بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللھم انی اسئلک حبک وحب من یحبک والعمل الذی یبلغنی حبک اللھم اجعل حبک احب الی من نفسی ومالی واھلی ومن المآء البارد والصلوۃ والسلام علی حبیب اللہ والہ واتباعہ الی یوم الدین۔ امابعد! فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیمط وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ۰ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا۶۹ۭ (النساء:۶۹)''جن لوگوں نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوںگے، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا: یعنی نبیوں کے ساتھ اور سچے لوگوں کے ساتھ، اورشہیدوں کے ساتھ ، اور نیک لوگوں کے ساتھ، اور یہ بہترین ساتھی ہیں۔''اس آیت کریمہ کا شان نزول یہ ہے، کہ ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائے ا ورعرض کرنے لگے یا رسول اللہ! میں آپ ﷺ کو اپنی جان اور بال بچوں سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں، جب میں گھر میں بال بچوں کے ساتھ ہوتا ہوں اور آپﷺ کو یاد کرتا ہوں، تو جب تک آپﷺ کو دیکھ نہیں لیا تب تک مجھے قرار نہیں آتا، تو سب بال بچوںکو چھوڑ چھاڑ کر آپﷺ کے پاس دوڑا ہوا آتا ہوں، آپﷺ کو دیکھ کر تسلی ہو جاتی ہے اوردل کو قرار آجاتا ہے، تب میں واپس جاتا ہوں وانی ذکرت موتی وموتک فعرفت انک اذادخلت الجنۃ رفعت مع النبیین وان دخلتھا لا ارا ک فانزل اللہ تعالی الایۃ لیکن جب میں اپنی اور آپ ﷺ کی موت کو یاد کرتا ہوں، تو میں جان لیتا ہوں کہ جب آپﷺ جنت میں داخل ہوں گے تو آپﷺ نبیوں کے ساتھ بڑے بڑے درجات میں ہوں گے، اور اگر میں جنت میں داخل ہوا بھی، تو میں نہ آپﷺ کو دیکھ سکوں گا، اور نہ آپﷺ تک پہنچ سکوں گا تو مجھے بڑی تکلیف ہوگی اس پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کو نازل فرمایا کہ جو اللہ اور رسو ل کی اطاعت و فرمانبرداری کرے گا، وہ جنت میں نبیوں کے ساتھ ہوگا، نبی کی اطاعت و فرمانبرداری اور محبت کی یہ فضیلت ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں:
ان رجلا اتی النبی ﷺ فقال متی الساعۃ یارسول اللہ قال مااعددت لھا قال ما اعددت لھا من کثیر صلوۃ ولا صوم ولا صدقۃ ولکنی احب اللہ ورسولہ قال انت مع من احببت۔ (ترمذی)
ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہو کر عرض کرنے لگا یا رسول اللہ ! قیامت کب آئے گی؟ آپﷺ نے فرمایا قیامت کے لیے تم نے کیا تیاری کر رکھی ہے، اس نے جواب دیا ، میں نے قیامت کے لیے زیادہ نماز،ر وزہ، صدقہ و خیرات کر کے تیاری تو نہیں کی ہے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت رکھتا ہوں، میرے پاس بس یہی محبت رسول کا سرمایہ ہے، آپﷺ نے فرمایا:جس کے ساتھ تم محبت رکھو گے اس کے ساتھ تم جنت میں جاؤ گے۔(الشفاء قاضی عیاض)
مسند احمد وغیرہ میں ہے، کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا، کہ جو ایک قوم سے محبت رکھتا ہے لیکن ان سے ملاقات نہیں ہوئی ہے تو آپﷺ نے فرمایا: المرء مع من احب ہر انسان اس کے ساتھ ہوگا، جس سے وہ محبت رکھتا ہو، حضرت انسؓ فرماتے ہیں: کہ خدا کی قسم میری محبت جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہے اور حضرت ابوبکر ؓ ، عمرؓ کے ساتھ ہے مجھے امید ہے، کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان ہی لوگوں کے ساتھ اٹھائے گا ،گو میرے اعمال ان جیسے نہیں ہیں سچ ہے :
احب الصالحین ولست منھم لعل اللہ یرزقنی صلاحا
یعنی محبت معیار اور کسوٹی ہے حق اورناحق کے پرکھنے کے لیے،جنہیں خدا اور رسول سے محبت ہے یہی سچے مطیع و فرمانبردار ہیں اور جو خدا اوررسول کے فرمانبردار نہیں ہیں، وہ محب رسول نہیں ہیں،
اللھم انی اسئلک حبک وحب من یحبک والعمل الذی یبلغنی حبک اللھم اجعل حبک احب الی من نفسی ومالی واھلی ومن المآء البارد والصلوۃ والسلام علی حبیب اللہ والہ واتباعہ الی یوم الدین۔ امابعد! فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیمط وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ۰ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا۶۹ۭ (النساء:۶۹)''جن لوگوں نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوںگے، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا: یعنی نبیوں کے ساتھ اور سچے لوگوں کے ساتھ، اورشہیدوں کے ساتھ ، اور نیک لوگوں کے ساتھ، اور یہ بہترین ساتھی ہیں۔''اس آیت کریمہ کا شان نزول یہ ہے، کہ ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائے ا ورعرض کرنے لگے یا رسول اللہ! میں آپ ﷺ کو اپنی جان اور بال بچوں سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں، جب میں گھر میں بال بچوں کے ساتھ ہوتا ہوں اور آپﷺ کو یاد کرتا ہوں، تو جب تک آپﷺ کو دیکھ نہیں لیا تب تک مجھے قرار نہیں آتا، تو سب بال بچوںکو چھوڑ چھاڑ کر آپﷺ کے پاس دوڑا ہوا آتا ہوں، آپﷺ کو دیکھ کر تسلی ہو جاتی ہے اوردل کو قرار آجاتا ہے، تب میں واپس جاتا ہوں وانی ذکرت موتی وموتک فعرفت انک اذادخلت الجنۃ رفعت مع النبیین وان دخلتھا لا ارا ک فانزل اللہ تعالی الایۃ لیکن جب میں اپنی اور آپ ﷺ کی موت کو یاد کرتا ہوں، تو میں جان لیتا ہوں کہ جب آپﷺ جنت میں داخل ہوں گے تو آپﷺ نبیوں کے ساتھ بڑے بڑے درجات میں ہوں گے، اور اگر میں جنت میں داخل ہوا بھی، تو میں نہ آپﷺ کو دیکھ سکوں گا، اور نہ آپﷺ تک پہنچ سکوں گا تو مجھے بڑی تکلیف ہوگی اس پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کو نازل فرمایا کہ جو اللہ اور رسو ل کی اطاعت و فرمانبرداری کرے گا، وہ جنت میں نبیوں کے ساتھ ہوگا، نبی کی اطاعت و فرمانبرداری اور محبت کی یہ فضیلت ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں:
ان رجلا اتی النبی ﷺ فقال متی الساعۃ یارسول اللہ قال مااعددت لھا قال ما اعددت لھا من کثیر صلوۃ ولا صوم ولا صدقۃ ولکنی احب اللہ ورسولہ قال انت مع من احببت۔ (ترمذی)
ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہو کر عرض کرنے لگا یا رسول اللہ ! قیامت کب آئے گی؟ آپﷺ نے فرمایا قیامت کے لیے تم نے کیا تیاری کر رکھی ہے، اس نے جواب دیا ، میں نے قیامت کے لیے زیادہ نماز،ر وزہ، صدقہ و خیرات کر کے تیاری تو نہیں کی ہے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت رکھتا ہوں، میرے پاس بس یہی محبت رسول کا سرمایہ ہے، آپﷺ نے فرمایا:جس کے ساتھ تم محبت رکھو گے اس کے ساتھ تم جنت میں جاؤ گے۔(الشفاء قاضی عیاض)
مسند احمد وغیرہ میں ہے، کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا، کہ جو ایک قوم سے محبت رکھتا ہے لیکن ان سے ملاقات نہیں ہوئی ہے تو آپﷺ نے فرمایا: المرء مع من احب ہر انسان اس کے ساتھ ہوگا، جس سے وہ محبت رکھتا ہو، حضرت انسؓ فرماتے ہیں: کہ خدا کی قسم میری محبت جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہے اور حضرت ابوبکر ؓ ، عمرؓ کے ساتھ ہے مجھے امید ہے، کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان ہی لوگوں کے ساتھ اٹھائے گا ،گو میرے اعمال ان جیسے نہیں ہیں سچ ہے :
احب الصالحین ولست منھم لعل اللہ یرزقنی صلاحا
یعنی محبت معیار اور کسوٹی ہے حق اورناحق کے پرکھنے کے لیے،جنہیں خدا اور رسول سے محبت ہے یہی سچے مطیع و فرمانبردار ہیں اور جو خدا اوررسول کے فرمانبردار نہیں ہیں، وہ محب رسول نہیں ہیں،
کسی نے کیا خوب کہا ہے :
تعصی الرسول وانت تظھر حبہ ھذا لعمری فی الزمان بدیع
تم محمد ﷺ کی نافرمانی کے باوجود محبت ظاہر کرتے ہو، خدا کی قسم یہ تو زمانے میں عجیب بات ہے
لو کان حبک صادقا لا طعتہ ان المحب لمن یحب مطیع
اگر تم کو اللہ کے رسول کے ساتھ سچی محبت ہوتی تو تم ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے کیونکہ دوست اپنے دوست کا کہا مانتا ہے۔
سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَہُمْ كَحُبِّ اللہِ۰ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۰ۭ (البقرۃ:۱۶۵)
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو خدا کے شریک اوروں کو ٹھہر اکران سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسے خدا سے ، اور ایماندار لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت میں بہت سخت ہیں۔
کیونکہ مشرکین مشکل کے وقت میں اپنے بتوں کی محبت سے الگ ہو جاتے ہیں، لیکن ایمان والے کسی وقت بھی اللہ کی محبت سے جدا نہیں ہوتے، بلکہ جان و مال اور ہر چیز کو خدا ا ور رسول کی محبت میں قربان کر دیتے ہیں۔
محبت ایک طبعی کشش کا نام ہے، جو اپنے محبوب کی طرف کھینچ لے جاتی ہے، خواہ اس کے لیے کتنی ہی مصیبت برداشت کرنی پڑے، رسو ل کی محبت خویش و اقارب اور ماں باپ اور اولاد سے بھی زیادہ ایمان کا جزو اعظم ہے خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین۔ (بخاری)
تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
اسی لیے قرآن مجید نے رسول کی محبت کو ہر چیز کی محبت پر ترجیح دی ہے، ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَاۗءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِيَاۗءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَي الْاِيْمَانِ۰ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۲۳ قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَہَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِيْ سَبِيْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۲۴ۧ (التوبۃ:۲۳۔۲۴)
اے مسلمانو! دوست نہ بناؤ نہ اپنے باپوں کو اور نہ اپنے بھائیوں کو اگر وہ کفر کو اسلام سے زیادہ عزیز رکھیں، تم میں سے جو بھی ان سے محبت رکھے گا، وہ پورا گناہ گار اور ظالم ہے کہہ دیجیے،کہ تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے ، اور تمہارے بھائی ، اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال، اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو، اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو، اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں، تو تم خدا کے حکم سے عذاب کے آنے کا انتظارکرو، اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں کرتا۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے، کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت ماں باپ اور دیگر خویش واقارب سے زیادہ ہو ، تب ایمانی دعویٰ صحیح ہوسکتا ہے، اگر یہ رشتہ دار اور کمائے ہوئے مال، اور دنیا کی زمین و جائداد اور تجارت اور پسندیدہ مکانات خدا اور رسول ﷺ اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب و مرغوب ہیں ، تو خدا کے عذابوں کے برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
تعصی الرسول وانت تظھر حبہ ھذا لعمری فی الزمان بدیع
تم محمد ﷺ کی نافرمانی کے باوجود محبت ظاہر کرتے ہو، خدا کی قسم یہ تو زمانے میں عجیب بات ہے
لو کان حبک صادقا لا طعتہ ان المحب لمن یحب مطیع
اگر تم کو اللہ کے رسول کے ساتھ سچی محبت ہوتی تو تم ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے کیونکہ دوست اپنے دوست کا کہا مانتا ہے۔
سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَہُمْ كَحُبِّ اللہِ۰ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۰ۭ (البقرۃ:۱۶۵)
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو خدا کے شریک اوروں کو ٹھہر اکران سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسے خدا سے ، اور ایماندار لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت میں بہت سخت ہیں۔
کیونکہ مشرکین مشکل کے وقت میں اپنے بتوں کی محبت سے الگ ہو جاتے ہیں، لیکن ایمان والے کسی وقت بھی اللہ کی محبت سے جدا نہیں ہوتے، بلکہ جان و مال اور ہر چیز کو خدا ا ور رسول کی محبت میں قربان کر دیتے ہیں۔
محبت ایک طبعی کشش کا نام ہے، جو اپنے محبوب کی طرف کھینچ لے جاتی ہے، خواہ اس کے لیے کتنی ہی مصیبت برداشت کرنی پڑے، رسو ل کی محبت خویش و اقارب اور ماں باپ اور اولاد سے بھی زیادہ ایمان کا جزو اعظم ہے خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین۔ (بخاری)
تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
اسی لیے قرآن مجید نے رسول کی محبت کو ہر چیز کی محبت پر ترجیح دی ہے، ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَاۗءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِيَاۗءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَي الْاِيْمَانِ۰ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۲۳ قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَہَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِيْ سَبِيْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۲۴ۧ (التوبۃ:۲۳۔۲۴)
اے مسلمانو! دوست نہ بناؤ نہ اپنے باپوں کو اور نہ اپنے بھائیوں کو اگر وہ کفر کو اسلام سے زیادہ عزیز رکھیں، تم میں سے جو بھی ان سے محبت رکھے گا، وہ پورا گناہ گار اور ظالم ہے کہہ دیجیے،کہ تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے ، اور تمہارے بھائی ، اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال، اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو، اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو، اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں، تو تم خدا کے حکم سے عذاب کے آنے کا انتظارکرو، اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں کرتا۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے، کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت ماں باپ اور دیگر خویش واقارب سے زیادہ ہو ، تب ایمانی دعویٰ صحیح ہوسکتا ہے، اگر یہ رشتہ دار اور کمائے ہوئے مال، اور دنیا کی زمین و جائداد اور تجارت اور پسندیدہ مکانات خدا اور رسول ﷺ اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب و مرغوب ہیں ، تو خدا کے عذابوں کے برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
جنگ احد میں ایک صحابیہ خاتون کے شوہر اور بھائی اور بیٹے شہید ہوگئے، وہ مدینہ سے نکل کر میدان جنگ میں آئیں، تو ان سے کہا گیا، کہ تمہارا خاوند اور تمہارا بھائی اور تمہارا بیٹا شہید ہو چکا ہے، اس نے ان سب کی شہادت کی خبر سن کر پوچھا، کہ نبی ﷺ کیسے ہیں، لوگوں نے کہا، الحمد للہ وہ زندہ سلامت موجود ہیں، اس نے کہا مجھے لے جا کر دکھا دو، لوگ اسے آنحضرت ﷺ کے پاس لے گئے، جب اس کی نظر رسول اللہ ﷺ کے مبارک چہرہ پر پڑی ، تو بے ساختہ اس کی زبان سے یہ کلمہ نکل گیا۔
کل مصیبۃ بعدک جلل۔ (زرقانی)
جب آپ ﷺ زندہ و سلامت ہیں تو آپﷺ کے بعد ہر ایک مصیبت آسان ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے :
میں بھی باپ بھی شوہر بھی برادر بھی فدا
اے شہ دین تیرے ہوتے ہوئے کیا چیز ہیں ہم
رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کے ساتھ تشریف لے جا رہے تھے، حضرت عمر ؓ کا ہاتھ آپﷺ کے ہاتھ میں تھا، حضرت عمرؓ کہنے لگے، ''یا رسول اللہ لانت احب الی من کل شی ء الا نفسی التی بین جنبی'' آپﷺ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز اور محبوب ہیں، بجز اپنی جان کے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ وہ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا نہ بنا لے، حضرت عمر ؓ نے فرمایا: آپﷺ مجھے میری جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الان یا عمر! اے عمر اب تم پورے مومن ہوگئے۔ (بخاری)۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ثلاث من کن فیہ وجد بھن حلاوۃ الایمان ان یکون اللہ و رسولہ احب الیہ مما سواھما وان یحب المرء لا یحبہ الا للّٰہ وان یکرہ ان یعود فی الکفر کما یکرہ ان یقدف فی النار (بخاری شریف)
یہ تین چیزیں جس کے اندر ہوں گی، وہ ایمان کی مٹھاس پالے گا، ایک یہ کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت اس کے دل میں سب سے زیادہ ہو، اور اللہ اور اس کے رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں، دوسرے یہ کہ جس سے بھی محبت رکھے صرف اللہ ہی کے لیے رکھے، تیسرے یہ کہ دوبارہ کافر بننا اس کو اس قدر ناگوار ہو، جیسے آگ میں ڈالا جانا ناگوار ہوتا ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا ، کہ رسول ﷺ کی محبت ایمان کی تکمیل کے لیے اور دخول جنت کے لیے ضروری ہے، اور رسول ﷺ کی محبت کی نشانی یہ ہے، کہ رسولﷺ کے طریقے پر عمل کیا جائے، جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے:
من احب سنتی فقد احبنی ومن احبنی کان معی فی الجنۃ۔ (ترمذی)
جس نے میری سنت سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی ، وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔
سبحان اللہ محبت رسول ﷺ دنیا و آخرت کی بڑی دولت ہے،
کل مصیبۃ بعدک جلل۔ (زرقانی)
جب آپ ﷺ زندہ و سلامت ہیں تو آپﷺ کے بعد ہر ایک مصیبت آسان ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے :
میں بھی باپ بھی شوہر بھی برادر بھی فدا
اے شہ دین تیرے ہوتے ہوئے کیا چیز ہیں ہم
رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کے ساتھ تشریف لے جا رہے تھے، حضرت عمر ؓ کا ہاتھ آپﷺ کے ہاتھ میں تھا، حضرت عمرؓ کہنے لگے، ''یا رسول اللہ لانت احب الی من کل شی ء الا نفسی التی بین جنبی'' آپﷺ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز اور محبوب ہیں، بجز اپنی جان کے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ وہ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا نہ بنا لے، حضرت عمر ؓ نے فرمایا: آپﷺ مجھے میری جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الان یا عمر! اے عمر اب تم پورے مومن ہوگئے۔ (بخاری)۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ثلاث من کن فیہ وجد بھن حلاوۃ الایمان ان یکون اللہ و رسولہ احب الیہ مما سواھما وان یحب المرء لا یحبہ الا للّٰہ وان یکرہ ان یعود فی الکفر کما یکرہ ان یقدف فی النار (بخاری شریف)
یہ تین چیزیں جس کے اندر ہوں گی، وہ ایمان کی مٹھاس پالے گا، ایک یہ کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت اس کے دل میں سب سے زیادہ ہو، اور اللہ اور اس کے رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں، دوسرے یہ کہ جس سے بھی محبت رکھے صرف اللہ ہی کے لیے رکھے، تیسرے یہ کہ دوبارہ کافر بننا اس کو اس قدر ناگوار ہو، جیسے آگ میں ڈالا جانا ناگوار ہوتا ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا ، کہ رسول ﷺ کی محبت ایمان کی تکمیل کے لیے اور دخول جنت کے لیے ضروری ہے، اور رسول ﷺ کی محبت کی نشانی یہ ہے، کہ رسولﷺ کے طریقے پر عمل کیا جائے، جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے:
من احب سنتی فقد احبنی ومن احبنی کان معی فی الجنۃ۔ (ترمذی)
جس نے میری سنت سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی ، وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔
سبحان اللہ محبت رسول ﷺ دنیا و آخرت کی بڑی دولت ہے،
کسی نے کیا خوب کہا ہے:
محمد ﷺ کی جس دل میں الفت نہ ہو گی
سمجھ لو کہ قسمت میں جنت نہ ہو گی
کرے جو اطاعت محمد ﷺ کی دل سے
اسے پیر و مرشد کی حاجت نہ ہو گی
بھٹکتا رہا ہے بھٹکتا رہے گا
محمد ﷺ سے جس کو عقیدت نہ ہو گی
اسی کے لگ بھگ مولانا عبدالکریم مسلم ''دیوان گلشن ہدایت'' میںفرماتے ہیں
جو کوئی رکھتا ہے دل میں الفت خیرالوریٰ
صادق و کامل وہی ہے امت خیرالوریٰ
ہے جہاں قرآن میں کلمہ اطیعوا اللہ کا
ساتھ ہی اس کے لگا ہے طاعت خیرالوریٰ
اصل دین مصطفی ہے سنت خیرالوریٰ
مغز شرع مصطفیٰ ہے سنت خیرالوریٰ
بدعتی کی کس طرح مقبول ہو صوم وصلوۃ
ہر عبادت کا سرا ہے سنت خیرالوریٰ
ہم کو بس کافی ہیں دو مہریں ہدایت کے لیے
ایک قرآن دوسری ہے سنت خیرالوریٰ
جس طرح توحید ہے حب الٰہی کا نشان
حب نبوی کا پتہ ہے سنت خیرالوریٰ
سمجھ لو کہ قسمت میں جنت نہ ہو گی
کرے جو اطاعت محمد ﷺ کی دل سے
اسے پیر و مرشد کی حاجت نہ ہو گی
بھٹکتا رہا ہے بھٹکتا رہے گا
محمد ﷺ سے جس کو عقیدت نہ ہو گی
اسی کے لگ بھگ مولانا عبدالکریم مسلم ''دیوان گلشن ہدایت'' میںفرماتے ہیں
جو کوئی رکھتا ہے دل میں الفت خیرالوریٰ
صادق و کامل وہی ہے امت خیرالوریٰ
ہے جہاں قرآن میں کلمہ اطیعوا اللہ کا
ساتھ ہی اس کے لگا ہے طاعت خیرالوریٰ
اصل دین مصطفی ہے سنت خیرالوریٰ
مغز شرع مصطفیٰ ہے سنت خیرالوریٰ
بدعتی کی کس طرح مقبول ہو صوم وصلوۃ
ہر عبادت کا سرا ہے سنت خیرالوریٰ
ہم کو بس کافی ہیں دو مہریں ہدایت کے لیے
ایک قرآن دوسری ہے سنت خیرالوریٰ
جس طرح توحید ہے حب الٰہی کا نشان
حب نبوی کا پتہ ہے سنت خیرالوریٰ
محبت کے معنی میلان نفس اور دلی کشش کے ہیں اور یہ میلان ہمیشہ پسندیدہ اور مرغوب چیزوںکی جانب ہوا کرتا ہے، جس کے بہت سے اسباب ہوتے ہیں، یعنی یہ کبھی قرابتداری کی وجہ سے ہوتی ہے، یعنی محبت طبعی اور کبھی جمال و کمال یا احسان کی وجہ سے ہوتی ہے، جسے محبت عقلی کہتے ہیں،رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت طبعی بھی ہوسکتی ہے، جیسا کہ باپ کی محبت اولاد کے ساتھ، یا اولاد کی محبت باپ کے ساتھ ہوتی ہے رسول اللہ ﷺ قرابتداری کے لحاظ سے بھی اس کے لائق ہیں، کیونکہ آپﷺ مسلمانوں کے روحانی باپ ہیں، اور آپﷺ کی ازواج مطہرات مائیں ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے، وازواجہ امھاتھم یعنی آپﷺ کی بیویاں سب مسلمانوں کی مائیں ہیں، جب ازواج مطہرات امہات ہیں تو رسول اللہ ﷺ باپ ہوئے، جیسا کہ بعض شاذ قرأتوں میں ھو ابوھم کا لفظ بھی آیا ہے، یعنی آپﷺ سب کے باپ ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: النبیّ اولٰی بالمؤمنین من انفسھم یعنی رسول اللہ ﷺ مومنین کے ساتھ ان کے نفسوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں، اور سارے مسلمان اور مومن آپﷺ کی اولاد ہیں، تو جس طرح حقیقی باپ سے محبت طبعی ہے، اسی طرح روحانی باپ کے ساتھ محبت طبعی ہے، توحدیث شریف میں محبت سے طبعی محبت مراد لی جائے، تب بھی درست ہے، اور محبت کے اسباب میں سے ایک سبب کمال بھی ہے، خواہ کمال ظاہری ہو یا باطنی، رسول اللہ ﷺ کا کمال و جمال ظاہری بھی تھا اور باطنی بھی تھا، شکل و صورت کے لحاظ سے بھی آپﷺ سب سے حسین و جمیل تھے،
حضرت جابر فرماتے ہیں۔
کان مثل الشمس والقمر ۔ (مسلم)
آپﷺ کا چہرہ انور آفتاب و ماہتاب جیسا تھا۔
حضرت ربیع بنت معوذ آپﷺ ﷺکے حلیہ میں فرماتی ہیں:
لورایتہ رایت الشمس طالعۃ۔
اگر تم رسول اللہ ﷺ کو دیکھتے تو گویا سورج نکل رہا ہے۔
شخ سعدی نے کیا خوب فرمایا ہے۔
یاصاحب الجمال و یا سید البشر
من وجھک المنیر لقد نور القمر
حضرت جبریل علیہ السلام فرماتے ہیں، کہ میں تمام مشارق و مغارب میں پھرا ، سو میں نے کوئی شخص حضور اکرم ﷺ سے افضل نہیں دیکھا، آپﷺ کے اس قول کا گویا اس شعر میں ترجمہ کیا گیا ہے:
آفاقہا گر دیدہ ام مہر بتاں ورزیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری
یعنی میں نے تمام آسمان دیکھے ہیں، دنیا کے بہت سے حسینوں کو دیکھا ہے، لیکن آپﷺ جیسا حسین و جمل کوئی بھی نظر سے نہیں گزرا نعت خوان دربار نبوی حضرت حسان رضی اللہ عنہ آپﷺ کے حسن و جمال کے بارے میں کیا خوب فرماتے ہیں :
واجمل منک لم ترقط عین واحسن منک لم تلد النساء
یعنی آپﷺ ایسے حسین ہیں جسے کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور ایسے جمیل ہیں، جس کو کسی ماں نے نہیں جنا
نیز واقف اسرار نبوی ﷺ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
مارایت احسن من رسول اللہ ﷺ کان الشمس تجری فی وجھہ واذا ضحک یتلا لا نورہ فی الجدر۔
میں نے رسول اللہ ﷺ سے کسی کو زیادہ حسین نہیں دیکھا، ایسا لگتا تھا، گویا آپﷺ کے چہرے میں آفتاب چل رہا ہے، اور جب ہنستے تھے ، تو وہ روشنی دیواروں پر پڑتی تھی۔
آپﷺ ہر ظاہری اور باطنی عیبوں سے پاک اور صاف تھے، اور ہر ظاہری اور باطنی خوبیوں سے مزین تھے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جن کو شب و روز حضوراکرم ﷺ کی زیارت نصیب ہوتی تھی، آپﷺ کے حسن و جمال کا کس طرح نقشہ کھینچتے تھے، کہ آپﷺ سے زیادہ کوئی حسین نہیں دیکھا، اور حسن و جمال کے باعث آپ ﷺکے چہرے میں آفتاب چلتا ہوا دکھائی دیتا تھا ۔
بلغ العلی بکمالہ کشف الدجی بجمالہ۔
حسنت جمیع خصالہ۔ صلوا علیہ واٰلہ
نیز آپﷺ کے حسن و جمال کے باعث جب آپ ہنستے تھے، تو دیواروں پر چمک پڑتی تھی، نیز ایک دوسرے صحابی حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
مارایت ذی لمۃ فی حلۃ حمرآء احسن من رسول اللہ ﷺ۔ (مسلم)
میں نے کوئی بالوں والا، سرخ جوڑا یعنی مخطط لنگی و چادر پہنے حضور ﷺ سے زیادہ حسین نہیں دیکھا۔
شیر خدا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ آپﷺ کے حسن و جمال کے متعلق کہتے ہیں، کہ جو شخص آپﷺ کو او ل مرتبہ میں دیکھتا تھا، تومرعوب ہو جاتا تھا، اورجو شخص شناسائی کے ساتھ ملتا جلتا تھا، تو محبت کرتا تھا، میں نے آپﷺ جیسا صاحب کمال و صاحب جمال نہ آپﷺ سے پہلے کسی کو دیکھا اور نہ آپ ﷺکے بعد ، حضر ت حسان رضی اللہ عنہ نے کیا خوب فرمایا ہے :
خلقت مبرأ من کل عیب کانک قد خلقت کما تشاء
یعنی آپﷺ ہر عیب سے مبرا اور پاک و صاف پیدا کیے گئے ہیں، گویا آپﷺ اپنی مرضی کے مطابق پیدا کیے گئے ہیں۔
یعنی آپﷺ میں کوئی ایسا عیب نہ تھا، جس کے سبب آپﷺ کے حسن و جمال میں کوئی فرق پڑتا، اور آپﷺ کے تمام جسمانی اعضا سے حسن و جمال ٹپکتا ہے۔
آفتاب رشد و ہدایت حضرت علامہ شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی، سرور المحزون فی ترجمۃ نورالعیون میں آنحضرتﷺ کا حلیہ مبارک اسطرح تحریر فرماتے ہیں، کہ آنحضرت ﷺ میانہ قد، سفید رنگ مائل بہ سرخی اور قدرے فراخ سینہ تھے، بال مبارک کان کی لو تک دراز تھے، اور سفید نہ ہوئے تھے اور کل بیس بال سر اور ڈاڑھی میں سفید اور چمکدار تھے، اور روئے انور چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا سجیل اور معتدل جسم تھا، خاموشی کے وقت رعب و جلال بر ستا تھا، گویائی کے وقت لطافت ٹپکتی تھی، جو شخص رسول اللہ ﷺ کو دیکھتا، پیکر حسن و جمال سمجھتا تھا، اور جو قریب سے دیکھتا ملاحت اور شیرینی محسوس کرتا تھا، آنحضرت ﷺ شیریں گفتار کشادہ پیشانی، دراز اور باریک ابرو، غیر پیوستہ اور بلند بینی ، نرم رخسار کشادہ دہن تھے، اور دندان مبارک چمکدار ، کشادہ تھے اوردونوںشانوں کے درمیان مہر نبوت تھی، حضرت شاہ صاحب نے ''پیکر حسن و جمال اور آپ کا روئے انور چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا، کے الفاظ میں رسول اللہ ﷺ کے حسن و جمال کی طرف لطیف اشارہ فرمایا ہے حقیقت تو یہ ہے، کہ چودھویں رات کے چاند سے زیادہ حسین تھے، کیونکہ چاند پر تو سیاہ دھبہ صاف نظر آتا ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک بالکل صاف تھا
کسی نے کیا خوب کہا ہے:
چاند سے تشبیہ دینا یہ بھی کوئی انصاف ہے
چاند کے منہ پر چھائیاں میرے مدنی کا چہرہ صاف ہے
اور آپﷺ کے باطنی جمال و کمال کا کیاکہنا، آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین و سید المرسلین کا خطاب اور اولین آخرین کا علم عطا فرمایا: اور صاحب جمال و کمال کیساتھ محبت رکھنا، اور محبت کا ہونا بھی لازمی امر ہے اوراحسان اور اخلاق کی وجہ سے بھی محبت ہوتی ہے، آپ ﷺ کا احسان تمام عالم پر ہے، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ ﷺ کے پاکیزہ اخلاق کے بارے میں فرماتی ہیں:
انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوآئب الحق
آپﷺ قرابت داروں سے سلوک کرنے والے درماندوں اور عاجزوں کو سواری دینے والے ، ناداروں کو سرمایہ دینے والے، مہمانوں کی خدمت کرنے والے مصیبت زدگان کی اعانت کرنے والے ہیں۔(بخاری)
اس کی ہزاروں مثالیں دنیا میں موجود ہیں، حاتم طائی سے لوگ اس لیے محبت رکھتے ہیں، کہ وہ سخی تھا نوشیرواں عادل کا نام اس لیے مشہور ہے، کہ وہ انصاف پر ور اور رعایا کا ہمدرد تھا، سقراط، بقراط اور افلاطون سے لوگ اس لیے محبت کرتے ہیں، کہ وہ حکیم و دانا تھے، ان سب سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ میں کمال اور اعلیٰ اخلاق تھے، غرض کہ تمام نبیوں میں جو جو خوبیاں تھیں، وہ تن تنہا رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس میں تھیں، کسی نے کیا خوب کہا ہے :
ہم حسن و جمال بے نہایت داری
ہم چوں کرم بے حد غایت داری
ہم ترا مسلم و ہم احسان!
محبوب توئی کہ دو آیت داری
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
اور محبت شرعی بھی جو دراصل محبت ایمانی ہے، اس حدیث سے مراد لے سکتے ہیں، یعنی رسول اللہ ﷺ کی محبت یہی ہے، کہ رسول ﷺ کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے اور کوئی کام آپﷺ کے حکم کے خلاف نہ ہو۔
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ ''شفا'' میں فرماتے ہیں:
فقال سفیان المحبۃ اتباع رسول اللہ ﷺ کانہ۔
سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: کہ رسول اللہ ﷺ کی سچی تابعداری کا نام محبت ہے۔
صحابہ کرام کو رسول اللہ ﷺ سے غایت درجے کی محبت تھی، کہ کوئی کام آپﷺ کے قول یا فعل کے خلاف نہیں کرتے تھے، تابعداری آپﷺ کی محبت کی سچی پہچان ہے
بیہقی میں حضرت عبدالرحمن بن ابی قراد سے روایت ہے، کہ:
ان النبی ﷺ توضأ یوما فجعل اصحابہ یتمسحون بوضوئہ فقال النبی ﷺ من سرہ ان یحب اللہ ورسولہ او یحبہ اللہ ورسولہ فلیصدق حدیثہ اذا حدث ولیؤد امانۃ اذا ئتمن و لیحسن جارمن جاورہ۔ (البیہقی)
ایک روز رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا ، آپﷺ کے صحابہ کرام نے وضو کے پانی کو (تبرکاً) اپنے جسموں پر ملنا شروع کیا، رسول اللہ ﷺ نے دیکھ کر فرمایا: کہ کس چیز نے تمہیں اس کام پر آمادہ کیا ہے، ان لوگوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول کی محبت نے اس کام پر آمادہ کیا ہے، اس پر آپﷺ نے فرمایا: کہ جسے یہ پسند ہو، کہ اللہ اوراس کے رسول سے محبت رکھے یا اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کریں، تو اسے چاہیے کہ جب بولے تو سچ بولے، اور اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس کو ادا کردے، اور ہمسایوں کے ساتھ ہمسائیگی کا حق ادا کرے۔
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے ''الشفا بتعریف حقوق المصطفیﷺ'' کی جلد ثانی میں حضرت سہل بن عبداللہ کا یہ ارشاد گرامی نقل فرمایا ہے:
علامۃ حب اللہ حب القران و علامۃ حب القران حب النبی ﷺ وعلامۃ حب النبی ﷺ حب السنۃ وعلامۃ حب السنۃ حب الاخرۃ وعلامۃ حب الاخرۃ بغض الدنیا و علامۃ بغض الدنیا ان لا یدخر منھا الا زاداوبلغۃ الی الاخرۃ۔
اللہ تعالیٰ کی محبت کی نشانی قرآن مجید کے ساتھ محبت کرنا ہے اور قرآن مجید کی محبت کی علامت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت رکھنا ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی محبت کی پہچان آپ ﷺ کی سنت کے ساتھ محبت رکھنا ہے اور سنت کی محبت کی نشانی آخرت کی محبت ہے، اور آخرت کی محبت کی علامت دنیا کے ساتھ بغض رکھنا ہے اور دنیا کے ساتھ بغض کی علامت یہ ہے کہ دنیا کی کوئی چیز ذخیرے کے طور پر نہ رکھے ، مگر وہ توشہ جو آخرت کی طرف پہنچا دے۔
آپﷺ کو جوچیز محبوب ہوتی ، وہ آپ ﷺ کی محبت کی وجہ سے صحابہ کرام کو بھی محبوب ہوتی تھی، کدو آپﷺ کو بہت مرغوب اور پسند تھا، اسی لیے حضرت انس بن مالک ؓ بھی اس کو نہایت پسند فرماتے تھے، ایک دن وہ کدو کھا رہے تھے، خود بخود بول اٹھے کہ اے کدو اس بنا پر کہ رسول اللہ ﷺ کوتجھ سے محبت تھی، تو مجھے کس قدر محبوب ہے (ترمذی ، کتاب الا طعمہ)
رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیربھی محبت میں داخل ہے، اسی لیے صحابہ کرام آپﷺ کی حد سے زیادہ تعظیم کرتے ، صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کہ عروہ بن مسعود مکہ والوں کی طرف سے سفیر بن کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تھا، واپس جا کر اپنا چشم دید واقعہ بیان کیا
صحیح بخاری شریف میں ہے:
لمارجع عروۃ الی اصحابہ ای قوم قال واللہ لقد وفدت الی الملوک ووفدت علی قیصر و کسری والنجاشی واللہ ان رایت ملکا قط یعظمہ اصحابہ ما یعظم اصحاب محمد محمدا واللہ ان تنخم نخامۃ الا وقعت فی کف رجل منھم فدلک بھا وجھہ وجلدہ واذا امرھم ابتدرواامرہ واذاتوضا کادوا یقتتلون علی وضوئہ واذاتکلم خفضوااصواتھم عندہ و ما یحدون الیہ النظر تعظیما لہ۔
عروہ اپنے ساتھیوں کے پاس لوٹ کر گیا، اور یہ کہنے لگا کہ بھائیو! میں تو بادشاہوں کے پاس بھی پہنچ چکا ہوں، خدا کی قسم میں نے کسی بادشاہ کو ایسا نہیں دیکھا ، کہ لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد ﷺ کی تعظیم ان کے صحابی کرتے ہیں، خداکی قسم اگروہ تھوکتے ہیں، تو وہ تھو ک کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھوں پر گرتا ہے، اور وہ اپنے منہ اور جسم پر تبرکاً مل لیتا ہے، اور وہ جب کوئی حکم دیتے ہیں، تو سب کے سب لپک کر ان کے حکم کو بجا لاتے ہیں، اورجب وضو کرتے ہیں، توان کے وضوکے پانی کو ہر ایک لینے کے لیے چھینا جھپٹی کرتے ہیں، یہاں تک کہ لڑنے جھگڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، اور جب وہ بات کرتے ہیں، تو ان کے ساتھی اپنی آوازوں کوپست کر کے خاموش ہو جاتے ہیں، اور کوئی ادب اور تعظیم کی وجہ سے گھور گھور کر ان کو نہیں دیکھتے ، سب کی نگاہیں نیچی رہتی ہیں۔
کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ نے ان کو یہی تعلیم دی ہے، کہ رسولﷺ کی تعظیم و تکریم کرو، اور ان کے سامنے زور زور سے مت بولو، قرآن مجید میں ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۱ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ كَجَــہْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ۲ اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰى۰ۭ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ۳ اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَاۗءِ الْحُـجُرٰتِ اَكْثَرُہُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ۴ وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْہِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّہُمْ۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۵ (الحجرات:۱ تا۵)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اجازت سے پہلے تم لوگ سبقت مت کیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تمہارے سب اقوال کو سننے والا، اور تمہارے سب افعال کو جاننے والا ہے، اے ایمان والو! تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ ان سے ایسے کھل کر بولا کرو، جیسا کہ تم آپس میںایک دوسرے سے کھل کر بولاکرتے ہو، کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو، بیشک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے پست رکھتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں، جن کے قلوب کو اللہ تعالیٰ نے تقوی کے لیے خالص کر دیا ہے، ان لوگوں کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے، جو لوگ حجروں کے باہر سے آپﷺ کو پکارتے ہیں، ان میںسے اکثر کوعقل نہیں ہے اور اگر یہ لوگ ذرہ برابر بھی صبر اور انتظار کرتے یہانتک کہ آپ خود ان کے پاس باہر آ جاتے، تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا، کیونکہ یہ ادب کی بات تھی، اور اللہ غفور رحیم ہے۔
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو یہ تعلیم دی ہے، اور یہ ادب سکھایا ہے، کہ تم اپنے نبی کی تعظیم اور توقیر کرو، تمام کاموں میںخدا اور رسول کے پیچھے پیچھے رہو، اور کتاب و سنت کی تابعداری کرو، کوئی کام قرآن وحدیث کے خلاف مت کرو، اللہ سے ڈرتے رہو، وہ تمہاری باتوں کو سننے والا اور تمہار ے ارادوں کو جاننے والا ہے، دوسرا ادب یہ سکھایا ہے، کہ تم اپنی آواز کو نبی کی آواز پر بلند مت کرو، کہ تمہاری آواز غالب آ جائے ، اور نبی کی آواز دب جائے، آپﷺ کے رحلت فرما جانے کے بعد آپﷺ کی قبر کے پاس زور زور سے بولنا احترم رسول کے خلاف ہے، کیونکہ جس طرح آپﷺ کی زندگی میں آپﷺ کے سامنے چلا چلا کر بولنا منع ہے، اسی طرح سے آپﷺ کے انتقال کے بعد بھی آپﷺ کے مزار شریف کے سامنے چلانا، شور مچانا منع ہے، اسی طرح سے آپﷺ کی حدیث کے سامنے جب کہ آپﷺ کی حدیث پڑھی جارہی ہو چلانا ، شور مچانا منع ہے، حدیث کی تعظیم رسولﷺ کی تعظیم ہے، جو لوگ حدیث رسول کے سامنے شور مچاتے ہیں، وہ بے ادب اور گستاخ ہیں،جن کی ممانعت ان مذکورہ بالا آیتوں میں آئی ہے،
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کی تعظیم و توقیر کے سلسلہ میں فرمایا:
اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۸ۙ لِّتُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ۰ۭ وَتُسَـبِّحُوْہُ بُكْرَۃً وَّاَصِيْلًا۹ (الفتح:۸۔۹)
یقینا ہم نے آپ کو اظہار حق کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے تا کہ اے مسلمانو! تم خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو، اور اس کا ادب کرو، اور اللہ کی پاکی بیان کرو، صبح اور شام کے وقت۔
جتنا زیادہ ایمان قوی ہوگا، اتنی ہی زیادہ آپ کیساتھ محبت ہوگی، فتح مکہ میں ہندہ بنت عتبہ مسلمان ہو کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اس وقت انہوں نے اپنے ایمانی جذبہ کا اظہار اس طرح سے کیا:
یارسول اللہ ماکان علی ظھرالارض من اھل خبآءاحب الی ان یذلوامن اھل خبائک ثم مااصبح الیوم علی ظھرالارض من اھل خبآءاحب الی ان یعزوامن اھل خبائک (بخاری)
یارسول اللہ! ساری دنیا میں کسی گھرانے والوں کا ذلیل و خوار ہونا مجھ کواتنا محبوب و پسندیدہ نہ تھا، جتنا کہ آپﷺ کے گھر والوں کا ذلیل ہونا مجھے پسند تھا یعنی دنیا میں تمام گھرانوں سے آپ ﷺ کا گھرانہ میرے نزدیک بہت ذلیل و خوار تھا، لیکن اب اسلام لانے کے بعد بالکل الٹا ہوگیا، کہ ساری دنیا میں کسی گھرانے والوں کی اتنی محبت اور عزت نہیں ہے، جتنی کہ آپﷺ کے گھرانے والوں سے مجھے محبت ہوگئی ہے۔
یعنی دنیا کے تمام لوگوں سے آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے گھر والے سب سے زیادہ عزیز ہوگئے ہیں اسی طرح کا واقعہ ثمامہؓ کا بھی پیش آیا، کہ ایمان لاتے ہی محبت رسول ﷺ ان کے رگ وریشے میں پیوست ہوگئی ، چنانچہ خود ہی ایمان لانے کے بعد آنحضرت ﷺ سے فرما رہے ہیں۔
واللہ ما کان علی وجہ الارض من وجہ ابغض الی من وجھک فقد اصبح احب الوجوہ کلھا الی واللہ ما کان من دین ابغض الی من دینک فاصبح دینک احب الدین کلہ الی واللہ ماکان من بلد ابغض الی من بلدک فاصبح بلدک احب البلاد کلھا الی۔ (مسلم)
یعنی اے محمد (ﷺ) ! خدا کی قسم آپ ﷺ سے زیادہ کسی کا چہرہ میرے نزدیک برا نہ تھا آپ ﷺ میرے نزدیک میرے اسلام لانے سے پہلے سب سے زیادہ برے تھے اور اب اسلام لانے کے بعد آپ ﷺ کا چہرہ مبارک تمام چہروں سے زیادہ محبوب ہے، یعنی آپ ﷺ میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور پیارے ہوگئے ہیں، خدا کی قسم آپ ﷺ کے دین سے زیادہ کسی کا دین میرے نزدیک برا نہیں تھا، اور اب آپ ﷺ کا دین سب دینوںسے زیادہ محبوب ہوگیا ہے ،خدا کی قسم کوئی شہر آپ ﷺ کے شہر سے زیادہ مجھے برا معلوم نہیں ہوتا تھا، اور اب آپ ﷺ کا شہر تمام شہروں سے مجھے زیادہ پسند ہے۔
حضرت جابر فرماتے ہیں۔
کان مثل الشمس والقمر ۔ (مسلم)
آپﷺ کا چہرہ انور آفتاب و ماہتاب جیسا تھا۔
حضرت ربیع بنت معوذ آپﷺ ﷺکے حلیہ میں فرماتی ہیں:
لورایتہ رایت الشمس طالعۃ۔
اگر تم رسول اللہ ﷺ کو دیکھتے تو گویا سورج نکل رہا ہے۔
شخ سعدی نے کیا خوب فرمایا ہے۔
یاصاحب الجمال و یا سید البشر
من وجھک المنیر لقد نور القمر
حضرت جبریل علیہ السلام فرماتے ہیں، کہ میں تمام مشارق و مغارب میں پھرا ، سو میں نے کوئی شخص حضور اکرم ﷺ سے افضل نہیں دیکھا، آپﷺ کے اس قول کا گویا اس شعر میں ترجمہ کیا گیا ہے:
آفاقہا گر دیدہ ام مہر بتاں ورزیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری
یعنی میں نے تمام آسمان دیکھے ہیں، دنیا کے بہت سے حسینوں کو دیکھا ہے، لیکن آپﷺ جیسا حسین و جمل کوئی بھی نظر سے نہیں گزرا نعت خوان دربار نبوی حضرت حسان رضی اللہ عنہ آپﷺ کے حسن و جمال کے بارے میں کیا خوب فرماتے ہیں :
واجمل منک لم ترقط عین واحسن منک لم تلد النساء
یعنی آپﷺ ایسے حسین ہیں جسے کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور ایسے جمیل ہیں، جس کو کسی ماں نے نہیں جنا
نیز واقف اسرار نبوی ﷺ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
مارایت احسن من رسول اللہ ﷺ کان الشمس تجری فی وجھہ واذا ضحک یتلا لا نورہ فی الجدر۔
میں نے رسول اللہ ﷺ سے کسی کو زیادہ حسین نہیں دیکھا، ایسا لگتا تھا، گویا آپﷺ کے چہرے میں آفتاب چل رہا ہے، اور جب ہنستے تھے ، تو وہ روشنی دیواروں پر پڑتی تھی۔
آپﷺ ہر ظاہری اور باطنی عیبوں سے پاک اور صاف تھے، اور ہر ظاہری اور باطنی خوبیوں سے مزین تھے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جن کو شب و روز حضوراکرم ﷺ کی زیارت نصیب ہوتی تھی، آپﷺ کے حسن و جمال کا کس طرح نقشہ کھینچتے تھے، کہ آپﷺ سے زیادہ کوئی حسین نہیں دیکھا، اور حسن و جمال کے باعث آپ ﷺکے چہرے میں آفتاب چلتا ہوا دکھائی دیتا تھا ۔
بلغ العلی بکمالہ کشف الدجی بجمالہ۔
حسنت جمیع خصالہ۔ صلوا علیہ واٰلہ
نیز آپﷺ کے حسن و جمال کے باعث جب آپ ہنستے تھے، تو دیواروں پر چمک پڑتی تھی، نیز ایک دوسرے صحابی حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
مارایت ذی لمۃ فی حلۃ حمرآء احسن من رسول اللہ ﷺ۔ (مسلم)
میں نے کوئی بالوں والا، سرخ جوڑا یعنی مخطط لنگی و چادر پہنے حضور ﷺ سے زیادہ حسین نہیں دیکھا۔
شیر خدا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ آپﷺ کے حسن و جمال کے متعلق کہتے ہیں، کہ جو شخص آپﷺ کو او ل مرتبہ میں دیکھتا تھا، تومرعوب ہو جاتا تھا، اورجو شخص شناسائی کے ساتھ ملتا جلتا تھا، تو محبت کرتا تھا، میں نے آپﷺ جیسا صاحب کمال و صاحب جمال نہ آپﷺ سے پہلے کسی کو دیکھا اور نہ آپ ﷺکے بعد ، حضر ت حسان رضی اللہ عنہ نے کیا خوب فرمایا ہے :
خلقت مبرأ من کل عیب کانک قد خلقت کما تشاء
یعنی آپﷺ ہر عیب سے مبرا اور پاک و صاف پیدا کیے گئے ہیں، گویا آپﷺ اپنی مرضی کے مطابق پیدا کیے گئے ہیں۔
یعنی آپﷺ میں کوئی ایسا عیب نہ تھا، جس کے سبب آپﷺ کے حسن و جمال میں کوئی فرق پڑتا، اور آپﷺ کے تمام جسمانی اعضا سے حسن و جمال ٹپکتا ہے۔
آفتاب رشد و ہدایت حضرت علامہ شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی، سرور المحزون فی ترجمۃ نورالعیون میں آنحضرتﷺ کا حلیہ مبارک اسطرح تحریر فرماتے ہیں، کہ آنحضرت ﷺ میانہ قد، سفید رنگ مائل بہ سرخی اور قدرے فراخ سینہ تھے، بال مبارک کان کی لو تک دراز تھے، اور سفید نہ ہوئے تھے اور کل بیس بال سر اور ڈاڑھی میں سفید اور چمکدار تھے، اور روئے انور چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا سجیل اور معتدل جسم تھا، خاموشی کے وقت رعب و جلال بر ستا تھا، گویائی کے وقت لطافت ٹپکتی تھی، جو شخص رسول اللہ ﷺ کو دیکھتا، پیکر حسن و جمال سمجھتا تھا، اور جو قریب سے دیکھتا ملاحت اور شیرینی محسوس کرتا تھا، آنحضرت ﷺ شیریں گفتار کشادہ پیشانی، دراز اور باریک ابرو، غیر پیوستہ اور بلند بینی ، نرم رخسار کشادہ دہن تھے، اور دندان مبارک چمکدار ، کشادہ تھے اوردونوںشانوں کے درمیان مہر نبوت تھی، حضرت شاہ صاحب نے ''پیکر حسن و جمال اور آپ کا روئے انور چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا، کے الفاظ میں رسول اللہ ﷺ کے حسن و جمال کی طرف لطیف اشارہ فرمایا ہے حقیقت تو یہ ہے، کہ چودھویں رات کے چاند سے زیادہ حسین تھے، کیونکہ چاند پر تو سیاہ دھبہ صاف نظر آتا ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک بالکل صاف تھا
کسی نے کیا خوب کہا ہے:
چاند سے تشبیہ دینا یہ بھی کوئی انصاف ہے
چاند کے منہ پر چھائیاں میرے مدنی کا چہرہ صاف ہے
اور آپﷺ کے باطنی جمال و کمال کا کیاکہنا، آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین و سید المرسلین کا خطاب اور اولین آخرین کا علم عطا فرمایا: اور صاحب جمال و کمال کیساتھ محبت رکھنا، اور محبت کا ہونا بھی لازمی امر ہے اوراحسان اور اخلاق کی وجہ سے بھی محبت ہوتی ہے، آپ ﷺ کا احسان تمام عالم پر ہے، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ ﷺ کے پاکیزہ اخلاق کے بارے میں فرماتی ہیں:
انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوآئب الحق
آپﷺ قرابت داروں سے سلوک کرنے والے درماندوں اور عاجزوں کو سواری دینے والے ، ناداروں کو سرمایہ دینے والے، مہمانوں کی خدمت کرنے والے مصیبت زدگان کی اعانت کرنے والے ہیں۔(بخاری)
اس کی ہزاروں مثالیں دنیا میں موجود ہیں، حاتم طائی سے لوگ اس لیے محبت رکھتے ہیں، کہ وہ سخی تھا نوشیرواں عادل کا نام اس لیے مشہور ہے، کہ وہ انصاف پر ور اور رعایا کا ہمدرد تھا، سقراط، بقراط اور افلاطون سے لوگ اس لیے محبت کرتے ہیں، کہ وہ حکیم و دانا تھے، ان سب سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ میں کمال اور اعلیٰ اخلاق تھے، غرض کہ تمام نبیوں میں جو جو خوبیاں تھیں، وہ تن تنہا رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس میں تھیں، کسی نے کیا خوب کہا ہے :
ہم حسن و جمال بے نہایت داری
ہم چوں کرم بے حد غایت داری
ہم ترا مسلم و ہم احسان!
محبوب توئی کہ دو آیت داری
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
اور محبت شرعی بھی جو دراصل محبت ایمانی ہے، اس حدیث سے مراد لے سکتے ہیں، یعنی رسول اللہ ﷺ کی محبت یہی ہے، کہ رسول ﷺ کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے اور کوئی کام آپﷺ کے حکم کے خلاف نہ ہو۔
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ ''شفا'' میں فرماتے ہیں:
فقال سفیان المحبۃ اتباع رسول اللہ ﷺ کانہ۔
سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: کہ رسول اللہ ﷺ کی سچی تابعداری کا نام محبت ہے۔
صحابہ کرام کو رسول اللہ ﷺ سے غایت درجے کی محبت تھی، کہ کوئی کام آپﷺ کے قول یا فعل کے خلاف نہیں کرتے تھے، تابعداری آپﷺ کی محبت کی سچی پہچان ہے
بیہقی میں حضرت عبدالرحمن بن ابی قراد سے روایت ہے، کہ:
ان النبی ﷺ توضأ یوما فجعل اصحابہ یتمسحون بوضوئہ فقال النبی ﷺ من سرہ ان یحب اللہ ورسولہ او یحبہ اللہ ورسولہ فلیصدق حدیثہ اذا حدث ولیؤد امانۃ اذا ئتمن و لیحسن جارمن جاورہ۔ (البیہقی)
ایک روز رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا ، آپﷺ کے صحابہ کرام نے وضو کے پانی کو (تبرکاً) اپنے جسموں پر ملنا شروع کیا، رسول اللہ ﷺ نے دیکھ کر فرمایا: کہ کس چیز نے تمہیں اس کام پر آمادہ کیا ہے، ان لوگوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول کی محبت نے اس کام پر آمادہ کیا ہے، اس پر آپﷺ نے فرمایا: کہ جسے یہ پسند ہو، کہ اللہ اوراس کے رسول سے محبت رکھے یا اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کریں، تو اسے چاہیے کہ جب بولے تو سچ بولے، اور اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس کو ادا کردے، اور ہمسایوں کے ساتھ ہمسائیگی کا حق ادا کرے۔
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے ''الشفا بتعریف حقوق المصطفیﷺ'' کی جلد ثانی میں حضرت سہل بن عبداللہ کا یہ ارشاد گرامی نقل فرمایا ہے:
علامۃ حب اللہ حب القران و علامۃ حب القران حب النبی ﷺ وعلامۃ حب النبی ﷺ حب السنۃ وعلامۃ حب السنۃ حب الاخرۃ وعلامۃ حب الاخرۃ بغض الدنیا و علامۃ بغض الدنیا ان لا یدخر منھا الا زاداوبلغۃ الی الاخرۃ۔
اللہ تعالیٰ کی محبت کی نشانی قرآن مجید کے ساتھ محبت کرنا ہے اور قرآن مجید کی محبت کی علامت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت رکھنا ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی محبت کی پہچان آپ ﷺ کی سنت کے ساتھ محبت رکھنا ہے اور سنت کی محبت کی نشانی آخرت کی محبت ہے، اور آخرت کی محبت کی علامت دنیا کے ساتھ بغض رکھنا ہے اور دنیا کے ساتھ بغض کی علامت یہ ہے کہ دنیا کی کوئی چیز ذخیرے کے طور پر نہ رکھے ، مگر وہ توشہ جو آخرت کی طرف پہنچا دے۔
آپﷺ کو جوچیز محبوب ہوتی ، وہ آپ ﷺ کی محبت کی وجہ سے صحابہ کرام کو بھی محبوب ہوتی تھی، کدو آپﷺ کو بہت مرغوب اور پسند تھا، اسی لیے حضرت انس بن مالک ؓ بھی اس کو نہایت پسند فرماتے تھے، ایک دن وہ کدو کھا رہے تھے، خود بخود بول اٹھے کہ اے کدو اس بنا پر کہ رسول اللہ ﷺ کوتجھ سے محبت تھی، تو مجھے کس قدر محبوب ہے (ترمذی ، کتاب الا طعمہ)
رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیربھی محبت میں داخل ہے، اسی لیے صحابہ کرام آپﷺ کی حد سے زیادہ تعظیم کرتے ، صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کہ عروہ بن مسعود مکہ والوں کی طرف سے سفیر بن کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تھا، واپس جا کر اپنا چشم دید واقعہ بیان کیا
صحیح بخاری شریف میں ہے:
لمارجع عروۃ الی اصحابہ ای قوم قال واللہ لقد وفدت الی الملوک ووفدت علی قیصر و کسری والنجاشی واللہ ان رایت ملکا قط یعظمہ اصحابہ ما یعظم اصحاب محمد محمدا واللہ ان تنخم نخامۃ الا وقعت فی کف رجل منھم فدلک بھا وجھہ وجلدہ واذا امرھم ابتدرواامرہ واذاتوضا کادوا یقتتلون علی وضوئہ واذاتکلم خفضوااصواتھم عندہ و ما یحدون الیہ النظر تعظیما لہ۔
عروہ اپنے ساتھیوں کے پاس لوٹ کر گیا، اور یہ کہنے لگا کہ بھائیو! میں تو بادشاہوں کے پاس بھی پہنچ چکا ہوں، خدا کی قسم میں نے کسی بادشاہ کو ایسا نہیں دیکھا ، کہ لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد ﷺ کی تعظیم ان کے صحابی کرتے ہیں، خداکی قسم اگروہ تھوکتے ہیں، تو وہ تھو ک کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھوں پر گرتا ہے، اور وہ اپنے منہ اور جسم پر تبرکاً مل لیتا ہے، اور وہ جب کوئی حکم دیتے ہیں، تو سب کے سب لپک کر ان کے حکم کو بجا لاتے ہیں، اورجب وضو کرتے ہیں، توان کے وضوکے پانی کو ہر ایک لینے کے لیے چھینا جھپٹی کرتے ہیں، یہاں تک کہ لڑنے جھگڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، اور جب وہ بات کرتے ہیں، تو ان کے ساتھی اپنی آوازوں کوپست کر کے خاموش ہو جاتے ہیں، اور کوئی ادب اور تعظیم کی وجہ سے گھور گھور کر ان کو نہیں دیکھتے ، سب کی نگاہیں نیچی رہتی ہیں۔
کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ نے ان کو یہی تعلیم دی ہے، کہ رسولﷺ کی تعظیم و تکریم کرو، اور ان کے سامنے زور زور سے مت بولو، قرآن مجید میں ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ اِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۱ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ كَجَــہْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ۲ اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰى۰ۭ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ۳ اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَاۗءِ الْحُـجُرٰتِ اَكْثَرُہُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ۴ وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْہِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّہُمْ۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۵ (الحجرات:۱ تا۵)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اجازت سے پہلے تم لوگ سبقت مت کیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تمہارے سب اقوال کو سننے والا، اور تمہارے سب افعال کو جاننے والا ہے، اے ایمان والو! تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ ان سے ایسے کھل کر بولا کرو، جیسا کہ تم آپس میںایک دوسرے سے کھل کر بولاکرتے ہو، کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو، بیشک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہ ﷺ کے سامنے پست رکھتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں، جن کے قلوب کو اللہ تعالیٰ نے تقوی کے لیے خالص کر دیا ہے، ان لوگوں کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے، جو لوگ حجروں کے باہر سے آپﷺ کو پکارتے ہیں، ان میںسے اکثر کوعقل نہیں ہے اور اگر یہ لوگ ذرہ برابر بھی صبر اور انتظار کرتے یہانتک کہ آپ خود ان کے پاس باہر آ جاتے، تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا، کیونکہ یہ ادب کی بات تھی، اور اللہ غفور رحیم ہے۔
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو یہ تعلیم دی ہے، اور یہ ادب سکھایا ہے، کہ تم اپنے نبی کی تعظیم اور توقیر کرو، تمام کاموں میںخدا اور رسول کے پیچھے پیچھے رہو، اور کتاب و سنت کی تابعداری کرو، کوئی کام قرآن وحدیث کے خلاف مت کرو، اللہ سے ڈرتے رہو، وہ تمہاری باتوں کو سننے والا اور تمہار ے ارادوں کو جاننے والا ہے، دوسرا ادب یہ سکھایا ہے، کہ تم اپنی آواز کو نبی کی آواز پر بلند مت کرو، کہ تمہاری آواز غالب آ جائے ، اور نبی کی آواز دب جائے، آپﷺ کے رحلت فرما جانے کے بعد آپﷺ کی قبر کے پاس زور زور سے بولنا احترم رسول کے خلاف ہے، کیونکہ جس طرح آپﷺ کی زندگی میں آپﷺ کے سامنے چلا چلا کر بولنا منع ہے، اسی طرح سے آپﷺ کے انتقال کے بعد بھی آپﷺ کے مزار شریف کے سامنے چلانا، شور مچانا منع ہے، اسی طرح سے آپﷺ کی حدیث کے سامنے جب کہ آپﷺ کی حدیث پڑھی جارہی ہو چلانا ، شور مچانا منع ہے، حدیث کی تعظیم رسولﷺ کی تعظیم ہے، جو لوگ حدیث رسول کے سامنے شور مچاتے ہیں، وہ بے ادب اور گستاخ ہیں،جن کی ممانعت ان مذکورہ بالا آیتوں میں آئی ہے،
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کی تعظیم و توقیر کے سلسلہ میں فرمایا:
اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا۸ۙ لِّتُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ۰ۭ وَتُسَـبِّحُوْہُ بُكْرَۃً وَّاَصِيْلًا۹ (الفتح:۸۔۹)
یقینا ہم نے آپ کو اظہار حق کرنے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے تا کہ اے مسلمانو! تم خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو، اور اس کا ادب کرو، اور اللہ کی پاکی بیان کرو، صبح اور شام کے وقت۔
جتنا زیادہ ایمان قوی ہوگا، اتنی ہی زیادہ آپ کیساتھ محبت ہوگی، فتح مکہ میں ہندہ بنت عتبہ مسلمان ہو کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اس وقت انہوں نے اپنے ایمانی جذبہ کا اظہار اس طرح سے کیا:
یارسول اللہ ماکان علی ظھرالارض من اھل خبآءاحب الی ان یذلوامن اھل خبائک ثم مااصبح الیوم علی ظھرالارض من اھل خبآءاحب الی ان یعزوامن اھل خبائک (بخاری)
یارسول اللہ! ساری دنیا میں کسی گھرانے والوں کا ذلیل و خوار ہونا مجھ کواتنا محبوب و پسندیدہ نہ تھا، جتنا کہ آپﷺ کے گھر والوں کا ذلیل ہونا مجھے پسند تھا یعنی دنیا میں تمام گھرانوں سے آپ ﷺ کا گھرانہ میرے نزدیک بہت ذلیل و خوار تھا، لیکن اب اسلام لانے کے بعد بالکل الٹا ہوگیا، کہ ساری دنیا میں کسی گھرانے والوں کی اتنی محبت اور عزت نہیں ہے، جتنی کہ آپﷺ کے گھرانے والوں سے مجھے محبت ہوگئی ہے۔
یعنی دنیا کے تمام لوگوں سے آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے گھر والے سب سے زیادہ عزیز ہوگئے ہیں اسی طرح کا واقعہ ثمامہؓ کا بھی پیش آیا، کہ ایمان لاتے ہی محبت رسول ﷺ ان کے رگ وریشے میں پیوست ہوگئی ، چنانچہ خود ہی ایمان لانے کے بعد آنحضرت ﷺ سے فرما رہے ہیں۔
واللہ ما کان علی وجہ الارض من وجہ ابغض الی من وجھک فقد اصبح احب الوجوہ کلھا الی واللہ ما کان من دین ابغض الی من دینک فاصبح دینک احب الدین کلہ الی واللہ ماکان من بلد ابغض الی من بلدک فاصبح بلدک احب البلاد کلھا الی۔ (مسلم)
یعنی اے محمد (ﷺ) ! خدا کی قسم آپ ﷺ سے زیادہ کسی کا چہرہ میرے نزدیک برا نہ تھا آپ ﷺ میرے نزدیک میرے اسلام لانے سے پہلے سب سے زیادہ برے تھے اور اب اسلام لانے کے بعد آپ ﷺ کا چہرہ مبارک تمام چہروں سے زیادہ محبوب ہے، یعنی آپ ﷺ میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور پیارے ہوگئے ہیں، خدا کی قسم آپ ﷺ کے دین سے زیادہ کسی کا دین میرے نزدیک برا نہیں تھا، اور اب آپ ﷺ کا دین سب دینوںسے زیادہ محبوب ہوگیا ہے ،خدا کی قسم کوئی شہر آپ ﷺ کے شہر سے زیادہ مجھے برا معلوم نہیں ہوتا تھا، اور اب آپ ﷺ کا شہر تمام شہروں سے مجھے زیادہ پسند ہے۔
Comments
Post a Comment