Skip to main content

’’ایمان‘‘ قول، عمل اور دل کا ارادہ ہے


بسم اللہ الرحمن الرحیم
’’ایمان‘‘ قول، عمل اور دل کا ارادہ ہے

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم

اما بعد!’’ایمان قول و عمل اور دل کا اعتقاد ہے‘‘، اللہ عزوجل نے فرمایا: وَمَا کَانَ اﷲُ لِیُضِیْعَ اِیْمٰنَکُمْ سورۃ البقرۃ: آیت 143 اللہ تمہارے ایمان کو(یعنی بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے) کو ضائع کرنے والا نہیں ہے۔ تو یہاں نماز کا نام ’’ایمان‘‘ رکھا، لہٰذا ثابت ہوا کہ’’ ایمان قول، عمل اور دل کا ارادہ ہے‘‘۔مزید برآں ’’ایمان قول اورعمل ہے بڑھتا اور گھٹتا ہے‘‘ـ۔ایمان کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں کیا جاتا۔ اللہ پر ایمان جس کے سوا کوئی الٰہ و معبود نہیں، یہ درجہ میں سارے اعمال سے اعلیٰ، مرتبہ میں سارے اعمال سے اشرف اور نصیب میں سب سے روشن ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایمان قول و عمل ہے، یا قول بلا عمل ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان اللہ کیلئے عمل ہے اور قول اس عمل کا حصہ ہے۔ لہٰذا یاد رکھنا چاہیئے کہ ایمان کے حالات و درجات اورطبقات ہیں۔ ایک شخص کا ایمان ایسا ہے جو انتہائی اعلیٰ ہے اور ایک شخص کا ایمان ناقص ہے جسکا ناقص ہونا واضح ہے۔ اسی طرح ایک شخص کا ایمان راجح ہے یعنی جس کا رجحان ایمان کی طرف زائد ہے۔یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایمان پورا نہیں بھی ہوتا اور کم بیش بھی ہوتا ہے؟تو واضح ہونا چاہیئے کہ ایمان پورا نہیں بھی ہوتا اور کم بیش بھی ہوتا ہے اور اسکی دلیل یہ ہے کہ: اللہ عزوجل نے ایمان کو بنی آدم کے اعضاء پر فرض کیا ہے اوران اعضاء کے درمیان تقسیم کر دیا ہے اور ان پر بکھیر دیا ہے، چنانچہ انسان کے اعضاء میں سے ہر عضو کو ایمان کا وہ حصہ سونپاگیا ہے جو دوسرے عضو کو سونپے گئے حصے کے علاوہ ہے، اور وہ حصہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے۔ان اعضاء میں سے ایک عضو دل ہے، جس کے ذریعہ انسان سمجھتا بوجھتا اورفہم رکھتا ہے، اور یہ اس کے جسم کا امیر ہے جسکی رائے اور حکم کے بغیر باقی اعضاء نہ تو پیش قدمی کرتے ہیں نہ پلٹتے ہیں ۔اورانسان کے اعضاء میں آنکھیں ہیں جن سے دیکھتا ہے اور کان ہیں جن سے سنتا ہے اور ہاتھ ہیں جن سے پکڑتا ہے اور پاؤں ہیں جن سے چلتا ہے اور اسکی شرمگاہ ہے جسکی طرف سے قوت باہ ہے اور اسکی زبان ہے جس سے بولتا ہے اور اسکا سر ہے جس میں اسکاچہرہ ہے۔چنانچہ دل پر وہ چیز فرض کی گئی ہے جو زبان پر فرض کردہ چیز سے مختلف ہے اور کانوں پر وہ چیز فرض کی گئی ہے جو آنکھوں پر فرض کردہ چیز سے مختلف ہے اور ہاتھوں پر وہ چیز فرض کی گئی ہے جو پیروں پر فرض کردہ چیز سے مختلف ہے اور شرمگاہ پر وہ چیز فرض کی ہے جو چہرے پر فرض کردہ چیز سے مختلف ہے۔ اللہ نے دل پر ایمان کا جو حصہ فرض کیا ہے وہ اقرار و معرفت ہے، عزم، رضا اور تسلیم ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے نہ بیوی اختیار کی نہ بچہ، اور یہ کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، اور اللہ کے پاس سے جو بھی نبی آیا یا کوئی بھی کتاب آئی، اسکا اقرار۔ تو یہ چیز ہے جو اللہ جل شانہ نے دل پر فرض کی ہے، اور یہی دل کاعمل (یعنی ایمان) ہے:الا من اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان ولکن من شرح بالکفر صدرا۔ سورۃ النحل:آیت106 مگر جس پر زبردستی کی گئی اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن تھا۔ لیکن جس نے کفر کے ساتھ سینہ کھول دیا (تو ان پر اللہ کا غضب ہے الخ) اور فرمایا :الا بذکر اﷲ تطمئن القلوب۔ سورۃ الرعد:آیت28۔یادر کھو کہ اللہ کے ذکر ہی سے دل مطمئن ہوتے ہیں ۔ اور فرمایا :من الذین قالوا أمنا بافواہہم ولم تؤمن قلوبہم۔ سورۃ المائدہ:آیت41۔لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے منہ سے کہا کہ ہم ایمان لائے حالانکہ ان کے دل ایمان نہیں لائے ہیں ۔ اور فرمایا : و ان تبدوا مافی انفسکم اوتخفوہ یحاسبکم بہ اﷲ۔ سورۃ البقرہ:آیت284۔تمہارے نفسوں میں جوکچھ ہے اسکو تم ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ تم سے اسکا حساب لے گا)تو یہ وہ ایمان ہے جو اللہ تعالیٰ نے دل پر فرض کیا ہے، اور یہی دل کا عمل ہے، اور یہی ایمان کی جڑ ہے۔اور اللہ نے زبان پر یہ فرض کیا ہے کہ دل میں جوبات باندھ رکھی ہے اور جس کااقرار کیا ہے اسے کہے اور اسکی تعبیر کرے، چنانچہ اس بارے میں فرمایا :(قولوا ء امنا باﷲ ) سورۃ البقرہ:آیت136۔تم لوگ کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے۔ اور فرمایا :(وقولوا للناس حسنا) سورۃ البقرہ:آیت 83 ۔لوگوں سے اچھی بات کہو۔تو یہ وہ چیز ہے جو اللہ نے زبان پر فرض کی ہے یعنی دل کی بات کہنا اور اسکی تعبیر کرنا، اور یہی زبان کا عمل ہے، اوریہی وہ ایمان ہے جو اس پر فرض ہے۔اور اللہ نے کان پر یہ فرض کیا ہے کہ اللہ کی حرام کردہ چیز سننے سے باز رہے، اور اسکی منع کردہ چیز سے اسے دور رکھا جائے ، چنانچہ اس بارے میں ارشاد فرمایا :وقد نزل علیکم فی الکتب ان اذا سمعتم أیت اللہ یکفر بہا و یستہزأ بہا فلا تقعدوا معہم حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ انکم اذا مثلہم) سورۃ النساء :آیت140۔اور تم پر اللہ نے کتاب میں یہ بات اتاری ہے کہ جب تم اللہ کی آیتوں کو سنو کہ انکے ساتھ کفر اور مذاق کیا جارہا ہے تو ایسے لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو یہا ں تک کہ وہ دوسری بات میں لگ جائیں (ورنہ ) تب تم لوگ بھی ان ہی جیسے ہوگے۔ پھر بھول کی جگہ کا استثناء کیا چنانچہ فرمایا :و اما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین سورۃ الانعام: آیت68۔اوراگر تم کو شیطان بھلوا دے، او رتم ان کے ساتھ بیٹھ جاؤ، تو یاد آجانے کے بعد اس ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھنا۔ اور فرمایا :فبشر عباد۔الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ اولئک الذین ھدہم اﷲ و اولئک ھم اولوا الالباب۔ سورۃ الزمر:آیت 17-18۔میرے بندوں کو بشارت دے دو جو بات سنتے ہیں تو اسکا جو اچھاپہلو ہے اس کی پیروی کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے، اور یہی لوگ ہیں جو عقل والے ہیں۔ اور فرمایا :قد افلح المومنون ۔ الذین ھم فی صلاتہم خشعون… الی قولہ … ھم للزکوۃ فعلون سورۃ المومنون :آیت 1-4۔مومنین کامیاب ہوئے جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں اور جو لغو (بیہودہ باتوں) سے اعراض کرتے ہیں اور جو زکوٰۃ اد ا کرتے ہیں۔ اور فرمایا: و اذا سمعوا اللغو اعرضوا عنہ) سورۃ القصص :آیت 55۔اور جب لغو (بیہودہ باتیں) سنتے ہیں تو ان سے اعراض کرتے ہیں۔ اور فرمایا :و اذا مروا باللغو مروا کراما سورۃ الفرقان :آیت72۔اور جب بیہودہ (کاموں) کے پاس سے گزرتے ہیں تو بزرگانہ طور پر گزر جاتے ہیں۔ تو یہ وہ عمل ہے جسے اللہ جل جلالہ نے کان پر فرض کیا ہے، یعنی جو چیز حلال نہیں اس سے منزہ رکھنا۔ اور یہ کان کا عمل ہے، اور ایمان کا حصہ ہے۔اور اللہ رب العزت نے آنکھوں پر یہ فرض کیا ہے کہ ان سے حرام چیز نہ دیکھیں، اور جس سے منع کیا ہے اس سے جھکائے رکھیں، چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بارے میں فرمایا ہے:قل للمومنین یغضوا من ابصرہم و یحفظوا فروجہم سورۃ النور:آیت 30-31 ۔مومنین سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں جھکائے رکھیں، اوراپنی شرمگاہو ں کی حفاظت کریں… اور مومنات سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں جھکائے رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔یعنی اس بات سے محفوظ رکھیں کہ کوئی دوسرے کی شرمگاہ کی طرف دیکھے، یا خود اسکی شرمگاہ کی طرف دیکھا جائے، اور قرآن مجید میں جو بھی حکم شرمگاہ کی حفاظت سے متعلق ہے تو وہ زنا سے ہے، مگر یہ آیت کہ یہ نظر سے متعلق ہے۔تو یہ وہ بات ہے جو اللہ نے دونوں آنکھوں پر فرض کی ہے، یعنی انہیں جھکا کے رکھنا، اور یہ آنکھ کا عمل ہے، اور یہی ایمان میں سے ہے۔پھر دل کان اور نظر پر جو فرض ہے اسکی خبر صرف ایک آیت میں دی ہے، چنانچہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس بارے میںفرمایا ہے: ولا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفؤاد کل اولئک کان عنہ مسئولا) سورۃ الاسراء :آیت 36۔اور جس بات کا تمہیں علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑو۔ بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے اس بارے میں پوچھا جائے گا۔ اور شرمگاہ پر یہ فرض کیا ہے کہ اسے اللہ کی حرام کردہ چیز کے ساتھ چاک نہ کرے۔والذین ھم لفروجہم حفظون سورۃ المومنون:آیت 5۔اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور فرمایا :وما کنتم تستترون ان یشہد علیکم سمعکم ولا ابصرکم ولا جلودکم سورۃ فصلت:آیت 22۔اور تم اس بات سے نہیں چھپ سکتے تھے کہ تم پر تمہارے کان، تمہاری آنکھیں اور تمہاری چمڑیاں گواہی دیں۔اور چمڑیوں سے مراد شرمگاہیں اورران ہیں۔ تو یہ وہ چیز ہے جو اللہ نے شرمگاہوں پر فرض کی ہے یعنی جو چیز حلال نہیں اس سے ان کی حفاظت، اور یہ عمل ان (شرمگاہوں) کا ایمان ہے۔پھر ہاتھوں پر یہ فرض کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز حرام کر رکھی ہے اسکو ان سے نہ پکڑے بلکہ وہ چیز پکڑے جس کا اس نے حکم دیا ہے یعنی صدقہ، صلہء رحمی، جہاد فی سبیل اللہ، اور نمازوں کیلئے پاکی، چنانچہ اس بارے میں فرماتا ہے:یایہا الذین أمنوا اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوہکم و ایدیکم الی المرافق سورۃ المائدہ:آیت 6۔اے ایمان والو! جب تم نماز کی جانب اٹھو تو اپنے چہرے، اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھولو۔ اور فرمایا :فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب حتی اذا اثخنتموہم فشدوا الوثاق فاما منا بعد و اما فداء۔ سورۃ محمد:آیت 4۔ تو جب تم کافروں سے ٹکراؤ تو (پہلا کام )گردنیں مارنا ہے ، یہاں تک کہ جب تم انکو خوب کچل لوتو مضبوطی کیساتھ باندھو، اسکے بعد یاتو احسان کرنا ہے یا فدیہ لینا ہے۔کیونکہ ماردھاڑ، صلہء رحمی اور صدقہ ہاتھوں سے انجام پانیوالے کام ہیں ۔اور دونوں پاؤں پر یہ فرض ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیز کی طرف نہ چلیں، چنانچہ اس بارے میں فرمایا :ولا تمش فی الارض مرحا انک لن تخرق الارض ولن تبلغ الجبال طولا سورۃ الاسراء:آیت37 ۔تو زمین میں اکڑ کر نہ چل ، نہ توتو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ (اکڑ اکڑ کر) پہاڑ کی بلندی کو پہنچ سکتا ہے۔اور چہرے پر یہ فرض کیا ہے کہ اللہ کورات اور دن میں اور نماز کے اوقات میں سجدہ کرے، چنانچہ اس بارے میں فرمایا :یایھا الذین أمنوا ارکعوا واسجدوا واعبدوا ربکم وافعلوا الخیر لعلکم تفلحون سورۃ الحج :آیت77۔اے ایمان والو! رکوع کرو اور سجدہ کرو، اور اپنے رب کی عبادت کرو، اور بھلائی کرو تاکہ تم لوگ کامیاب ہوجاؤ۔ اور فرمایا :و ان المسجد للہ فلا تدعوا مع اللہ احدا سورۃ الجن:18۔اور مسجدیں اللہ کے لئے ہیں پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔مساجد سے مراد پیشانی وغیرہ وہ اعضاء ہیں جن پر انسان سجدہ کرتا ہے۔تو یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اعضاء پر فرض کیا ہے۔اور اللہ نے پاکی اور نماز کو اپنی کتاب میں ایمان کہا ہے، اوریہ ا س وقت جب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی محمد رسول اللہ ﷺ کا رخ بیت المقدس کی جانب نماز پڑھنے سے پھیرا، اور آپ ﷺ کو کعبہ کی جانب نماز پڑھنے کا حکم دیا، اور مسلمان کم و بیش سولہ مہینے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھ چکے تھے، تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! یہ فرمائیے کہ ہم نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے جو نماز پڑھی تو اس کا حال اور ہمارا حال کیا ہوگا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :وما کان اللہ لیضیع ایمنکم ان اللہ بالناس لرء وف رحیم سورۃ البقرہ:آیت 143۔اللہ تمہارے ایمان کو برباد کرنے والا نہیں ہے، بیشک اللہ لوگوں کے ساتھ رؤف و رحیم ہے۔ یہاں اللہ نے نمازکانام ایمان رکھا ہے، لہٰذا جو اللہ سے اپنی نمازوں کی حفاظت کرتا ہوا، اپنے اعضاء کی حفاظت کرتا ہوا، اعضاء میں سے ہر عضو سے اللہ کا حکم اور اس کے مقرر کردہ فرض کو ادا کرتا ہوا، کامل ایمان ہوکر اللہ سے ملے وہ اہل جنت میں سے ہے۔ اور جو اللہ کے حکم میں سے کسی چیز کو قصداً چھوڑتا رہا ہو وہ اللہ سے ناقص الایمان ہوتا ہوا ملے گا۔ اب ہم نے ایمان کے نقصان و اتما م کو تو جان لیا لیکن اس کی زیادتی کہاں سے آئی؟اللہ عزو جل نے فرمایا ہے:و اذا ما انزلت سورۃ فمنہم من یقول ایکم زادتہ ھذہ ایمنا فاما الذین أمنوا فزادتہم ایمنا وھم یستبشرون و اما الذین فی قلوبہم مرض فزادتہم رجسا الی رجسہم وماتوا وہم کفرون۔ سورۃ التوبہ:آیت 124-125۔جب کوئی سورت اترتی ہے توان میں سے بعض کہتے ہیں کہ تم میں سے کس کو اس سورت نے ایمان میں زیادہ کیا ہے؟ تو جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کو تووہ سورت ایمان میں زیادہ کرتی ہے اور وہ خوش ہوتے ہیں۔ لیکن جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے تو ا ن کو ان کی گندگی کے ساتھ گندگی میں اور بڑھاتی ہے اور وہ اس حال میں مرتے ہیں کہ کافر ہوتے ہیں۔ اور فرمایا :انہم فتیۃ أمنوا بربہم و زدنہم ھدی سورۃ الکہف :آیت 13۔یہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے، اور ہم نے ان کو ہدایت میں اور زیادہ کیا۔ اب یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ اگر یہ ایما ن، کُل کا کُل ایک ہی ہوتا، اس میں کمی زیادتی نہ ہوتی تو اس میں کسی کو فضیلت نہ ہوتی، سارے لوگ برابر ہوتے، اور تفضیل باطل ہوتی۔ لیکن ایمان کے پورے ہونے سے مومنین جنت میں داخل ہوئے، اور ایمان میں زیادتی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک جنت کے اندر درجات میں مومنین کو فضیلت ملی۔ اور ایمان میں کمی کی وجہ سے کوتاہی والے جہنم میں داخل ہوئے۔اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کے درمیان مقابلہ کروایا جیسے کہ گھڑ دوڑ میں گھوڑوں کے درمیان مقابلہ کروایا جاتا ہے، پھر یہ لوگ اپنی سبقت کے حساب سے اپنے درجات پر ہیں، چنانچہ ہر آدمی کو اس کی سبقت کے درجہ پر رکھا گیا ہے اور اس میں اس کا حق کم نہیں کیا گیا، نہ کسی پیچھے رہنے والے کو آگے رہنے والے پر مقدم کیا ہے اور نہ کسی مفضول کو فاضل پر۔ اور اسی وجہ سے اس امت کے پہلے لوگوں کو بعد میں آنے والوں پر فضیلت دی ہے۔ اور اگر ایمان کی طرف سبقت کرنے والے کو اس سے مؤخر رہ جانے والے پر فضیلت نہ ہوتی تو اس امت کے پہلے لوگ بعد میں آنے والوں کے ساتھ برابر ہوجاتے۔غور کرنے پر یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ’’اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن، توریت انجیل میں رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی ثنا کی ہے، اور خود رسول اللہ ﷺ کی زبان سے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے ایسی فضیلت وارد ہو چکی ہے جو ان کے بعد کسی اور کے لئے نہیں ہے۔ پس اللہ ان پررحم کرے، اور انہیں صدیقین، شہداء اورصالحین کی اعلی منازل تک پہنچا کر اس بارے میں آئے ہوئے فضل سے شاد کام کرے، انہوں نے ہمیں رسول اللہ ﷺ کی سنتیں پہنچائیں اور آپ ﷺ کا اس حالت میں مشاہدہ کیا کہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہورہی تھی، پس انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی مراد کو جانا کہ آپ ﷺ کے ارشاد کا مقصود عام ہے یا خاص، عزیمت ہے یا ارشاد، اور ان کو آپ کی وہ سنتیں معلوم ہوئیں جو ہمیں معلوم ہوئیں اور جو نہیں بھی معلوم ہوئیں، وہ ہر علم اور اجتہاد میں ورع و عقل میں اور ہر اس معاملے میں جس سے کسی علم کا استدراک اور استنباط کیاجائے ہم سے بڑھ کر ہیں ان کی آراء ہمارے لئے زیادہ لائق حمد اور ہمارے نزدیک ہماری اپنی آراء سے زیادہ بہتر ہے ۔ واللہ اعلم‘‘تفضیلِ صحابہ کا سلسلہ: رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل ابوبکر ہیں، پھر عمر، پھر عثمان، پھر علی، رضی اللہ عنہم‘‘یاد رکھئے: جو شخص کہے کہ ایمان قول ہے وہ مرجئی ہے، اور جو کہے کہ ابوبکر و عمر امام نہیں ہیں وہ رافضی ہے، اور جو مشیت کو اپنی طرف قرار دے وہ قدری ہے‘‘۔

Comments

Popular posts from this blog

Yusufzai (Pashtun tribe)

The  Yūsufzai  (also  Youssofzay ,  Yousefzai ,  Yousafzai ,  Esapzey ,  Yousufi , or  Yūsufi ) (Pashto:  يوسفزی ,Persian and Urdu:  یوسف زئی ) is one of the largest Pashtun (Afghans) tribes. The majority of the Yusufzai tribe reside in parts of Western Afghanistan, Khyber Pakhtunkhwa and Provincially Administered Tribal Areas near the Afghan-Pakistan border. They are the predominant population in the districts of Konar, Ningarhar, Mardan District, Dir, Swat,Malakand, Swabi, Buner, Shangla, Haripur District [Khalabat Town Ship and Tarbela] and in Mansehra and Battagram. There is also a Yusufzai clan of Dehwar tribe in the Mastung district of Balochistan who speak Persian with some mixture of Birahvi words. The descendants of Yusuf inhabit Konar, Jalalabad, Swat, Upper Dir, Lower Dir, Malakand Swabi and Mardan...

Namwar Series by M. A. Rahat (Complete 14 Parts)

Namwar Series by M. A. Rahat (Complete 14 Parts) 4shared Download Part 1 4shared Download Part 2 4shared Download Part 3 4shared Download Part 4 4shared Download Part 5 4shared Download Part 6 4shared Download Part 7 4shared Download Part 8 4shared Download Part 9 4shared Download Part 10 4shared Download Part 11 4shared download Part 12 4shared Download Part 13 4shared Download Last Part 14 Namwar Series by M. A. Rahat (Complete 14 Parts) Box Download and Online Read 1 Box Download and Online Read 2 Box Download and Online Read 3 Box Download and Online Read 4 Box Download and Online Read 5 Box Download and Online Read 6 Box Download and Online Read 7 Box Download and Online Read 8 Box Download and Online Read 9 Box Download and Online Read 10 Box Download and Online Read 11 Box Download and Online read 12 Box Download and Online Read 13 Box Download and Online Read (LAST PART) 14 Namwar Series by M. A. Rahat (Complete 14 ...

Tableeghi Jamat Aur Mashaikh -e- Arab By Shaykh Nur Muhammad Tonsvi

Read Online [6.7 M]

Khoi Hui Baat by Aalia Bukhari

Khoi Hui Baat by Aalia Bukhari Click here     Download  Khoi Hui Baat by Aalia Bukhari  ReadOnline Download

عشرة ذوالحجہ

 *✨عشرة ذوالحجہ* *✨مختصر تعارف * 🌿 ذوالحجہ کا پہلا عشره نیکیوں اور اجر و ثواب کے اعتبار سے عام دنوں کے مقابلے میں بہت اہم ہے، جس کی فضیلت قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن مجید میں الله سبحانه و تعالیٰ نے ان دس دن کی قسم کھائی ہے۔ *🌿 وَالْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ*   "قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی" (الفجر : 2-1)  اکثر مفسرین کے نزدیک *’’لَیَالٍ عَشْرٍ‘‘* سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ ان دس دنوں میں کئے جانے والے اعمال الله تعالیٰ کو دیگر دنوں کی نسبت زیاده محبوب ہیں۔ 🌿 رسول الله ﷺ نے فرمایا : "کسی بھی دن کیا ہوا عمل الله تعالیٰ کو ان دس دنوں میں کئے ہوئے عمل سے زیاده محبوب نہیں ہے،  انہوں (صحابہ ؓ) نے پوچھا : اے الله کے رسول ﷺ، جہاد فی سبیل الله بھی نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : "جہاد فی سبیل الله بھی نہیں ہاں مگر وه شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے۔" (سنن ابوداؤد) 🌿 عبدالله ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : "کوئی دن الله تعالیٰ کے ہاں ان دس دنوں سے زیاده عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل الله تعالیٰ...

عہد رسالت میں کتابت قرآن

سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل صحابہ کو کاتب وحی مقرر فرمایا تھا: حضرت بوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ ، عمرفاروقرضی اللہ تعالٰی عنہ، عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہ، علیرضی اللہ تعالٰی عنہ، معاویہرضی اللہ تعالٰی عنہ ، زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ،ابی بن کعبرضی اللہ تعالٰی عنہ، خالد بن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ،ثابت بن قیسرضی اللہ تعالٰی عنہ،۔ قرآن کا جو حصہ نازل ہوتا آپ صحابہ کو مامور فرماتے کہ اسے تحریر کرلیں یہاں تک کہ کتابت کے پہلو بہ پہلو قرآن کریم کو سینوں میں بھی محفوظ کرلیا گیا۔(مشہور مستشرق بلاشیر نے کاتبین وحی صحابہ کی تعداد چالیس بتائ ہے دیگر مستشرقین مثلاً شفالی بہل اور کازانوفاکا زاویہ نگاہ بھی یہی ہے مؤخر الذکر نے اس ضمن میں طبقا ابن سعد، طبری ، نووی اور سیرت حلبی پر اعتماد کیا ہے ۔) محدث حاکم نےمستدرک میں زید بن ثابت سے بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق روایت کیا ہے کہ زید بن ثابت نے کہا ہم عہد رسالت میں ''رقاع''(ٹکڑوں)سے قرآن جمع کیا کرتے تھے ۔ (الاتقان،ج۱ص،۹۹نیز البرہان ،ج۱ص۲۳۷) مذکورہ صدر حدیث میں ''رقاع ''کا جو لفظ وا...

تدوین قرآن اور حضرت ابو بکر صدیق

تدوین قرآن اور حضرت ابو بکر صدیق پورا قرآن عہد رسالت میں لکھا جاچکا تھا مگر اس کی آیتیں اور سورتیں یکجا نہ تھی اولین شخص جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترتیب کے مطابق اس کو مختلف صحیفوں میں جمع کیا وہ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہتھے۔ ابو عبداللہ محاسبی( حارث بن اسدمحاسبی کی کنیتابو عبداللہ تھی ۔آپ اکابر صوفیہ میں تھے آپ فقہ واصول کے بہت بڑے عالم تھے اپنے عصر وعہد میں یہ اہل بغداد کے مشہور استادتھے آپ نے بغداد میں ۲۴۳ھجری میں وفات پائ (الاعلام للزرکلی،ج۲،ص۱۵۳)اپنی کتاب ''فہم السنن''میں رقمطرازہیں: ''قرآن کی کتابت کوئ نئ چیز نہ تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود اس کے لکھنے کا حکم دیا کرتے تھے البتہ وہ کاغذ کے ٹکٹڑوں۔شانہ کی ہڈیوں اور کھجور کی ٹہنیوں پر بکھرا پڑا تھا ۔حضرت ابو بکررضی اللہ تعالٰی عنہ نے متفرق جگہوں سے اس کو یکجا کرنے کا حکم دیا یہ سب اشیاء یوں تھیں جیسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں اوراق منتشر پڑے ہوں اور ان میں قرآن لکھا ہو اہو ایک جمع کرنے والے (حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ )نے ان اوراق کو جمع کرکے ایک...

کتاب اللہ کی کون سی آیت سب سے عظیم ہے؟

آیۃ الکرسی کی فضیلت !!! آیۃ الکرسی کی کیااھمیت ہے ؟ اور کیا اس آیت کی عظمت پرکوئ دلیل وارد ہے ؟ الحمد للہ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیرکرتےہو‏ۓ کہتے ہیں : یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ہے کہ کتاب اللہ میں یہ آیت سب سے افضل آیت ہے ۔ ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےان سے سوال کیا کہ کتاب اللہ میں سب سے عظیم آیت کونسی ہے ؟ تو وہ کہنے لگے کہ اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کوہی زیادہ علم ہے ، یہ سوال کئ باردھرایا اور پھر فرمانےلگے کہ وہ آیت الکرسی ہے ۔ فرمانے لگے اے ابوالمنذر علم مبارک ہو اس ذات کی قسم جس کےھاتھ میں میری جان ہے اس آیت کی زبان اور ہونٹ ہونگے عرش کے پاۓ کے ہاں اللہ تعالی کی پاکی بیان کررہی ہوگی ۔ اور غالبا مسلم نے والذی نفسی سے آگے والے الفاظ نہیں ہیں ۔ عبداللہ بن ابی بن کعب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد کے پاس کھجوریں رکھنے کی جگہ تھی ، عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں میرے والد اس کاخیال رکھتے تھے تو...

JAVED NAMA BY DR. IQBAL URDU TRANSLATION PDF

Title : Javed Nama Author : Dr Allama Iqbal Format : PDF Size : 2.37 Mb More :   Allama Iqbal  and  Allama Asad , two great scholars of 20th century predicted and recognized the ‘era of deception/dajjal’, some  80  years ago by looking at the immoral faithless civilization and irreligious education system of the West. The excerpts posted below from Books  ‘Javed Nama by Allama Iqbal’  and  ‘Road to Mecca by Muhammad Asad’  are eye-opener for Muslims. Urdu translation of some pages from 'Book: Road to Mecca', Chapter ‘Dajjal’ are added to explain it for Urdu readers.  Download Online Read Online Read in English Version

عہد عثمان میں تدوین قرآن

امام بخاری نے صحیح بخاری میں اپنی سند کے ساتھ ابن شھاب سے روایت کیا ہے کہ انس بن مالک نے انہیں بتایا کہ حذیفہ بن یمان حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہوئے موسوف نے رمینیہ اور آذربیجان کی جنگ میں شرکت کی تھی وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لوگ تلاوت قرآن میں بہت اختلاف کرنے لگے تھے ۔ حذیفہ نے حضرت عثمان سے کہا امیرالمؤمنین ! قبل اس کے کہ یہ امت کتاب الٰہی میں یہودیوں اور نصاریٰ کی طرح اکتلاف کرنے لگے اس کو سنبھال لیجئے یہ سن کر حضرت عثمان نے حجرت حفصہ کو کہلا بھیجا کہ آپ کے پاس قرآن کے جو صحیفے پڑے ہیں وہ ہمارے پاس بھیج دیجئے تاکہ ہم ان کو کتابی صورت میں جمع کریں پھر ہم ان کو واپس کردیں گے ۔محترمہ موصوفہ نے وہ صحیفے ارسال کردئیے۔حضرت عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہ نے (۱) زید بن ثابترضی اللہ تعالٰی عنہ،(۲) عبداللہ بن زبیررضی اللہ تعالٰی عنہ،(۳)سعد بن العاصرضی اللہ تعالٰی عنہ،(۴)عبدالرحمان بن حارث بن ہشامرضی اللہ تعالٰی عنہکو مومورکیا کہ وہ صحیفوں سے نقل کرکے قرآن کریم کو کتابی صورت میں جمع کردیں۔ حضرت عثمانرضی اللہ تعالٰی عنہ نے تینوں قریشی صحابہ(حضرت زید بن ثابت کے علاوہ باقی تینوں صحابہ سے...