Skip to main content

عقیدہ عالم کی تردید


فلاسفہ کہتے ہیں کہ عالم قدیم ہے، اور وہ علت موجبہ بزاتہٖ،اس طرح صادر ہو اہے ،کہ پہلے ایک عقل صادر ہوئی ،حتٰی کہ دس عقلیں اور نو نفس ظہور میں آگئے ۔یہ لوگ عقل کو نر اور نفس کو مادہ کا مقام قرار دیتے ہیں ۔ان لوگوں کا قول عقلاً وشرعاً مشرکین عرب اور اہل کتاب کے قول سے بھی زیادہ فاسد ہے۔اس قول کے فسادو بطلان پر قرآن کی دلالت زیادہ بلیغ و صریح ہے ،اور اس کے کئی وجوہ ہیں ۔
1۔ یہ لوگ قدم افلاک کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ روحانیت (عقول والفس)بھی قدیم ہیں جنھیں وہ ثابت کرتے ہیں ،اور مجردات ،مفارقات اور جواہر عقلیہ سے موسوم کرتے ہیں ۔اور اسے قدیم ازلی مانتے ہیں ۔اور جو چیز قدیم ازلی ہو وہ کسی صورت سے مفعول نہیں ہو سکتی ،اور مفعول وہی چیز ہو سکتی ہے جو حادث ہو ،اور یہ قضیہ جمہور عقلاء کے نزدیک بداہت کا حکم رکھتا ہے ۔پہلے زمانے اور پچھلے کے فلاسفہ اور ساری قومیں اسی عقیدے پر ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ تمام امتیں ،ہر ممکن کو خواہ وہ موجود ہو یا غیر موجود ،حادث قرار دیتی ہیں ۔
متاخرین کی ایک جماعت مثلاً ''ابن سینا'' اور ان کے ہم خیال لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ایسے ممکن کا وجود بھی ہے جو قدیم معلول ہو۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ فلک قدیم ہے اور ایک علت قدیم کا معلول ہے ۔قدیم فلاسفہ میں سے بعض کہتے ہیں کہ فلک حادث ہے اور جمہور فلاسفہ قدیم اسی طرف گئے ہیں ۔یہ اور نیزارسطو سے پہلے کے فلاسفہ اہل مذاہب کے موافق ہیں ۔ارسطو اور اس کے ہم خیال جو فلک کو قدیم مانتے ہیں ،کہتے ہیں کہ فلک کے لیے علت فاعلہ نہیں ،بلکہ علت غائیہ ؎ٰہے جس سے فلک بطور اشتباہ منسوب ہے اور عقول ونفوس ثابت کرتے ہیں ۔وہ فلک کی جنس سے ہیں اور یہ سب خودبخود قدیم اور واجب الوجود ہیں ۔اگر چہ ان کے لیے علت غائیہ ہے ،اور یہ لوگ متاخرین کی نسبت زیادہ کافر ہیں۔ان لوگوں کا قول متاخرین کے قول سے مختلف ہے ۔
2۔ یہ کہتے ہیں کہ پروردگار ایک ہے ،اورایک سے صرف ایک چیز صادر ہو سکتی ہے ۔پروردگا ر کے ایک ہونے سے ان کی مراد یہ ہے کہ اس کے لیے ہرگز کوئی صفت ثبویہ (صفت قدیمہ) نہیں ہے اور نہ اس میں متعدد معنی سمجھے جاتے ہیں ۔کیونکہ اس سے انکے نزدیک ترکیب لازم آتی ہے ۔اسی لیے وہ کہتے ہیں ،کہ وہ فاعل اور قابل(فعل) نہیں ہو سکتا۔کیونکہ فعل، انفعال ،دو متغائر صفات ہیں ۔ان سے تعدد صفت اور تعدد صفت سے ترکیب لازم آتی ہے بایں ہمہ ،وہ خود اللہ کو عاقل ،معقول ،عقل ،عاشق، معشوق، لذیذ، ملتذ(لذت گیر) اور لذت وغیرہ متعدد حقیقتیں مانتے ہیں ۔اور کہتے ہیں کہ ان صفات میں سے ہر ایک صفت کی حیثیت دوسری ہے اور صفت ہی موصوف اور علم ہے ،وہی قدرت اور وہی ارادہ اور علم ہے ،وہی اور وہی قادر ہے اور متاخرین میںسے بعض کہتے ہیں کہ علم ہی معلوم ہے ۔جب کوئی عقلمند ان کے اقوال پر کماحقہ غور کرتا ہے ،تو جس ایک کو وہ ثابت کرتے ہیں اس کا وجود ذہنوں میں تو متصور ہو سکتا ہے لیکن اعیان میں ثابت نہیں ہو سکتا ۔دوسرے مقام پر اس کے ساتھ بحث ہو چکی ہے ۔
۱؎ علت فاعلہ، وہ علت ہے جو اپنے معلول کو پیدا کرے اور اس کے لئے تقدم لازمی ہے۔ مثلا اللہ کائنات کی علت فاعلہ ہے، عالت غائبہ وہ ہوتی ہے جو اپنے معلول کو پیدا نہیں کرتی اور نہ اس میں سے معلول کا صدور ہوتا ہے بلکہ اشتباہ وہ معلول کی علت مانی جاتی ہے مثلاً پانی کا گھڑا معلول ہے اور انسان کی پیاس اس کی علت لیکن ظاہر ہے کہ انسان کی پیاس گھڑے کی خالق و فاعل نہیں۔ اس لئے یہ علتِ فاعلہ نہیں بلکہ علت غائبہ کہلائے گی۔ (مترجم)۔
توحید و صفات کے متعلق جو کچھ وہ کہتے ہیں اور ترکیب کے متعلق جو ان کو لاحق ہوا ہے اس کا بطلان کئی وجوہ سے واضح کیا جا چکا ہے اور یہ صورت ہو تو جس اصل پر انہوں نے اس قول کی بنیاد رکھی ہے کہ ایک چیز سے ایک چیز صادر ہو سکتی ہے وہی باطل ٹھہرتی ہے۔
3۔ ان کا یہ قول بھی نہایت فاسد ہے کہ ایک بسیط سے اشیاء صادر ہوں جن میں کثرت و حدوث عام ہو۔
4۔ عالم میں کوئی واحد بسیط وجود معلوم نہیں ہوا جس سے ایک سے زیادہ تو کیا وجود بھی صادر ہو سکے۔ سو اس دعویٰ کلیہ کا بھی مطلقاً کوئی ثبوت نہیں۔
5۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ایک وجود صادر ہوا اور اس سے عقل اور فلک صادر ہوئے۔
اگر ایک سے صرف ایک کے صدور کا کلمہ صحیح ہے تو اس ایک سے بھی صرف صادر ہو سکتا ہے، پس یہ ماننا پڑے گا کہ جہاں میں جو کچھ موجود ہے واحد ہی کے طریق پر ظہور پذیر ہوا ہے اور یہ ہٹ دھرمی ہے، اور اگر یہ مانا کہ صادرِ اول میں کسی طرح کی کثرت موجود ہے، تو یہ ماننا پڑے گا کہ اول (اللہ) ایسی چیز صادر ہوئی ہے جو'' من کل الوجوہ'' نہیں ہے بلکہ اس میں کثرت ہے۔
سووا سے غیر واحد صادر ہوا۔ اس لئے متاخرین فلاسفہ کا قول مضطرب ہو گیا۔ ابوالبرکات صاحب ''معتبر'' نے اس قول کو باطل قرار دیا اور اس کی سخت تردید کی ہے۔ ابن رشد الحفید کا دعویٰ ہے کہ فلک اور اس میں جو کچھ مخلوق ہے، وہ اول (اللہ) سے صادر ہوتے ہیں، اور وزیر الملاحدہ 1''طوسی'' کا قول بھی قریباً یہی ہے، وہ اللہ کو ثانی کی اور ثانی کو ثالث کی شرط قرار دیتا ہے۔ البتہ اس گمراہی میں سارے متفق ہیں کہ جواہر خود بخود قائم اور رب کے ساتھ ازلی ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اللہ کے ساتھ تھے اور ہمیشہ اسی کے ساتھ رہیں گے۔ لیکن یہ بھی مانتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب یہ جواہر موجد نہ تھے۔ ''طوسی'' نے فلک کو بھی قدیم اور ازلی قرار دیا ہے۔ اور یہی ایک بات عقل کے صریح خلاف ہے اور شریعت ِ رسل سے کفر کے لئے کافی ہے چہ جائیکہ اس کے ساتھ اس کے دیگر اقوال بھی شامل کئے جائیں جو عقل و نقل کے صریح مخالف ہیں۔
1۔ مصنف رحمہ اللہ ''سلیم النظیر'' کمالات علمی کے علاوہ دینی غیرت و حمیت کا بھی ایک نہایت عظیم الشان پیکر تھے۔ نصیر الدین طوسی چونکہ ہلاکو خان کے مشیر خاص تھے اس لئے مصنف رحمہ اللہ ہر موقع پر طوسی کو وزیر الملاحدہ لکھتے ہیں۔
6۔ دنیا میں جس قدر چیزیں معلوم ہیں وہ دو سے صادر ہوئی ہیں۔ تنہا ایک چیز سے کچھ صادر نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس کا ذکر متولدات اعیان و اعراض کے باب میں آچکا ہے۔ گرم چیز سے گرمی کا، سرد چیز سے سردی کا اور سورج سے شعاع کا صدور ہوتا ہے لیکن یہ اعراض کا صدور ہوتا ہے لیکن یہ اعراض کا صدور ہوتا ہے، اور اس کے باوجود اس کے لئے دو اصلوں کا ہونا ضروری ہے۔ اعیان کا کسی دوسری چیز سے صادر ہونا تو ولادتِ معرفہ کے بغیر ممکن ہی نہیں ہو سکتا اور اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اصل کی ایک جز علیحدہ ہو کر نئی چیز متولد ہو، اور یہ لوگ اس امر کے مدعی ہیں کہ عقول، نفوس اور افلاک اس طرح کے صدور، تولد اور معلومیت کا نتیجہ ہیں اور یہ سب چیزیں جواہر ہیں جو خودبخود قائم ہیں اور ایک جوہر بسیط سے صادر ہوئے ہیں۔ یہ ایسا قول ہے کہ صدور و تولد کے باب میں جس قدر اقول منقول ہیں ان میں سے کوئی بھی اس درجہ باطل نہیں کیونکہ اس میں ایک کے متعدد جواہر کے صدور کا دعویٰ کیا گیا ہے اور یہ بات عقل کے خلاف ہے۔ میں اصل سے کسی حصے کی علیحدگی و انفصال کے بغیر ہی صدور مانا گیا ہے اور یہ بھی غیر معقول ہے، ان کے پاس لے دے کر دلائل کا اگر ذخیرہ ہے تو یہ ہے کہ وہ اس صدور کو سورج کی شعاع اور ہاتھ کی حرکت سے انگشتری کی حرکت وغیرہ اغراض کے حدوث سے تشبیہ دیتے ہیں، حالانکہ یہ تمثیل باطل ہے کیونکہ یہ علت فاعلہ نہیں ہے بلکہ محض شرط ہے اور وہاں بھی صادر ہونے والی چیز ایک بصل سے نہیں بلکہ سے صادر ہوئی ہے نیز صادر عرض ہے، نہ کہ جوہر جو خود بخود قائم ہو۔
پس معلوم ہوا کہ جس تولد عقلی کا وہ دعویٰ کرتے ہیںوہ تولد و صدور کے باب میں بعید ترین امور میں سے ہے۔ یہ قول نصاریٰ اور مشرکین عرب کے قول سے بھی زیادہ لغو ہے۔ مؤخر الذکر جماعتیں تو اللہ کی مفعولات (مخلوقات) کو بمنزلہ ایک صفت ازلی کے قرار دیتی ہیں، جو اس کی ذات کے لئے لازم ہے۔ اور ہم ذکر کر چکے ہیں کہ ان کو اللہ سے متولد کہنا ممتنع ہے، اس کے باوجود وہ ان لوگوں سے زیادہ کافر ہیں، کیونکہ وہ عقول، نفوس اور کواکب کو معبود مانتے ہیں، ان میں سے اہل مذہب بہتر ہیں، ان میں سے بعض ملکی ہیں جو کہتے ہیں کہ ملائکہ کسی چیز سے متولد ہیں، اہل عرب اور عوام نصاریٰ بھی ان فلاسفہ ملاحدہ سے بہتر ہیں کیونکہ اولی الذکر ولادت حسی ثابت کرتے ہیں۔ اللہ کا ''صمد'' ہونا ان کے قول کو باطل قرار دیتا ہے، لیکن ان کے ثبوت میں معقولیت کا کچھ شائبہ تو ہے، اور فلاسفہ تو تولد وعقلی کا دعویٰ کرتے ہیں جو من کل الوجوہ باطل ہے اور نصاریٰ کے اس دعویٰ سے بھی زیادہ مردود ہے کہ کلمہ ذات سے متولد ہے۔ سو ان کا دعویٰ مؤخر الذکر کے دعویٗ کی نسبت زیادہ مستحق تردید ہے۔ کیونکہ جب امر محال کا امتناع خارج میں مسلم ہو تو خار میں اس کا موجود ہونا متصور ہی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ خارج میں اس کا وجود نہیں، اور یہ ممکن ہے کہ بعض اعتبارات سے اس کی کوئی نظیر موجود ہو تو اس کے لئے وجود خارجی فرض کیا جائے، جس سے اس کو تشبیہ دی جائے۔ مثلاً جب اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود شریک فرض کیا جائے اور مان لیا جائے کہ اللہ کا کوئی بیٹا بیٹی ہے تو اسے بندوں میں سے اس شخص کے ساتھ تشبیہ دی جائے گی جو صاحب اولاد ہو اور جس کا بندوں ہی میں سے کوئی شریک ہو۔
اس کے بعد بیان کیا جائے گا کہ ان امور کا اللہ تعالیٰ سے منسوب ہونا ممتنع ہے۔ سو محالات میں سے جو محال مشابہت موجود سے بعید تر ہو گا، وہ زیادہ محال ہو گا اور جس ولادت کا دعویٰ نصاریٰ نے اور پھر ان فلاسفہ نے کیا ہے وہ اس ولادت کی نسبت جس کے مدعی عرب بعض مشرکین، عوام نصاریٰ اور یہود ہیں، ولادتِ معلومہ کی مشابہت سے بعید تر ہے اس لئے یہ ولادتِ عقلی اس ولادت حسی کی نسبت محال تر ہے کیونکہ ولادتِ حسیہ ان وجودوں میں جو خودبخود قائم ہوں، عقل کے موافق ہے۔ اور ولادتِ عقلیہ ایسی صورت میں قطعاً خلافِ عقل ہے، علاوہ ازیں وہ لوگ (نصاریٰ اور مشرکین عرب) ولادت دو اصلوں سے ثابت کرتے ہیں اور یہ ولادت عقل کے مطابق ہے اور یہ لوگ فلاسفہ ایک اصل سے ولادت کو مانتے ہیں۔ وہ (نصاریٰ و مشرکین عرب) کہتے ہیں کہ ولادت اس وقت ہوتی ہے جب ایک حصہ علیحدہ ہو اور یہ معقول بات ہے اور یہ (فلاسفہ) کہتے ہیں کہ ولادت اس کے بغیر ہوتی ہے اور یہ بات عقل کے خلاف ہے۔
وہ (نصاریٰ و مشرکین عرب) اعیان سے اعیان کی ولادت کے اصول پر ولادت ثابت کرتے ہیں اور یہ (فلاسفہ) اعیان سے اعراض کی ولادت کے اصول پر دلالت ثابت کرتے ہیں۔ سو معلوم ہوا کہ ان لوگوں (نصاریٰ و مشرکین عرب) کا قول عقل سے قریب تر ہے اگرچہ وہ باطل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی خرابی بیان کر دی ہے اور اس کو ناپسند فرمایا ہے۔ اور ان (فلاسفہ) وغیرہ کا قول زیادہ بطلان ہے۔ اس کی وہی مثال ہے کہ ایک شخص اللہ کے علاوہ کسی مخلوق کو شفیع اور معبود بناتا ہے وہ کافر ہے لیکن جو شخص کسی چیز کو اللہ کے علاوہ قدیم قرار دے کر اس کی عبادت کرتا ہے اور اسے شفیع بناتا ہے وہ کفر کا زیادہ مستحق ہے۔ اور جس نے معاد (قیامت) کا انکار بھی کیا ہو، اور ساتھ ہی عالم کو حادث مانا، کافر تو اللہ نے اسے بھی فرمایا ہے، لیکن جو شخص معاد کا بھی منکر ہو اور اس عالم کو بھی قدیم مانے وہ عنداللہ اکفر ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے جہاں اپنی امت کو اہل فارس اور نصارائے روم کی مشابہت سے منع فرمایا وہاں آپ ﷺ نے مشرکین یونان اور مشرکین ہند کی مشابہت سے زیادہ شدت کے ساتھ منع فرمایا۔ 

Comments

Popular posts from this blog

Yusufzai (Pashtun tribe)

The  Yūsufzai  (also  Youssofzay ,  Yousefzai ,  Yousafzai ,  Esapzey ,  Yousufi , or  Yūsufi ) (Pashto:  يوسفزی ,Persian and Urdu:  یوسف زئی ) is one of the largest Pashtun (Afghans) tribes. The majority of the Yusufzai tribe reside in parts of Western Afghanistan, Khyber Pakhtunkhwa and Provincially Administered Tribal Areas near the Afghan-Pakistan border. They are the predominant population in the districts of Konar, Ningarhar, Mardan District, Dir, Swat,Malakand, Swabi, Buner, Shangla, Haripur District [Khalabat Town Ship and Tarbela] and in Mansehra and Battagram. There is also a Yusufzai clan of Dehwar tribe in the Mastung district of Balochistan who speak Persian with some mixture of Birahvi words. The descendants of Yusuf inhabit Konar, Jalalabad, Swat, Upper Dir, Lower Dir, Malakand Swabi and Mardan. The begotten tribe of  Yusufzai' s are the Utmanzai having 3 major subdivions Alizai, Akazai and Kanazai, of Tarbela (now live in Khalabat Town Ship, District

رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم

  رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم  قرآن مجید میں پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مختلف صفات کا ذکر آیا ہے،  یہ تمام صفات اپنی جگہ اہم ہیں اور آپ کے محاسن کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم صفت یہ ہے کہ آپ کو تمام عالم کے لئے رحمت قرار دیا گیا،  وما أرسلنٰک الا رحمۃ للعالمین (الانبیاء : ۱۰۷)  —– اس تعبیر کی و سعت اور ہمہ گیری پر غور فرمائیے کہ آپ کی رحمت مکان و مقام کی وسعت کے لحاظ سے پوری کائنات کو شامل ہے اور زمانہ و زمان کی ہمہ گیری کے اعتبار سے قیامت تک آنے والے عرصہ کو حاوی ہے، یہ کوئی معمولی دعویٰ نہیں، اور شاید ہی تاریخ کی کسی شخصیت کے بارے میں ایسا دعویٰ کیا گیا ہو، یہ دعویٰ جتنا عظیم ہے اسی قدر واقعہ کے مطابق بھی ہے،  آپ کی رحمت کا دائرہ یوں تو پوری کائنات تک وسیع ہے، زندگی کے ہر گوشہ میں آپ کا اسوہ رحمت کا نمونہ ہے، لیکن اس وقت انسانیت پر آپ کی رحمت کے چند خاص پہلوؤں پر روشنی ڈالنا مقصود ہے ۔ ان میں پہلی بات یہ ہے کہ آپ نے انسانیت کو وحدت الٰہ کا تصور دیا، خدا کو ایک ما ننا بظاہر ایک سادہ سی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن بمقابلہ الحاد و انکار اور شرک و مخلوق پر

عشرة ذوالحجہ

 *✨عشرة ذوالحجہ* *✨مختصر تعارف * 🌿 ذوالحجہ کا پہلا عشره نیکیوں اور اجر و ثواب کے اعتبار سے عام دنوں کے مقابلے میں بہت اہم ہے، جس کی فضیلت قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن مجید میں الله سبحانه و تعالیٰ نے ان دس دن کی قسم کھائی ہے۔ *🌿 وَالْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ*   "قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی" (الفجر : 2-1)  اکثر مفسرین کے نزدیک *’’لَیَالٍ عَشْرٍ‘‘* سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ ان دس دنوں میں کئے جانے والے اعمال الله تعالیٰ کو دیگر دنوں کی نسبت زیاده محبوب ہیں۔ 🌿 رسول الله ﷺ نے فرمایا : "کسی بھی دن کیا ہوا عمل الله تعالیٰ کو ان دس دنوں میں کئے ہوئے عمل سے زیاده محبوب نہیں ہے،  انہوں (صحابہ ؓ) نے پوچھا : اے الله کے رسول ﷺ، جہاد فی سبیل الله بھی نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : "جہاد فی سبیل الله بھی نہیں ہاں مگر وه شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے۔" (سنن ابوداؤد) 🌿 عبدالله ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : "کوئی دن الله تعالیٰ کے ہاں ان دس دنوں سے زیاده عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل الله تعالیٰ