Skip to main content

تدوین قرآن اور حضرت ابو بکر صدیق

تدوین قرآن اور حضرت ابو بکر صدیق


پورا قرآن عہد رسالت میں لکھا جاچکا تھا مگر اس کی آیتیں اور سورتیں یکجا نہ تھی اولین شخص جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترتیب کے مطابق اس کو مختلف صحیفوں میں جمع کیا وہ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہتھے۔
ابو عبداللہ محاسبی( حارث بن اسدمحاسبی کی کنیتابو عبداللہ تھی ۔آپ اکابر صوفیہ میں تھے آپ فقہ واصول کے بہت بڑے عالم تھے اپنے عصر وعہد میں یہ اہل بغداد کے مشہور استادتھے آپ نے بغداد میں ۲۴۳ھجری میں وفات پائ (الاعلام للزرکلی،ج۲،ص۱۵۳)اپنی کتاب ''فہم السنن''میں رقمطرازہیں:
''قرآن کی کتابت کوئ نئ چیز نہ تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود اس کے لکھنے کا حکم دیا کرتے تھے البتہ وہ کاغذ کے ٹکٹڑوں۔شانہ کی ہڈیوں اور کھجور کی ٹہنیوں پر بکھرا پڑا تھا ۔حضرت ابو بکررضی اللہ تعالٰی عنہ نے متفرق جگہوں سے اس کو یکجا کرنے کا حکم دیا یہ سب اشیاء یوں تھیں جیسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں اوراق منتشر پڑے ہوں اور ان میں قرآن لکھا ہو اہو ایک جمع کرنے والے (حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ )نے ان اوراق کو جمع کرکے ایک دھاگے سے باندھ دیا تاکہ ان میں سے کوئی چیز ضائع نہ ہوپائے۔(البرہان ،ج۱،ص۲۳۸،الاتقان،ج۱،ص۱۰۱)
حضرت ابو بکر نے تدوین قرآن کا آغاز جنگ یمامہ کے بعد ۱۲ھجری میں کیا۔ یہ جنگ اہل اسلام اور مسلمہ کذاب کے متبعین کے بابین ہوئ تھی ۔اس مٰیں ستر حفاظ قرآن صحابہ نے شہادت پائ۔ حضرت عمر اس سے بہت خوف زدہ ہوئے اور بارگاہ صدیقی میں حاضر ہوکر قرآن جمع کرنے کا مطالبہ کیا ۔صحیح بخاری میں حضرت زید بن ثابترضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ جنگ یمامہ کے بعد حضرت ابو بکررضی اللہ تعالٰی عنہ نے مجھے بلایا حضرت فاروقرضی اللہ تعالٰی عنہ بھی تشریف فرماتھے۔حضرت صدیق نے فرمایاجناب فاروق میرے یہاں آئے اور فرمایا جنگ یمامہ کثیر حفاظ قرآن نے شہادت پائ ہے اگر حفاظ قرآن کی شہادت کا یہی عالم رہا تو قرآن کا کوئ حصہ ضائع ہوجانے کا خدشہ ہے اس لئے قرآن کو یکجا کرلینا چاہئیے ۔میں نے عمر سے کہا ''ہم وہ کام کیسے کرسکتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟عمررضی اللہ تعالٰی عنہعمررضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا بخدا یہ بہتر کام ہے عمررضی اللہ تعالٰی عنہ مجھ سے باربارمطالبہ کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اس ضمن میں مجھے شرح صدر سے نوازاآپ ایک دانشمند نوجوان ہیں۔ہمیں آپ پر کوئ بدگمانی نہیں آپ عہد رسالت میں کاتب وحی رہ چکے ہیں اس لئے قرآن کو ہوش کرکے جمع کیجئے ۔ حضرت زید کا بیان ہے کہ''بخدا اگر جناب صدیق مجھےکسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے نقل کرنے کا حکم دیتے تو وہ میرے لئے اس ذمہ داری کی نسبت آسان تر ہوجاتا میں نے کہا آخر آپ ایسا کام کیوں کریں گے جوآ نحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟حضرت ابوبکر نے کہا''بخدایہ بہتر ہے ''پھر حضرت ابوبکر مجھ سے بتاکید یہی بات کہتے رہے حتیٰ کے حضرت ابوبکر وعمر مجھے بھی اللہ تعالیٰ نے اس ضمن میں شرح صدر عطا کیا۔ میں نے قرآن کی پتھر کی باریک سلوں کھجور کی ٹہنیوں اور آدمیوں کے سینے سے تلاش کرنا شروع کیا یہاں تک کہ یہ سورہ توبہ کا آخری حصہ مجھے ابو خزیمہ انصاری کے پاس ملا ۔(ایک روایت میں یوں ہے کہ سورہ توبہ کا آخری جز میں نے ابو خزیمہ انصاری کے پاس پایا تھا جن کی شہادت کو سرورکائنات نے دوآدمیوں کے مساوی قراردیا تھا(البرہان ،ج۱،ص۲۳۴)مگر تہذیب التہذیب ،ج۳،ص۱۴۰پر مرقوم ہے کہ جس شخص کی شہادت کو آپ نے دوآدمیوں کے مساوی قراردیا تھا وہ خزیمہ ثابت انصاری تھے نہ کہ ابو خزیمہ انساری ۔گویا خزیمہ ثابت انصاری اور ہیںاور ابوخزیمہ انصاری شخصے دیگر ۔صحیح بخاری میں ہے کہ زید نے خزیمہ ثابت کے پاس سورہ احزاب کی آیت پائ تھی ۔ممکن ہے کہ رواۃ حدیث اور مورخین کو اس معاملہ میں غلطی لگی ہو )کسی اور سے نہ مل سکا وہ آیت یہ تھی :لقد جاءکمرسول من انفسکم سورہ توبہ کے آخر تک ۔میرے تحریر کے دو صحیفے حضرت ابو بکررضی اللہ تعالٰی عنہ کی وفات تک ان کے پاس رہے پھر حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس رہے ۔ان کی شہادت کے بعد یہ صحیفے حضرت حفصہرضی اللہ تعالٰی عنہ کی تحویل میں آگئے ۔(صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب سوم وچہارم نیز کتاب الاحکام باب ۳۰۔نیز مسند احمد ،ج۱،ص۱۳۔مسند احمد طبع شاکر ،ج۱،ص۱۸۵،حدیث نمبر ۷۶،وطبقات ابن سعد ،ج،۳،ق۲،ص۲۰۱۔)
ممکن ہے کہ مذکورہ صدور واقعہ پڑھ کر قاری اس اشکال میں مبتلا ہو کہ حضرت زید کو یہ آیت دیگر صحابہ کے پاس کیوں نہ ملی؟مگر یہ اشکال جلد ہی ذائل ہوجائے گا جب قاری کو معلوم ہوگا کہ حجرت زید کا مقصد یہ بتانا تھا کہ وہ آیت کسی اور صحابہ کے پاس لکھی ہوئ نہ تھی۔(الاتقان ،ج۱،ص۱۰۱۔امام سیوطی ابو شامہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ:کسی اور کے پاس نہ پانے کے معنی یہ ہیں کہ کسی کے پاس یہ آیت تحریر شدہ صورت میں نہ تھی) جب ابو خزیمہ انصاری کے پاس وہ آیت تحریر شدہ صورت میں مل گئ۔تو حضرت زید نے اسے قبول کرلیا اس لئے کہ بہت سے صحابہ بلکہ حضرت زیدکو بھی یہ آیت زبانی یاد تھی مگر وہ بنابروع وتقوی یہ چاہتے تھے کہ یہ آیت تحریری صورت میں بھی مل جائے تاکہ حفظ وکتابت کے مل جانے سے اس میں مزید پختگی اور استحکام پیدا ہوجائے۔ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ کے حکم سے جو قرآن زید نے جمع کیا تھا وہ اس میں اسی راہ پر گامزن رہے ہر آیت یا چند آیت کو قبول کرنے کے لئے دو گواہوں کی ضرورت تھی اور وہ تھے۔۔۔۔۔(۱)حفظ (۲)کتابت۔
حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ اور زید بن ثابترضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا تھاکہ''مسجد کے دروازہ پر بیٹھ جائیں اور جو شخص کتاب اللہ کے کسی حصے پر دوگواہ پیش کرےتو وہ حصہ لکھ لیا کرو۔ (الاتقان،ج۱،ص،۱۰۰)
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ دوگواہوں سے حفظ وکتابت مراد ہیں۔
یہ حدیث منقطع ہے ۔اس کو ابن ابی داؤد نے بطریق ہشام بن عروہ ازوالد خودروایت کیا ہے مگر اس کے سب راوی ثقہ ہیں ۔حافظ ابن حجر عسقلانی کی مذکورہ صدرتوجیہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ ایک گواہ حفظ کے لئےاور ایک کتابت کے ضمن میں کافی ہے بخلاف ازیں جمہور کے نزدیک عادل گواہ حفظ کے لئے اور دو کتابت کے لئے یعنی کل چار گواہ ضروری ہیں۔
جمہور علماء اس کی دلیل میں ابن ابی ابوداؤد کی وہ حدیث پیش کرتے ہیں جو انہوں نے بطریق یحیی بن عبدالرحمان بن حاطب روایت کی ہے کہ حجرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تشریف لائے اور فرمایا کہ جس نے قرآن کا کچھ حصہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یاد کیا ہو وہ پیش کرے۔لوگ ان دنوں قرآن کریم کی آیات کو صحیفوں تختیوں اور کھجور کی چوڑی ٹہنیوں پرلکھا کرتے تھے جب تک وہ گواہ شہادت نہ دیتے تب تک آپ کسی کی پیش کردہ آیت کو قبول نہیں کیا کرتے تھے (الااتقان،ج۱،ص،۱۰۰)سخاوی اپنی کتاب جمال القرآن میں رقمطراز ہیں :
''مقصد یہ ہے کہ دو گواہ اس بات کی شہادت دیں کہ یہ آیت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تحریر کی گئ تھیں۔(الااتقان،ج۱،ص،۱۰۰)
سورہ توبہ کی آخری آیات کو اس قاعدہ سے اس لئے مست ثنیٰ کیا گیا تھا کہ اکثر صحابہ کو یہ آیات زبانی یاد تھیں اس لئے ان کی نقل دروایت تواتر کے درجہ کو پہنچی ہوئ تھی تو گویا یہ متواتر نقل دروایت دوگواہوں کے قائم مقام تھی کہ سورہ توبہ کا یہ آکری حصہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں تحریر کیا گیا ہے۔
باقی رہا زید بن ثابت کا یہ قول کہ''میں نے ان آیات صرف ابو خزیمہ کے پاس پایا''تو اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ خبر واحد کے ساتھ قرآن کا اژبات کیا گیا ہے اس لئے حضرت زید نے بذات خود یہ آیات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی تھیں اور ان کو معلوم تھا کہ یہ آیات کہا ں اور کس سورت سے متعلق ہیں اس ضمن میں صحابہ کی تلاش تائید وتقویت کے لئے تھی ۔اس لئے نہیں کہ آپ قبل ازیں ان آیات سے آگاہ نہ تھے ۔(البرہان ،ج۱۔ص۲۳۴)
حضرت ابو بکر کے جمع سے اہتمام سے جمع وتدوین قرآن کا کام ایک سال کی مدت میں تکمیل پذیر ہوا ۔اس لئے کہ آپ نے حضرت زید کو اس کی خدمت پر جنگ یمامہ کے بعد مومور فرمایا تھا جنگ یمامہ اور حضرت ابوبکر صدیق کی وفات کے درمیان صرف ایک سال کی مدت تھی جب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کو سک طرح کاغذ کے ٹکڑوں ،کھجور کی ٹہنیوں ،پتھر کی سلوں چمڑے کے ٹکڑوں اور کجاوہ کی لکڑیوںسے فراہم کیا گیا تھا تو ہمیں صحابہ کے بلند پایہ عزم اور عالی ہتمی کی دادینی پڑتی ہے ہم یہ دیکھ کر حضرت علی کا مقولہ دہرانے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں ۔حضرت علیرضی اللہ تعالٰی عنہ کا ارشاد ہے :
''اللہ تعالیٰ ابو بکررضی اللہ تعالٰی عنہ پر رحم فرمائے وہ اولین شخص تھے جس نے قرآن کو کتابی صورت میں جمع کیا ''(البرہان ،ج۱،ص۹۳۲۔نیز المصاحف لابن ابی داؤد)
جہاں تک حضرت فاروق اعظمرضی اللہ تعالٰی عنہ کا تعلق ہے وہ تدوین قرآن کے نظریہ کے موجد تھے ۔اس میں شبہ نہیں کہ اس نظریہ کی عملی تکمیل کی سعادت حضرت زید بن ثابترضی اللہ تعالٰی عنہ کے لئے مقدر تھی ۔
امام بخاری نے جو روایت حضرت زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نقل کی ہے اس سے واضح ہوتا کہ ہے جن صحیفوں میں قرآن جمع کیا گیا تھا وہ پہلے حضرت ابو بکررضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس رہے جب آپ نے وفات پائ تو خلفیہ حضرت عُمررضی اللہ تعالٰی عنہ ان کی حفاظت کرتے رہے آپ کی شہادت کے بعد یہ صحیفے خلفیہ ثالث حضرت عثمان کے پاس نہیں بلکہ ام المؤمنین حضرت حفصہ بنت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کی تحویل میں رہے یہاں انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کے مقالہ نویس نے یہ سوال اٹھا یا ہے کہ آیا یہ امر زیادہ موزون نہ تھا کہ ان صحیفوں کو حضرت عثمان کی حفاظت میں دیا جاتا۔دیکھئے (انسائیکلو پیڈیا آف اسلام جلد ۲،ص،۱۱۳۰)
ہم اس سوال کے جواب میں عرض پرداز ہیں کہ ان صحیفوں کا حضرت حفصہ کے زیر حفاظت رہنا موزون نہ تھا کیونکہ حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ نے وصیت کی تھی کہ ان صحیفوں کو حضرت حفصہ کی تحویل میں رکھا جائے ۔ اس لئے کہ محترمہ موصوفہ ام المؤمنین ہونے کے علاوہ حافظ قرآن بھی تھیں پورا قرآن آپ کے سینے میں محفوظ تھا اور آپ اس کی قرأت وکتابت میں پوری مہارت رکھتے تھیں علاوہ ازیں حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے جانشین کا معاملہ شوریٰ کے سپرد کردیا تھا ظاہر ہے کہ خلیفہ بنائے جانے سے قبل یہ امانت حضرت عثمان کو کیسے تفویض کی جاسکتی تھی ؟
بظاہر ایسا معلوم دیتا ہے کہ قرآن کریم کو ''مصحف''کا نام سب سے پہلے حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد خلافت میں دیا گیا تھا ۔ ابن اشتہ(محمد بن عبداللہ محمد بن اشتہ کی کنیت ابوبکرہے ۔آپ بہت بڑے نہودان محقق اورثقہ راوی تھے علوم قرآن کے ساتھ آپ کو شغف کے درجہ تک محبت تھی ۔آپ کی کتاب ''المجّر''آپ کے وسیع علم ہونے کا بین ثبوت ہے آپ نے ۳۶۰ھجری میں وفات پائ(غایۃ النھایہ فی طبقات القراء ،ج۲ ص۱۸۴) نے اپنی کتاب ''المصاحف''میں بطریق موسی عقبی بن عقبہ از ابن شہاب روایت کیا ہے کہ جب قرآن کو جمع کرکےاوراق پر لکھا گیا تو حضرت ابو بکررضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا:اس کا کوئ نام مقرر کیجئے ''بعض نے ''السفر''(پیغامات )تجویز کیا ۔آپ نے فرمایا یہ یہود کا تجویز کردہ نام ہے بعض لوگوں نے''المصف ''نام رکھنے کی تجویز پیش کی۔ یہ نام حبش میں رائج تھااسی پر اتفاق ہوگیا اور قرآن کریم کو ''المصحف ''کہا جانے لگا۔(الاتقان ،ج۱،ص۸۹)
حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ کے جمع کردہ قرآن پر پوری امت کا اجماع منعقد ہوچکا ہے اور اس کو متواتر کا درجہ حاصل ہے اکثر علماء کا خیال ہے کہ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ نے قرآن کریم کو قرأت سبعہ کے مطابق مدون کیا جس طرح وہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہواتھا اس اعتبار سے حضرت صدیق کے جمع کردہ قرآن اور عہد رسالت میں مرتب قرآن کے درمیان کامل یک رنگی وہم آہنگی پائ جاتی ہے اور دونوں میں اوردونوں میں سرے سے کوئ فرق نہیں ہے.

Comments

Popular posts from this blog

Yusufzai (Pashtun tribe)

The  Yūsufzai  (also  Youssofzay ,  Yousefzai ,  Yousafzai ,  Esapzey ,  Yousufi , or  Yūsufi ) (Pashto:  يوسفزی ,Persian and Urdu:  یوسف زئی ) is one of the largest Pashtun (Afghans) tribes. The majority of the Yusufzai tribe reside in parts of Western Afghanistan, Khyber Pakhtunkhwa and Provincially Administered Tribal Areas near the Afghan-Pakistan border. They are the predominant population in the districts of Konar, Ningarhar, Mardan District, Dir, Swat,Malakand, Swabi, Buner, Shangla, Haripur District [Khalabat Town Ship and Tarbela] and in Mansehra and Battagram. There is also a Yusufzai clan of Dehwar tribe in the Mastung district of Balochistan who speak Persian with some mixture of Birahvi words. The descendants of Yusuf inhabit Konar, Jalalabad, Swat, Upper Dir, Lower Dir, Malakand Swabi and Mardan...

Namwar Series by M. A. Rahat (Complete 14 Parts)

Namwar Series by M. A. Rahat (Complete 14 Parts) 4shared Download Part 1 4shared Download Part 2 4shared Download Part 3 4shared Download Part 4 4shared Download Part 5 4shared Download Part 6 4shared Download Part 7 4shared Download Part 8 4shared Download Part 9 4shared Download Part 10 4shared Download Part 11 4shared download Part 12 4shared Download Part 13 4shared Download Last Part 14 Namwar Series by M. A. Rahat (Complete 14 Parts) Box Download and Online Read 1 Box Download and Online Read 2 Box Download and Online Read 3 Box Download and Online Read 4 Box Download and Online Read 5 Box Download and Online Read 6 Box Download and Online Read 7 Box Download and Online Read 8 Box Download and Online Read 9 Box Download and Online Read 10 Box Download and Online Read 11 Box Download and Online read 12 Box Download and Online Read 13 Box Download and Online Read (LAST PART) 14 Namwar Series by M. A. Rahat (Complete 14 ...

Tableeghi Jamat Aur Mashaikh -e- Arab By Shaykh Nur Muhammad Tonsvi

Read Online [6.7 M]

Khoi Hui Baat by Aalia Bukhari

Khoi Hui Baat by Aalia Bukhari Click here     Download  Khoi Hui Baat by Aalia Bukhari  ReadOnline Download

عہد رسالت میں کتابت قرآن

سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل صحابہ کو کاتب وحی مقرر فرمایا تھا: حضرت بوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ ، عمرفاروقرضی اللہ تعالٰی عنہ، عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہ، علیرضی اللہ تعالٰی عنہ، معاویہرضی اللہ تعالٰی عنہ ، زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ،ابی بن کعبرضی اللہ تعالٰی عنہ، خالد بن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ،ثابت بن قیسرضی اللہ تعالٰی عنہ،۔ قرآن کا جو حصہ نازل ہوتا آپ صحابہ کو مامور فرماتے کہ اسے تحریر کرلیں یہاں تک کہ کتابت کے پہلو بہ پہلو قرآن کریم کو سینوں میں بھی محفوظ کرلیا گیا۔(مشہور مستشرق بلاشیر نے کاتبین وحی صحابہ کی تعداد چالیس بتائ ہے دیگر مستشرقین مثلاً شفالی بہل اور کازانوفاکا زاویہ نگاہ بھی یہی ہے مؤخر الذکر نے اس ضمن میں طبقا ابن سعد، طبری ، نووی اور سیرت حلبی پر اعتماد کیا ہے ۔) محدث حاکم نےمستدرک میں زید بن ثابت سے بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق روایت کیا ہے کہ زید بن ثابت نے کہا ہم عہد رسالت میں ''رقاع''(ٹکڑوں)سے قرآن جمع کیا کرتے تھے ۔ (الاتقان،ج۱ص،۹۹نیز البرہان ،ج۱ص۲۳۷) مذکورہ صدر حدیث میں ''رقاع ''کا جو لفظ وا...

LALKAR BY TAHIR JAVED MUGHAL COMPLETE PARTS

Title : Lalkar  Author : Tahir Javed Mughal Parts : Complete 8 Parts Format : RAR/PDF Size : 176 Mb More : Lalkar Urdu Pdf , Free Download Lalkar Tahir Javed Mughal Complete Novel , Urdu Novel Lalkar Pdf Free Complete Download , Download Tahir Javed Mughal Novel Lalkar Complete Pdf Free Urdu BOX DOWLOAD AND ONLINE READ 1 BOX DOWNLOAD AND ONLINE READ 2 BOX DOWNLOAD AND ONLINE READ 3 BOX DOWNLOAD AND ONLINE READ 4 BOX DOWNLOAD AND ONLINE READ 5 BOX DOWNLOAD AND ONLINE READ 6 BOX DOWNLOAD AND ONLINE READ 7 BOX DOWNLOAD AND ONLINE READ 8 MEDIAFIRE DOWNLOAD AND ONLINE READ 1 MEDIAFIRE DOWNLOAD AND ONLINE READ 2 MEDIAFIRE DOWNLOAD AND ONLINE READ 3 MEDIAFIRE DOWNLOAD AND ONLINE READ 4 MEDIAFIRE DOWNLOAD AND ONLINE READ 5 MEDIAFIRE DOWNLOAD AND ONLINE READ 6 MEDIAFIRE DOWNLOAD AND ONLINE READ 7 MEDIAFIRE DOWNLOAD AND ONLINE READ 8

عشرة ذوالحجہ

 *✨عشرة ذوالحجہ* *✨مختصر تعارف * 🌿 ذوالحجہ کا پہلا عشره نیکیوں اور اجر و ثواب کے اعتبار سے عام دنوں کے مقابلے میں بہت اہم ہے، جس کی فضیلت قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن مجید میں الله سبحانه و تعالیٰ نے ان دس دن کی قسم کھائی ہے۔ *🌿 وَالْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ*   "قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی" (الفجر : 2-1)  اکثر مفسرین کے نزدیک *’’لَیَالٍ عَشْرٍ‘‘* سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ ان دس دنوں میں کئے جانے والے اعمال الله تعالیٰ کو دیگر دنوں کی نسبت زیاده محبوب ہیں۔ 🌿 رسول الله ﷺ نے فرمایا : "کسی بھی دن کیا ہوا عمل الله تعالیٰ کو ان دس دنوں میں کئے ہوئے عمل سے زیاده محبوب نہیں ہے،  انہوں (صحابہ ؓ) نے پوچھا : اے الله کے رسول ﷺ، جہاد فی سبیل الله بھی نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : "جہاد فی سبیل الله بھی نہیں ہاں مگر وه شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے۔" (سنن ابوداؤد) 🌿 عبدالله ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : "کوئی دن الله تعالیٰ کے ہاں ان دس دنوں سے زیاده عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل الله تعالیٰ...

روح القدس کی تعبیرات

روح القدس ،جمہور مفسرین کے نزدیک حضر ت جبرئیل ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتَابَ وَقَفَّیْنَاہُ مِنْ بَعْدِہٖ بِالرُّ سُلِ وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرَیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۔(پارہ:1۔ع:11) اور البتہ ہم نے موسٰی علیہ السلام کو کتاب دی ،اس کے بعد پے در پے پیغمبر بھیجے ۔اور ہم نے عیسٰے ابن مریم کو کھلے کھلے معجزے دیے اور پاک روح یعنی جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے سے ہم نے اس کی تائید کی ۔ جمہور مفسرین کے نزدیک ''روح القدس '' حضرت جبرئیل ہیں ،ابن عباس رضی اللہ عنہ ،اضحاک اسدی وغیرہ کا قول یہی ہے ،اور اس قول کی دلیل یہ ہے : وَاِذَابَدَّلْنَا اَٰۃً مَّکَانَ ایَۃٍ وَّاﷲُ اَعْلَمُ مُفْتَرٍ بَلْ اَکْثُرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ قُلْ اَنَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ۔ (پارہ:14۔ع:2) اور جب ہم کسی آیت کی جگہ کوئی دوسری آیت بدل کر لاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے منزلات کی حکمت ومصلحت سے خوب واقف ہوتا ہے مگروہ کہتے ہیں کہ توافتراپرداز ہ...

قرآن کریم کی خصوصیات

کلام اللہ: قرآن میں صرف اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ کسی انسان، جن یافرشتے کا کلام اس میں شامل نہیں۔ اسے اللہ تعالیٰ نے خود ہی کلام اللہ یا آیات اللہ فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {۔۔ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللہِ} (التوبۃ:۶) ....تاکہ وہ کلام اللہ کو سن لے۔ {۔۔۔یَتْلُوْنَ آیَاتِ اللہِ}( آل عمران: ۱۱۳)  وہ اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں۔ غیر مخلوق: قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور کلام کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اس لئے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرح غیر مخلوق ہے۔گوہم اس صفت کی حقیقت نہیں جانتے اور نہ ہی اسے مخلوق کی طرح سمجھتے ہیں۔ بس اتنا جانتے ہیں کہ {لَيْسَ كَمِثْلِہٖ شَيْءٌ}۔ اس جیسا کوئی ہے ہی نہیں۔ دو فرقے اس بارے میں گمراہ ہوگئے۔ ایک قدریہ معتزلہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے ظاہری معنی کو چھوڑ کر تاویلیں کرتا ہے۔ تاویل سے صفات کی تخفیف وانکار لازم آتا ہے جو انتہائی کفر ہے۔ دوسرا فرقہ مشبہہ مجسمہ ہے وہ اس صفت کو مخلوق کے مشابہ بتاتا ہے یہ بھی پہلے سے کم گمراہ نہیں۔ مناسب یہی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی صفات قرآن کریم اور حدیث رسول میں آئی ہیں ان کے لفظی معنی معلوم ہونے ک...