Skip to main content

Posts

Showing posts from December, 2014

محبت ِرسولﷺ

بسم اللہ الرحمن الرحیم اللھم انی اسئلک حبک وحب من یحبک والعمل الذی یبلغنی حبک اللھم اجعل حبک احب الی من نفسی ومالی واھلی ومن المآء البارد والصلوۃ والسلام علی حبیب اللہ والہ واتباعہ الی یوم الدین۔ امابعد! فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیمط وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ۝۰ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا۝۶۹ۭ (النساء:۶۹) ''جن لوگوں نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوںگے، جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا: یعنی نبیوں کے ساتھ اور سچے لوگوں کے ساتھ، اورشہیدوں کے ساتھ ، اور نیک لوگوں کے ساتھ، اور یہ بہترین ساتھی ہیں۔''اس آیت کریمہ کا شان نزول یہ ہے، کہ ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کے پاس تشریف لائے ا ورعرض کرنے لگے یا رسول اللہ! میں آپ ﷺ کو اپنی جان اور بال بچوں سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں، جب میں گھر میں بال بچوں کے ساتھ ہوتا ہوں اور آپﷺ کو یاد کرتا ہوں، تو جب تک آپﷺ کو دیکھ نہیں لیا تب تک مجھے قرار نہیں آتا، ت

اتباع سنت کی خوبی

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ الذی سھل اسباب السنۃ المحمدیۃ لمن اخلص لہ واناب وسلسل مواردھا النبویۃ لمن تخلق بالسنن والاداب۔ واشھدان لاالہ الا اللہ شھادۃ تنقذ قائلھا من ھول یوم الحسابط واشھدان سیدنا محمد اعبدہ ورسولہ الذی کشف لہ الحجاب وخصہ بالاقتراب ﷺ وعلی الال والاصحاب والانصار والاحزاب ط اما بعد: فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم ط بسم اللہ الرحمن الرحیمط يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۱۰۲ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۝۰۠ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۝۰ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ۝۱۰۳ (آل عمران:۱۰۲۔۱۰۳) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مومنوں کو مخاطب کر کے فرمایا ہے: اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ہی ڈرو، جتنا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے، دیکھو مرتے دم تک

روح القدس کی تعبیرات

روح القدس ،جمہور مفسرین کے نزدیک حضر ت جبرئیل ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتَابَ وَقَفَّیْنَاہُ مِنْ بَعْدِہٖ بِالرُّ سُلِ وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرَیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۔(پارہ:1۔ع:11) اور البتہ ہم نے موسٰی علیہ السلام کو کتاب دی ،اس کے بعد پے در پے پیغمبر بھیجے ۔اور ہم نے عیسٰے ابن مریم کو کھلے کھلے معجزے دیے اور پاک روح یعنی جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے سے ہم نے اس کی تائید کی ۔ جمہور مفسرین کے نزدیک ''روح القدس '' حضرت جبرئیل ہیں ،ابن عباس رضی اللہ عنہ ،اضحاک اسدی وغیرہ کا قول یہی ہے ،اور اس قول کی دلیل یہ ہے : وَاِذَابَدَّلْنَا اَٰۃً مَّکَانَ ایَۃٍ وَّاﷲُ اَعْلَمُ مُفْتَرٍ بَلْ اَکْثُرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ قُلْ اَنَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ۔ (پارہ:14۔ع:2) اور جب ہم کسی آیت کی جگہ کوئی دوسری آیت بدل کر لاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے منزلات کی حکمت ومصلحت سے خوب واقف ہوتا ہے مگروہ کہتے ہیں کہ توافتراپرداز ہ

عقیدہ عالم کی تردید

فلاسفہ کہتے ہیں کہ عالم قدیم ہے، اور وہ علت موجبہ بزاتہٖ،اس طرح صادر ہو اہے ،کہ پہلے ایک عقل صادر ہوئی ،حتٰی کہ دس عقلیں اور نو نفس ظہور میں آگئے ۔یہ لوگ عقل کو نر اور نفس کو مادہ کا مقام قرار دیتے ہیں ۔ان لوگوں کا قول عقلاً وشرعاً مشرکین عرب اور اہل کتاب کے قول سے بھی زیادہ فاسد ہے۔اس قول کے فسادو بطلان پر قرآن کی دلالت زیادہ بلیغ و صریح ہے ،اور اس کے کئی وجوہ ہیں ۔ 1۔ یہ لوگ قدم افلاک کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ روحانیت (عقول والفس)بھی قدیم ہیں جنھیں وہ ثابت کرتے ہیں ،اور مجردات ،مفارقات اور جواہر عقلیہ سے موسوم کرتے ہیں ۔اور اسے قدیم ازلی مانتے ہیں ۔اور جو چیز قدیم ازلی ہو وہ کسی صورت سے مفعول نہیں ہو سکتی ،اور مفعول وہی چیز ہو سکتی ہے جو حادث ہو ،اور یہ قضیہ جمہور عقلاء کے نزدیک بداہت کا حکم رکھتا ہے ۔پہلے زمانے اور پچھلے کے فلاسفہ اور ساری قومیں اسی عقیدے پر ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ تمام امتیں ،ہر ممکن کو خواہ وہ موجود ہو یا غیر موجود ،حادث قرار دیتی ہیں ۔ متاخرین کی ایک جماعت مثلاً ''ابن سینا'' اور ان کے ہم خیال لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ایسے ممکن کا وجود بھ

کفار عرب و مشرکین یونان و ہند و تاتار کا مقابلہ

علی ھٰذا القیاس بعض مسلمانوں میں یہود و نصاریٰ اور اہل فارس و روم کی جو مشابہت سرایت کر گئی وہ اللہ اور رسول ﷺ کے نزدیک مذموم ہے۔ لیکن جن مسلمانوں میں اہل یونان، اہل ہند اور مشرکین تاتار کی رسوم دخل حاصل کر چکی ہیں، وہ بطریق اولیٰ مذموم ہیں، کیونکہ اہل کتاب اور اہل فارس و روم کی نسبت مؤخر الذکر لوگ اسلام سے زیادہ بعید ہیں، جن اقوام کفر و شرک سے اواخر مسلمین کو سابقہ پڑا ہے وہ ان اقوام سے بدتر ہیں، جن سے اوئل مسلمین کو مقابلہ درپیش تھا، کیونکہ مسلمین سلف علم اور دین کے لحاظ سے فائق تھے، سو جب کفار کا مقابلہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتا تھا جو ان سے علم اور دین میں افضل تھے تو وہ مسلمانوں سے لا محالہ مغلوب ہو جاتے تھے، متاخرین اسلام بھی اس امر کے باوجود کہ وہ اپنے اسلاف کی نسبت ناقص تر تھے، ان لوگوں سے گوے سبقت لے جایا کرتے تھے، لیکن جب پچھلے زمانے کے مسلمانوں میں بدعات کی کثرت ہو گئی تو کفار نے چاروں طرف سے یورش شروع کر دی اور ان کے دین میں وساوس و التباسات پیدا کر دیئے، اسی لئے ان لوگوں کے نزدیک دوسرے کفار کی نسبت فلاسفہ کا شبہ زیادہ بڑا تھا، جس طرح اہل زمان کے لئے کفار تاتار کے خلاف