ بولنے اور جھوٹا الزام لگانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ جو جھوٹا ہو، اس پر خدا کی لعنت کی جائے۔ مباہلہ کے موقع پر یہ فرمایا گیا کہ دونوں فریق خدائے تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا مانگیں کہ جو ہم میں جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو۔
ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللہِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ۶۱ (آل عمران:۶۱)
پھر دعا کریں، پھر جھوٹوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت بھیجیں۔
میاں بیوی کے لعان کی صورت میں جب شوہر بیوی پر بدکاری کا الزام لگائے اور شوہر کے پاس اس کا کوئی گواہ نہ ہو تو اس کو چار دفعہ اپنی سچائی کی قسم کھانے کے بعد پانچویں دفعہ کہنا پڑے گا:
اَنَّ لَعْنَتَ اللہِ عَلَيْہِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ۷ (نور:۷)
اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹ ایسی بڑی لعنت ہے کہ جو اس کا مرتکب ہوتا ہے وہ کافروں اور منافقوں کی طرح بددعا کا مستحق ہوتا ہے۔ نفاق جھوٹ کی بدترین قسم ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اٰیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا عَاھَدَ غَدَرَ۔ (بخاری، مسلم)
منافق کی تین علامتیں ہیں (۱) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۲) جب وعدہ کرے تو خلاف کرے (۳) جب عہد و اقرار کرے تو عہدشکنی کرے۔
جھوٹ بولنے والے کا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ (مؤطا امام مالک) … اور جھوٹ بولنے والے کے منہ سے اتنی بدبو نکلتی ہے کہ فرشتے اس سے دُور بھاگتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اِذَا کَذَبَ الْعَبْدُ تَبَاعَدَ عَنْہُ الْمَلَکُ مِیْلًا مِّنْ نَتْنِ مَاجَآئَ بِہٖ۔ (ترمذی)
یعنی جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو (رحمت کے) فرشتے اس سے ایک میل دُور ہوجاتے ہیں اس بدبو کے باعث جو جھوٹ بولنے سے پیدا ہوتی ہے۔
جھوٹ بولنے سے روزی میں بھی بے برکتی ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بِرُّ الْوَالِدَیْنِ یَزِیْدُ فِی الْعُمُرِ وَالْکِذْبُ یَنْقُصُ الرِّزْقَ، وَالدُّعَائُ یَرُدُّ الْقَضَائَ۔ (رواہ الاصبھانی)
والدین کے ساتھ بھلائی کرنے سے عمر میں زیادتی ہوتی ہے اور جھوٹ بولنے سے روزی میں کمی ہوتی ہے اور دعا تقدیر کو لوٹا دیتی ہے۔
مومن آدمی کبھی جھو ٹ نہیں بول سکتا اور جو مومن ہوگا وہ جھوٹ نہیں بولے گا۔ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا:
یَا رَسُوْلَ اللہِ! اَیَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ جَبَانًا قَالَ نَعَمْ قِیْلَ لَہٗ اَیَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ بَخِیْلًا قَالَ نَعَمْ قِیْلَ لَہٗ اَیَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ کَذَّابًا قَالَ لَا۔ (مؤطا امام مالک)
یارسول اللہﷺ! کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ہاں ہوسکتا ہے۔ پھر آپﷺ سے عرض کیا گیا، کیا مومن بخیل بھی ہوسکتا ہے، آپﷺ نے فرمایا: ہاں ہوسکتا ہے! پھر آپﷺ سے عرض کیا گیا کیا مومن آدمی جھوٹا بھی ہوسکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا نہیں۔
معلو م ہوا کہ ایمان اور جھوٹ متضاد چیزیں ہیں۔ دونوں کا یک جا جمع ہونا غیرممکن ہے، جس طرح کفر و ایمان یک جا جمع نہیں ہوسکتے۔ اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا یَجْتَمِعُ الْکُفْرُ وَالْاِیْمَانُ فِیْ قَلْبِ امْرَأٍ وَلَا یَجْتَمِعُ الصِّدْقُ وَالْکِذْبُ جَمِیْعًا وَلَا تَجْتَمِعُ الْخِیَانَۃُ وَالْاَمَانَۃُ جَمِیْعًا۔ (احمد)
یعنی کسی کے دل میں ایمان و کفر اکٹھا جمع نہیں ہوسکتا، اگر کفر ہے تو ایمان نہیں ہے اور ایمان ہے تو کفر نہیں ہے۔ اور جھوٹ اور سچ بھی اکٹھا جمع نہیں ہوسکتا اور خیانت و امانت بھی اکٹھی نہیں ہوسکتی۔
جھوٹے آدمی کی قیامت کے دن بڑی بڑی سزائیں ہیں۔ معراج والی حدیث میں آپﷺ نے فرمایا: کہ جھوٹے آدمی کو میں نے دیکھا کہ اس کے جبڑے چیرے جارہے ہیں۔ قبر میں بھی یہی عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا۔
جھوٹ کے بہت سے مرتبے ہیں۔ اچھے اچھے لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ بے ضرورت جھوٹ کو بُرا نہیں جانتے، جیسے اکثر لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ بچوں کو بہلانے کے لیے ان سے جھوٹے وعدے کرلیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ان وعدوں کو تھوڑی دیر میں بھول جائیں گے اور ہوتا بھی اکثر یہی ہے مگر جھوٹ بہرحال جھوٹ ہے۔ اسلام نے اس جھوٹ کی بھی اجازت نہیں دی ہے۔ ایک کم سن صحابی عبداللہ بن عامرؓ کہتے ہیں:
دَعَتْنِیْ اُمِّیْ یَوْمًا وَرَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ فِیْ بَیْتِنَا فَقَالَتْ لَہَ تَعَالَ اَعْطِکَ فَقَالَ لَھَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا اَرَدْتِّ اَنْ تُعْطِیَہٗ قَالَتْ اَرَدْتُّ اَنْ اُعْطِیَہٗ تَمْرًا فَقَالَ لَھَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَمَا اِنَّکِ لَوْلَمْ تُعْطِہٖ شَیْئًا کُتِبَتْ عَلَیْکِ کِذْبَۃٌ۔ (ابوداؤد)
ایک دفعہ میری ماں نے مجھے بلایا اور حضورِ انور ﷺ ہمارے گھر تشریف رکھتے تھے تو ماں نے میرے بلانے کے لیے کہا کہ یہاں آ، تجھے کچھ دوں گی۔ حضور ﷺ نے فرمایا تم اس کو کیا دینا چاہتی ہو۔ ماں نے کہا میں اس کوکھجور دوں گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں اگر تم اس وقت اس کو کچھ نہ دیتیں تو یہ جھوٹ بھی تمہارا لکھا جاتا۔
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب ان کو کھانے کے لیے یا کسی اور چیز کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ تصنع اور بناوٹ سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ مجھے خواہش نہیں حالاںکہ ان کے دل میں اس کی خواہش موجود ہوتی ہے۔ تو یہ بھی جھوٹ ہے چناںچہ ایک دفعہ ایک صحابیہ خاتون نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا:
یَارَسُوْلَ اللہِ اِنْ قَالَتْ اِحْدَانَا لِشَیْءٍ تَشْتَھِیْہِ لَا اَشْتَھِیْہِ یُعَدُّ ذَالِکَ کَذِبًا قَالَ اِنَّ الْکَذِبَ یُکْتَبُ کَذِبًا حَتّٰی تُکْتَبَ الْکُذَیْبَۃُ کُذَیْبَۃً۔ (احمد)
یارسول اللہ! ہم میں سے کوئی کسی چیز کی خواہش رکھے اور پھر کہہ دے کہ مجھے اس کی خواہش نہیں تو کیا یہ بھی جھوٹ شمار ہوگا۔ ارشاد ہوا کہ ہر چھوٹے سے چھوٹا جھوٹ بھی جھوٹ لکھا جاتا ہے۔
اسی طرح وہ جھوٹ ہے جو خوش گپی کے موقع پر محض لطف صحبت کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس سے اگرچہ کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، بلکہ بعض موقعوں پر یہ ایک دل چسپی کی چیز بن جاتا ہے۔ تاہم اسلام نے اس کی بھی اجازت نہیں دی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
وَیْلٌ لِّلَّذِیْ یُحَدِّثُ بِالْحَدِیْثِ لِیُضْحِکَ بِہِ الْقَوْمَ فَیَکْذِبُ وَیْلٌ لَّہٗ۔ (ابوداؤد، ترمذی)
جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے اس پر بڑا افسوس ہے۔
لوگوں کو خوش کرتا ہے اور جھوٹ بول کر اپنی آخرت برباد کرتا ہے، اور جھوٹ بولنا بڑی خیانت کی بات ہے کیوںکہ وہ خدا کا اور لوگوں کا امین ہے تو اس کو سچ ہی بولنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کَبُرَتْ خِیَانَۃً اَنْ تُحَدِّثَ اَخَاکَ حَدِیْثًا ھُوَلَکَ مُصَدِّقٌ وَاَنْتَ لَہٗ بِہٖ کَاذِبٌ۔ (ابوداؤد)
یہ بہت بڑی خیانت کی بات ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی جھوٹی بات کہو، اس حال میں کہ وہ تم کو سچا سمجھتا ہو۔
ہنسی مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا یُؤْمِنُ الْعَبْدُ الْاِیْمَانَ کُلَّہٗ حَتّٰی یَتْرُکَ الْکَذِبَ الْمَزَاحَۃَ وَالْمَرَائَ وَاِنْ کَانَ صَادِقًا۔ (احمد)
کوئی بندہ پورا مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ ہنسی مذاق میں جھوٹ بولنا اور جھگڑا کرنا چھوڑ دے اگرچہ وہ فی نفسہٖ سچا ہو۔
یعنی ہر صورت میں جھوٹ بولنا اور فضول جھگڑا کرنا بُرا ہے۔ اس سے ایمان کامل جاتا رہتا ہے۔
اِنَّ اللہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ کَاذِبٌ کَفَّارٌ۔ (زمر:۳)
بے شک اللہ تعالیٰ اس کو راہ نہیں دکھاتا جو جھوٹا ہے، احسان نہیں مانتا۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا: کہ جھوٹ گناہ (فجور) کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ میں، اور جھوٹ بولتے بولتے آدمی خدا کے ہاں جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی، یا رسول اللہ ! جنت میں لے جانے والا کام کیا ہے، فرمایا سچ بولنا۔ جب بندہ سچ بولتا ہے تو نیکی کا کام کرتا ہے اور جو نیکی کا کام کرتا ہے وہ ایمان سے بھرپور ہوجاتا ہے اور جو ایمان سے بھرپور ہوا وہ جنت میں داخل ہوا۔ اس نے پھر پوچھا کہ یارسول اللہﷺ! دوزخ میں لے جانے والا کام کیا ہے۔ فرمایا جھوٹ بولنا، جب بندہ جھوٹ بولے گا تو گناہ کا کام کرے گا اور جب گناہ کے کام کرے گا تو کفر کرے گا اور جو کفر کرے گا وہ دوزخ میں جائے گا۔ (مسند احمد ص ۱۶۷، مصری)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کی بُرائی کی وسعت اتنی ہے کہ کفر بھی اس میں آجاتا ہے، جس سے زیادہ بُری چیز کوئی دوسری نہیں اور جس کے لیے نجات کا کوئی دروازہ کھلا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دائرہ بہت وسیع ہے وہ دنیا کے ذرّہ ذرّہ کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس کی رحمت کی چھاؤں میں ساری کائنات آرام کررہی ہے مگر رحمتِ الٰہی کے اس گھنے سایہ سے وہ باہر ہے، جس کا منہ جھوٹ کی بادِ سموم سے جھلس رہا ہے۔
اسلام کے محاورہ میں سخت ترین لفظ لعنت ہے۔ لعنت کے معنی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور محرومی کے ہیں۔ قرآن پاک میں اس کا مستحق شیطان بتایا گیا ہے اور اس کے بعد یہودیوں، کافروں اور منافقوں کو اس کی وعید سنائی گئی ہے لیکن کسی مومن کو کذب کے سوا اس کے کسی فعل کی بنا پر لعنت سے یاد نہیں کیا گیا۔ جھوٹ بولنے اور جھوٹا الزام لگانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ جو جھوٹا ہو، اس پر خدا کی لعنت کی جائے۔ مباہلہ کے موقع پر یہ فرمایا گیا کہ دونوں فریق خدائے تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا مانگیں کہ جو ہم میں جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو۔
ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللہِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ۶۱ (آل عمران:۶۱)
پھر دعا کریں، پھر جھوٹوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت بھیجیں۔
میاں بیوی کے لعان کی صورت میں جب شوہر بیوی پر بدکاری کا الزام لگائے اور شوہر کے پاس اس کا کوئی گواہ نہ ہو تو اس کو چار دفعہ اپنی سچائی کی قسم کھانے کے بعد پانچویں دفعہ کہنا پڑے گا:
اَنَّ لَعْنَتَ اللہِ عَلَيْہِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ۷ (نور:۷)
اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹ ایسی بڑی لعنت ہے کہ جو اس کا مرتکب ہوتا ہے وہ کافروں اور منافقوں کی طرح بددعا کا مستحق ہوتا ہے۔ نفاق جھوٹ کی بدترین قسم ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اٰیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا عَاھَدَ غَدَرَ۔ (بخاری، مسلم)
منافق کی تین علامتیں ہیں (۱) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۲) جب وعدہ کرے تو خلاف کرے (۳) جب عہد و اقرار کرے تو عہدشکنی کرے۔
جھوٹ بولنے والے کا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ (مؤطا امام مالک) … اور جھوٹ بولنے والے کے منہ سے اتنی بدبو نکلتی ہے کہ فرشتے اس سے دُور بھاگتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اِذَا کَذَبَ الْعَبْدُ تَبَاعَدَ عَنْہُ الْمَلَکُ مِیْلًا مِّنْ نَتْنِ مَاجَآئَ بِہٖ۔ (ترمذی)
یعنی جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو (رحمت کے) فرشتے اس سے ایک میل دُور ہوجاتے ہیں اس بدبو کے باعث جو جھوٹ بولنے سے پیدا ہوتی ہے۔
جھوٹ بولنے سے روزی میں بھی بے برکتی ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بِرُّ الْوَالِدَیْنِ یَزِیْدُ فِی الْعُمُرِ وَالْکِذْبُ یَنْقُصُ الرِّزْقَ، وَالدُّعَائُ یَرُدُّ الْقَضَائَ۔ (رواہ الاصبھانی)
والدین کے ساتھ بھلائی کرنے سے عمر میں زیادتی ہوتی ہے اور جھوٹ بولنے سے روزی میں کمی ہوتی ہے اور دعا تقدیر کو لوٹا دیتی ہے۔
مومن آدمی کبھی جھو ٹ نہیں بول سکتا اور جو مومن ہوگا وہ جھوٹ نہیں بولے گا۔ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا:
یَا رَسُوْلَ اللہِ! اَیَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ جَبَانًا قَالَ نَعَمْ قِیْلَ لَہٗ اَیَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ بَخِیْلًا قَالَ نَعَمْ قِیْلَ لَہٗ اَیَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ کَذَّابًا قَالَ لَا۔ (مؤطا امام مالک)
یارسول اللہﷺ! کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ہاں ہوسکتا ہے۔ پھر آپﷺ سے عرض کیا گیا، کیا مومن بخیل بھی ہوسکتا ہے، آپﷺ نے فرمایا: ہاں ہوسکتا ہے! پھر آپﷺ سے عرض کیا گیا کیا مومن آدمی جھوٹا بھی ہوسکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا نہیں۔
معلو م ہوا کہ ایمان اور جھوٹ متضاد چیزیں ہیں۔ دونوں کا یک جا جمع ہونا غیرممکن ہے، جس طرح کفر و ایمان یک جا جمع نہیں ہوسکتے۔ اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا یَجْتَمِعُ الْکُفْرُ وَالْاِیْمَانُ فِیْ قَلْبِ امْرَأٍ وَلَا یَجْتَمِعُ الصِّدْقُ وَالْکِذْبُ جَمِیْعًا وَلَا تَجْتَمِعُ الْخِیَانَۃُ وَالْاَمَانَۃُ جَمِیْعًا۔ (احمد)
یعنی کسی کے دل میں ایمان و کفر اکٹھا جمع نہیں ہوسکتا، اگر کفر ہے تو ایمان نہیں ہے اور ایمان ہے تو کفر نہیں ہے۔ اور جھوٹ اور سچ بھی اکٹھا جمع نہیں ہوسکتا اور خیانت و امانت بھی اکٹھی نہیں ہوسکتی۔
جھوٹے آدمی کی قیامت کے دن بڑی بڑی سزائیں ہیں۔ معراج والی حدیث میں آپﷺ نے فرمایا: کہ جھوٹے آدمی کو میں نے دیکھا کہ اس کے جبڑے چیرے جارہے ہیں۔ قبر میں بھی یہی عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا۔
جھوٹ کے بہت سے مرتبے ہیں۔ اچھے اچھے لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ بے ضرورت جھوٹ کو بُرا نہیں جانتے، جیسے اکثر لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ بچوں کو بہلانے کے لیے ان سے جھوٹے وعدے کرلیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ان وعدوں کو تھوڑی دیر میں بھول جائیں گے اور ہوتا بھی اکثر یہی ہے مگر جھوٹ بہرحال جھوٹ ہے۔ اسلام نے اس جھوٹ کی بھی اجازت نہیں دی ہے۔ ایک کم سن صحابی عبداللہ بن عامرؓ کہتے ہیں:
دَعَتْنِیْ اُمِّیْ یَوْمًا وَرَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ فِیْ بَیْتِنَا فَقَالَتْ لَہَ تَعَالَ اَعْطِکَ فَقَالَ لَھَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا اَرَدْتِّ اَنْ تُعْطِیَہٗ قَالَتْ اَرَدْتُّ اَنْ اُعْطِیَہٗ تَمْرًا فَقَالَ لَھَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَمَا اِنَّکِ لَوْلَمْ تُعْطِہٖ شَیْئًا کُتِبَتْ عَلَیْکِ کِذْبَۃٌ۔ (ابوداؤد)
ایک دفعہ میری ماں نے مجھے بلایا اور حضورِ انور ﷺ ہمارے گھر تشریف رکھتے تھے تو ماں نے میرے بلانے کے لیے کہا کہ یہاں آ، تجھے کچھ دوں گی۔ حضور ﷺ نے فرمایا تم اس کو کیا دینا چاہتی ہو۔ ماں نے کہا میں اس کوکھجور دوں گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں اگر تم اس وقت اس کو کچھ نہ دیتیں تو یہ جھوٹ بھی تمہارا لکھا جاتا۔
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب ان کو کھانے کے لیے یا کسی اور چیز کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ تصنع اور بناوٹ سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ مجھے خواہش نہیں حالاںکہ ان کے دل میں اس کی خواہش موجود ہوتی ہے۔ تو یہ بھی جھوٹ ہے چناںچہ ایک دفعہ ایک صحابیہ خاتون نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا:
یَارَسُوْلَ اللہِ اِنْ قَالَتْ اِحْدَانَا لِشَیْءٍ تَشْتَھِیْہِ لَا اَشْتَھِیْہِ یُعَدُّ ذَالِکَ کَذِبًا قَالَ اِنَّ الْکَذِبَ یُکْتَبُ کَذِبًا حَتّٰی تُکْتَبَ الْکُذَیْبَۃُ کُذَیْبَۃً۔ (احمد)
یارسول اللہ! ہم میں سے کوئی کسی چیز کی خواہش رکھے اور پھر کہہ دے کہ مجھے اس کی خواہش نہیں تو کیا یہ بھی جھوٹ شمار ہوگا۔ ارشاد ہوا کہ ہر چھوٹے سے چھوٹا جھوٹ بھی جھوٹ لکھا جاتا ہے۔
اسی طرح وہ جھوٹ ہے جو خوش گپی کے موقع پر محض لطف صحبت کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس سے اگرچہ کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، بلکہ بعض موقعوں پر یہ ایک دل چسپی کی چیز بن جاتا ہے۔ تاہم اسلام نے اس کی بھی اجازت نہیں دی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
وَیْلٌ لِّلَّذِیْ یُحَدِّثُ بِالْحَدِیْثِ لِیُضْحِکَ بِہِ الْقَوْمَ فَیَکْذِبُ وَیْلٌ لَّہٗ۔ (ابوداؤد، ترمذی)
جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے اس پر بڑا افسوس ہے۔
لوگوں کو خوش کرتا ہے اور جھوٹ بول کر اپنی آخرت برباد کرتا ہے، اور جھوٹ بولنا بڑی خیانت کی بات ہے کیوںکہ وہ خدا کا اور لوگوں کا امین ہے تو اس کو سچ ہی بولنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کَبُرَتْ خِیَانَۃً اَنْ تُحَدِّثَ اَخَاکَ حَدِیْثًا ھُوَلَکَ مُصَدِّقٌ وَاَنْتَ لَہٗ بِہٖ کَاذِبٌ۔ (ابوداؤد)
یہ بہت بڑی خیانت کی بات ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی جھوٹی بات کہو، اس حال میں کہ وہ تم کو سچا سمجھتا ہو۔
ہنسی مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا یُؤْمِنُ الْعَبْدُ الْاِیْمَانَ کُلَّہٗ حَتّٰی یَتْرُکَ الْکَذِبَ الْمَزَاحَۃَ وَالْمَرَائَ وَاِنْ کَانَ صَادِقًا۔ (احمد)
کوئی بندہ پورا مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ ہنسی مذاق میں جھوٹ بولنا اور جھگڑا کرنا چھوڑ دے اگرچہ وہ فی نفسہٖ سچا ہو۔
یعنی ہر صورت میں جھوٹ بولنا اور فضول جھگڑا کرنا بُرا ہے۔ اس سے ایمان کامل جاتا رہتا ہے۔
Comments
Post a Comment