Skip to main content

کیا حساب وکتاب کا یقین نہیں؟

”جو آدمی نماز نہیں ادا کرتا‘ اسے جسم وجان اور لباس پاک رکھنے کی کیا ضرورت ہے“ جو شخص زکوٰة کی ادائیگی نہیں کرتا‘ وہ حلال مال کمانے کا تکلف کیوں کرے گا؟ اور جس انسان کو مرنے کے بعد حساب وکتاب پر یقین نہیں ہے‘ وہ دوسروں کے حقوق غصب کیوں نہ کرے گا؟ مرنے کے بعد زندہ ہونے اور اعمال صالحہ کے بدلے جنت اور برے اعمال پر جہنم جس کا عقیدہ نہیں‘ وہ برے عملوں کی لذت کیوں چھوڑے اور اچھے اعمال کی مشقت کیوں برداشت کرے ۔ جسے نبی دوجہاں ا کے آخری ہادی ومہدی ہونے پر یقین نہیں ہے وہ ان کی فرمانبرداری کیوں کرے گا۔یہ چند موٹے موٹے اصول ہیں‘ ہم نے دیکھا ہے کہ عورتیں چھوٹے بچوں کو مَردوں کے پاس جانے سے روکتی ہیں کہ تمہارے ابو نے‘ تمہارے بھائی نے نماز کے لئے جانا ہے‘ ان کے کپڑے ناپاک نہ ہوجائیں‘ بچہ پیشاب نہ کردے۔ ہم نے دیکھا ہے: کہیں اوپر سے پانی کے چھینٹے آرہے ہوں تو راہ چلتے بھی آدمی سوچتا ہے‘ کہیں یہ ناپاک پانی کے چھینٹے نہ ہوں‘ گھر میں یا باہر کپڑوں پر ایسے چھینٹے پڑجائیں جو مشکوک ہوں تو نمازی آدمی اس جگہ سے کپڑا کو دھو لیتا ہے یا لباس ہی تبدیل کرلیتاہے۔مگر بے نماز آدمی یا غیر مسلم جسے نماز ادا نہیں کرنی‘ وہ صرف یہ دیکھے گا کہ یہ معمولی چھینٹے میرے لباس کی ظاہری صفائی ستھرائی کے خلاف تو نہیں‘ کوئی داغ ظاہر نظر تو نہیں آرہا۔ مغرب کی ”روشن خیال“ تہذیب اسی لئے پانی کے ساتھ طہارت کو معیوب سمجھتی ہے‘ اگرچہ ظاہراً وہ اسے خلاف ِ نظافت سمجھتے ہیں‘ مگر حقیقت میں وہ خود سراپا کثافت ہیں۔ ان کو خوب صاف ستھرے کپڑے مطلوب ہیں‘ مگر کیا وہ پاک بھی ہیں؟ اس سے ان کو کچھ غرض نہیں۔ ان کا جسم ناپاک ہے‘ انہیں غسل سے کچھ غرض نہیں۔ ان کو وضو نصیب نہیں‘ بس ہاتھ منہ خوب چمک دمک والا ہونا ضروری ہے۔ مسلمان کہلانے والے بے نماز نوجوان کا بھی حال غیر مسلم ”روشن خیالوں“ سے قطعاً مختلف نہیں زباں سے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصلدِل ونگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیںجی ہاں ”زبان سے“ لا الٰہ کہنا اور دل ونگاہ سے ہزاروں ”الٰہ“ اپنائے رکھنے سے آدمی مسلمان تھوڑی ہوجاتا ہے۔ مرتے وقت تو بعض بزرگوں سے سنا ہے‘ہندو بھی اپنے مرنے والے کی تکلیف دیکھ کر اسے تجویز دیتے ہیں ”ان کہنی کہہ لے“ اور اگر وہ لا الٰہ الا اللہ کہہ لیتا ہے‘ صرف جان کنی کی مصیبت سے بچنے کے لئے تو کیا وہ مسلمان شمار ہوگا؟ ہاں جان آسانی سے نکل جائے گی یہی حیلہ مصر کے فرعون نے بھی کیا تھا‘ یہی چال چلی تھی کہ جب ”نیل“ میں دو غوطے آئے تو کہنے لگا:
”آمنت انہ لا الہ الا الذی آمنت بہ بنوا اسرائیل وانا من المسلمین“۔ (یونس:۹۰)
ترجمہ:․․․”یقین کرلیا میں نے‘ کوئی معبود نہیں مگر جس پر کہ ایمان لائے بنی اسرائیل اور میں ہوں فرمابنرداروں میں“۔ مگر کیا اس کا یہ ایمان اس کے کام آیا؟ اسے غرق ِ آب ہونے سے اور نمونہٴ عبرت بننے سے بچاسکا؟ جو شخص زکوٰة جو مساکین کا حق ہے‘ ادا نہیں کرتا وہ ان کا مال‘ شیرِ مادر سمجھ کر ہضم کرجاتا ہے‘ وفات پانے والے کے ترکہ میں سے زیادہ سے زیادہ لے لینا چاہتا ہے‘ چھوٹے بچوں کا حق ان کو نہیں دیتا‘ بیوہ اور بیٹیوں ‘ بہنوں کا حصہ ان کو پہنچنے سے پہلے ہی ٹھکانے لگا دیتا ہے‘ بہنوں سے زبردستی‘ پٹواری کے پاس بیان دلوا کر‘ زمین ‘ جائداد اپنے حق میں منتقل کروا لیتا ہے یا زمین جائداد تو بہنوں‘ بیٹیوں کو دے دیتا ہے‘ لیکن ان کی ”شادی قرآن کے ساتھ“ کردیتا ہے‘ حتی کہ وہ مظلوم عورتیں اپنے ”اقارب کا لعقارب“ کو دعائیں دیتے زندگی سے گزر جائیں اور زمین ‘ جائداد کا قبضہ پھر اسی کے پاس آجائے۔ کیا ایسا مسلمان زکوٰة اور عشر اللہ کی رضا کے لئے ادا کرے گا؟ ہرگز نہیں۔ کراچی میں مفتی محمود سے ایک لطیفہ سنا تھا‘ انہوں نے تقریر کے دور ان فرمایا تھا : ملتان میں ایک شخص مجھ سے مسئلہ پوچھنے آیا کہ حضرت زکوٰة حلال مال پر فرض ہے یا حرام پر بھی؟ میں اس کی چال بھانپ گیا کہ یہ حرام مال‘ غصب کا مال سارا ہڑپ کرنے کے لئے مجھ سے کہلوانا چاہتا ہے کہ حرام مال پر کوئی زکوٰة نہیں۔ میں نے جواب دیا: حرام مال پر بھی زکوٰة فرض ہے۔ وہ حیرت سے کہنے لگا: مفتی صاحب! حرام مال پر بھی؟ میں نے کہا: ہاں! البتہ ایک فرق ہے ”حلال پر ڈھائی فیصد اور حرام پر سو فیصد“ یعنی جس کا مال غصب کیا ہے‘ جس کا حق کھایا ہے اس کو سارا واپس کرو“۔ خیال ہے‘ سائل کوئی نیک نیت ہوگا یا بھولا کہ یا تو اس نے نیک نیتی سے پوچھا اور عمل کی توفیق اسے ہوگئی ہوگی یا بھولے سے پوچھ بیٹھا ہوگا‘ ادائیگی تھوڑی ہی کرنی تھی؟ بس یوں سمجھ لیں جو زکوٰة اور عشر ادا نہیں کرتا‘ وہ زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے میں لگاہوا ہے پھر وہ حلال وحرام‘ رشوت‘ سود ‘ چوری‘ ڈاکہ‘ غصب‘ غرض کسی بھی غلط طریقے سے مال کیو ں نہ کمائے گا؟ اور یہ تو ممکن نہیں کہ وہ ہزار جتن کرکے چالیس ہزار کمائے اور پھر چالیسواں ہزار بلا معاوضہ (صرف اللہ کی رضا کے لئے) کسی مسکین کو دیدے‘ ایسا ممکن نہیں‘ حرام مال ‘ حلال مصرف پر لگ ہی نہیں سکتا‘ اسے توفیق ہی نہ ہوگی۔ اس کی کوشش تو مرتے ہوئے بھی ہوگی کہ مرتے ہوئے بھی اپنے خزانے اپنے ساتھ ہی زمین کے اندر لے جائے۔ جب انسان کو یقین ہی نہیں کہ مرنے کے بعد حساب کتاب ہونا ہے‘ اعمال کا بدلا ملنا ہے تو وہ کسی بھی انسان کا حق اس تک کیوں پہنچنے دے گا؟ اس کی کوشش یہی ہوگی کہ ساری دنیا کا بڑا قارون میں ہی بن جاؤں اور یہ کہ میرے بال بچے بھی میرا بچا ہوا مال کھا سکیں تو کھائیں‘ ورنہ تو میں اپنے پیٹ کے جہنم میں ڈال کر ساتھ لے جاؤں ‘ جب مرنے کے بعد اعمال کے بدلے جنت اور جہنم ملنے پر یقین نہیں تو کس لئے اعمال کے مخمصے میں پڑا جائے بقول شاعر (اپنی محبوب بیوی کو خطاب کرتے ہوئے)
حیاة ثم موت ثم بعثحد یث خرافة یا ام عمرو
ترجمہ:․․․”عمرو کی ماں! زندگی پھر موت اور موت کے بعد ہم پھر اٹھائے جائیں گے یہ سب خرافات‘ فضول با تیں ہیں“۔ بس ”روشن خیالی“ یہی ہے کہ مرنا تو ہے مگر مرنے کے بعد کچھ نہیں‘ کوئی حساب وکتاب نہیں‘ کسی سے کسی کے حق کا مطالبہ نہیں‘ کوئی جنت ‘ دوزخ نہیں‘ ”ان بھر بھری ہوکر ختم ہوجانے والی ہڈیوں کو دوبارہ کون زندہ کرے گا؟“ اے محبوب نبی! آپ کہہ دیجئے! وہی دوبارہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار تخلیق کیا تھا۔ جسم وجان‘ لباس اور جسد وروح کی پاکیزگی‘ دل ونگاہ کی طہارت‘ عقل وفہم وتدبر کی عاقبت اندیشی مطلوب ہے‘ اس لئے ہی اللہ نے ہر بستی‘ ہرزمانے‘ ہرقوم میں نبی بھیجے اور سب سے آخر میں سید الانبیاء والمرسلین ‘ خاتم المعصومین حضرت محمد اکو آخری ہادی ومہدی بناکر بھیجا کہ اب ” اے صحابہ! میں نے تمہارے اوپر‘ تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت مکمل کردی اور تمہارے لئے دین اسلام پسند کرایا“ اللہ خالق کائنات کی طرف سے محمد رسول اللہ ا پر آنے والا یہ آخری پیغام تھا کہ اب جس کی مرضی ہو وہ ایمان لائے اور جس کی مرضی ہو وہ کفر کے اندھیروں میں دھکے کھاتا رہے ۔ ہدایت اسی کو ملے گی جو برے اعمال کی لذتوں کو چھوڑے‘ حقوق ادا کرے‘ اچھے اعمال کی مشقتوں کو برداشت کرے‘ اس لئے کہ جس کو آپ ا کے آخری نبی‘ آخری ہادی ہونے پر یقین ہے‘ وہی ان کی فرمانبرداری کرے گا‘ جو ان کو آخری مرکز ہدایت ‘ مرکز خیر آخرت نہیں مانتا وہ ان کی فرمانبرداری کیوں کرے گا؟

Comments

Popular posts from this blog

Yusufzai (Pashtun tribe)

The  Yūsufzai  (also  Youssofzay ,  Yousefzai ,  Yousafzai ,  Esapzey ,  Yousufi , or  Yūsufi ) (Pashto:  يوسفزی ,Persian and Urdu:  یوسف زئی ) is one of the largest Pashtun (Afghans) tribes. The majority of the Yusufzai tribe reside in parts of Western Afghanistan, Khyber Pakhtunkhwa and Provincially Administered Tribal Areas near the Afghan-Pakistan border. They are the predominant population in the districts of Konar, Ningarhar, Mardan District, Dir, Swat,Malakand, Swabi, Buner, Shangla, Haripur District [Khalabat Town Ship and Tarbela] and in Mansehra and Battagram. There is also a Yusufzai clan of Dehwar tribe in the Mastung district of Balochistan who speak Persian with some mixture of Birahvi words. The descendants of Yusuf inhabit Konar, Jalalabad, Swat, Upper Dir, Lower Dir, Malakand Swabi and Mardan. The begotten tribe of  Yusufzai' s are the Utmanzai having 3 major subdivions Alizai, Akazai and Kanazai, of Tarbela (now live in Khalabat Town Ship, District

رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم

  رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم  قرآن مجید میں پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مختلف صفات کا ذکر آیا ہے،  یہ تمام صفات اپنی جگہ اہم ہیں اور آپ کے محاسن کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم صفت یہ ہے کہ آپ کو تمام عالم کے لئے رحمت قرار دیا گیا،  وما أرسلنٰک الا رحمۃ للعالمین (الانبیاء : ۱۰۷)  —– اس تعبیر کی و سعت اور ہمہ گیری پر غور فرمائیے کہ آپ کی رحمت مکان و مقام کی وسعت کے لحاظ سے پوری کائنات کو شامل ہے اور زمانہ و زمان کی ہمہ گیری کے اعتبار سے قیامت تک آنے والے عرصہ کو حاوی ہے، یہ کوئی معمولی دعویٰ نہیں، اور شاید ہی تاریخ کی کسی شخصیت کے بارے میں ایسا دعویٰ کیا گیا ہو، یہ دعویٰ جتنا عظیم ہے اسی قدر واقعہ کے مطابق بھی ہے،  آپ کی رحمت کا دائرہ یوں تو پوری کائنات تک وسیع ہے، زندگی کے ہر گوشہ میں آپ کا اسوہ رحمت کا نمونہ ہے، لیکن اس وقت انسانیت پر آپ کی رحمت کے چند خاص پہلوؤں پر روشنی ڈالنا مقصود ہے ۔ ان میں پہلی بات یہ ہے کہ آپ نے انسانیت کو وحدت الٰہ کا تصور دیا، خدا کو ایک ما ننا بظاہر ایک سادہ سی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن بمقابلہ الحاد و انکار اور شرک و مخلوق پر

عشرة ذوالحجہ

 *✨عشرة ذوالحجہ* *✨مختصر تعارف * 🌿 ذوالحجہ کا پہلا عشره نیکیوں اور اجر و ثواب کے اعتبار سے عام دنوں کے مقابلے میں بہت اہم ہے، جس کی فضیلت قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن مجید میں الله سبحانه و تعالیٰ نے ان دس دن کی قسم کھائی ہے۔ *🌿 وَالْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ*   "قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی" (الفجر : 2-1)  اکثر مفسرین کے نزدیک *’’لَیَالٍ عَشْرٍ‘‘* سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ ان دس دنوں میں کئے جانے والے اعمال الله تعالیٰ کو دیگر دنوں کی نسبت زیاده محبوب ہیں۔ 🌿 رسول الله ﷺ نے فرمایا : "کسی بھی دن کیا ہوا عمل الله تعالیٰ کو ان دس دنوں میں کئے ہوئے عمل سے زیاده محبوب نہیں ہے،  انہوں (صحابہ ؓ) نے پوچھا : اے الله کے رسول ﷺ، جہاد فی سبیل الله بھی نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : "جہاد فی سبیل الله بھی نہیں ہاں مگر وه شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے۔" (سنن ابوداؤد) 🌿 عبدالله ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : "کوئی دن الله تعالیٰ کے ہاں ان دس دنوں سے زیاده عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل الله تعالیٰ