اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اسے دنیا کے رہن سہن کا سلیقہ سکھایا اور ساتھ ساتھ انسان کو انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا۔انفاق وفیاضی کا ایک بڑا درجہ ایثار ہے‘یعنی دوسروں کو آرام پہنچانے کی خاطراپنا آرام چھوڑنا ‘ خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلانا‘ خود پیاسا رہ کر دوسروں کو پلانا‘ خود تکلیف برداشت کرکے دوسروں کو راحت پہنچانا‘ غرض یہ کہ دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر مقدم رکھنے کوایثار کہتے ہیں۔یہ انسانی شرافت کا بہترین جوہر ہے۔جیساکہ باری تعالیٰ نے صحابہ کرام کی صفات کے متعلق ارشاد فرمایا:
”یؤثرون علی انفسہم ولو کان بہم خصاصة“ ۔(سورہ حشر:۹)
ترجمہ:․․․”اور مقدم رکھتے ہیں ان کو اپنی جان سے اور اگرچہ ہو اپنے اوپر فاقہ“۔اس صفت ”ایثار“ کا اہم درجہ قربانی ہے‘ مثل مشہور ہے: ”الجود بالنفس غایة الجود“ محبوب کی خاطر جان قربان کردینا اعلیٰ درجہ کی فیاضی ہے۔قربانی کا معنی ہے ”ما یتقرب بہ الی الله ‘ یقال: قربت الله“ یعنی قربان اس چیز کو کہتے ہیں‘ جس کے ساتھ انسان خدا تعالیٰ کا قرب ڈھونڈتا ہے‘ چنانچہ کہتے ہیں ”قربت لله قرباناً“ چونکہ انسان قربانی سے قرب الٰہی کا طالب ہوتا ہے‘ اس لئے اس فعل کا نام بھی قربانی ہوا۔ کائنات کی ہر چھوٹی چیز اپنی سے بڑی چیز پر فدا اور قربان ہوتی دکھائی دیتی ہے‘ تمام جمادات نباتات کے لئے‘ تمام نباتات حیوانات کے لئے اور حیوانات انسان کے لئے قربانی دیتے ہیں۔قربانی کا نظریہ ایک عالمگیر نظریہ اور عقیدہ ہے جو ہرقوم وملت میں رہا ہے۔جیسے قرآن مجید میں ارشاد ہے:
:- ”ولکل امة جعلنا منسکا“ - (الحج:۳۴)
ترجمہ:․․․”ہرقوم وملت کے لئے ہم نے قربانی مقرر کردی ہے“۔
:-” اذ قربا قرباناً فتقبل من احدہما ولم یتقبل من الآخر“۔ (المائدہ: )
یعنی سید البشر حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کے درمیان ایک مسئلے کے بارے میں اختلاف ہوگیا‘ اس وقت شرعی دستور یہ تھا کہ دونوں جھگڑنے والے قربانی کریں‘ جس کی قربانی کو آسمانی آگ جلادے‘ وہ سچا سمجھا جائے گااور جس کی قربانی پڑی رہے وہ جھوٹا ہوگا۔ ہابیل نے اپنے ریوڑ میں سے موٹا تازہ مینڈھا قربان کیا اور قابیل نے ناقص قسم کا غلہ قربانی کے طور پر پیش کیا‘ ہابیل کی قربانی منظور ہوئی‘ اس کی قربانی کو آسمانی آگ نے جلادیا۔ قابیل کا غلہ پڑا رہا اور اس کی قربانی نامنظور ہوئی‘ قابیل کے دل میں حسد پیدا ہوا اور اس نے ہابیل کو قتل کردیا۔اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اپنے اپنے وقتوں میں جانوروں کی قربانی کرنا توریت سے ثابت ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے گھوڑوں کی قربانی کی ہے‘ اسی طرح دوسری قوموں میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے‘ کسی نے اس کو ”بلیدان“ کے نام سے یاد کیا ہے ‘ کسی نے قربانی کو نذراور کسی نے بھینٹ کے نام سے پکارا ہے۔امت مسلمہ کی قربانی کی نسبتجب فخر دو عالم‘ محسن انسانیت ﷺ سے پوچھا گیا ”ما ہذہ الاضاحی“؟ یہ قربانیاں کیا ہیں یعنی کس کی یادگار ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے‘ گویا ہماری قربانی کی ابتداء حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم ہوا کہ اپنی پسندیدہ (محبوب) چیز کو قربان کرو‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے اس بارے میں رائے طلب کی‘ اس پر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا: ”یآبت
فعل ما تؤمر ستجدنی ان شاء الله من الصابرین․․․“ ۔( الصافات:)
”یعنی جو آپ کے رب نے آپ کو حکم دیا ہے آپ کر گذریں‘ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے“۔اس اطاعت وفرمانبرداری کو دیکھ کر یہ شعر یاد آجاتاہے:میری مشاطگی کی کیا ضرورت ہے حسن معنی کو کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالہ کی حنا بندیعلامہ اقبال نے اس منظر کو اس طرح پیش کیا:یہ فیضان نظر تھا یاکہ مکتب کی کرامت تھیسکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندیچنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگر کو ذبح کرنا چاہا‘ لیکن چھری نے اللہ کے حکم سے کام نہیں کیا‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو حکم دیا کہ جنت سے ایک دنبہ لے کر آؤ‘ تو ملائکہ نے دنبہ لاکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاؤں کے نیچے دیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو نکال دیا‘ اس طرح قربانی دنبہ کی شکل میں قبول ہوئی اور یہ سنت آئندہ آنے والی نسلوں کے واسطے قائم کردی گئی اور قیامت تک یہ سنت جاری رہے گی۔اس واقعہ میں ہمارے لئے صبر واستقلال‘ ایثار وغم خواری اور شجاعت وبہادری کی طرف اشارہ ہے‘ کہ ایثار اور صبر حضرت ابراہیم‘ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہم السلام سے سیکھو۔
قربانی کی فضیلت
”․․․․قالوا فما لنافیہا یا رسول الله ؟ قال بکل شعرة حسنة‘ قالوا فالصوف یا رسول اللہ؟ قال بکل شعرة من الصوف حسنة“۔ (رواہ احمد وابن ماجہ)
ترجمہ:․․․․”صحابہ کرام نے آپ ﷺ سے عرض کیا :اس میں ہمیں کیا ثواب ملے گا؟آپ ﷺ نے فرمایا: ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔صحابہ کرام نے عرض کیا: اگر قربانی کا جانور ایسا ہو جس پر اون ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اون کے ہربال کے بدلے میں ایک نیکی لکھی جائے گی“۔
جاہلانہ اعتراض
آج کل بعض پڑھے لکھے جاہلوں سے یہ اعتراض سنا جاتا ہے کہ قربانی کیا ہے؟ یہ قربانی (معاذ اللہ) خواہ مخواہ رکھی گئی ہے‘ قربانی شریعت کو مقصود نہیں بلکہ یہ تو خلاف عقل ہے کہ ایک دن میں اتنے جانوروں پر ظلم کرکے ان کو ذبح کیا جاتاہے‘ لاکھوں روپے خون کی شکل میں نالیوں میں بہائے جاتے ہیں‘ یہ تو معاشی اعتبار سے بھی نقصان ہے کہ کتنے جانور کم ہوجاتے ہیں‘ لہذا قربانی کے بجائے یہ کرنا چاہئے کہ وہ لوگ جو غریب ہیں جو بھوک سے بلبلا رہے ہیں‘ قربانی کرکے گوشت تقسیم کرنے کے بجائے اگر وہ پیسے ان غرباء ومساکین کو دیدیئے جائیں تو ا ن کی ضروریات بہتر طریقے سے پوری ہوسکتی ہیں۔بات یہ ہے کہ قربانی کی صورت میں ایک تعلیم ہے‘ جسے عالم اور جاہل سب جانتے ہیں‘ وہ تعلیم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کے خون اور گوشت کی پرواہ نہیں ‘ بلکہ وہ ہمیں سکھانا چاہتا ہے کہ تم بھی اللہ کے حضوروقت آنے پر اپنی جان‘ مال ‘ عزت آبرو اس طرح قربان کرو‘ جس طرح کہ یہ جانور اللہ کے نام پر تمہارے ہاتھوں اپنی گردن کٹوا رہا ہے۔اپنے جانور کو اللہ کے حکم پر قربان کرنا یہ بھی ہمارا ہی قربان ہونا ہے کہ اپنے بدلے اپنا قیمتی جانور قربان کررہے ہیں۔یہ کہنا کہ جانوروں کو عید الاضحی پر قربان اس لئے نہ کریں کہ ہمارا ذبح کرنا رحم کے خلاف ہے‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے اس طرح نہ کرنے سے کیا وہ جانور ہمیشہ زندہ رہیں گے؟ اگر ان کو ذبح نہ کیا جاوے توکیا وہ خود بیمار ہوکرنہ مریں گے؟یہ کہنا کہ قربانی خود شریعت میں مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود غرباء کی امداد ہے اور ابتداء اسلام میں لوگوں کے پاس نقد کم تھا‘ مویشی زیادہ تھے‘ اس لئے یہ طریقہ اختیارکیا گیا کہ جانور کو ذبح کرکے غرباء کو گوشت دیدیاجاتا‘ چونکہ اس زمانے میں نقد بھی موجود ہے‘ غلہ بھی موجود ہے‘ پس آجکل بجائے قربانی کے نقد روپئے سے غرباء کی امداد کرنی چاہئے۔ جواب یہ ہے کہ یہ سمجھنا کہ قربانی کی حکمت غرباء کی مدد کرنا ہے ،یہ صحیح نہیں۔ بلکہ مقصود تو تعمیل حکم ہے‘ کیونکہ اگر یہ حکمت مقصود ہوتی تو اس کی کیا وجہ ہے کہ غرباء کواگر قربانی کا گوشت دیا جائے تو واجب ادا ہو‘ اوراگر زندہ جانور کسی غریب کو دے دیں تو واجب ادا نہ ہو۔کیا پہلے مسلمانوں پر نقد کی وسعت کبھی نہ ہوئی تھی؟ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نے جس وقت قیصر وکسریٰ کے خزانے فتح کئے ہیں تو اس وقت مسلمانوں کے پاس نقد سونا اور چاندی اس قدر تھا کہ آج کل تو اس کا عشر عشیر بھی نہ ہوگا‘ پھر اس وقت صحابہ کرام کو یہ بات کیوں نہ سوجھی جو آجکل نام نہاد روشن خیالوں کو سوجھی ہے اور صحابہ کرام نے بجائے قربانی کے نقد امداد کو کیوں نہ اختیار کیا ؟رہی بات قربانی کا خلاف العقل ہونا تو اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ دنیا کی عارضی عدالت میں ایک جج اگر کسی مجرم کو سزا ئے موت دے اور مجرم یہ کہے کہ یہ سزا تو عقل کے خلاف ہے تو کیا وہ جج اس کی اس بات کی سماعت کرے گا؟ ہرگز نہیں- بلکہ وہ کہے گا کہ قانون پر تمہاری عقل کی حکومت نہیں‘ بلکہ قانون‘ عقل پر حاکم ہے- اور اس کے اس جواب کو سب عقلاء تسلیم کرتے ہیں-افسوس یہ ہے کہ قانون الٰہی کو آجکل کے مسلمان اپنی عقل پر حاکم نہیں مانتے بلکہ اس کو اپنی عقل کے تابع کرنا چاہتے ہیں-ورنہ قانون الٰہی تو بالکل عقل کے مطابق ہے‘ بشرطیکہ عقل سلیم ہو‘ یہ کیا ضروری ہے کہ ہر شخص کی عقل میں شریعت کی حکمتیں آجایا کریں‘ آخر پارلیمنٹ کے اراکین جو قوانین تجویز کرتے ہیں‘ کیا ہر عامی کی عقل اس کے مصالح تک پہنچ پاتی ہے؟ ہر گز نہیں- بلکہ اس کے مصالح وحکم کو خاص خاص لوگ ہی سمجھتے ہیں‘ پھر آج قانون الٰہی کی حکمتوں اور مصالح کو ہر شخص اپنی عقل سے کیوں معلوم کرنا چاہتا ہے اور یہاں یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ قانون الٰہی عقل کے مطالق ضرور ہے مگر ہماری عقلیں اس کے مصالح سمجھنے سے قاصر ہیں‘ کیونکہ قانون پر عقل حاکم نہیں‘ بلکہ عقل اس کی ماتحت اور اس کے تابع ہے‘ قربانی کے خلاف پروپیگنڈہ عقل کے خلاف ہے‘ یہ پروپیگنڈہ وہ لوگ کرتے ہیں جو دین اسلام کی روح سے ناواقف ہیں۔یاد رکھنا چاہئے کہ دین اسلام کا اصل جوہر ”اتباع کامل“ ہے‘ جب تک انسان میں اتباع کا جذبہ نہیں ہو گا‘ اس وقت تک انسان ‘ انسان نہیں بن سکتا- آجکل معاشرے میں جتنی بدعنوانیاں‘ مظالم‘ نافرمانیاں‘ اورتباہ کاریاں پھیلی ہوئی ہیں، وہ درحقیقت اس بنیاد کو فراموش کرنے کی وجہ سے ہیں کہ انسان اپنی عقل کے پیچھے چلتا ہے‘ اللہ کے حکم کی اتباع نہیں کرتا۔
Comments
Post a Comment