Skip to main content

قرآن کریم کی خصوصیات



کلام اللہ: قرآن میں صرف اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ کسی انسان، جن یافرشتے کا کلام اس میں شامل نہیں۔ اسے اللہ تعالیٰ نے خود ہی کلام اللہ یا آیات اللہ فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{۔۔ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللہِ} (التوبۃ:۶) ....تاکہ وہ کلام اللہ کو سن لے۔
{۔۔۔یَتْلُوْنَ آیَاتِ اللہِ}( آل عمران: ۱۱۳) وہ اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں۔
غیر مخلوق: قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور کلام کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اس لئے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرح غیر مخلوق ہے۔گوہم اس صفت کی حقیقت نہیں جانتے اور نہ ہی اسے مخلوق کی طرح سمجھتے ہیں۔ بس اتنا جانتے ہیں کہ {لَيْسَ كَمِثْلِہٖ شَيْءٌ}۔ اس جیسا کوئی ہے ہی نہیں۔ دو فرقے اس بارے میں گمراہ ہوگئے۔ ایک قدریہ معتزلہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے ظاہری معنی کو چھوڑ کر تاویلیں کرتا ہے۔ تاویل سے صفات کی تخفیف وانکار لازم آتا ہے جو انتہائی کفر ہے۔ دوسرا فرقہ مشبہہ مجسمہ ہے وہ اس صفت کو مخلوق کے مشابہ بتاتا ہے یہ بھی پہلے سے کم گمراہ نہیں۔ مناسب یہی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی صفات قرآن کریم اور حدیث رسول میں آئی ہیں ان کے لفظی معنی معلوم ہونے کے بعد پھر کیفیت کی کھدیڑ نہ کی جائے۔جب اصل حقیقت کا علم نہیں تو اسے مخلوق کے مشابہ قرار دینا کون سی دانش مندی ہے۔یہ ازلی صفات کا اقرار ہے اور تاویل کا انکار۔
زائد از ضرورت :یعنی قرآن مجید کا کوئی لفظ زائد نہیں بلکہ اس کے فوائد ہیں۔ یہ مختصر، جامع، تعمیری، اور واقعیت پسندی کے ساتھ اپنے معانی و اہداف کو بیان کرتے ہیں ۔ مثلاً طہ، ألم ، عسق وغیرہ۔ انہیں ہم زائد نہیں کہتے مگر اس کے فوائدعرب بہتر جانتے ہیں کیونکہ ان کے خطباء کے ہاں ان کی زبردست اہمیت ہے۔ ان کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہترجانتے ہیں۔امام حسن بصری رحمہ اللہ کے حلقہ میں کچھ لوگ کہا کرتے کہ یہ الفاظ زائد اور بے فائدہ ہیں۔جس پر انہوں نے فرمایا:
 خُذُوْا ہٰؤُلَائِ، وَجَنِّبُوْہُمْ فِیْ حَشَا الْحَلْقَۃِ۔ انہیں پکڑو اور انہیں ہمارے حلقے سے الگ کرکے اس کے حاشئے میں بٹھادو۔ اس لئے انہیں حشویہ کہا گیا۔
ظاہری معنی ہی مراد ہوگا: اس کے باطنی معنی لینے کی کوئی دلیل ہے اور نہ ہی ہم اس کے مکلف ہیں۔ایسے دعوے دراصل قرآن کریم کو اپنے من پسند عقائد ونظریات میں ڈھالنے کی دعوت ہے۔مگر جو معنی ومفہوم اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بتائے، صحابہ کرام نے جن پر عمل کیا انہیں قابل اعتناء نہ سمجھا جائے یہ کون سی قرآن دانی ہے؟۔باطنیہ کہا کرتے: قرآن کے الفاظ کا ظاہری مفہوم مراد نہیں لیا جاسکتا اور اس کے باطن کا مفہوم ہر کوئی نہیں جانتا۔اسے صرف ہمارے باطنی ائمہ ہی جانتے ہیں۔ باطنی معنی میں اشاری معنی بھی آجاتا ہے ۔ مثلاً کوئی یہ کہے کہ اس لفظ کے معنی ومفہوم کا مجھے اشارہ ہوا ہے۔ یہ اشارے اگر اللہ کے رسول کے کہے یا مراد کے مطابق ہوں تو درست ورنہ یہ شیطانی اشارے بھی ہو سکتے ہیں۔یہ دونوں انداز فکر رسول اللہ ﷺ سے اور امت کے اجماع سے جان چھڑانے اور اپنی الگ شریعت سازی کے مترادف ہیں۔
عاجز کردینے والا : المُعْجِز کا مطلب ہے عاجز کر دینے والا۔ قرآن مجید نے ثابت کر دیا کہ عرب فصحاء ہی نہیں بلکہ دنیا کے سارے انسان اس جیسی کتاب پیش کرنے سے عاجز و قاصر ہیں۔ اس میں غیب کی خبریں اور امم سابقہ کے حالات ہیں۔ زمان ومکان کی مناسبت سے معاشی اور معاشرتی ضرورت کو دیکھ کر اس میں محکم قانون سازی کی گئی ہے۔ عقل انسانی دنگ اور بے بس ہے کہ اس جیسی کوئی چیز مقابلہ کے طور پرلاسکے۔ خود قرآن نے بنی نوع انسان کو متعدد بار یہ چیلنج دیا کہ وہ اس جیسی کوئی چیز لے آئیں۔ باوجود اس بات کے کہ یہ چیلنج ہمتوں کو ابھارنے والا اور مقابلہ کے لیے آمادہ کرنے والا تھا۔ محرک بھی موجود تھا مگر پھر بھی وہ اس کے مقابلہ سے عاجز رہے۔مثلا ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِيْرًا۝۸۸ } (الاسراء : ۸۸) کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جن سب جمع ہو کر اس قرآن کی مانند ایک کتاب لانا چاہیں تو نہ لا سکیں گے۔خواہ وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔
اسی چیلنج کو ایک اور جگہ ذرا کمی کرکے ان الفاظ میں دہرایا گیا:

{اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىہُ۝۰ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَيٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۱۳ } (ہود :۱۳) کیا یہ کہتے ہیں کہ اسے رسول نے گھڑا ہے۔ کہہ دیجئے کہ اس جیسی دس گھڑی ہوئی سورتیں لے آؤ اور اللہ کے سوا جس کو بلانا چاہوبلا لو اگر تم سچے ہو۔
جب اس سے بھی عاجز رہے تو ایک آدھ چھوٹی سورت کا کہہ دیا۔

{وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّـمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ۝۰۠ وَادْعُوْا شُہَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۲۳ } (البقرہ:۲۳) اگر اس چیز کے بارے میں تمہیں کوئی شک ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ اللہ کے سوا اپنے تمام مددگار بلا لو اگر تم سچے ہو۔
اس چیلنج کا اولین مقصد یہی تھا کہ نبی امی جناب محمد بن عبد اللہ ﷺ کی رسالت ونبوت ثابت کی جاسکے۔ رسول اکرم ﷺ کا اُمی ہونا آپ ﷺ کے حق میں معجزہ ہے مگر امت کا امی ہونا امت کے حق میں معجزہ نہیں۔ قرآن مجید کو نازل ہوئے آج پندرہ سو سال گزرگئے ہیں یہ بھی اس کا معجزہ ہے جس نے افراد امت کا تعلق نہ صرف اللہ سے جوڑا بلکہ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ سے بھی منسلک کردیا۔اس کے علاوہ بے شمار پہلو ایسے ہیں جو معجزہیں جن کا ذکر ہم آگے کریں گے۔
نازل کیا گیا : المُنَزَّلُ کا مطلب ہے بتدریج نازل کردہ۔یعنی صرف وہ کلام ، قرآن یا کلام اللہ ہے جو آپ ﷺ پر بذریعہ وحی اترا۔ صحف ابراہیم وموسی، تورات، زبور ، انجیل وغیرہ کلام الٰہی ہونے کے باوجود قرآن میں شامل نہیں کیونکہ وہ دوسرے انبیاء پر نازل ہوئیں۔ مُنَزَّل کہنے سے یہ نکات بھی معلوم ہوئے کہ غیر اللہ یعنی کسی انسان، نبی، فرشتہ کا کلام اس میں شامل نہیں۔ خواہ وہ حدیث قدسی ہی کیوں نہ ہو۔ نیز قرآن مجید عربی میں ہے اورلفظ و معنی دونوں کا نام ہے ۔ اس بناء پر احادیث قرآن میں شامل نہیں کیونکہ ان کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں اگرچہ ان کے مضامین و مطالب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحیِ خفی آپﷺ پر نازل ہوئے ہیں۔ اسی طرح تفسیرقرآن بھی اس میں داخل نہیں خواہ وہ عربی میں ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے ہی عربی سے دوسری زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ بھی قرآن نہیں اور نہ یہ ترجمہ قرآن میں شامل ہے۔
بذریعہ جبرائیل: قرآن مجید، سیدنا جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے آپ ﷺ کے قلب اطہر پر نازل ہواہے کیونکہ وہی حفظ ویادداشت کا مرکز ہے۔ قرآن مجید میں ہے: 

{وَاِنَّہٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۹۲ۭ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ۝۱۹۳ۙ عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ۝۱۹۴ۙ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ۝۱۹۵ۭ} (الشعراء : ۱۹۲۔ ۱۹۵)اور بلا شبہ یہ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے جسے روح الامین لے کر اترے ہیں اسے آپﷺ کے قلب اطہر پر اتارا ہے تاکہ آپ انذار کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔ صاف ، واضح عربی زبان میں ہے ۔
اس طرح قرآن کی عظمت، ملائکہ اور اہل ایمان دونوں پر واضح کردی گئی اور آپ ﷺ کو بھی یقین ہوگیا کہ یہ شیطانی کلام نہیں بلکہ جبریل امین ہی اسے میرے پاس لائے ہیں جو فرشتوں کے مطاع ہیں۔ باقی قائمۃ الکروبین، اہل المراتب والتمکین جیسے فرشتے یا نون فرشتہ اور قلم فرشتہ سب اختراعات ہیں جو عوام کو قرآنی عقیدہ سے ہٹانے والی باتیں ہیں۔
لسان عربی : ابن فارس نے لکھا ہے:{خلق الإنسان علمہ البیان} اللہ تعالیٰ نے بیان کو دیگر مخلوقات مثلاً: شمس وقمر، نجوم وشجر کے ذکر سے قبل بیان کی۔جس کاسکھا دینا بہت بڑی عنایت ربانی ہے دوسرے اس سے محروم ہیں۔پھر یہ بیان عربی زبان میں ہے کیونکہ دیگر زبانوں میں یہ وسعت نہیں اسی بناء پر عربی زبان کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔باقی وحی کا کسی زبان میں اترنا بڑا مسئلہ نہیں ۔اگروحی عبرانی یا سریانی زبان میں اترسکتی ہے تو خالص عربی میں کیوں نہیں؟ لسان عربی سے مراد یہ نہیں کہ قرآن مجید سابقہ الہامی کتب کے مثل ایک کتاب ہے بلکہ بنیادی طور پر دوسری کتب کے مقابلے میں قرآن مجید کو اپنا منفرد مقام حاصل ہے۔
کتابی شکل: المکتوب کا مطلب ہے لکھا ہوا ۔اور المصاحف جمع ہے مصحف کی، یعنی یہ لوح محفوظ میں لکھا ہواہے نیز آیات کے نزول کے بعد آپ ﷺ بھی اسے لکھوالیتے۔مگرکتابت سے پہلے بھی یہ قرآن، قرآن کہلاتا تھا ۔ معلوم ہوا کہ قرآن محض زبانی الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ کتابی شکل میں بھی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{وَالطُّوْرِ۝۱ۙ وَكِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ۝۲ۙ فِيْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ۝۳ۙ } (الطور:۱۔۳) قسم ہے طور کی ، اور لکھی ہوئی کتاب کی، پھیلے ہوئے صفحات میں۔
اس کی قراء ت عبادت ہے :یعنی اس کتاب کی تلاوت کو عبادت کا درجہ حاصل ہے تاکہ مومن رب کی قربت حاصل کرے۔ اسے اقامت صلوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کے ساتھ رکھا گیا ہے اور اس پر نہ ضائع ہونے والی تجارت کی بشارت دی گئی ہے۔

{اِنَّ الَّذِيْنَ يَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللہِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَۃً يَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَـبُوْرَ۝۲۹ۙ} (فاطر :۲۹) بے شک وہ لوگ جو اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے انہیں رزق دیا اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کی امید رکھتے ہیں جو ہرگز ضائع نہیں ہوگی۔
آپ ﷺ نے تلاوت قرآن پر ثواب کی بشارت یوں ارشاد فرمائی:
جو شخص قرآن مجید کے ایک حرف کی تلاوت کرے گا۔ اسے دس نیکیوں کا ثواب ملے گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے۔ بلکہ الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے۔ اور میم ایک حرف ہے۔
غیرمنقطع متواتر روایت : اس سے مراد یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ سے صحابہ کرام نے قرآن مجید لیا پھر ان سے لے کر آج تک قرآن مجید ایک سے دوسری نسل میں منتقل ہوتا آیا ہے اور کسی بھی مرحلے میںیہ سلسلہ منقطع نہیں ہوا۔جس کی ایک متواترسند یہ ہے: رسول اللہ ﷺ سے سیدتنا ام سلمہؓ نے ان سے حسن بصری نے، ان سے یحیی بن یعمر نے اور ان سے ابو عمر بن العلاء البصری نے اور پھر ان کے بے شمار شاگردوں نے حاصل کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ جس کا محافظ اللہ تعالیٰ ہو، جس کی سند متصل ہو ، جسے صرف مطہرون ہی چھوتے ہوںاور جسے حفظ کیا جاتا ہو۔ جو بغیر نقاط اور اعراب کے تھا اور جس کی تلاوت میں یا فہم میں بکثرت غلطیاں ہوسکتی تھیں ۔ اس میں آسانی کے لئے نقاط اور اعراب ڈالے گئے ہوں اور جو ابھی تک بے شمارمحاسن لے کر نشر ہوتا ہے۔ایسی خوبیاں آخر کون سی کتاب میں ملیں گی؟ اس عنوان سے ایک اور نکتہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی وہ قراء تیں جو تواتر سے ہٹ کے ہیں وہ بھی معتبر نہیں ۔ کیونکہ انہیں تواتر کی حیثیت حاصل نہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

Yusufzai (Pashtun tribe)

The  Yūsufzai  (also  Youssofzay ,  Yousefzai ,  Yousafzai ,  Esapzey ,  Yousufi , or  Yūsufi ) (Pashto:  يوسفزی ,Persian and Urdu:  یوسف زئی ) is one of the largest Pashtun (Afghans) tribes. The majority of the Yusufzai tribe reside in parts of Western Afghanistan, Khyber Pakhtunkhwa and Provincially Administered Tribal Areas near the Afghan-Pakistan border. They are the predominant population in the districts of Konar, Ningarhar, Mardan District, Dir, Swat,Malakand, Swabi, Buner, Shangla, Haripur District [Khalabat Town Ship and Tarbela] and in Mansehra and Battagram. There is also a Yusufzai clan of Dehwar tribe in the Mastung district of Balochistan who speak Persian with some mixture of Birahvi words. The descendants of Yusuf inhabit Konar, Jalalabad, Swat, Upper Dir, Lower Dir, Malakand Swabi and Mardan. The begotten tribe of  Yusufzai' s are the Utmanzai having 3 major subdivions Alizai, Akazai and Kanazai, of Tarbela (now live in Khalabat Town Ship, District

رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم

  رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم  قرآن مجید میں پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مختلف صفات کا ذکر آیا ہے،  یہ تمام صفات اپنی جگہ اہم ہیں اور آپ کے محاسن کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم صفت یہ ہے کہ آپ کو تمام عالم کے لئے رحمت قرار دیا گیا،  وما أرسلنٰک الا رحمۃ للعالمین (الانبیاء : ۱۰۷)  —– اس تعبیر کی و سعت اور ہمہ گیری پر غور فرمائیے کہ آپ کی رحمت مکان و مقام کی وسعت کے لحاظ سے پوری کائنات کو شامل ہے اور زمانہ و زمان کی ہمہ گیری کے اعتبار سے قیامت تک آنے والے عرصہ کو حاوی ہے، یہ کوئی معمولی دعویٰ نہیں، اور شاید ہی تاریخ کی کسی شخصیت کے بارے میں ایسا دعویٰ کیا گیا ہو، یہ دعویٰ جتنا عظیم ہے اسی قدر واقعہ کے مطابق بھی ہے،  آپ کی رحمت کا دائرہ یوں تو پوری کائنات تک وسیع ہے، زندگی کے ہر گوشہ میں آپ کا اسوہ رحمت کا نمونہ ہے، لیکن اس وقت انسانیت پر آپ کی رحمت کے چند خاص پہلوؤں پر روشنی ڈالنا مقصود ہے ۔ ان میں پہلی بات یہ ہے کہ آپ نے انسانیت کو وحدت الٰہ کا تصور دیا، خدا کو ایک ما ننا بظاہر ایک سادہ سی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن بمقابلہ الحاد و انکار اور شرک و مخلوق پر

عشرة ذوالحجہ

 *✨عشرة ذوالحجہ* *✨مختصر تعارف * 🌿 ذوالحجہ کا پہلا عشره نیکیوں اور اجر و ثواب کے اعتبار سے عام دنوں کے مقابلے میں بہت اہم ہے، جس کی فضیلت قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن مجید میں الله سبحانه و تعالیٰ نے ان دس دن کی قسم کھائی ہے۔ *🌿 وَالْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ*   "قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی" (الفجر : 2-1)  اکثر مفسرین کے نزدیک *’’لَیَالٍ عَشْرٍ‘‘* سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ ان دس دنوں میں کئے جانے والے اعمال الله تعالیٰ کو دیگر دنوں کی نسبت زیاده محبوب ہیں۔ 🌿 رسول الله ﷺ نے فرمایا : "کسی بھی دن کیا ہوا عمل الله تعالیٰ کو ان دس دنوں میں کئے ہوئے عمل سے زیاده محبوب نہیں ہے،  انہوں (صحابہ ؓ) نے پوچھا : اے الله کے رسول ﷺ، جہاد فی سبیل الله بھی نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : "جہاد فی سبیل الله بھی نہیں ہاں مگر وه شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے۔" (سنن ابوداؤد) 🌿 عبدالله ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : "کوئی دن الله تعالیٰ کے ہاں ان دس دنوں سے زیاده عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل الله تعالیٰ