Skip to main content

فنِ ترجمہ کی نظری تعریف اور اس کے لوازمات

فنِ ترجمہ کی نظری تعریف:حق کو قبول کرنے اور نیکی کی باتوں کو غور سے سننے، اسے سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے اور ہر زمان و مکان کے انسانوں تک ان کو اس طرح منتقل کرنے کے لیے کہ وہ بھی اس کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوسکیں، اس پیغام اور دعوت کو قرآن مجید نے بڑے خوبصورت پیرائے اور جامع انداز میں پیش کیا ہے۔ معلمِ کائنات سید دوعالم ﷺ کی زبانِ اطہر سے ارشاد ہوتا ہے:﴿ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ‌ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّـهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْ‌آنُ لِأُنذِرَ‌كُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ ﴾ ’’ تم فرماؤ سب سے بڑی گواہی کس کی تم فرماؤ کہ اللہ گواہ ہے مجھ میں اور تم میں اور میری طرف اس قرآن کی وحی ہوئی ہے کہ میں اس سے تمہیں ڈراؤں اور جن جن کو پہنچے۔ ‘‘مفسر قرآن حضرت صدر الافاضل علامہ مولانا نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمة اس آیہٴ کریمہ کی تفسیر میں اپنے حاشیہ خزائن العرفان میں تحریر کرتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہوئے کہ”میرے بعد قیامت تک آنے والے جنہیں یہ قرآن پاک پہنچے خواہ وہ انسان ہوں یا جن، سب کو میں حکمِ الٰہی کی مخالفت سے ڈراتا ہوں۔“اس آیہٴ کریمہ کی تفسیر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن حکیم ترجمہ یا ترجمانی کے بنیادی عناصر ابلاغ اور ترسیل کی اہمیت کو اجاگر کررہا ہے۔ ابلاغ کا مطلب یہ ہے کہ متن کا مفہوم اور اس کا مرکزی خیال مکمل وضاحت کے ساتھ مترجم کے ذہن میں اتر جائے۔“لوازمات:ابلاغ (Comprehension) کا نقطہٴ آغاز وہ لمحہ ہے جب مترجم قاری (یا قرآنی الفاظ میں سامع۔ وجاہت) کی حیثیت سے اس کا مطالعہ شروع کرتا ہے اور اس عمل کا لمحہٴ آخر وہ لمحہ ہے جب قاری زیرِ مطالعہ فن پارے کے مفہوم یا مفاہیم کو پوری طرح سمجھ کر مطمئن ہوجاتا ہے۔ ابلاغ کے بعد ترسیل (Communication) کا مرحلہ آتا ہے، جس کے بارے میں ایک رائے یہ ہے:”ترسیل وہ عمل ہے جس میں مترجم مصنف کی مجرد آگہی یا فن پارے کے اصل مفہوم کو قابلِ فہم علامتوں یعنی ترجمے کی زبان کے ذریعہ قارئین کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہ عمل زیادہ پیچیدہ اور دقت طلب ہے۔ ترجمے کے عام قارئین کو ا س سے دلچسپی نہیں ہوتی کہ اصل تصنیف میں کیا تھا یا اس کا اندازِ بیان کیا تھا، وہ ترجمے کو اصل کے نعم البدل کی حیثیت سے پڑھتے ہیں۔ اس میں جو کچھ ہوتا ہے، وہی ان کے لیے سب کچھ ہوتا ہے۔عملِ ترسیل کے دو مدارج ہیں:پہلا وہ ہے جہاں ذہن کے آئینہ خانہ میں لفظ اور خیال ایک دوسرے میں تحلیل ہوتے ہیں، بہ الفاظِ دیگر مترجم کی مجرد آگہی الفاظ کا مرئی پیکر اختیار کرتی ہے۔ ترسیل کا عمل مجرد سے غیر مجرد کی طرف ہوتا ہے اس لیے ترسیل کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ مترجم نے شاعر یا مصنف کی آگہی کو (جو ابلاغ ہونے پر اس کے ذہن کا لازمی حصہ ہوتی ہے) کس حد تک ترجمے کی زبان میں سمویا ہے۔دوسری منزل وہ ہے جب مترجم، مصنف یا شاعر کی مجرد آگہی کو ایک نئی زبان میں قارئین کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہ منزل مترجم کی تخلیقی اور فنی صلاحیتوں کی آزمائش کی منزل ہے۔“ ترجمہ کی عمومی تعریف یہ ہے کہ ایک زبان میں بیان کردہ خیالات یا معلومات کو دوسری زبان میں منتقل کرنا اور بظاہر یہ ایک سادہ سا عمل ہے۔ عطش درّانی اپنے ایک مقالہ میں ترجمہ کی تعریف یوں کرتے ہیں:”جہاں تک ترجمہ کی تعریف کا تعلق ہے، اسے ہم ان الفاظ میں بیان کرسکتے ہیں کہ ترجمہ: کسی زبان پر کیے گئے ایسے عمل کا نام ہے جس میں کسی اور زبان کے متن کی جگہ دوسری زبان کا متبادل متن پیش کیا جائے۔ اس تعریف میں معانی، مفہوم، مطالب، اندازِ بیان اور اظہارِ بیان، اسلوب اور انداز کے تمام پہلو آجاتے ہیں۔ چونکہ بنیادی طور پر یہ فن زبان سے تعلق رکھتا ہے اس لیے اس کے نظری پہلو کو ہم ترجمہ کا لسانیاتی نظریہ قرار دے سکتے ہیں۔ ترجمہ کی ایک اور جامع تعریف ایک فرانسیسی ادیب پال نے یوں کی ہے:”ترجمہ کسی علّت (اصل تخلیق) کے معلول کی ایک دوسری علت (ترجمہ) کے توسط سے امکانی قربت و صحت کے ساتھ تشکیل کرنے کا عمل ہے۔“ اس تعریف کی روشنی میں علمائے لسانیات کا کہنا ہے کہ بحیثیت ِ مجموعی ترجمہ ایک فن (Art) ہے اور ایک ہنر (Science) بھی۔ ([6])لیکن ترجمہ کا ہنر اتنا سادہ و آسان نہیں ہے جتنا عام طور پر تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے اندر جو پیچیدگیاں ہیں اور اس میں جو خالص علمی، فنی، ادبی اور تخلیقی نوعیت کی صلاحیتوں کو ایک متوازن آمیزے کے ساتھ بروے کار لانے کا عمل ہے۔ اس کے بارے میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا:”ترجمہ کا ہنر اس لحاظ سے خاصا پیچیدہ ہے کہ اس میں دہری تہری صلاحیت کی ضرورت پڑتی ہے۔ متن کی زبان اور اپنی زبان توخیر آنی ہی چاہیے، اس موضوع سے بھی طبعی مناسبت درکار ہے جو متن میں موجود ہے۔ مصنف سے بھی کوئی نہ کوئی نفسیاتی ممثالت ضروری ہے اور صنفِ ادب اور شاخ علم سے بھی جس سے متن پیوست ہے، مترجم کو پیوستگی حاصل ہو، تب ترجمہ شاید چالو معیار سے اوپر اٹھ سکے، تاہم ترجمے کی زیریں انواع میں اتنی ساری شرائط کا اجتماع نہیں ہوتا۔ مثلاً تعلیمی اور تکنیکی ترجمہ بلکہ علمی ترجمہ بھی مصنف کی شخصیت اور مترجم کی پیوستگی پر اصرار نہیں کرتا تاہم اس قسم کا ترجمہ بھی لسانی اور علمی (یا تعلیمی اور تکنیکی) اہلیت سے بے نیاز رہ کر نہیں کیا جاسکتا۔“ مبادیات وشرائط:ہر فن کی طرح ترجمے کی بھی کچھ بنیادی شرطیں (مبادیات)، ضرورتیں اور اصول ہیں۔پہلی شرط یہ ہے کہ اصل تصنیف کی زبان، اس کے ادب اور اس کی قومی تہذیب سے نہ صرف واقفیت بلکہ دلچسپی اور ہمدردی ہو۔ اس لیے کہ مترجم دو زبانوں اور دو قوموں کے درمیان لسانی اور ثقافتی سفیر کی حیثیت رکھتا ہے۔دوسری اہم شرط اپنی زبان پر اس کی قدرت اور نئے خیالات کے اظہار کے لیے نئے الفاظ، ترکیبیں اور اصطلاحات وضع کرنے کی استعداد ہے۔تیسری شرط اور ضرورت تصنیف کی زبان سے ایسی گہری واقفیت ہے کہ وہ اس کی باریکیوں، نفاستوں اور تہہ داریوں کو بخوبی سمجھ سکے۔چوتھی شرط اور ضرورت یہ کہ اصل تصنیف جس عہد اور جس موضوع سے تعلق رکھتی ہے، اسی عہد کی زندگی، زبان اور اس موضوع کی اہم تفصیلات سے مترجم کی واقفیت ہو۔پانچویں اور آخری، لیکن سب سے اہم شرط ادبی ترجمہ کی صلاحیت، دلچسپی اور شوق و شغف اور انہماک ہے۔ اگر یہ نہیں تو دوسری تمام شرائط کی تکمیل بھی کامیاب ترجمہ کی ضمانت نہیں ہوسکتی۔ درج ذیل اصول ایک اچھے مترجم کے پیش نظر رہنا ضروری ہیں:”1۔ اصل عبارت کسی حالت میں مترجم کی نگاہ سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کیونکہ مترجم بہرصورت متن کے مرکزی خیال کا پابند ہے۔2۔ مترجم کو اپنی جانب سے حذف و اضافہ کا کوئی حق حاصل نہیں نہ صرف عبارات بلکہ تشبیہات اور استعارات میں بھی، اس سے انحراف علمی بددیانتی ہوگی۔3۔ ترجمہ میں سہولت کے لیے متن کو آگے پیچھے کرنے کا بھی حق نہیں۔4۔ اصل عبارت میں کسی طرح کی ترمیم کا جواز نہیں۔5۔ زبان و بیان کے پیچ و خم کا لحاظ رکھنے کے ساتھ ساتھ موضوع کے لسانی، ادبی، علمی، تاریخی، سماجی اور شخصیاتی پس منظر کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا ورنہ مترجم ہمیشہ فکری ٹھوکروں کی زد پہ رہے گا۔6۔ اصطلاحات کو جوں کا توں سنبھالنے کی وسعت اگر ترجمہ کی زبان میں ہو تو سبحان اللہ! ورنہ قریب ترین مفہوم میں اسے منتقل کرنا چاہیے بلکہ اس سلسلہ میں اصطلاح سازی کا ایک استنادی بورڈ ہونا چاہیے تاکہ اصطلاحات کے استعمال میں یکسانیت رہے۔7۔ مترجم کو اعلیٰ اور مستند لغت کا سہارا ضرور لینا چاہیے۔ صرف حافظہ پر بھروسہ کرنا مناسب نہیں۔8۔ ترجمہ گہری نظر اور حاضر دماغی سے کرنا چاہیے تاکہ لفظوں کے پردے میں چھپے ہوئے تہہ دار جلوہ ہائے معانی بھی آشکار ہوسکیں ورنہ سرسری نگاہ کا ترجمہ زبان کی بہت ساری داخلی لطافتوں کو مجروح کرتا چلا جائے گا اور جو مفہوم اور اشارے ان الفاظ کی پشت سے جھانک رہے ہیں وہ ترجمے میں غائب ہوجائیں گے۔9۔ ترجمہ میں اصل کے کرداروں کی جغرافیائی حیثیت کا خیال رکھتے ہوئے ایسے الفاظ یا اسماء لائے جائیں جس سے اصل کے کرداروں کی بھرپور ترجمانی ہوسکے ورنہ ایرانی، ہندی اور امریکن، پاکستانی ہوجائے اور مصنف نے ان کرداروں کے جغرافیائی مزاج اور ماحولیاتی کیف کا جو لمس ان لفظوں میں رکھ دیا ہے اس کا احساس تو دور اس کی ہوا بھی نہ لگے گی۔مثال کے طور پر روس کے عظیم شاعر پوشکن (Pushkin) کو لے لیجیے۔ اس کے ایک مشہور افسانے کے ساتھ اس قسم کے ایک حادثہ کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر انصاری لکھتے ہیں:”روس کے شاعر اعظم ”پوشکن“ کے ایک مشہور افسانے کا عنوان انگریزی میں ”اسٹیشن ماسٹر“ دیا گیا اور اردو میں جوں کا توں لے لیا گیا۔ روس وہ کردار اس چوکی کے غریب، تباہ حال اور بے بس، تھکے ہارے منشی کی نمائندگی کرتا جو ریلوں کا وسیع جال بچھنے سے پہلے کسی گاؤں یا کارواں سرائے کے ناکے پر بدلی کے گھوڑے مہیا کرتا تھا۔۔۔ اس کردار کو ہم انگریزی کی تقلید میں اسٹیشن ماسٹر لکھ دیں تو افسانے کی روح فنا ہوجائے گی۔ وہ ہمارے یہاں ”ڈاک چوکی کا منشی“ ہے اور یہی نام دیا جانا چاہیے تھا۔“ 10۔ ترجمہ کا پیرایہ اور اسلوب، رواں، شستہ، قابلِ فہم اور ایسا جاذب ہونا چاہیے کہ اصل کے ساتھ ساتھ شانہ بشانہ چلتے ہوئے بھی ایک انفرادیت جھلکے۔11۔ ترجمہ میں محاورات اور ضرب الامثال کو جوں کا توں منتقل کرنے کی تو کوئی صورت ہی نہیں البتہ ترجمہ کی زبان کے محاورات سے تقابل کی راہ نکل سکتی ہے، لیکن یہ راہ ہے بڑی دشوار۔ اس سلسلہ میں زبردستی عبارت کے حسن کو بگاڑ کر رکھ دیتی ہے اس لیے اعتدال سے کام لیتے ہوئے محاورے کی جگہ محاورے کی جستجو کے بجائے اپنی ضرورت کے مطابق محاورے کے مفہوم کو الفاظ سے اور الفاظ کے معنوں کو محاورے کی مدد سے پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔12۔ ترجمہ میں تکنیک اور اسلوب کا کام آرائش نہیں بلکہ مرکزی خیال کی ترسیل یا اظہار ہے۔ مترجم کو جان بوجھ کر کوئی نئی تکنیک یا اچھوتا اسلوب نہ اختیار کرنا چاہیے بلکہ ترجمے کے مکمل عمل کے دوران اس کے موضوع، مواد اور مزاج کی مناسبت سے ایسی تکنیک اور اسلوب اختیار کرنا چاہیے جو ہر طرح سے اس تصنیف کے بنیادی خیال یا تاثر کے اظہار میں مفید ثابت ہو۔ یہی معاملہ ہیئت کا ہے۔ مترجم کو ہیئت بھی وہی منتخب کرنی چاہیے جو موضوع اور مواد کا تقاضہ ہو۔13۔ جملے اگر پیچیدہ اور طویل ہوں تو ترجمہ میں اسے چھوٹے چھوٹے جملوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ انداز ہر جگہ نہیں برتا جاسکتا۔14۔ ترجمہ کے لیے موضوع سے واقفیت بنیادی شرط ہے۔ اس کے بعد اصل زبان سے پھر اپنی زبان سے۔ ”یہی وجہ ہے کہ ڈیٹ رایٹ (امریکہ) کی Mass Translation Project میں یہ طریقہ بتایا گیا ہے:Translator- Quality Control- Technical Editor- Language Editorیعنی مترجم۔۔ معیار کا نگراں۔ ٹیکنیکل ایڈیٹر۔ زبان کا ایڈیٹر۔“ترجمہ کی مبادیات اور شرائط کے جائزہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو ایک مترجم پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ بقول مرزا حامد بیگ:”مترجم کا کام دراصل نیاز و ناز کا امتزاج ہے۔ اس کی دو صفات انتہائی قابلِ تحسین ہیں (اور یہی بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے۔وجاہت) یعنی ایک تو وہ مصنف کا دل سے احترام کرتا ہے اور دوسرا بطور مترجم انتہائی دیانت داری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یوں مکمل آزادی اور دیانت دارانہ پابندی کا یہ اتصال (ترجمہ) اسے دوسرے کی مصنوعات اپنے ٹریڈ مارک کے ساتھ بیچنے سے باز رکھتا ہے۔ حالانکہ ترجمہ کرتے وقت وہ فن پارے کو اس طرح ڈھالتا ہے کہ کم از کم جزوی طور پر وہ اس کا خالق ضرور کہلا سکتا ہے لیکن یہ مترجم کی بڑائی ہے کہ وہ ایک عمدہ کاریگر کی طرح کام کرتا ہے ۔ دل اور روح کی صفائی کے ساتھ لیکن اپنا نام سامنے نہیں لاتا اور ترجمہ کی حرمت کی مسلسل پاسبانی کرتا ہے۔“آپﷺ نے بھی ضرورت کے تحت ترجمہ اور ترجمان سے فائدہ اٹھایا۔آپﷺ نے مختلف قوموں او رحکمرانوں کی طرف جو بھی خطوط اور فرامین جاری کیے وہ ترجمان ہی تحریر کیا کرتے تھے اور آپﷺ کو جواب میں جو خطوط موصول ہوئے آپﷺ ترجمان ہی سے پڑھواتے تھے۔ حضرت زید بن ثابت﷜ نے یہودیوں کی زبان آپﷺ کے کہنے پر سیکھی اور وہ حضور ﷺ اور یہودیوں کے درمیان مراسلائی ترجمانی کا فریضہ انجام دیتے تھے۔حضرت عمر﷜ کے زمانے میں عبد اللہ بن عباس﷜ کا لقب ترجمان القرآن مشہور ہوا کیونکہ وہ بھی ترجمانی کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ ترجمہ درحقیقت دو زبانوں کے درمیان ایک سمجھوتہ یا مصالحت ہے جس میں کچھ نہ کچھ نقصان گوارا کرنا ہی پڑتا ہے۔ اس کی وجہ وہ مشکلات ہیں جو ترجمہ کرتے ہوئے مترجم کو پیش آتی ہیں۔رابرٹ فراسٹ (1995ء) کا کہنا ہے کہ’’ترجمہ ناممکن کو ممکن بنانے کی سعی ہے۔ ترجمہ میں تخلیق کو از سر نو پانا ہوتا ہے اسی لیے امریکہ میں ترجمہ کو Recolation یعنی باز تخلیق سے تعبیر کرتے ہیں۔ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنا یقیناً آسان نہیں ہے۔ کیونکہ ہر زبان کی اپنی ضرورت اور خصوصیات ہوتی ہیں۔ ہر زبان کے محاورے، استعارے، مزاج، تراکیب اور طرز ادا مختلف ہوتا ہے۔ ہر زبان کا اپنا پس منظر اور حسن و آہنگ ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر زبان کا طرز ادا مختلف ہوتا ہے۔ ہر زبان کے الفاظ میں وسعت اور تنگی کی مشکلات بھی پائی جاتی ہیں۔ کبھی کبھی کسی زبان کے الفاظ میں وسعت اور گہرائی اس قدر ہوتی ہے کہ دوسری زبان میں اس کا متبادل ڈھونڈنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ مفہوم میں وہ تاثیر پیدا ہی نہیں ہوتی۔پھر ایک اور مشکل اس وقت آتی ہے جب ایک زبان کے محاورے اور ضر ب الامثال کا ترجمہ کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ہر زبان اور ماحول کے اپنے محاورے اور ضرب الامثال ہوتی ہیں۔ مترجم اس وقت بھی مشکلات کا شکار ہوتا ہے جب وہ آزادی سے اپنی زبان کے محاسن کو دوسری زبان میں منتقل نہیں کر پاتا۔ وہ مصنف کی طرح آزاد نہیں ہوتا کہ اپنی فکر کے مطابق اسلوب الفاظ اور استعارے استعمال کرے۔بہترین ترجمہ وہ ہے جس میں متن کے ساتھ ساتھ دوسری زبان کا اصل متبادل بھی پیش کیا گیا ہو۔ ترجمہ اصل متن کے لب ولہجے کی ترجمانی کر رہا ہو اس میں متن کے مفہوم کے ساتھ اس کا ذائقہ بھی منتقل ہو جائے۔کسی بھی بہترین ادبی نمونے کا ترجمہ کرنا یقیناً انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ کسی بڑے شاعر کے کلام کا نثر میں ترجمہ اس سے بھی مشکل کام ہے۔ اور قرآن تو کلام ایسی ہے ۔ اس کے الفاظ میں جو وسعت اور گہرائی پائی جاتی ہے۔ کسی بھی دوسری زبان میں ان کا اظہار انسان کی استطاعت سے بڑھ کر ہے۔ چونکہ ترجمہ ضرورت ہے اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ ترجمہ اصل مفہوم، جذبے اور زور بیان کی ترجمانی بھی کرتا ہو۔ ترجمہ ایسا ہو جس میں قرآن کی بے ساختگی اور روح کو بیدار کرنے والی خصوصیات بھی ہوں یہ نہ صرف مہارت یا تعریف کے لئے ہے بلکہ ضرور ی ہے۔ڈاکٹر عمر حیات کا کہنا ہے:’’انسان کا حقیقی معنوں میں انسان بن کر رہنے ، معاشرے میں صحیح انسانی کردار ادا کرنے اور آخرت میں فلاح یاب ہونے کا انحصار قرآن پر ہے۔ اس لیے اس کا فہم و ادراک انسان پر لازم ہے۔ اور اسلامی زندگی کا تو تصور ہی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے اگر صحیح معنوں میں کلام اللہ کا پیغام نہ سمجھا جائے۔ قرآن فہمی ہی اصل اسلام فہمی ہے۔قرآن کے آفاقی پیغام کے پیش نظر ترجمہ قرآن کو بھی ہمہ گیر اہمیت حاصل ہوئی۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ قرآن کے تراجم ہر زبان اور خاص طور پر اردو میں بار بار کیے گئے ہر دور میں کئے گئے ۔ اس کی ایک وجہ ڈاکٹر صالحہ عبد الحکیم شرف الدین یہ بیان کرتی ہیں کہ ’’کئی ترجمے اس لیے بھی لکھے گئے کہ وہ اس لسانی ارتقاء کا ساتھ دے سکیں۔‘‘ڈاکٹر صالحہ نے مزید ایک دلچسپ بات کہی ہے کہ’’اب تک قرآن کے تقریباً جتنے بھی ترجمے ہوئے وہ تمام غیر عربی علما کی محنت اور عقیدت کا نتیجہ ہیں۔ اب تک کسی عربی عالم نے سنجیدگی سے قرآن کا ترجمہ کسی بھی زبان میں کرنے کی کوشش نہیں کی۔ غالباً ان کو یہ احساس ہی نہ ہوتا ہو کہ غیر عربی دان کےلئے قرآن سمجھنا کتنا مشکل ہے یا پھر اس احساس کے ہونے کے باوجود اس لیے نہ کیا کہ خود ان کو اس کی ضرورت نہیں۔‘‘مسلمانوں کے ہاں ترجمے کی روایت کی ابتداء بالکل ابتدائی دور سے ہو گئی تھی اور مسلمانوں کو اس کی اہمیت کا احساس جلد ہو گیا تھا جب ان کا واسطہ تبلیغ دین کے سلسلے میں دوسری اقوام اور زبانوں سے ہوا۔قرآن حکیم:عربی زبان میں ہر لفظ کا ایک مصدر ہوتا ہے اور جب بھی کسی لفظ کا معنیٰ معلوم کرنے ہوں تو اس کا مصدر معلوم کیا جاتا ہے۔ لفظ قرآن کا مصدر قرأ ہے جس کا مطلب ہوتا ہے پڑھنا، اللہ تعالیٰ کی طرف یہ خود نام دیا گیا ہے۔﴿ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ‌ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ ’’ بیشک ہم نے تجھ پر بتدریج قرآن نازل کیا ہے۔ ‘‘﴿إِنَّهُ لَقُرْ‌آنٌ كَرِ‌يمٌ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ ﴾ ’’ کہ بیشک یہ قرآن بہت بڑی عزت والا ہے۔جو ایک محفوظ کتاب میں درج ہے۔‘‘﴿ أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَ‌تِّلِ الْقُرْ‌آنَ تَرْ‌تِيلًا﴾ ’’ یا اس پر بڑھا دے اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر (صاف) پڑھا کر۔‘‘﴿ وَلَقَدْ يَسَّرْ‌نَا الْقُرْ‌آنَ لِلذِّكْرِ‌ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ‌﴾ ’’ یقیناً ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کر دیا ہے، پس کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟ ‘‘﴿ وَالْقُرْ‌آنِ الْحَكِيمِ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْ‌سَلِينَ ﴾ ’’ یٰس۔قسم ہے قرآن باحکمت کی۔‘‘﴿ نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ‌ ۖ فَذَكِّرْ‌ بِالْقُرْ‌آنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ ﴾ ’’ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ہم بخوبی جانتے ہیں اور آپ ان پر جبر کرنے والے نہیں، تو آپ قرآن کے ذریعے انہیں سمجھاتے رہیں جو میرے وعید (ڈرانے کے وعدوں) سے ڈرتے ہیں۔‘‘﴿الرَّ‌حْمَـٰنُ عَلَّمَ الْقُرْ‌آنَ﴾ ’’ رحمٰن نے۔قرآن سکھایا۔‘‘مختلف اسماء اور اوصاف :قرآن حکیم کے مختلف اوصاف اور اسماء کا ذکر خود اللہ رب العزت قرآن ہی میں فرماتے ہیں:القرآن، الکتاب، الفرقان، التنزیل، الذکر، نور، ہدیٰ، مبارک، بشریٰ، عزیز، مجید، حکیم، بشیر، نذیر، وغیرہ۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نہ صرف اس کے اوصاف بیان کیے ہیں بلکہ اس کی تعریف بھی اس کے اندر ہی فرمائی ہے۔ اس کے پڑھنے اور ایمان والوں کےلئے لازم تھا کہ وہ اس تعریف کو جانیں تاکہ اس کی حقانیت کا یقین کیں۔ اس میں مذکور احکام، جزا وسزا اسی صورت میں حق لگے گی اگر اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصیحت سمجھیں۔اسی لیے اس کی تعریف ان الفاظ میں بیان فرمائی گئی ہے:﴿الر‌ ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَقُرْ‌آنٍ مُّبِينٍ﴾’’ الرٰ، یہ کتاب الٰہی کی آیتیں ہیں اور کھلے اور روشن قرآن کی۔‘‘﴿ص ۚ وَالْقُرْ‌آنِ ذِي الذِّكْرِ‌﴾ ’’ ص! اس نصیحت والے قرآن کی قسم۔‘‘محمد ﷺ پر اس کا نزول بتدریج ہوا اور یہ سلسلہ تئیس 23 سال جاری رہا کچھ حصہ مکہ مکرمہ اور اس کے ارد گرد نازل ہوا اور کچھ حصہ مدینہ منورہ میں نازل ہوا۔ وحی نازل ہوتے ہی آپﷺ حرف بحرف کلمات ایسی دھرا دیتے تھے اور صحابہ اسے حفظ کر لیتے تھے۔ چمڑے کے ٹکڑوں پر، ہڈیوں پر یا کاغذ پر لکھ کر محفوظ کر دیا کرتے۔آج قرآن جیسے ہمارے سامنے ہے اس طرح نازل نہیں ہوا تھا بلکہ اللہ کے حکم سے اس کی ترتیب ہوتی رہی۔ ابتدائے وحی سے لے کر انتہا تک ایک خاص لب ولہجہ ، عمق وفکر، ربط وتسلسل کے ساتھ نازل ہوتا رہا۔ اول سے آخر تک وہی قد سیت، وہی شان ہی عظمت نظر آتی ہے۔رسول اللہﷺ وحی کے آنے کے بعد بڑی احتیاط کے ساتھ لکھوا دیا کرتے تھے۔ کچھ صحابہ اس کا م پر مامور تھے۔ ان کاتبوں میں عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن زید بن ثابت، سالم بن معقل، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، ابو زید بن السکن اور ابودرداء﷢ مشہور ہیں۔ 

Comments

Popular posts from this blog

Yusufzai (Pashtun tribe)

The  Yūsufzai  (also  Youssofzay ,  Yousefzai ,  Yousafzai ,  Esapzey ,  Yousufi , or  Yūsufi ) (Pashto:  يوسفزی ,Persian and Urdu:  یوسف زئی ) is one of the largest Pashtun (Afghans) tribes. The majority of the Yusufzai tribe reside in parts of Western Afghanistan, Khyber Pakhtunkhwa and Provincially Administered Tribal Areas near the Afghan-Pakistan border. They are the predominant population in the districts of Konar, Ningarhar, Mardan District, Dir, Swat,Malakand, Swabi, Buner, Shangla, Haripur District [Khalabat Town Ship and Tarbela] and in Mansehra and Battagram. There is also a Yusufzai clan of Dehwar tribe in the Mastung district of Balochistan who speak Persian with some mixture of Birahvi words. The descendants of Yusuf inhabit Konar, Jalalabad, Swat, Upper Dir, Lower Dir, Malakand Swabi and Mardan. The begotten tribe of  Yusufzai' s are the Utmanzai having 3 major subdivions Alizai, Akazai and Kanazai, of Tarbela (now live in Khalabat Town Ship, District

رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم

  رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم  قرآن مجید میں پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مختلف صفات کا ذکر آیا ہے،  یہ تمام صفات اپنی جگہ اہم ہیں اور آپ کے محاسن کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم صفت یہ ہے کہ آپ کو تمام عالم کے لئے رحمت قرار دیا گیا،  وما أرسلنٰک الا رحمۃ للعالمین (الانبیاء : ۱۰۷)  —– اس تعبیر کی و سعت اور ہمہ گیری پر غور فرمائیے کہ آپ کی رحمت مکان و مقام کی وسعت کے لحاظ سے پوری کائنات کو شامل ہے اور زمانہ و زمان کی ہمہ گیری کے اعتبار سے قیامت تک آنے والے عرصہ کو حاوی ہے، یہ کوئی معمولی دعویٰ نہیں، اور شاید ہی تاریخ کی کسی شخصیت کے بارے میں ایسا دعویٰ کیا گیا ہو، یہ دعویٰ جتنا عظیم ہے اسی قدر واقعہ کے مطابق بھی ہے،  آپ کی رحمت کا دائرہ یوں تو پوری کائنات تک وسیع ہے، زندگی کے ہر گوشہ میں آپ کا اسوہ رحمت کا نمونہ ہے، لیکن اس وقت انسانیت پر آپ کی رحمت کے چند خاص پہلوؤں پر روشنی ڈالنا مقصود ہے ۔ ان میں پہلی بات یہ ہے کہ آپ نے انسانیت کو وحدت الٰہ کا تصور دیا، خدا کو ایک ما ننا بظاہر ایک سادہ سی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن بمقابلہ الحاد و انکار اور شرک و مخلوق پر

عشرة ذوالحجہ

 *✨عشرة ذوالحجہ* *✨مختصر تعارف * 🌿 ذوالحجہ کا پہلا عشره نیکیوں اور اجر و ثواب کے اعتبار سے عام دنوں کے مقابلے میں بہت اہم ہے، جس کی فضیلت قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن مجید میں الله سبحانه و تعالیٰ نے ان دس دن کی قسم کھائی ہے۔ *🌿 وَالْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ*   "قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی" (الفجر : 2-1)  اکثر مفسرین کے نزدیک *’’لَیَالٍ عَشْرٍ‘‘* سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ ان دس دنوں میں کئے جانے والے اعمال الله تعالیٰ کو دیگر دنوں کی نسبت زیاده محبوب ہیں۔ 🌿 رسول الله ﷺ نے فرمایا : "کسی بھی دن کیا ہوا عمل الله تعالیٰ کو ان دس دنوں میں کئے ہوئے عمل سے زیاده محبوب نہیں ہے،  انہوں (صحابہ ؓ) نے پوچھا : اے الله کے رسول ﷺ، جہاد فی سبیل الله بھی نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : "جہاد فی سبیل الله بھی نہیں ہاں مگر وه شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے۔" (سنن ابوداؤد) 🌿 عبدالله ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : "کوئی دن الله تعالیٰ کے ہاں ان دس دنوں سے زیاده عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل الله تعالیٰ