- عبد اللہ ہوگلی (1869ء؍ 1245ھ
- عبد اللہ سید ( 1869ء؍ 1254ھ کا ٹائپ شدہ ترجمہ ادارہ ادبیات اردو حیدر آباد دکن میں موجود ہے یہ ترجمہ آٹھ سو پچاس صفحات پر مشتمل ہے۔
- سید علی مجتہد 1836ء؍ 1252ھ کا ترجمہ وتفسیر ’توضیح مجید میں تنقیح کلام اللہ الحمید‘ کے نام سے چار جلدوں میں حیدری پریس سے بمبئی سےشائع ہوا۔
- کرامت علی جونپوری 1837ء؍ 1253ھ کا یہ ترجمہ ’ کوکب دری‘ کے سرکار عالی ، حیدر آباد دکن میں موجود ہے۔
- مولوی انور علی لکھنوی 1255ھ؍ 1839 میں قرآن کا ترجمہ کیا جو کتب خانہ آصفیہ سرکار عالی حیدر آباد دکن میں موجود ہے۔
- شاہ رفیع الدین دہلوی محدث دہلوی 1840ء ؍ 1256ھ کے اس ترجمے کی اشاعت شاہ عبد القادر کے فوائد ’ موضح قرآن‘ کے ساتھ کلکتہ کے ایک قدیم مطبع بنام اسلامی پریس میں طبع ہوا۔ یہ پہلا ایڈیشن دو جلدوں میں بالترتیب 1838ء؍ 1254ھ اور 1840ء ؍ 1256ھ میں طبع ہوا۔
- سید صفدر حسین مودودی 1844ء؍ 1260ھ کا ترجمہ وتفسیر قرآن مجید مع ختم الصحائف مترجم میاں محمود الحسن کا لیہ ضلع لائل پور کی ملکیت میں موجود ہے۔
- سکندر علی خاں نواب مالیر کوٹلہ 1852ء؍ 1268ھ کا ترجمہ ’تفسیر رحمانی ‘ کے نام سے مجتبائی پریس دہلی سے طبع ہوا۔ آٹھ سو اڑتالیس (848) صفحات پر پھلا ہوا ہے۔ اس کے حاشیہ پر شاہ عبد القادر دہلوی کا موضح قرآن دیا گیا ہے۔ بیت القرآن لاہور میں اس کا ایک نسخہ موجود ہے۔
- صبغۃ اللہ قاضی محمد بدر الدولہ 1860ء؍ 1277ھ نے ترجمہ وتفیسر ’فیض الکریم‘ لکھنی شروع کی جسے ان کے انتقال کے بعد انکے بیٹے مفتی محمد سعید اور مفتی محمود نے مکمل کرنے کی کوشش مگر دونوں اپنی وفات کی وجہ سے مکمل نہ کر سکے۔ ان کے بعد ان کے پوتے مولانا ناصر الدین نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ گویا ترجمہ وتفسیر فیض الکریم تین پشتوں اور چار علما کی محنت کا نتیجہ ہے۔
- نواب قطب الدین خان بہادر دہلوی 1866ء؍ 1283ھ نے جامع التفسیر لکھی۔ سورۃ اعلیٰ سے سورۃ الناس کا ترجمہ ان کے شاگرد مولوی عبد القادر نے مکمل کیا۔ کانپور کے نظامی پریس میں 1866 میں طبع ہوئی۔
- مولانا یعقوب حسن(1866ء؍ 1283ھ) کا ’جمائل شریف مترجمہ اردو‘ کے نام سے اردو ترجمہ قرآن آگرہ کے مینی پریس شائع ہوا۔ یہ در اصل تفسیر جلالین کا عربی سے اردو ترجمہ ہے۔
- مولوی عبد الغفور خاں ( 1867ء؍ 1284ھ) کا اردو ترجمہ جو تفسیر کے ساتھ بنام ’حدائق البیان فی معارف القرآن‘ مطبع فاروقی ، دہلی سے شائع ہوا۔
- سید ظہیر الدین بگرامی ( 1873ء؍ 1290ھ) کا ترجمہ قرآن مجید برٹش میوزیم لائبریری لندن میں موجود ہے۔ یہ ترجمہ چھ سو چوالیس صفحات پر مشتمل ہے۔
- رؤف احمد رافت نقشبندی مجددی 1876ء؍ 1293ھ کا ترجمہ 1832ء تک ’تفسیر رؤفی‘ کے ضمن میں ہوتا رہا۔ اس تفسیر کا دوسرا نام ’تفسیر مجددی‘ بھی ہے۔
- محمد حسین نقوی کا ترجمہ تفسیر (1876ء؍ 1293ھ) میں شائع ہوئی۔
یہ ترجمہ اور تفسیر مرتضوی پریس دہلی میں طبع ہوئی۔ اس کا مکمل نام معاملات الاسرار فی مکاشافات الاخبار معروف بتفسیر حضرت شاہی ہے۔
- فخر الدین احمد قادری کا ترجمہ 1879ء؍ 1296ھ میں شائع ہوا۔ یہ دو جلدوں پر مشتمل تھا۔ ’تفسیر قادری‘ کے نام سے یہ ترجمہ لکھنو میں شائع ہوا۔
- کنھیا لال لکھداری کا ترجمہ 1882ء؍ 1299ھ میں شائع ہوا۔ یہ ترجمہ شاہ عبد القادر دہلوی کے ترجمہ قرآن سے مدد لیتے ہوئے کیا گیا۔ یہ ترجمہ سردار جگجوت سنگھ، نبیرہ راجہ رنجیت سنگھ کی فرمائش پر عربی متن کے بغیر لکھا گیا۔ مترجم کی تصویر جو کہ ہندو تھاکی تصویر پہلے صفحے پر چھپی ہے۔ یہ دھرم بک لدھیانہ سے شائع ہوا۔
- عبد الصمد کا ترجمہ 1885ء؍ 1302ھ میں ’ جواہر الصمدیہ‘ کے عنوان سے مطبع فاروقی ، دہلی سے شائع ہوا۔ اس کو جملہ سورتوں کے مضامین کے اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے۔ یہ دور سو پچھتر (275) صفحات پر مشتمل مختصر تفسیر بھی ہے۔
- محمد احتشام الدین مراد آبادی کا ترجمہ 1885ء؍ 1303 میں لکھا گیا اور ضخیم تفسیر بھی ہے۔ جو ’تفسیر اکبر اعظم کے نام سے موسوم‘ ہے۔ ترجمہ سلیس اور پر اثر ہے۔
- سید علی لکھنوی کا ترجمہ 1895ء؍ 1313ھ کا ہے۔ یہ ترجمہ اور تفسیر بنام ’تنویر البیان‘ کے نام سے مطبع اعجاز محمد ی آگرہ سے شائع ہوا۔
- سید زین العابدین نے قرآن کا ترجمہ 1886ء؍ 1304ھ میں کیا ۔ یہ کاشف النعم کے نام سے کیا گیا ہے۔ الہ آباد میں ہندوستانی اکیڈمی کے تحت شائع ہوا۔
- مولوی فخر الدین احمد کی تفسیر 1886ء؍ 1304ھ میں آئی۔ مولوی صاحب کی تفسیر ’ تفسیر قادری ‘ تفسیر حسینی کا ترجمہ ہے ۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1300ھ بمطابق 1882ء میں لکھنو میں شائع ہوا۔
اور دوسرا ایڈیشن لکھنو کے نول کشور پریس میں 1304ھ یعنی 1886ء میں شائع ہوا۔
- سید محمد علی کا ترجمہ مع مبسوط حواشی کے 1886ء؍ 1303ھ میں دو جلدوں میں شائع ہوا۔ یہ لکھنو کے حاجی محمد قلی خان کانپوری پریس میں طبع ہوا۔ متن کے بغیر پہلا ترجمہ پاک وہند میں ہوا جو ایک شیعہ عالم نے کیا۔العابدین کا ترجمہ 1887ء؍ 1304ھ میں شائع ہوا۔
- حکیم سید محمد حسن امروھی کی 1887ء؍ 1305ھ میں ترجمہ وتفسیر ’غایۃ البرہان‘ کے نام سے شائؔع ہوئی۔ یہ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلا ایڈیشن امردھ کے مراد آباد میں اور دوسرا امرود معی سے ریاضی پریس سے طبع ہوا۔
- سیدنور الحق منعم نے 188ء؍ 1305ھ میں نواب سید محمد فیض اللہ خان کی فرمائش پر ترجمہ وتفسیر لکھی تھی۔
- ابو محمد ابراہیم بن الحکیم عبد العلی آروی نے 1889ء؍ 1307ھ میں قرآن کا ترجمہ ’ تفسیر خلیلی ‘ کیا یہ آرہ کے مطبع خلیلی میں طبع ہوا۔
- سید عمار علی رئیس نے 1890ء؍ 1307ھ میں ترجمہ اور تفسیر کیا۔ یہ تفیسر ’ عمدۃ البیان‘ کے نام سے دہلی کے مطبع یوسفی سے شائع ہوا۔ یہ ایک ہزار چھ سو چوہتر 1674 صفحات پر مشتمل ہے۔
- احسان اللہ محمد عباسی گورکھپوری نے 1892ء؍ 1310ھ میں ترجمہ لکھا۔ یہ اسعدی پریس گھور کھپور میں شائع ہوا۔ احسان اللہ محمد عباس اردو کے معروف مصنف ہیں۔
- مولوی محمد باقر کا ترجمہ 1893ء؍ 1310ھ میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوا۔
- ریونڈ ڈاکٹر امام الدین امر تسری کا ترجمہ 1894ء؍ 1312ھ میں الہ آباد کے پریس کرسچن مشن مین چھپا تھا۔ مترجم کے نام اور پریس کے سے اندازہ ہوتا ہے یہ ترجمہ کیسا ہے۔ عیسائیت کی جانب سے ایک پروپیگنڈہ ہے۔
- فیروز الدین ڈسکوی سیالکوٹ کا ترجمہ مع حواشی 1894ء؍ 1312ھ میں لکھا گیا۔
- محمد احتشام الدین مراد آبادی کی مترجم تفسیر 1895ء؍ 1313ھ میں تفسیر اکبر اعظم کے نام سے طبع ہوئی اس کا دوسرا ایڈیشن نو جلدوں پر مشتمل ہے۔ جو نول کشور پریس میں لکھنو سے طبع ہوا۔ ترجمہ سلیس اور پر اثر ہے۔
- مولانا ثناء اللہ امر تسری کا 1895ء؍ 1313ھ میں ترجمہ سات جلدوں میں طبع ہوا۔ حواشی سمیت یہ ترجمہ ثنائی کے نام سے امر تسر کے چشمہ نور پریس سے شائع ہوتا رہا۔
- سید علی لکھنوی کا ترجمہ 1895ء؍ 1313ھ میں ’ تنویر البیان‘ کے نام سے مطبع اعجاز محمدی آگرہ سے شائع ہوا۔
- مولوی حمید اللہ میرٹھی نے تفسیر وترجمہ 1897ء؍ 1315ھ میں کیا۔ یہ ترجمہ مطبعہ فاروقی میں طبع ہوا۔ دیپاچہ میں تفسیر کا نام ’ حدیث التفاسیر‘ دیا گیا ہے۔
- مولانا عبد المقتدر بدابونی نے 1897ء؍ 1315ھ میں ترجمہ وتفسیر قرآن لکھی۔ یہ چند جدید مضامین کے اضافہ کے ساتھ تفسیر عباسی کا ترجمہ ہے۔ اس میں شاہ عبد القادر کا ترجمہ اور حاشیہ میں تفسیر حسنی ہے۔یہ آگرہ کے انوری پریس میں طبع ہوئی۔
بیسویں صدی عیسوی کے مکمل اور مطبوعہ تراجم:
- عبد الحکیم خان پٹیالوی (متوفیٰ 1940ء؍ 1359ھ) نے تفسیر القرآن بالقرآن مع ترجمہ کیا جو عزیزی پریس، تراوڑی، کرنال سے 1901ء؍ 1319ھ شائع ہوا۔ اس طباعت کا ایک نسخہ برٹش لائبریری میں موجود ہے۔
- مولانا عاشق الٰہی میرٹھی کا ترجمہ ہے جو خیر المطابع لکھنو سے 1902ء؍ 1320ھ میں شائع ہوا۔
- سید امیر علی ملیح آبادی (متوفیٰ 17۔1918ء؍ 1332ھ) نے 1902ء؍ 1320ھ نے مواہب الرحمٰن مع ترجمہ کے زیر عنوان یہ خدمت انجام دی۔ یہ ترجمہ نو لکشو پریس، لکھنو سے شائع ہوا۔ آٹھ ہزار پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے جو تیس جلدوں میں ہے۔
- سید شریف حسین نے 1902ء؍ 1320ھ میں ’ بنام حیدری‘ ترجمہ وتفسیر لکھی ہے۔ ترجمہ پر سید محمد ہارون زنگی پوری نے نظر ثانی فرمائی تھی۔ عبی کے امامیہ کتب خانہ سے شائع کیا۔
- سید محمد عمر قادری نے 1902ء؍ 1320ھ میں ’ کشف القلوب ‘ کے تاریخی نام سے ترجمہ اور تفسیر لکھی جو ’ تفسیر قادری‘ کے نام سے مشہور ہے۔ شمس الاسلام پریس، حیدر آباد دکن سے شائع ہوئی۔
- محمد عبد الحمید نے 1903ء؍ 1321ھ میں ’ تفسیر البیان فی ترجمۃ القرآن‘ کے نام سے ترجمہ قرآن‘ کے نام سے ترجمہ قرآن کیا جو دہلی سے شائع ہوا۔
- 1905ء؍ 1323ھ میں ہونے والا ترجمہ و تفسیر جلالین از جلال الدین محلی و جلال الدین سیوطی جس کے مترجم محمد ابو زر سبنھلی ہیں اس کو آگرہ میں اعجاز محمدی پریس نے شائع کیا۔
- محمد ابو ذر سنبھلی نے 1905ء؍ 1332ھ میں تفسیر جلالین کا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا جو مطبع اعجاز محمدی، آگرہ سے شائع ہوا۔
- مولانا وحید الزماں کا ترجمہ 1905ء؍ 1323ھ میں تفسیر و حیدری مع ترجمہ موضحۃ القرآن کے نام سے شائع ہوا۔ اس کا ایک نسخہ 1933ء؍ 1321ھ میں گیلانی پریس لاہور سے طبع ہوا۔
- مرزا محمد امراؤ حیرت دہلوی کا ترجمہ 1902ء؍ 1324ھ کرزن پریس دہلوی سے شائع ہوا، صفحات نو سو بارہ (912) ہیں۔ اس طباعت کا ایک نسخہ بیت القرآن لاہور میں ہے۔
- ڈاکٹر محمد حکیم نے 1902ء؍ 1324ھ میں ’حمائل التفسیر‘ کے نام سے کرنال سے شائع ہوا۔
- ثناء اللہ امر تسری نے 1907ء؍ 1325ھ میں تفسیر ثنائی کے نام سے ترجمہ وتفسیر کا کام کیا جسے مطبع اہل حدیث نے شائع کیا۔ واضح ہو کہ یہ مکمل ترجمہ تھا۔ قبل ازیں مترجم کے جزوی ترجمے اور تفسیر چھپتی رہی ہیں۔
- نجم الدین سیوہاروی (متوفیٰ 1928ء؍ 1374ھ) نے ترجمہ کیا جو فیض بخش ایجنسی فیروز پور سے شائع ہوا۔ صفحات چار سو ستاسی (387) ہیں۔
- مولانانظام الدین حسن نے 1907ء؍ 1325ھ میں ترجمہ کیا جو نو لکشو پریس لکھنو سے شائع ہوا۔
- مولانا فتح محمد جالندھری نے 1908ء؍ 1326ھ) میں ترجمہ کیا جو رفاہ عام پریس لاہور سے شائع ہوا۔
- عبد اللہ چکڑالوی کا ترجمہ 1908ء؍ 1326ھ میں لاہور کے ہندوستان سٹیم پریس میں طبع ہوا۔
- مولانا محمد احسن تعلقداری نے 1909ء؍ 1327ھ کا ترجمہ مع تفسیر ہے جو احسن التفاسیر کے نام سے چھپا ۔ افضل المطابع دہلی سے سات جلدوں میں شائع ہوا۔
- غلام احمد قادیانی نے 1910ء؍ 1328ھ میں خلیفہ اول کا یہ ترجمہ اخبار ’ بدر‘ میں بالاقساط چھپتا رہا۔ اسے میرٹھ کے ایک احمدی نے خیر خواہ اسلام پریس، آگرہ سے کتابی صورت میں شائع کیا۔
- مولانا حکیم نور الدین کا ترجمہ قرآن کی طباعت 1910ء؍ 1328ھ میں آگرہ کے خیرا سلام پریس میں ہوئی۔یہ مولانا کے در س قرآن سے اخذ کر کے لکھا گیا ہے۔
- شیخ محمد علی دہلوی نے 1911ء؍ 1329ھ میں ترجمہ مع حاشیہ کیا جو مطبع اثنا عشری ، دہلی سے شائع ہوا۔انا احمد رضا خان نے 1911ء؍ 1329ھ میں ترجمہ کیا جو کنز الایمان کے نام سے مطبع نعیمی اہل سنت ( مراد آباد) سے شائع ہوا۔
- ابو محمد مصلح حیدر آبادی نے 1911ء؍ 1329ھ میں ترجمہ کیا جو ’ توضیح البیان‘ کے نام سے مطبع اہل سنت مراد آباد سے شائع ہوا۔
- مولوی سرور شاہ نے 1912ء؍ 1330ھ میں ترجمہ مع تفسیر کیا جو 1906 سے 1912 تک رسالہ تعلیم الاسلام ، رسالہ تفسیر القرآن اور یوریو آف ریلیجئنز کے ضمیمے میں چھپتا رہا ۔ مطبع معلوم نہ ہو سکا۔
- نسیم الدین مراد آبادی 1912ء؍ 1330 ھ میں ترجمہ قرآن طبع ہوا۔ یہ ترجمہ اہل سنت برق پریس مراد آباد میں شائع ہوا۔ اسے خذامن العرفان کا نام دیا گیا ہے۔
- محمد انشاء اللہ نے 1915ء؍ 1333ھ میں ترجمہ میں تفسیر کی جو حمیدیہ اسٹیم پریس، لاہور سے آٹھ جلدوں میں شائع ہوا۔ کل صفحات تین ہزار سات سو چالیس ہیں۔ یہ تفسیر علامہ رشید رضا مصری کی تفسیر المنار کے اردو ترجمہ پر مشتمل ہے۔ تاہم ترجمہ قرآن ، محمد انشاء اللہ کی طرف سے ہے۔ اس طباعت کا ایک نسخہ بیت القرآن لاہور، ایک کتاب خانہ ادارہ تحقیقات سالامی ( اسلام آباد) اور ایک نسخہ برٹش لائبریری میں موجود ہے۔
- خواجہ احمد الدین امر تسری کا ترجمہ 1915ء ؍ 1334ھ میں تفسیر بیان للناس کے نام سے سات جلدوں میں شائع ہوا۔ اس کی طباعت امر تسر کے دفتر امت مسلمہ سے ہوئی۔
- فتح اللہ شیرازی نے 1917ء؍ 1335ھ میں ترجمہ مع تفسیری نوٹس شائع کیے۔ اس طباعت کا ایک نسخہ کتاب خانہ آصفیہ سرکار عالی میں موجود ہے۔
- فخر الدین ملتانی نے 1919ء؍ 1337ھ میں ترجمہ کیا جو اسلامیہ اسٹیم پریس، لاہور سے شائع ہوا۔ اس کی تیاری میں سید محمد سرور شاہ ، حافظ روشن علی اور دیگر احمد علماء نے بھی حصہ لیا۔ ضخامت 704 صفحات ہیں۔
- شیخ محمد اشرف نے 1920ء؍ 1338ھ میں ترجمہ کیا جو لاہور سے طبع ہوا۔ کل صفحات سات سو بتیس ہیں۔ اس میں دوسرا اردو ترجمہ مولانا وحید الزمان خاں کی طرف سے ہے۔ اس کے حاشیے پر ابو القاسم محمد عبدہ الفلاحی کے مفصل تفسیری نوٹس ہیں۔
- مقبول احمد دہلوی نے 1921ء؍ 1339ھ میں ترجمہ کیا جو مقبول پریس دہلوی سے شائع ہوا۔ نو سو چھیاسٹھ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ ترجمہ نواب حامد علی خان رام پوری کے ایما پر کیا گیا۔
- یعقوب حسن نے 1922ء؍ 1340ھ میں ترجمہ کیا جو ’ کتاب الہدیٰ‘ کے نام سےشائع ہوا۔ اس کا مقدمہ ’ کشاف الہدیٰ‘ کے نام سے لکھا گیا۔
- مولانا محمود حسن دیوبندی نے 1923ء؍ 1341ھ میں ترجمہ کیا جو ’موضح القرآن‘ کے نام سے مدینہ پریس، بجنور سے شائع ہوا۔
- ڈاکٹر صالحہ نے اس کی تاریخ 1965ء؍ 1344ھ رقم کی ہے۔
- مولانا محمد عبد الباری فرنگی محلی نے 1925ء؍ 1343ھ میں ترجمہ کیا جو ’ الطاف الرحمٰن بتفسیر القرآن‘ کے نام سے تین جلدوں میں چھپا۔ نامی پریس لکھنو کی طباعت کا ایک حصہ بیت القرآن لاہور میں موجود ہے۔
- محمد رمضان اکبر آبادی نے 1926ء؍ 1344ھ میں تفسیر ابن عباس کا عربی سے اردو ترجمہ کیا جو مطبع گلشن ہند، آگرہ سے شائع ہوا۔ تین سو ایک صفحات پر مشتمل ہے۔
- یعقوب حسن سیٹھ مدراسی کا ترجمہ 1926ء؍ 1345ھ میں کتاب الہدیٰ کے نام سے شائع ہوا۔
- محمد بن ابراہیم جونا گڑھی نے 1928؍ 1346ھ میں تفسیر ابن عباس کا اردو ترجمہ کیا جو نور محمد پریس دہلی سے شائع ہوا۔
- سید احمد حسن دہلوی (متوفیٰ 1338ھ) نے 1928ء؍ 1346ھ میں ترجمہ کیا جو ’ احسن الفوائد‘ کے نام سے جید برقی پریس دہلی سے طبع ہوا۔ صفحات (828) ہیں۔ اس کی تفسیر سات جلدوں پر مشتمل ہے جس کا نام ’ احسن التفاسیر‘ ہے۔
- سید ممتاز علی دیوبندی ونجم الدین سیوہاروی نے 1932ء؍ 1351ھ میں مشترکہ ترجمہ کیا جو دارالاشاعت گیلانی پریس لاہور سے چھ جلدوں میں شائع ہوا۔ کل صفحات 1143 ہیں۔ سید ممتاز علی یہ ترجمہ مکمل نہیں کر پائے تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ بقیہ حصہ نجم الدین سیوہاروی نے پورا کیا۔ اس طباعت کا ایک نسخہ بیت القرآن لاہور میں موجود ہے۔
- سید آقا حسن کی ذیل البیان فی تفسیر القرآن 1933ء؍ 1352ھ میں عماد الاسلام پریس میں طبع ہوئی۔
- احمد علی لاہور ( متوفیٰ 1962ء؍ 1381ھ) نے 1934ء؍ 1352ھ میں ترجمہ کیا جو انجمن خدام الدین لاہور نے چھاپا تھا۔ ایک ہزار چھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ حاشیے پر تفسیر نوٹس شاہ عبد القادر دہلوی کے ہیں۔ اس طباعت کا ایک نسخہ سنٹرل لائبریری بہاول پور میں موجود ہے۔)
- عطا ءالرحمن صدیقی کی تفسیر زبدۃ البیان 1934ء؍ 1353ھ میں لاہور کے صدیقی پریس سے طبع ہوئی۔
- حکیم یٰسین شاہ نے 1935ء؍ 1354ھ میں ترجمہ کیا جو دین محمدی پریس لاہور نے شائع کیا۔ پانچ سو چوبیس (524) صفحات ہیں۔
- عبد الدائم جلالی نے 1939ء؍ 1358ھ میں ترجمہ قرآن کیا جو حمیدیہ پریس دہلوی سے شائع ہوا۔ چھ سو اسی صفحات پر مشتمل ہے۔
- مولوی محمد علی کی تفسیر مع ترجمہ بیان القرآن 1940ء؍ 1359ھ میں تین جلدوں میں شائع ہوئی۔ انہوں انگرایزی میں بھی ترجمہ قرآن کیا ہوا ہے۔
- مولوی فیروز الدین نے 1943ء؍ 1362ھ میں ترجمہ کیا جو فیروز سنز لاہور نے چھاپا ہے ۔ صفحات نو اٹھانوے (998) ہیں۔
- محمد سلیمان فاروقی نے 1947ء؍ 1366ھ میں ترجمہ کیا جو دار الاشاعت الفیض امر تسر سے چھپا ہے۔
- محمد اشرف جیلانی کچھوچھوی ( متوفیٰ 1961ء؍ 1381ھ) نے 1947ء؍ 1366ھ میں ترجمہ قرآن کیا ۔ مطبع معلوم نہیں۔
- فیروز الدین روحی اکبر آبادی کی تفسیر القرآن مع ترجمہ 1950ء؍ 1370ھ میں کراچی کے سول اینڈ ملٹری پریس میں طبع ہوا۔ یہ تین پارے الگ الگ شائع ہوئے۔
- قاری محمد اسماعیل افضل([87]) نے 1952ء؍ 1371ھ میں ’ چراغ ہدایت‘ کے عنوان سے شیخ غلام علی اینڈ سنز ، علمی پرنٹنگ پریس نے شائع کیا۔ سات سو نوے (790) صفحات ہیں۔ اس ترجمے میں ڈپٹی نزیر احمد کے ترجمہ سے بہت مدد لی گئی ہے ۔ اس اشاعت کا ایک نسخہ لیاقت میموریل لائبریری کراچی میں موجود ہے۔
- ابو القاسم محمد عتیق نے 1952ء؍ 1371ھ میں ’ قرآن عظیم کے نام سے ‘ترجمہ کیا جو لکھنو سے شائع ہوا۔
- محمد بن ابراہیم جوناگڑھی نے 1954ء؍ 1373ھ میں تفسیر ابن کثیر کا اردو ترجمہ کیا۔ یہ پانچ جلدوں میں ہے۔ کل صفحات دو ہزار نو سو سنتالیس ہیں۔ اس کا ایک نسخہ کراچی یونیورسٹی میں بھی موجود ہے۔
- مرزا احمد علی نے 1955ء؍ 75۔1374 میں ترجمہ مع کیا حواشی ’ لوامع البیان‘ کیا جو کتب خانہ حسینیہ سے شائع ہوا۔
- عبد الستار دہلوی نے 1956ء؍ 1376ھ میں تفسیر ستاری مع ترجمہ مع احسن التفاسیر ، مکتبہ سعود کراچی سے شائع ہوا۔
- مرزا بشیر الدین محمود نے 1957ء؍ 1377ھ میں ترجمہ تفسیر صغیر مع مختصر حواشی ادارۃ المصنفین ربوہ سے شائع ہوا۔ کل صفحات ایک ہزار چار سو چھیاسٹھ ہیں۔
- غلام وارث کا ترجمہ تبیان القرآن یا روح صدق 1960ء؍ 1380ھ میں شائع ہوا۔
- غلام احمد پرویز نے 1961ء؍ 1381ھ میں قرآنی مفاہیم پر مشتمل اردو ترجمہ کیا جسے میزان پرنٹنگ پریس لاہور نے چھاپا ہے۔
- مولانا حنیف ندوی نے ترجمہ قرآن الحکیم مع تفسیر 1966ء؍ 1386ھ کو طبع کروایا۔ اس کولاہور سے ملک سراج دین پبلیشرز نے شائع کیا۔
- ابو محمد مصلح حیدر آبادی کا ترجمہ ’ توضیح القرآن ‘ کے نام سے 1966ء؍ 1386ھ میں شائع ہوا۔ اس بمبئی سے علی بھائی شرف علی نے شائع کیا۔
- حافظ محمد داؤد خان بن خورشید احمد خاں نے 1968ء؍ 1388ھ میں تفسیر ابن کثیر کا اردو ترجمہ ’ الفضل الکبیر‘ کے نام سے کیا ہے جو مکتبہ الریحان کراچی سے دس جلدوں میں شائع ہوا۔ اس طباعت کا ایک نسخہ کتب خانہ ادارہ تحقیقات اسلامی (اسلام آباد) میں موجود ہے۔
- سید ابو الاعلیٰ مودودی ( متوفیٰ 1979ء؍ 1389ھ) نے ترجمہ قرآن مجید کیا جو مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی سے شائع ہوا۔ پندرہ سو اسی (1580) صفحات ہیں۔
- ابو القاسم عتیق فرنگی محلی نے 1970ء؍ 1390ھ میں ترجمہ کیا جو ادارہ بحر العلوم اشاعت القرآن مطبع جاوید سے شائع ہوا۔ اس کے حواشی پر ترجمہ نگار نے مختصر نوٹس بھی دیے ہیں۔ اس طباعت کا ایک نسخہ بیت القرآن، لاہور میں موجود ہے۔
- محمد عبد القدیر صدیقی قادری نے 1971ء؍ 1391ھ میں ترجمہ مع تفسیر کی جو مطبع سرکار عالی ، حیدار آباد دکن سے چھ جلدوں میں شائع ہوا۔ اس طباعت کا ایک نسخہ کراچی یونیورسٹی لائبریری میں بھی موجود ہے۔
- محمد سلیم الدین شمسی نے 1972؍ 1392ھ میں ترجمہ اردو اور گجراتی میں چھپا ہے جو ملت پرنٹنگ پریس نےشائع کیا۔ نو سو آٹھ صفحات (908) ہیں۔
- الحاج پیر صلاح الدین نے 1974ء؍ 1394ھ میں ترجمہ مع تفسیر کیا ہے جو قرآن پبلی کیشنز اسلام آباد نے چار جلدوں میں شائع کیا۔ صفحات دو ہزار نو سو بیالیس (2942) ہیں۔ مترجم احمدی ہے۔
- پیر محمد کرم شاہ الازہری نے 1979ء؍ 1399ھ میں ترجمہ مع تفسیر ضیاء القرآن پبلی کیشنز ، لاہور سے پانچ جلدوں میں شائع ہوا۔
اور ڈاکٹر صالحہ نے اس کی تاریخ 1964ء؍ 1387ھ رقم کی ہے۔
- سید محمد شاہ نے 1983ء؍ 1403ھ میں ترجمہ مع تفسیر ’مطالب الفرقان فی ترجمۃ القرآن‘ ہے۔ پیکو آرٹ پریس لاہور سے شائع ہوا۔ اس کی نظر ثانی مولانا محمد حنیف ندوی ، مولاناشہاب الدین اور پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے کی ہے۔
- سید حامد حسن بلگرامی نے 1983ء؍ 1403ھ میں ترجمہ مع تفسیر ایچ ایم سعید کمپنی کراچی سے شائع ہوا۔ تین جلدوں میں ہے۔
اور ڈاکٹر صالحہ نے اس کی تاریخ 1968ء؍ 1388ھ رقم کی ہے۔
Comments
Post a Comment