فرعون بڑا سرکش تھا۔ باوجود ربوبیت کے دعویٰ کے بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کراتا تھا اور بنی اسرائیل پر حد سے زیادہ ظلم کرتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے اُسے سمجھانے کے لیے موسیٰ علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا۔ لیکن اس نے ایمان لانے سے انکار کردیا اور باقاعدہ اُس سے مقابلہ کیا۔ مناظرہ کرایا۔ اُس نے معجزات طلب کیے۔ اتمامِ حجت کے لیے فرعون اور اس کی قوم کو ید بیضا اور عصا کے علاوہ اور بھی نشانیاں دکھائی گئیں اور وہ یہ نشانیاں تھیں (۱) سنین قحط سالیاں (۲) نقص ثمرات، پیداوار میں کمی (۳) طوفان سیلاب (۴) جراد ٹڈی (۵) قمل جوئیں (۶) ضفادع مینڈک (۷) دم خون۔
تفسیر معالم التنزیل اور تاریخ ابن الاثیر میں ہے کہ جب قوم فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اطاعت سے انکار کیا اور سارے معجزات کو جادو بتایا، قِسم قِسم کے ظلم و ستم بنی اسرائیل پر کرنے لگے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی قوم کے لیے جناب باری میں دُعا کی۔ حق تعالیٰ نے قومِ فرعون پر پانی کا عذاب نازل کیا۔ کالا ابر آیا اور سات دن تک برابر مینہ برستا رہا۔ قبطیوں کے گھروں میں پانی جمع ہوا، قومِ فرعون کے گھر پانی کے چشمے بنے۔ ہر مرد عورت کے گلے گلے تک گھروں میں پانی کھڑا ہوگیا۔ جو شخص ذرا جھکا فوراً ڈوب گیا، جو سیدھا کھڑا رہا، وہ زندہ رہا۔ سارے کھیت اور باغ غرق ہوگئے۔ ایک ہفتہ تک برابر یہی عذاب ہوتا رہا اگرچہ بنی اسرائیل کے اور قبطیوں کے گھر محلہ میں برابر دیوار سے دیوار ملی ہوئی تھیں، لیکن یہ قدرت تھی کہ برابر کا گھر تو پانی سے بھرا ہوا ہے، خوب زور سے بارش ہورہی ہے، اندھیرا ہورہا ہے اور اس کے پاس ہی مسلمان اسرائیلی کا مکان بدستور سوکھا پڑا ہے، دھوپ نکل رہی ہے ، ایک قطرہ اس طوفان کے پانی کا اس گھر میں موجود نہیں ہے۔ ساتویں دن قبطیوں کے عذر و معذرت کرنے کے بعد یہ عذاب دفع ہوگیا۔ مگر فرعونی پھر سرکشی کرنے لگے۔
ایک مہینے کے بعد دوسرا عذاب ٹڈیوں کا نازل ہوا۔ ٹڈیوں نے قبطیوں کے باغات، کھیت ہر قسم کی ہری چیز چاٹ لی۔ اُن کے کھیتوں کے پاس ہی بنی اسرائیل کے کھیت اور باغ تھے، وہاں کسی ایک ٹڈی کا نام بھی نہ تھا۔ اگر کسی کافر نے کچھ ٹڈیاں اپنے کھیت میں سے پکڑ کر مسلمان کے کھیت میں ڈال دیں تو وہ ٹڈیاں فوراً وہاں سے اُڑ کر پھر کسی کافر کے کھیت میں جاپڑیں۔ اگر کوئی درخت مسلمان اور کافر کی شرکت میں تھا تو ٹڈیوں نے اس درخت کو آدھا کھایا اور آدھا چھوڑ دیا۔ اس واقعہ کو دیکھ کر کافر نے کہا کہ اے مسلمان جو حصہ ٹڈیوں نے کھا لیا ہے وہ تیرا ہے اور یہ جو سالم ہے وہ میرا ہے ۔ یہ کہتے ہی فوراً ٹڈیوں نے اس باقی آدھے کو بھی کھالیا۔ اور وہ پہلا آدھا کھایا ہوا پھر ہرا ہوگیا۔ سات دن اور رات تک یہ عذاب رہا۔ جب قبطی بہت روئے، اقرار کیا کہ اب ہم ضرور مسلمان ہوجائیں گے، اے موسیٰ ؑ! دُعا کرو کہ خدا تعالیٰ اس عذاب کو دفع کردے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دُعا فرمائی، وہ ٹڈیاں فوراً غائب ہوگئیں۔
مگر پھر انھوں نے وہی کفر و سرکشی شروع کردی۔ اب پھر حضرت موسیٰ ؑ نے بددُعا کی تو چیچڑیاں نازل ہوئیں، جو تمام قبطیوں کے خون کو چوس گئیں۔ سارے جسم میں، آنکھوں کی پلکوں میں لپٹ گئیں۔ لیکن کوئی چیچڑی مسلمان کے پاس نہیں جاتی تھی۔ اہلِ ایمان بالکل امن میں تھے۔ اس کے بعد مینڈک نازل ہوئے جو قبطیوں کے گھروں میں گھس گئے۔ ہر طرح کی کھانے پینے کی چیزوں میں گرجاتے اور خراب کردیتے۔ مگر ایمان والے قبطیوں کے پاس بیٹھے رہتے۔ انھیں مطلق نہ ستاتے، نہ اُن کے کھانے وانے میں گرتے۔ نہ گھروں میں کوئی مینڈک نظر آتا۔ یہ لوگ رحمت ِ الٰہی کے اور ایمان و امن کے گنبد میں آرام سے بیٹھے رہتے۔
پھر اس کے بعد قبطیوں میں خون کا عذاب نازل ہوا۔ اور دریائے نیل جس کا اہلِ مصر پانی پیتے تھے وہ سارے کا سارا قبطیوں کے لیے نہایت بدبودار کالا خون ہوگیا۔ سارے کنویں خون کے ہوگئے۔ قبطیوں کے پانی کے برتن اور مٹکے نرے خون سے بھر گئے۔ اسی پانی کو مسلمان پیتے اور بھرتے ہیں۔ اُن کے لیے وہ پانی نہایت شیریں صاف اور سفید ہے۔ دو خاصیتیں ایک پانی میں۔ اگر کسی کنویں پر مسلمان اور کافر پانی بھرتے تھے تو کافر کے ڈول میں کالا خون اور مسلمان کے ڈول میں صاف پانی آتا تھا۔ ایک دن فرعون نے ایک قبطی کافر اور ایک مسلمان اسرائیلی کو اپنے سامنے دربار میں بلایا اور ایک برتن میں پانی بھروایا اور حکم دیا کہ دونوں اس میں سے اپنے اپنے چلّو میں اُٹھا کر پیو۔ جو چلّو مسلمان اُٹھاتا، وہ پانی تھا اور جو کافر اُٹھاتا وہ خون تھا۔ پھر فرعون نے حکم دیا کہ تم دونوں اسی برتن سے منہ لگا کر پیو۔ کافر و مسلمان دونوں اس برتن پر جھک گئے۔ ایک طرف پانی، دوسری طرف خون ہے۔ جو پانی کافر اپنے منہ میں کھینچ رہا ہے وہ خون ہے اور جو مسلمان کی طرف کھنچ رہا ہے وہ شیریں اور خوشبودار پانی ہے۔ پھر فرعون نے حکم دیا کہ اے اسرائیلی تو اپنے منہ میں پانی بھر کر وہ کلی قبطی کے منہ میں ڈال۔ مسلمان نے اپنے منہ میں پانی لیا پھر منہ کی کلی قبطی کے منہ میں ڈالی۔ قبطی کے منہ کے قریب پہنچتے ہی خون ہوگیا۔ اِدھر پانی اُدھر خون۔
آخر تنگ آکر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی کہ آپ دُعا کیجیے اگر یہ عذاب ہٹ گیا تو ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔ حضرت موسیٰ ؑ کی دُعا سے وہ عذاب دُور ہوگیا اور خوش حالی پیدا ہوگئی مگر وہ ایمان نہیں لائے اور کفر پر جمے رہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے قحط سالی مسلّط کردی اور پیداوار میں کمی ہوگئی اور غلّوں میں گھن لگنے لگے۔
غرض یہ کہ ہر طرح سے اُن کو متنبہّ کیا گیا مگر وہ اپنی شرارت سے باز نہیں آئے، اور اُنھیں مختلف قسم کے عذابوں سے دوچار ہونا پڑا۔ مگر خدائے قادر پر ایمان لانا نصیب نہ ہوا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان کا حال بیان فرمایا ہے:
وَلَمَّا وَقَعَ عَلَيْہِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا يٰمُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَہِدَ عِنْدَكَ۰ۚ لَىِٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۱۳۴ۚ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْہُمُ الرِّجْزَ اِلٰٓي اَجَلٍ ہُمْ بٰلِغُوْہُ اِذَا ہُمْ يَنْكُثُوْنَ۱۳۵ (الاعراف:۱۳۴۔۱۳۵)
اور جب اُن پر کوئی عذاب واقع ہوتا تو یوں کہتے، اے موسیٰ ؑ! ہمارے لیے اپنے رب سے اس بات کی دُعا کر دیجیے جس کا اُس نے آپ سے وعدہ کر رکھا ہے۔ اگر آپ اس عذاب کو ہم سے ہٹا دیں تو ہم ضرورضرور آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ اور ہم بنی اسرائیل کو بھی رہا کردیں گے۔ اور آپ کے ہمراہ بھیج دیں گے۔ پھر جب ان سے اس عذاب کو ایک خاص وقت تک ہٹا دیا گیا تو فوراً ہی عہد شکنی کرنے لگتے۔
جب معاملہ اس حد تک پہنچ گیا تو خدائے تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ اب وقت آگیا ہے تم بنی اسرائیل کو نکال کر باپ دادا کی سرزمین کی طرف لے جاؤ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر تشریف لے چلے۔ جب دریا کے کنارے پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اپنی لاٹھی سے پانی پر مار دو۔ پانی پھٹ کر بیچ میں راستہ نکل آئے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ اِدھر فرعون نے مع لشکر کے ان کا تعاقب کیا۔ جب سمندر کے کنارے پہنچا تو اس وقت موسیٰ علیہ السلام مع اسرائیل کے اس پار نکل چکے تھے۔ فرعون مع لشکر کے دریائی راستے میں بنی اسرائیل کو پکڑنے چل پڑا۔ جب پورا لشکر اور فرعون دریا کے بیچو بیچ میں پہنچ گئے۔ کوئی فرعونی باہر نہیں رہا۔ تب اللہ تعالیٰ نے دریا کے پانی کو بدستورِ سابق بہنے کا حکم دیا۔ سارے فرعونی دریا میں ڈوبنے لگے۔ جب فرعون غرق ہونے لگا اور عذاب کے فرشتے سامنے نظر آنے لگے تو کہا میں اُسی ایک وحدہٗ لاشریک لہٗ ہستی پر ایمان لاتا ہوں، جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں مگر یہ ایمان چونکہ حقیقی ایمان نہ تھا بلکہ گزشتہ فریب کاریوں کی طرف عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ایک مضطربانہ بات تھی اس لیے خدا کی طرف سے جواب ملا:
اٰۗلْــٰٔــنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۹۱ (یونس:۹۱)
اب یہ کہہ رہا ہے حالاں کہ اس سے پہلے جو اقرار کا وقت تھا اُس میں انکار اور خلاف ہی کرتا رہا۔ اور درحقیقت تو مفسدوں میں سے تھا۔
فرعونیوں کی یہ تباہی محض اللہ کی نافرمانی سے ہوئی۔ تو جو بھی قانونِ الٰہی کی خلاف ورزی کرے گا۔ اُس پر دنیاوی مصیبتیں اور اخروی سزائیں بھی ہوں گی۔ فرعون کی طرح قارون بھی خدائی عذاب میں گرفتار ہوا، اور اُسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ دنیا و آخرت دونوں تباہ ہوگئی۔
تفسیر معالم التنزیل اور تاریخ ابن الاثیر میں ہے کہ جب قوم فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اطاعت سے انکار کیا اور سارے معجزات کو جادو بتایا، قِسم قِسم کے ظلم و ستم بنی اسرائیل پر کرنے لگے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی قوم کے لیے جناب باری میں دُعا کی۔ حق تعالیٰ نے قومِ فرعون پر پانی کا عذاب نازل کیا۔ کالا ابر آیا اور سات دن تک برابر مینہ برستا رہا۔ قبطیوں کے گھروں میں پانی جمع ہوا، قومِ فرعون کے گھر پانی کے چشمے بنے۔ ہر مرد عورت کے گلے گلے تک گھروں میں پانی کھڑا ہوگیا۔ جو شخص ذرا جھکا فوراً ڈوب گیا، جو سیدھا کھڑا رہا، وہ زندہ رہا۔ سارے کھیت اور باغ غرق ہوگئے۔ ایک ہفتہ تک برابر یہی عذاب ہوتا رہا اگرچہ بنی اسرائیل کے اور قبطیوں کے گھر محلہ میں برابر دیوار سے دیوار ملی ہوئی تھیں، لیکن یہ قدرت تھی کہ برابر کا گھر تو پانی سے بھرا ہوا ہے، خوب زور سے بارش ہورہی ہے، اندھیرا ہورہا ہے اور اس کے پاس ہی مسلمان اسرائیلی کا مکان بدستور سوکھا پڑا ہے، دھوپ نکل رہی ہے ، ایک قطرہ اس طوفان کے پانی کا اس گھر میں موجود نہیں ہے۔ ساتویں دن قبطیوں کے عذر و معذرت کرنے کے بعد یہ عذاب دفع ہوگیا۔ مگر فرعونی پھر سرکشی کرنے لگے۔
ایک مہینے کے بعد دوسرا عذاب ٹڈیوں کا نازل ہوا۔ ٹڈیوں نے قبطیوں کے باغات، کھیت ہر قسم کی ہری چیز چاٹ لی۔ اُن کے کھیتوں کے پاس ہی بنی اسرائیل کے کھیت اور باغ تھے، وہاں کسی ایک ٹڈی کا نام بھی نہ تھا۔ اگر کسی کافر نے کچھ ٹڈیاں اپنے کھیت میں سے پکڑ کر مسلمان کے کھیت میں ڈال دیں تو وہ ٹڈیاں فوراً وہاں سے اُڑ کر پھر کسی کافر کے کھیت میں جاپڑیں۔ اگر کوئی درخت مسلمان اور کافر کی شرکت میں تھا تو ٹڈیوں نے اس درخت کو آدھا کھایا اور آدھا چھوڑ دیا۔ اس واقعہ کو دیکھ کر کافر نے کہا کہ اے مسلمان جو حصہ ٹڈیوں نے کھا لیا ہے وہ تیرا ہے اور یہ جو سالم ہے وہ میرا ہے ۔ یہ کہتے ہی فوراً ٹڈیوں نے اس باقی آدھے کو بھی کھالیا۔ اور وہ پہلا آدھا کھایا ہوا پھر ہرا ہوگیا۔ سات دن اور رات تک یہ عذاب رہا۔ جب قبطی بہت روئے، اقرار کیا کہ اب ہم ضرور مسلمان ہوجائیں گے، اے موسیٰ ؑ! دُعا کرو کہ خدا تعالیٰ اس عذاب کو دفع کردے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دُعا فرمائی، وہ ٹڈیاں فوراً غائب ہوگئیں۔
مگر پھر انھوں نے وہی کفر و سرکشی شروع کردی۔ اب پھر حضرت موسیٰ ؑ نے بددُعا کی تو چیچڑیاں نازل ہوئیں، جو تمام قبطیوں کے خون کو چوس گئیں۔ سارے جسم میں، آنکھوں کی پلکوں میں لپٹ گئیں۔ لیکن کوئی چیچڑی مسلمان کے پاس نہیں جاتی تھی۔ اہلِ ایمان بالکل امن میں تھے۔ اس کے بعد مینڈک نازل ہوئے جو قبطیوں کے گھروں میں گھس گئے۔ ہر طرح کی کھانے پینے کی چیزوں میں گرجاتے اور خراب کردیتے۔ مگر ایمان والے قبطیوں کے پاس بیٹھے رہتے۔ انھیں مطلق نہ ستاتے، نہ اُن کے کھانے وانے میں گرتے۔ نہ گھروں میں کوئی مینڈک نظر آتا۔ یہ لوگ رحمت ِ الٰہی کے اور ایمان و امن کے گنبد میں آرام سے بیٹھے رہتے۔
پھر اس کے بعد قبطیوں میں خون کا عذاب نازل ہوا۔ اور دریائے نیل جس کا اہلِ مصر پانی پیتے تھے وہ سارے کا سارا قبطیوں کے لیے نہایت بدبودار کالا خون ہوگیا۔ سارے کنویں خون کے ہوگئے۔ قبطیوں کے پانی کے برتن اور مٹکے نرے خون سے بھر گئے۔ اسی پانی کو مسلمان پیتے اور بھرتے ہیں۔ اُن کے لیے وہ پانی نہایت شیریں صاف اور سفید ہے۔ دو خاصیتیں ایک پانی میں۔ اگر کسی کنویں پر مسلمان اور کافر پانی بھرتے تھے تو کافر کے ڈول میں کالا خون اور مسلمان کے ڈول میں صاف پانی آتا تھا۔ ایک دن فرعون نے ایک قبطی کافر اور ایک مسلمان اسرائیلی کو اپنے سامنے دربار میں بلایا اور ایک برتن میں پانی بھروایا اور حکم دیا کہ دونوں اس میں سے اپنے اپنے چلّو میں اُٹھا کر پیو۔ جو چلّو مسلمان اُٹھاتا، وہ پانی تھا اور جو کافر اُٹھاتا وہ خون تھا۔ پھر فرعون نے حکم دیا کہ تم دونوں اسی برتن سے منہ لگا کر پیو۔ کافر و مسلمان دونوں اس برتن پر جھک گئے۔ ایک طرف پانی، دوسری طرف خون ہے۔ جو پانی کافر اپنے منہ میں کھینچ رہا ہے وہ خون ہے اور جو مسلمان کی طرف کھنچ رہا ہے وہ شیریں اور خوشبودار پانی ہے۔ پھر فرعون نے حکم دیا کہ اے اسرائیلی تو اپنے منہ میں پانی بھر کر وہ کلی قبطی کے منہ میں ڈال۔ مسلمان نے اپنے منہ میں پانی لیا پھر منہ کی کلی قبطی کے منہ میں ڈالی۔ قبطی کے منہ کے قریب پہنچتے ہی خون ہوگیا۔ اِدھر پانی اُدھر خون۔
آخر تنگ آکر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی کہ آپ دُعا کیجیے اگر یہ عذاب ہٹ گیا تو ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔ حضرت موسیٰ ؑ کی دُعا سے وہ عذاب دُور ہوگیا اور خوش حالی پیدا ہوگئی مگر وہ ایمان نہیں لائے اور کفر پر جمے رہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے قحط سالی مسلّط کردی اور پیداوار میں کمی ہوگئی اور غلّوں میں گھن لگنے لگے۔
غرض یہ کہ ہر طرح سے اُن کو متنبہّ کیا گیا مگر وہ اپنی شرارت سے باز نہیں آئے، اور اُنھیں مختلف قسم کے عذابوں سے دوچار ہونا پڑا۔ مگر خدائے قادر پر ایمان لانا نصیب نہ ہوا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان کا حال بیان فرمایا ہے:
وَلَمَّا وَقَعَ عَلَيْہِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا يٰمُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَہِدَ عِنْدَكَ۰ۚ لَىِٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۱۳۴ۚ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْہُمُ الرِّجْزَ اِلٰٓي اَجَلٍ ہُمْ بٰلِغُوْہُ اِذَا ہُمْ يَنْكُثُوْنَ۱۳۵ (الاعراف:۱۳۴۔۱۳۵)
اور جب اُن پر کوئی عذاب واقع ہوتا تو یوں کہتے، اے موسیٰ ؑ! ہمارے لیے اپنے رب سے اس بات کی دُعا کر دیجیے جس کا اُس نے آپ سے وعدہ کر رکھا ہے۔ اگر آپ اس عذاب کو ہم سے ہٹا دیں تو ہم ضرورضرور آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ اور ہم بنی اسرائیل کو بھی رہا کردیں گے۔ اور آپ کے ہمراہ بھیج دیں گے۔ پھر جب ان سے اس عذاب کو ایک خاص وقت تک ہٹا دیا گیا تو فوراً ہی عہد شکنی کرنے لگتے۔
جب معاملہ اس حد تک پہنچ گیا تو خدائے تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ اب وقت آگیا ہے تم بنی اسرائیل کو نکال کر باپ دادا کی سرزمین کی طرف لے جاؤ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر تشریف لے چلے۔ جب دریا کے کنارے پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اپنی لاٹھی سے پانی پر مار دو۔ پانی پھٹ کر بیچ میں راستہ نکل آئے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ اِدھر فرعون نے مع لشکر کے ان کا تعاقب کیا۔ جب سمندر کے کنارے پہنچا تو اس وقت موسیٰ علیہ السلام مع اسرائیل کے اس پار نکل چکے تھے۔ فرعون مع لشکر کے دریائی راستے میں بنی اسرائیل کو پکڑنے چل پڑا۔ جب پورا لشکر اور فرعون دریا کے بیچو بیچ میں پہنچ گئے۔ کوئی فرعونی باہر نہیں رہا۔ تب اللہ تعالیٰ نے دریا کے پانی کو بدستورِ سابق بہنے کا حکم دیا۔ سارے فرعونی دریا میں ڈوبنے لگے۔ جب فرعون غرق ہونے لگا اور عذاب کے فرشتے سامنے نظر آنے لگے تو کہا میں اُسی ایک وحدہٗ لاشریک لہٗ ہستی پر ایمان لاتا ہوں، جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں مگر یہ ایمان چونکہ حقیقی ایمان نہ تھا بلکہ گزشتہ فریب کاریوں کی طرف عذاب سے نجات حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ایک مضطربانہ بات تھی اس لیے خدا کی طرف سے جواب ملا:
اٰۗلْــٰٔــنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۹۱ (یونس:۹۱)
اب یہ کہہ رہا ہے حالاں کہ اس سے پہلے جو اقرار کا وقت تھا اُس میں انکار اور خلاف ہی کرتا رہا۔ اور درحقیقت تو مفسدوں میں سے تھا۔
فرعونیوں کی یہ تباہی محض اللہ کی نافرمانی سے ہوئی۔ تو جو بھی قانونِ الٰہی کی خلاف ورزی کرے گا۔ اُس پر دنیاوی مصیبتیں اور اخروی سزائیں بھی ہوں گی۔ فرعون کی طرح قارون بھی خدائی عذاب میں گرفتار ہوا، اور اُسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ دنیا و آخرت دونوں تباہ ہوگئی۔
Comments
Post a Comment