Skip to main content

Posts

Showing posts from May, 2015

کہاں گئے اُن کے مشکل کشا !

وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُم مِّنَ الْقُرَىٰ وَصَرَّفْنَا الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴿٢٧﴾سورة الأحقافاور یقیناً ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیاں تباه کر دیں اور طرح طرح کی ہم نے اپنی نشانیاں بیان کر دیں تاکہ وه رجوع کر لیں (27)تفسیر احسن البیان (حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ) :آس پاس سے عاد، ثمود اور لوط کی وہ بستیاں مراد ہیں جو حجاز کے قریب ہی تھیں، یمن اور شام و فلسطین کی طرف آتے جاتے ان سے ان کا گزر ہوتا تھا۔یعنی ہم نے مختلف انداز سے اور مختلف انوواع کے دلائل ان کے سامنے پیش کئے کہ شاید وہ توبہ کرلیں۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔فَلَوْلَا نَصَرَهُمُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّـهِ قُرْبَانًا آلِهَةً ۖ بَلْ ضَلُّوا عَنْهُمْ ۚ وَذَٰلِكَ إِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ ﴿٢٨﴾سورة الأحقافپس قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اللہ کے سوا جن جن کو اپنا معبود بنا رکھا تھا انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی؟ بلکہ وه تو ان سے کھو گئے، (بلکہ دراصل) یہ ان کا محض جھوٹ اور (بالکل) بہتان تھا (28)تفسیر احسن البیان :یعنی جن معبودوں کو وہ تقرب الہی کا ذریعہ سمجھتے تھےانہوں نے ا

تلاوتِ قرآن کی فضیلت

عن ابی امامہ رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: اقرووا القرآن فانہ یاتی یوم القیامة شفیعا لاصحابہ (رواہ مسلم )ترجمہ : حضر ت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :" قرآن کثرت سے پڑھا کرو، اس لیے کہ قیامت والے دن یہ اپنے پڑھنے والے ساتھیوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔" (مسلم)تشریح: اس میں قرآن مجید کی تلاوت اور اس پر عمل کرنے کی فضیلت کا بیان ہے ، کیونکہ عمل کے بغیر محض خوش الحانی سے پڑھ لینے کی اللہ کے ہاں کوئی قیمت نہیں ہوگی ، سفارشی کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی قرآن مجید کو قوت گویائی عطافرمائے گا اوروہ اپنے قاری اور عامل کے گناہوںکی مغفرت کا اللہ سے سوال کرے گا ' جسے اللہ قبول فرمائے گا ۔عن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ (رواہ البخاری )ترجمہ : عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے سکھلائے ۔" (بخاری )تشریح: اس میں قرآن کریم کی تعلیم

کتاب اللہ کی کون سی آیت سب سے عظیم ہے؟

آیۃ الکرسی کی فضیلت !!! آیۃ الکرسی کی کیااھمیت ہے ؟ اور کیا اس آیت کی عظمت پرکوئ دلیل وارد ہے ؟ الحمد للہ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ہے کہ کتاب اللہ میں یہ آیت سب سے افضل آیت ہے ۔ ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےان سے سوال کیا کہ کتاب اللہ میں سب سے عظیم آیت کونسی ہے ؟ تو وہ کہنے لگے کہ اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کوہی زیادہ علم ہے ، یہ سوال کئ باردھرایا اور پھر فرمانےلگے کہ وہ آیت الکرسی ہے ۔ فرمانے لگے اے ابوالمنذر علم مبارک ہو اس ذات کی قسم جس کےھاتھ میں میری جان ہے اس آیت کی زبان اور ہونٹ ہونگے عرش کے پاۓ کے ہاں اللہ تعالی کی پاکی بیان کررہی ہوگی ۔ اور غالبا مسلم نے والذی نفسی سے آگے والے الفاظ نہیں ہیں ۔ عبداللہ بن ابی بن کعب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد کے پاس کھجوریں رکھنے کی جگہ تھی ، عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں میرے والد اس کاخیال رکھتے تھے تو

’’ایمان‘‘ قول، عمل اور دل کا ارادہ ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم ’’ایمان‘‘ قول، عمل اور دل کا ارادہ ہے نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم اما بعد!’’ایمان قول و عمل اور دل کا اعتقاد ہے‘‘، اللہ عزوجل نے فرمایا: وَمَا کَانَ اﷲُ لِیُضِیْعَ اِیْمٰنَکُمْ سورۃ البقرۃ: آیت 143 اللہ تمہارے ایمان کو(یعنی بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے) کو ضائع کرنے والا نہیں ہے۔ تو یہاں نماز کا نام ’’ایمان‘‘ رکھا، لہٰذا ثابت ہوا کہ’’ ایمان قول، عمل اور دل کا ارادہ ہے‘‘۔مزید برآں ’’ایمان قول اورعمل ہے بڑھتا اور گھٹتا ہے‘‘ـ۔ایمان کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں کیا جاتا۔ اللہ پر ایمان جس کے سوا کوئی الٰہ و معبود نہیں، یہ درجہ میں سارے اعمال سے اعلیٰ، مرتبہ میں سارے اعمال سے اشرف اور نصیب میں سب سے روشن ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایمان قول و عمل ہے، یا قول بلا عمل ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان اللہ کیلئے عمل ہے اور قول اس عمل کا حصہ ہے۔ لہٰذا یاد رکھنا چاہیئے کہ ایمان کے حالات و درجات اورطبقات ہیں۔ ایک شخص کا ایمان ایسا ہے جو انتہائی اعلیٰ ہے اور ایک شخص کا ایمان ناقص ہے جسکا ناقص ہونا واضح ہے۔ اسی طرح ایک شخص کا ایمان راجح ہے یعنی جس کا رجحا

تفسیر سورۃ اخلاص - عیسائیت کی تردید

عیسائیت کی تردید اہل عرب میں سے جو لوگ یہ کہتے تھے ،کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ان کی اور ان کے اس قول کی نفی،کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں کے قبیلے میں شادی کی اور اس شادی سے ملائکہ پیداہوئے ،اس امر سے کی کہ اللہ تعالیٰ کے لیے بیوی اور جزوکا ہونا محال ہے ۔کیونکہ وہ ''صمد'' ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:وَلَمْ تَکُنْ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ۔اور اس کی کوئی بیوی نہیں۔اور جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے ،ولات کے لیے دواصلوں کا ہونا ضروری ہے ۔اور اس باب میں اعیان (اجسام) کا تولد ،جنھیں جوہر کہا جاتا ہے اور اعراض وصفات کا تولد برابر ہے بلکہ اعیان کا تولد تو اس وقت تک ہو ہی نہیں سکتا ،جب تک والد سے ایک حصہ علیحدہ نہ ہو۔سوجب اللہ تعالیٰ کے لیے بیوی کا ہونا ممتنع ہے تو اس کے لیے اولاد کا ہو نا بھ ممتنع ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ اس کی کوئی بیوی نہیں ہے نہ ملائکہ میں سے نہ جنوں میں سے ۔اور نہ انسانوں میں سے ۔ان لوگوں میں سے کسی نے یہ نہیں کہا ،کہ اللہ کی بیوی ہے ،اس لیے یہ امران کے خلاف حجت ہے ۔اور بعض کفار عرب سے جو عقیدہ مروی ہے کہ ''اللہ تعالیٰ نے جنوں کے قبیلے میں شادی کی'&

توحید کی خوبی اور شرک فی العلم کی تردید

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ المحمود بنعمتہ۔ المعبود بقدرتہ۔ المطاع بسلطانہ۔ المرھوب من عذابہ وسطوتہ۔ النافذ امرہ فی سمائہ وارضہ ۔ الذی خلق الخلق بقدرتہ۔ و میزھم باحکامہ فاعزھم بدینہ۔ واکرمھم بنبیہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللّٰھم صل علی محمد وعلی اہل بیتہ کما صلیت علی ابراھیم انک حمید مجید۔ اللّٰھم صل علینا معھم۔ اللّٰھم بارک علی محمد و علی اھل بیتہ کما بارکت علی ابراھیم انک حمید مجید۔ اللّٰھم بارک علینا معھم صلوات ا للہ وصلوات المؤمنین علی محمد ن النبی الامی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اما بعد۔ فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم ط بسم اللہ الرحمن الرحیم ط وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَا اِلَّاھُوَط (الانعام:۵۹) تمام تعریفیں اللہ کے لیے سزا وار ہیں، جو نعمتیں عطا فرمانے کے باعث واقعی قابل تعریف ہے، وہی حقیقی معبود برحق ہے اس لیے کہ اس کی سی قدرتیں اور کسی میں نہیں ہیں، خوف و ڈر رکھنے کے لائق اسی کی ذات ہے، اس لیے کہ اس کا عذاب سخت اور اس کی سزائیں بے حد اور اس کا دبدبہ و شوکت اور سلطنت سب پر ہے وہی ہے جس کا حکم زمین و آسمان میں چلتا ہے، اسی نے اپنی قدرت سے

شرک فی التصرف کا بیان

بسم اللہ الرحمن الرحیم اللّٰھم لک الحمد حمدا یوافی نعمک ویکافی مزید کرمک احمد ک بجمیع محا مدک ما علمت و ما لم اعلم علی جمیع نعمک ما علمت منھا وما لم اعلم وعلی کل حالط اللّٰھم صل علی محمد و علی ال محمد و بارک وسلم۔ اما بعد۔ فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم ط بسم اللہ الرحمن الرحیمط قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۚ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَمَا لَہُمْ فِيْہِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَہٗ مِنْہُمْ مِّنْ ظَہِيْرٍ۝۲۲ وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ۝۰ۭ حَتّٰٓي اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِہِمْ قَالُوْا مَاذَا۝۰ۙ قَالَ رَبُّكُمْ۝۰ۭ قَالُوا الْحَقَّ۝۰ۚ وَہُوَالْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ۝۲۳ (السبا:۲۲۔۲۳) اے میرے محسن خدا! کل تعریفوں کا مستحق تو ہی ہے، میں تیری وہ تعریف کرتا ہوں جو تیری دی ہوئی نعمتوں کا بدل ہو، ا ور اس سے جو زیادہ دے، اس کا بدلہ ہو، اور پھر میں تیری جن نعمتوں کو جانتا ہوں اور جن کو نہیں جانتا سب ہی کا ا ن خوبیوں کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں، جس کا مجھ کو علم ہے اور جن کا نہیں، غرضیکہ ہر