بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللّٰھم لک الحمد حمدا یوافی نعمک ویکافی مزید کرمک احمد ک بجمیع محا مدک ما علمت و ما لم اعلم علی جمیع نعمک ما علمت منھا وما لم اعلم وعلی کل حالط اللّٰھم صل علی محمد و علی ال محمد و بارک وسلم۔ اما بعد۔ فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم ط بسم اللہ الرحمن الرحیمط قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ۰ۚ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَمَا لَہُمْ فِيْہِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَہٗ مِنْہُمْ مِّنْ ظَہِيْرٍ۲۲ وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ۰ۭ حَتّٰٓي اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِہِمْ قَالُوْا مَاذَا۰ۙ قَالَ رَبُّكُمْ۰ۭ قَالُوا الْحَقَّ۰ۚ وَہُوَالْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ۲۳ (السبا:۲۲۔۲۳)
اے میرے محسن خدا! کل تعریفوں کا مستحق تو ہی ہے، میں تیری وہ تعریف کرتا ہوں جو تیری دی ہوئی نعمتوں کا بدل ہو، ا ور اس سے جو زیادہ دے، اس کا بدلہ ہو، اور پھر میں تیری جن نعمتوں کو جانتا ہوں اور جن کو نہیں جانتا سب ہی کا ا ن خوبیوں کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں، جس کا مجھ کو علم ہے اور جن کا نہیں، غرضیکہ ہر حال میں اور ہر آن میں تیری ہی تعریف کرتا ہوں، اے سلامتی والے خدا، تو اپنے حبیب محمد ﷺ اور آپؐ کی آل اولاد، بیوی ، بچے، داماد اور ہر تابعدار پر رحمت و برکت نازل فرما، حمد و صلوۃ کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے، کہ کہہ دیجیے، کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے، سب کو پکار لو، نہ تو ان میں سے کسی کو زمین و آسمان میں سے ایک ذرہ کا ا ختیار ہے، نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے، نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے، درخواست شفاعت بھی ان کے پاس کچھ کام نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لیے اللہ کی طرف سے اجازت ہو جائے، یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کر دی جاتی ہے، تو پوچھتے ہیں، کہ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں، کہ حق فرمایا: ا ور وہ بلند و بالا ، اور بہت بڑا ہے۔بیان ہو رہا ہے، کہ اللہ ا کیلا ہے، واحد ہے، احد ہے، فرد ہے، صمد ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بے نظیر ہے، بے شریک ہے، اور بے مثل ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ساتھی نہیں، مشیر نہیں، وزیر نہیں، مددگار و پشت بان نہیں، پھر ضد کرنے والا اور خلاف کہنے والا تو کہاں ؟ جن جن کو پکارا کرتے ہو، پکار کر دیکھ لو، معلوم ہو جائے گا، کہ ایک ذرے کے بھی مالک و مختار نہیں ، محض بے بس اور بالکل محتاج و عاجز ہیں، نہ زمینوں میں ان کی کچھ چلے گی، نہ آسمانوں میں، جیسے اور آیت میں ہے:
وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍ۔ (فاطر:۱۳)
جن کو تم اس کے سوائے پکارتے ہو، وہ کھجور کے ایک چھلکے کے بھی مالک نہیں۔
اللّٰھم لک الحمد حمدا یوافی نعمک ویکافی مزید کرمک احمد ک بجمیع محا مدک ما علمت و ما لم اعلم علی جمیع نعمک ما علمت منھا وما لم اعلم وعلی کل حالط اللّٰھم صل علی محمد و علی ال محمد و بارک وسلم۔ اما بعد۔ فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم ط بسم اللہ الرحمن الرحیمط قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ۰ۚ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَمَا لَہُمْ فِيْہِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَہٗ مِنْہُمْ مِّنْ ظَہِيْرٍ۲۲ وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ۰ۭ حَتّٰٓي اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِہِمْ قَالُوْا مَاذَا۰ۙ قَالَ رَبُّكُمْ۰ۭ قَالُوا الْحَقَّ۰ۚ وَہُوَالْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ۲۳ (السبا:۲۲۔۲۳)
اے میرے محسن خدا! کل تعریفوں کا مستحق تو ہی ہے، میں تیری وہ تعریف کرتا ہوں جو تیری دی ہوئی نعمتوں کا بدل ہو، ا ور اس سے جو زیادہ دے، اس کا بدلہ ہو، اور پھر میں تیری جن نعمتوں کو جانتا ہوں اور جن کو نہیں جانتا سب ہی کا ا ن خوبیوں کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں، جس کا مجھ کو علم ہے اور جن کا نہیں، غرضیکہ ہر حال میں اور ہر آن میں تیری ہی تعریف کرتا ہوں، اے سلامتی والے خدا، تو اپنے حبیب محمد ﷺ اور آپؐ کی آل اولاد، بیوی ، بچے، داماد اور ہر تابعدار پر رحمت و برکت نازل فرما، حمد و صلوۃ کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے، کہ کہہ دیجیے، کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے، سب کو پکار لو، نہ تو ان میں سے کسی کو زمین و آسمان میں سے ایک ذرہ کا ا ختیار ہے، نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے، نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے، درخواست شفاعت بھی ان کے پاس کچھ کام نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لیے اللہ کی طرف سے اجازت ہو جائے، یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کر دی جاتی ہے، تو پوچھتے ہیں، کہ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں، کہ حق فرمایا: ا ور وہ بلند و بالا ، اور بہت بڑا ہے۔بیان ہو رہا ہے، کہ اللہ ا کیلا ہے، واحد ہے، احد ہے، فرد ہے، صمد ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بے نظیر ہے، بے شریک ہے، اور بے مثل ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ساتھی نہیں، مشیر نہیں، وزیر نہیں، مددگار و پشت بان نہیں، پھر ضد کرنے والا اور خلاف کہنے والا تو کہاں ؟ جن جن کو پکارا کرتے ہو، پکار کر دیکھ لو، معلوم ہو جائے گا، کہ ایک ذرے کے بھی مالک و مختار نہیں ، محض بے بس اور بالکل محتاج و عاجز ہیں، نہ زمینوں میں ان کی کچھ چلے گی، نہ آسمانوں میں، جیسے اور آیت میں ہے:
وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍ۔ (فاطر:۱۳)
جن کو تم اس کے سوائے پکارتے ہو، وہ کھجور کے ایک چھلکے کے بھی مالک نہیں۔
اور یہی نہیں، کہ انہیں خود اختیاری حکومت نہ ہو نہ سہی ، شرکت کے طور پر ہی ہو، نہیں شرکت کے طور پر بھی نہیں، نہ خدا تعالیٰ ان سے اپنے کسی کام میںمدد لیتا ہے، بلکہ یہ سب کے سب محتاج و فقیر ہیں، اس کے در کے غلام ا ور بندے ہیں، اس کی عظمت اور کبریائی ، عزت و بڑائی ایسی ہے، کہ بغیر اسکی اجازت کے کسی کی جرات نہیں، کہ اسکے سامنے کسی کی سفارش کیلئے لب ہلا سکے، جیسے کہ فرمان ہے:
مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ۰ۭ (البقرۃ:۲۵۵)
کون ہے جو اس کے سامنے کسی کی شفاعت بغیر اس کی رضا مندی کے کر سکے۔
اور آیت میں ہے کم من ملک فی السموات الایۃ یعنی آسمانوں کے کل فرشتے بھی اس کے سامنے کسی کی سفارش کے لیے لب نہیں ہلا سکتے، مگر جس کے لیے خدا اپنی رضا مندی سے اجازت دے دے، اور جگہ فرمان ہے ولا یشفعون الا لمن ارتضی الایۃ وہ لوگ صرف ان کی سفارش کر سکتے ہیں، جن کے لیے خدا کی رضا مندی ہو، فرشتے تو خود ہی اس کے خوف سے تھرارہے ہیں۔
تمام اولاد آدم کے سردار، سب سے بڑے شفیع اور سفارشی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ بھی جب قیامت کے دن مقام محمود میں شفاعت کے لیے تشریف لے جائیں گے ، کہ اللہ تعالیٰ آئے، اور مخلوق کے فیصلے کرے، اس وقت کے متعلق آپؐ فرماتے ہیں، کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدے میں گر پڑوں گا، خدا ہی جانتا ہے، کہ میں کب تک سجدے میں پڑا رہوں گا، اس سجدے میں اس قدر اپنے رب کی تعریفیں بیان کروں گا، کہ اس وقت تو وہ الفاظ بھی مجھے معلوم نہیں، پھر مجھ سے کہا جائے گا، اے محمد (ﷺ) اپنا سر اٹھائیے، آپؐ بات کیجیے، آپؐ کی بات سنی جائے گی، آپ ؐ مانگیے آپ ؐ کو دیا جائے گا، آپؐ شفاعت کیجیے، قبول کی جائے گی۔
رب کی عظمت کا ایک اور مقام بیان ہو رہا ہے، کہ جب وہ اپنی وحی میں کلام کرتا ہے، اور آسمان کے مقرب فرشتے سنتے ہیں، تو خوف سے کانپ اٹھتے ہیں، اور غشی والے کی طرح ہو جاتے ہیں، جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ ہٹ جاتی ہے، تو آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کرتے ہیں، کہ اس وقت رب کا کیا حکم نازل ہوا، پس اہل عرش اپنے پاس والوں کو وہ اپنے پاس والوں کو یونہی درجہ بدرجہ حکم خدا پہنچا دیتے ہیں، بلا کم وکاست، ٹھیک ٹھیک اسی طرح پہنچا دیتے ہیں۔
حامی سنت، قامع بدعت، شہید ملت ، مولانا و مرشدنا محمد اسماعیل دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور کتاب ''تقویۃ الایمان'' میں مذکورہ بالا آیت کے تحت میں ارشاد فرماتے ہیں، جس کو ہم بعینہٖ نقل کرتے ہیں۔
''یعنی جو کوئی کسی سے مراد مانگتا ہے، اور وہ مشکل کے وقت پکارتا ہے، اور وہ اس کی حاجت روائی کر دیتا ہے، سو یہ بات اسی طرح ہوتی ہے، کہ یا تو وہ خودمالک ہو، یا مالک کا ساجھی، یا مالک پر اس کا دباؤ ہو۔ جیسے بڑے بڑے امیروں کا کہنا بادشاہ دب کر مان لیتا ہے، کیونکہ وہ اس کے بازو ہیں، اور اس کی سلطنت کے رکن ہیں، ان کے ناخوش ہونے سے اس کی سلطنت بگڑ تی ہے، یا اس طرح کہ مالک سے سفارش کرے اور وہ اس کی سفارش خواہ مخواہ قبول کرلے، پھر دل سے خوش ہو یا ناخوش ہو جیسے بادشاہ زادی یا بیگمات کہ بادشاہ ان کی محبت سے ان کی سفارش رد نہیں کر سکتا، سو چار ونا چار ان کی سفارش قبول کر لیتا ہے، سو جن کو اللہ کے سوا یہ لوگ پکارتے ہیں، اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں، سو نہ تو وہ مالک ہیں، آسمان اور زمین میں ذرہ بھر چیز کے، اور نہ ان کاکچھ ساجھا ہے، اورنہ وہ اللہ کی سلطنت کے رکن ہیں، اور نہ اس کے بازو کہ ان سے دب کر ان کی بات مان لے، اور نہ بغیر پروانگی سفارش کر سکتے ہیں، کہ خواہ مخواہ اس سے دلوادیں، بلکہ اس کے دربار میں ان کا تو یہ حال ہے، کہ جب وہ کچھ حکم فرماتا ہے، تو یہ سب رعب میں آکر بدحواس ہو جاتے ہیں، اور ادب اور دہشت کے مارے دوسری بار اس بات کی تحقیق اس سے نہیں کر سکتے، بلکہ ایک دوسرے سے پوچھتا ہے، اور جب اس بات کی آپس میں تحقیق کر لیتے ہیں، سوائے آمنا و صدقنا کے کچھ نہیں کہہ سکتے ، پھر بات الٹنے کا تو کیا ذکر ، اور کسی کی وکالت اور حمایت کرنے کی کیا طاقت؟''
مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ۰ۭ (البقرۃ:۲۵۵)
کون ہے جو اس کے سامنے کسی کی شفاعت بغیر اس کی رضا مندی کے کر سکے۔
اور آیت میں ہے کم من ملک فی السموات الایۃ یعنی آسمانوں کے کل فرشتے بھی اس کے سامنے کسی کی سفارش کے لیے لب نہیں ہلا سکتے، مگر جس کے لیے خدا اپنی رضا مندی سے اجازت دے دے، اور جگہ فرمان ہے ولا یشفعون الا لمن ارتضی الایۃ وہ لوگ صرف ان کی سفارش کر سکتے ہیں، جن کے لیے خدا کی رضا مندی ہو، فرشتے تو خود ہی اس کے خوف سے تھرارہے ہیں۔
تمام اولاد آدم کے سردار، سب سے بڑے شفیع اور سفارشی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ بھی جب قیامت کے دن مقام محمود میں شفاعت کے لیے تشریف لے جائیں گے ، کہ اللہ تعالیٰ آئے، اور مخلوق کے فیصلے کرے، اس وقت کے متعلق آپؐ فرماتے ہیں، کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدے میں گر پڑوں گا، خدا ہی جانتا ہے، کہ میں کب تک سجدے میں پڑا رہوں گا، اس سجدے میں اس قدر اپنے رب کی تعریفیں بیان کروں گا، کہ اس وقت تو وہ الفاظ بھی مجھے معلوم نہیں، پھر مجھ سے کہا جائے گا، اے محمد (ﷺ) اپنا سر اٹھائیے، آپؐ بات کیجیے، آپؐ کی بات سنی جائے گی، آپ ؐ مانگیے آپ ؐ کو دیا جائے گا، آپؐ شفاعت کیجیے، قبول کی جائے گی۔
رب کی عظمت کا ایک اور مقام بیان ہو رہا ہے، کہ جب وہ اپنی وحی میں کلام کرتا ہے، اور آسمان کے مقرب فرشتے سنتے ہیں، تو خوف سے کانپ اٹھتے ہیں، اور غشی والے کی طرح ہو جاتے ہیں، جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ ہٹ جاتی ہے، تو آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کرتے ہیں، کہ اس وقت رب کا کیا حکم نازل ہوا، پس اہل عرش اپنے پاس والوں کو وہ اپنے پاس والوں کو یونہی درجہ بدرجہ حکم خدا پہنچا دیتے ہیں، بلا کم وکاست، ٹھیک ٹھیک اسی طرح پہنچا دیتے ہیں۔
حامی سنت، قامع بدعت، شہید ملت ، مولانا و مرشدنا محمد اسماعیل دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور کتاب ''تقویۃ الایمان'' میں مذکورہ بالا آیت کے تحت میں ارشاد فرماتے ہیں، جس کو ہم بعینہٖ نقل کرتے ہیں۔
''یعنی جو کوئی کسی سے مراد مانگتا ہے، اور وہ مشکل کے وقت پکارتا ہے، اور وہ اس کی حاجت روائی کر دیتا ہے، سو یہ بات اسی طرح ہوتی ہے، کہ یا تو وہ خودمالک ہو، یا مالک کا ساجھی، یا مالک پر اس کا دباؤ ہو۔ جیسے بڑے بڑے امیروں کا کہنا بادشاہ دب کر مان لیتا ہے، کیونکہ وہ اس کے بازو ہیں، اور اس کی سلطنت کے رکن ہیں، ان کے ناخوش ہونے سے اس کی سلطنت بگڑ تی ہے، یا اس طرح کہ مالک سے سفارش کرے اور وہ اس کی سفارش خواہ مخواہ قبول کرلے، پھر دل سے خوش ہو یا ناخوش ہو جیسے بادشاہ زادی یا بیگمات کہ بادشاہ ان کی محبت سے ان کی سفارش رد نہیں کر سکتا، سو چار ونا چار ان کی سفارش قبول کر لیتا ہے، سو جن کو اللہ کے سوا یہ لوگ پکارتے ہیں، اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں، سو نہ تو وہ مالک ہیں، آسمان اور زمین میں ذرہ بھر چیز کے، اور نہ ان کاکچھ ساجھا ہے، اورنہ وہ اللہ کی سلطنت کے رکن ہیں، اور نہ اس کے بازو کہ ان سے دب کر ان کی بات مان لے، اور نہ بغیر پروانگی سفارش کر سکتے ہیں، کہ خواہ مخواہ اس سے دلوادیں، بلکہ اس کے دربار میں ان کا تو یہ حال ہے، کہ جب وہ کچھ حکم فرماتا ہے، تو یہ سب رعب میں آکر بدحواس ہو جاتے ہیں، اور ادب اور دہشت کے مارے دوسری بار اس بات کی تحقیق اس سے نہیں کر سکتے، بلکہ ایک دوسرے سے پوچھتا ہے، اور جب اس بات کی آپس میں تحقیق کر لیتے ہیں، سوائے آمنا و صدقنا کے کچھ نہیں کہہ سکتے ، پھر بات الٹنے کا تو کیا ذکر ، اور کسی کی وکالت اور حمایت کرنے کی کیا طاقت؟''
حقیقت ِ شفاعت:
اس جگہ ایک بات بڑے کام کی ہے، اس کو کان رکھ کر سن لینا چاہیے کہ اکثر لوگ انبیاء اور اولیاء کی شفاعت پر بہت پھولے ہوئے ہیں، اور اس کے معنی غلط سمجھ کر اللہ کو بھول گئے ہیں، سو شفاعت کی حقیقت سمجھ لینا چاہیے، شفاعت کہتے ہیں،سفارش کو، اوردنیا میں سفارش کئی طرح کی ہوتی ہے، جیسے ظاہر طور پر بادشاہ کے ہاں کسی شخص کی چوری ثابت ہو جائے اور کوئی امیر وزیر اس کو اپنی سفارش سے بچا لیوے ، تو ایک تو یہ صورت ہے، کہ بادشاہ کا جی تو اس چور کے پکڑنے ہی کو چاہتا ہے، اور اس کے آئین کے موافق اس کو سزا پہنچتی ہے، مگر اس امیر سے دب کر اس کی سفارش مان لیتا ہے، اور اس چور کی تقصیر معاف کر دیتا ہے، کیونکہ وہ امیر اس کی سلطنت کا بڑا رکن ہے، اور اس کی بادشاہت کو بڑی رونق دے رہا ہے، سو یہ سمجھتا ہے، کہ ایک جگہ اپنے غصہ کو تھام لینا اور ایک چور سے درگذر کرنا بہتر ہے، اس سے کہ اتنے بڑے امیر کو نا خوش کر دیجیے کہ بڑے بڑے کام چوپٹ ہو جائیں، اور سلطنت کی رونق گھٹ جائے، اس کو شفاعت و جاہت کہتے ہیں، یعنی اس امیر کی وجاہت کے سبب سے اس کی سفارش قبول کی، سواس قسم کی سفارش اللہ کی جناب میں ہر گز ہرگز نہیں ہوسکتی ، اور جو کوئی کسی نبی یا ولی کو یا امام اور شہید کو یا کسی فرشتہ کو یا کسی پیر کو اللہ کی جناب میں اس قسم کا شفیع سمجھے سو وہ اصل مشرک ہے، اور بڑا جاہل ہے ،کہ اس نے خدا کے معنی کچھ بھی نہ سمجھے، اور اس مالک الملک کی قدر کچھ بھی نہ پہچانی، اس شہنشاہ کی تو یہ شان ہے، کہ ایک آن میں ایک حکم کن سے چاہے تو کروڑوں نبی اور ولی اور جن و فرشتہ جبریل اور محمد ﷺ کے برابر پیدا کرڈالے، اور ایک دم میں سارا عالم عرش سے فرش تک الٹ پلٹ کر ڈالے اور ایک ہی عالم اس جگہ قائم کرے، کہ اس کے تو محض ارادے ہی سے ہر چیز ہو جاتی ہے، کسی کام کے واسطے کچھ اسباب اور سامان جمع کرنے کی کچھ حاجت نہیں اور جو سب لوگ پہلے اور پچھلے اور آدمی اور جن یہی سب مل کر جبریل اور پیغمبر ہی سے ہو جائیں، تو اس مالک الملک کی سلطنت میں ان کے سبب سے کچھ رونق بڑھ نہ جائے گی ، اور جو سب شیطان اور دجال ہی سے ہو جائیں، تو اس کی رونق کچھ گھٹنے کی نہیں،وہ ہر صورت سے بڑوں کا بڑا ہے، اور بادشاہوں کا بادشاہ ،اس کا نہ کوئی بگاڑ سکے، نہ کچھ سنوار سکے۔دوسری صورت یہ ہے، کہ بادشاہ زادوں میں سے یا بیگماتوں میں سے یا کوئی بادشاہ کا معشوق اس چور کا سفارشی ہو کر کھڑا ہو جائے، اور چوری کی سزا نہ دینے دیوے، اور بادشاہ اس کی محبت میں لاچار ہو کر اس چور کی تقصیر معاف کر دے، اس کو شفاعت محبت کہتے ہیں، یعنی بادشاہ نے محبت کے سبب سے سفارش قبول کر لی، اور یہ بات سمجھی ، کہ ایک بار غصہ پی جانا اور ایک چور کو معاف کر دینا بہتر ہے اس رنج سے کہ جو اس محبوب کے روٹھ جانے سے مجھ کو ہوگا، اس قسم کی شفاعت بھی اس کے دربار میں کسی طرح ممکن نہیں، کوئی کسی کو اس کی جناب میں اس قسم کا شفیع سمجھے، وہ بھی ویسا ہی مشرک اور جاہل کی طرح ہے جیسا مذکور اول ہو چکا، وہ مالک الملک اپنے بندوں کو بہتیراہی نوازے، اور کسی کو حبیب کا اور کسی کو خلیل کا ا ور کسی کو کلیم کا اور کسی کو روح اللہ وجیہ کا خطاب بخشے اور کسی کو رسول کریم اور مکین اور روح القدس، روح الامین فرماوے، مگر پھر بھی مالک مالک ہے، اور غلام غلام ، کوئی بندگی کے رتبہ سے قدم باہر نہیںرہ سکتا، اور غلامی کی حد سے زیادہ نہیں بڑھ سکتا، جیسا کہ اس کی رحمت سے ہر دم خوشی سے جھکتا ہے، ویسا ہی اس کی ہیبت سے رات دن زہرہ پھٹتا ہے۔
تیسری صورت یہ ہے، کہ چور پر چوری تو ثابت ہوگئی ، مگر وہ ہمیشہ کا چور نہیں ہے، اور چوری کو اس نے اپنا کچھ پیشہ نہیں ٹھہرایا، مگر نفس کی شامت سے قصور ہوگیا، سو اس پر وہ شرمندہ ہے، اور رات دن ڈرتا ہے، اور بادشاہ کے آئین کو سر آنکھوں پر رکھ کر اپنے تئیں تقصیر وار سمجھتا ہے، اور لائق سزا کے جانتا ہے، اور بادشاہ سے بھاگ کر کسی امیر وزیر کی پناہ نہیں ڈھونڈتا، اور اس کے مقابلہ میں کسی کی حمایت نہیں جتاتا، اور رات دن اسی کا منہ دیکھ رہا ہے، کہ دیکھیے میرے حق میں کیا حکم فرما دے، سو اس کا یہ حال دیکھ کر بادشاہ کے دل میں اس پر ترس آتا ہے، مگر آئین بادشاہت کا خیال کر کے بے سبب درگزر نہیں کرتا، کہ کہیں لوگوں کے دلوں میں اس آئین کی قدر نہ گھٹ جائے، سو کوئی امیر وزیر اس کی مرضی پا کر اس تقصیر وار کی سفارش کرتا ہے اور بادشاہ اس امیر کی عزت بڑھانے کو ظاہر میں اس کی سفارش کا نام کر کے اس چور کی تقصیر معاف کر دیتاہے سو اس امیر نے اس چور کی سفارش اس لیے نہیں کی، کہ وہ اس کا قرابتی ہے یا آشنا، یا اس کی حمایت اس نے اٹھائی، بلکہ محض بادشاہ کی مرضی سمجھ کر، کیونکہ وہ تو بادشاہ کا امیر ہے نہ چوروں کا تھانگی، جو چور کا حمایتی بن کر اس کی سفارش کرتا، تو آپ بھی چور ہو جاتا، اس کو شفاعت بالاذن کہتے ہیں، یعنی یہ سفارش خود مالک کی پروانگی سے ہوتی ہے، سو اللہ کی جناب میں اس قسم کی شفاعت ہو سکتی ہے، اور جس نبی و ولی کی شفاعت قرآن وحدیث میں مذکور ہے، سو اس کے معنی یہ ہیں۔
اعتدال کی راہ:
سو ہر بندے کو چاہیے کہ ہر دم اللہ ہی کو پکارے، اور اسی سے ڈرتا رہے، اور اس کی التجا کرتا رہے، اور اس کے روبرو اپنے گناہوں کا قائل رہے، اور اسی کو اپنا مالک بھی سمجھے اور حمائتی بھی اور جہاں تک خیال دوڑائے اللہ کے سوا کہیں اپنا بچاؤ نہ جانے ، اور کسی کی حمایت پر بھروسہ نہ کرے، وہ بڑا غفور رحیم ہے، سب مشکلیں اپنے ہی فضل سے کھول دے گا، اور سب گناہ اپنی رحمت سے بخش دے گا، اور جس کو چاہے گا اپنے حکم سے اس کا شفیع بنا دے گا، غرضکہ جیسے ہر حاجت اپنی اسی کوسونپتا ہے، اسی طرح یہ حاجت بھی اسی کے اختیار پر چھوڑ دیجیے جس کو وہ چاہے ہمارا شفیع کر دے، نہ یہ کہ کسی کی حمایت پر بھروسہ کیجیے، اور اس کو اپنی حمایت کے لیے پکاریئے، اور اس کو اپنا حمائتی سمجھ کر اصل مالک کو بھول جائیے، اور اس کے احکام کو یعنی شرع کو بے قدر کر دیجیے، اور اسی اپنے حمائتی ٹھہرائے ہوئے کی راہ ورسم کو مقدم سمجھئے،کہ یہ بڑی قباحت کی بات ہے، اور سارے نبی اور ولی اس سے بیزار ہیں، وہ ہرگز ایسے لوگوں کے شفیع نہیں بنتے، بلکہ غصہ ہو جاتے اور الٹے اس کے دشمن ہو جاتے ہیں، کیوں کہ ان کی تو بزرگی یہی تھی، کہ اللہ کی خاطر کو سب جورو، بیٹے، مرید، شاگرد، نوکر، غلام،یار، آشنا کی خاطر سے مقدم رکھتے تھے اور جب یہ لوگ اللہ کی مرضی کے خلاف ہوتے تھے، تو وہ بھی ان کے دشمن ہو جاتے تھے، تو پھر یہ پکارنے والے لوگ ایسے کہاں ہیں، کہ وہ بڑے بڑے لوگ ان کے حمائتی بن کر اس کی خلاف مرضی انکی طرف سے اس کے حضور میں لڑنے بیٹھیں گے، بلکہ بات یوں ہے، کہ'' الحب فی اللہ و البغض فی اللہ '' ان کی شان ہے، جس کے حق میں اللہ کی مرضی یوں ہی ٹھہری کہ اس کو وزخ ہی میں بھیجے، تو وہ اور دو چار دھکے دینے کو تیار ہیں۔
مذکورہ بالا آیت سے اور اس کی تشریح سے بھی معلوم ہوا، کہ اللہ تعالیٰ مختار کل ہے، اور وہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے، اور ہر کام اس کی مشیت اور ارادے سے ہوتا ہے، اور جس طرح چاہے تصرف کرتا ہے، اور اس کے علاوہ کسی میں یہ طاقت و قوت نہیں ہے، اگر اللہ تعالیٰ جیسا تصرف دوسروں میں مانے تو وہ خدا کا نافرمان بن کر مشرک ہو جاتا ہے، اشراک فی التصرف کی تعریف پہلے آچکی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ مَنْۢ بِيَدِہٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّہُوَيُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْہِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۸۸ سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۰ۭ قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَ۔ (المؤمنون:۸۸۔۸۹)
آپ دریافت کیجیے، کہ تمام چیزوں کے اختیارات کس کے ہاتھ میں ہیں، جو پناہ دیتا ہے، اور جس کے مقابلہ میں کوئی پناہ نہیں دیا جاتااگر تم جانتے ہو تو بتاؤ، وہ یہی جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے آپ کہہ دیجیے پھر تم کدھر سے جادو کر دیے جاتے ہو۔
یعنی اللہ تعالیٰ تمام کائنات عالم کا مالک اور قادر مطلق اور حاکم کل ہے اس کا ارادہ کوئی بدل نہیں سکتا، اس کا کوئی حکم ٹل نہیں سکتا، اس سے کوئی باز پرس کر نہیں سکتا، اس کی چاہت کے بغیر پتہ ہل نہیں سکتا، وہ سب سے باز پرس کرے کسی کی مجال نہیں کہ اس سے کوئی سوال کر سکے، اس کی عظمت ، اس کی کبریائی اس کا غلبہ ، اس کا دباؤ، اس کی خدمت اس کی عزت ، اس کی حکمت، اس کا عدل بےپایاں اور بےمثل ہے، مخلوق سب اس کے سامنے عاجز،پست اور لا چارہے، وہ ساری مخلوق کی باز پرس کرنے والا ہے، اس سوال کا جواب بھی ان کے پاس بجز اس کے اور نہیں ، کہ وہ اقرار کریں ، کہ اتنا بڑا بادشاہ، ایسا خود مختار اللہ واحد ہی ہے، کہہ دیجیے، کہ تم پر پھر کیا مصیبت پڑی ہے، ایسا کون سا جادو تم پر ہوگیا ہے کہ باوجود اس اقرار کے پھر بھی دوسروں کی پرستش کرتے ہو، جیسے فرمایا:
وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَمْلِكُ لَہُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ۷۳ۚ فَلَا تَضْرِبُوْا لِلہِ الْاَمْثَالَ۰ۭ اِنَّ اللہَ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔ (نحل:۷۳۔۷۴)
اور خدا کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں، جو آسمان اور زمین سے انہیں کچھ بھی روزی نہیں دے سکتے، اور نہ کچھ مقدور رکھتے ہیں، لوگو! اللہ پر مثالیں مت بناؤ اللہ خوب جانتا ہے، اور تم کچھ نہیں جانتے۔
دنیا میں خدا کے کارخانے میں نہ کسی کو دخل ہے، اور نہ تصرف کاحق ہے، قیامت میں بھی بغیر خدا کی اجازت کے کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا، حتیٰــ کہ خویش و اقارب بھی الگ ہو جائیں گے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّۃُ۳۳ۡ يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْہِ۳۴ۙ وَاُمِّہٖ وَاَبِيْہِ۳۵ۙ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِيْہِ۳۶ۭ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ يَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْہِ۔ (عبس:۳۳ تا ۳۷)
پس جب کہ کان بہرے کر دینے والی قیامت آجائے گی، اس دن آدمی اپنے بھائی سے اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا، ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایک ایسا مشغلہ ہوگا، جو اسے مشغول رکھنے کے لیے کافی ہوگا۔
اس دن انسان اپنے قریبی رشتہ داروں کو دیکھے گا، لیکن بھاگتا پھرے گا، کوئی کسی کے کام نہ آئے گا، میاںاپنی بیوی کو دیکھ کر کہے گا، کہ بتلا تیرے ساتھ میں نے دنیا میں کیسا کچھ سلوک کیا؟ وہ کہے گی کہ بے شک آپ نے میرے ساتھ بہت ہی خوش سلوکی کی ، بہت پیار و محبت سے رکھا، یہ کہے گا کہ آج مجھے تیری ضرورت ہے صرف ایک نیکی دے دو ، تاکہ میں اس آفت سے چھوٹ جاؤں، تو وہ جواب دے گی ، کہ آپ کا سوال تھوڑی سی چیز کا ہے، مگر کیا کروں، یہی ضرورت مجھے درپیش ہے، اور اس کا خوف مجھے بھی لگ رہا ہے میں تو نیکی نہیں دے سکتی، بیٹا باپ سے ملے گا، یہی کہے گا، اور یہی جواب پائے گا، صحیح حدیث میں شفاعت کا بیان فرماتے ہوئے حضور ﷺ کا ارشاد ہے، کہ اولوالعزم پیغمبروں سے لوگ شفاعت کی طلب کریں گے، اور ان میں سے ہر ایک یہی کہے گا، کہ نفسی نفسی یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ روح اللہ علیہ صلوات اللہ بھی یہی فرمائیں گے، کہ آج میںخدا سے سوائے اپنی جان کے اور کسی کے لیے کچھ بھی نہ کہوں گا، میں تو آج اپنی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کے لیے بھی کچھ نہ کہوں گا، جن کے بطن سے میں پیدا ہوا ہوں الغرض دوست دوست سے ، رشتہ دار رشتہ دار سے منہ چھپا تا پھرے گا، ہر ایک آپا دھاپی میں لگا ہوگا، کسی کو دوسرے کا ہوش نہ ہوگا۔ (ابن کثیر)
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں، جب یہ آیت کریمہ'' وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ'' یعنی آپ اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈرائیے ، نازل ہوئی، تو رسول اللہ ﷺ نے سب کوجمع کر کے یہ نصیحت فرمائی:
یابنی کعب بن لوی انقذو اانفسکم من النار فانی لااغنی عنکم من اللہ شیئا و یا بنی مرۃ بن کعب انقذواانفسکم من النار فانی لااغنی عنکم من اللہ شیئا ویابنی عبد شمس انقذواانفسکم من النارفانی لااغنی عنکم من اللہ شیئاویابنی عبدمناف انقذوا انفسکم من النارفانی لا اغنی عنکم من اللہ شیئا و یابنی ھاشم انقذوا انفسکم من النار فانی لا اغنی عنکم من اللہ شیئا ویابنی عبدالمطلب انقذوا انفسکم من النار فانی لا اغنی عنکم من اللہ شیئا و یافاطمۃ انقذی نفسک من النار سلینی ما شئت من مالی فانی لا اغنی عنک من اللہ شیئا۔ (مشکوۃ شریف)
یعنی اے بنی کعب بن لوی: تم اپنے آپ کو جہنم سے بچالو، کیونکہ اللہ کے یہاں تمہارے کام نہیں آسکتا ہوں، اور اے مرہ بن کعب کے لوگو! تم اپنی جانوں کو جہنم سے چھڑالو، کیونکہ میں تم کو کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا، اور اے اولاد عبدشمس تم اپنے آپ کو جہنم سے چھڑالو،کیونکہ میں قیامت کے دن تمہارے کام نہیں آؤں گا، اور اے بنی عبدمناف، تم اپنے آپ کو جہنم سے بچالو، کیونکہ بغیر ایمان اور عمل صالح کے تمہارے لیے خدا کے یہاں کچھ کام نہ آؤں گا، اور اے بنی ہاشم! تم اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچالو، میں اللہ کے یہاں تمہارے کچھ کام نہ آؤں گا، اور اے بنی عبدالمطلب تم بھی اپنے آپ کو دوزخ کی آگ سے بچالو، یقینا میں اللہ کے یہاں تمہیں فائدہ نہیں پہنچا سکوں گا، اور اے بیٹی فاطمہؓ تو اپنے آپ کو آگ جہنم سے بچا لے، اور دنیا میں تو جتنا چاہے مجھ سے میرا مال مانگ لے، اللہ کے یہاں میں تیرے کام نہ آؤں گا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا ، کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کسی کو اختیار نہیں ہے، کہ جس کو چاہیں بخشوا لیں اور جس کو نہ چاہیں نہ بخشوائیں، خدا کے سامنے سب مجبور اور عاجز ہیں، خدا کے اوپر ایمان لاکر اور عمل صالح کر کے خدا کی مہربانیوں اور رحمتوں کی امید رکھے ، بس یہی ایمان اور عمل صالح انشاء اللہ کام آویں گے،
حدیث قدسی میں ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا:
ان اللہ تبارک و تعالٰی یقول یعبادی کلکم مذنب الا من عافیت فاسئلونی المغفرۃ فاغفرلکم ومن علم منکم انی ذوقدرۃ علی المغفرۃ فاستغفرونی بقدرتی غفرت لکم و کلکم ضال الا من اھدیت فاسئلونی الھدی اھدکم وکلکم فقیرالامن اغنیت فاسئلونی ارزقکم ولو ان حیکم ومیتکم واولکم واخرکم ورطبکم ویابسکم اجتمعوا علی قلب اتقی عبد من عبادی لم یزدفی ملکی جناح بعوضۃ ولو اجتمعوا فکانوا علی قلب اشقیٰ عبد من عبادی لم ینقص من ملکی جناح بعوضۃ ولوان حیکم ومیتکم واولکم واخرکم ورطبکم ویابسکم اجتمعوا فسال کل سآئل فابلغت امنیتہ مانقص من ملکی الاکما لو ان احدکم مربشفۃ النھر فغمس فیھا ابرۃ ثم نزعھا ذلک بانی جواد ماجد عطائی کلام اذااردت شیئا فانما اقول لہ کن فیکونo (سنن ابن ماجہ)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے میرے بندو! تم سب خطاوارہو، مگر جس کو میں معاف کردوں ، سو تم مجھ سے بخشش مانگو میں بخشش کروں گا، اور تم میںسے جو کوئی مجھ کو بخشش کرنے والا جانے، پھر میری قدرت سے بخشش مانگے، تو میں اس کوبخش دیتا ہوں، اور تم سب راہ کھوئے ہوئے ہو، مگر جس کو میں ہدایت کروں، پس تم مجھ سے ہدایت طلب کرو تاکہ میں تم کو ہدایت کروں، اور تم سب محتاج ہو، مگر جس کو میں غنی کروں، پس تم مجھ سے دعا کرو، تاکہ میں تم کو روزی دوں، اگر تمہارے زندے اور مردے، اگلے اور پچھلے، ہرے اور سوکھے سب مل کر ایک متقی بندے کے موافق پرہیز گار اور متقی ہو جائیں، تو میری شان اور عظمت اتنی بھی زیادہ نہ ہوگی، جتنا مچھر کا ایک پر، اور اگر سب مل کر ایک بدبخت بندے کے موافق بدبخت اور نافرمان ہو جائیں،تو میری شان اور عظمت میں سے اتنا بھی کم نہ ہوگا، جتنا ایک مچھر کا پر، اور گر تمہارے زندے اور مردے، اگلے اور پچھلے،ہرے اور سوکھے سب ایک جگہ میں ایک وقت میںجمع ہو کر مانگنے لگیں، اور جس کا جہاں تک خیال پہنچے، وہی سوال کرے، اور میں سب کو اس کی مراد کے موافق دے دوں، تو میری بادشاہت میں سے کچھ کم نہ ہوگا، مگر ایسا کہ مثلاً کوئی شخص سمندر کے کنارے پر جائے، اور ایک سوئی اس میں ڈبو کر نکال لے، یعنی اس قدر بخشش میرے خزانے کے مقابلے میں ایسی ہے، جیسے سمندر میں سے ایک سوئی کو تر کر کے نکال لیا جائے یہ اس لیے کہ میں بڑابخشش کرنے والا ہوں، بڑی عظمت والا ہوں، میری بخشش ایک حکم ہے،جب کسی شے کا ارادہ کرتا ہوں، تو اس کے سوائے نہیں، کہ میں حکم کرتا ہوں، کہ ہوجا، بس وہ ہو جاتا ہے۔
اور سورہ بقرہ کے تیرھویں رکوع میں ہے:
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَالَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَانَصِيْرٍ۱۰۷ (بقرہ:۱۰۷)
یعنی فرمایا اللہ تعالیٰ نے، اور کیا تم کو معلوم نہیں، کہ اللہ ہی کی سلطنت ہے آسمان اور زمین کی، اور تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی حمائتی اور مددکرنے والا نہیں۔
اے پروردگار! ہم تیرے ہی بندے ہیں، تو ہماری مدد فرما، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تو ہمیں ہر آن ایمان و عمل صالح کی توفیق عطا فرما۔ آمین ثم آمین۔
واخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔ والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین۔ اٰمین یارب العلمین۔
Comments
Post a Comment