روح القدس ،جمہور مفسرین کے نزدیک حضر ت جبرئیل ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتَابَ وَقَفَّیْنَاہُ مِنْ بَعْدِہٖ بِالرُّ سُلِ وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرَیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۔(پارہ:1۔ع:11)
اور البتہ ہم نے موسٰی علیہ السلام کو کتاب دی ،اس کے بعد پے در پے پیغمبر بھیجے ۔اور ہم نے عیسٰے ابن مریم کو کھلے کھلے معجزے دیے اور پاک روح یعنی جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے سے ہم نے اس کی تائید کی ۔
جمہور مفسرین کے نزدیک ''روح القدس '' حضرت جبرئیل ہیں ،ابن عباس رضی اللہ عنہ ،اضحاک اسدی وغیرہ کا قول یہی ہے ،اور اس قول کی دلیل یہ ہے :
وَاِذَابَدَّلْنَا اَٰۃً مَّکَانَ ایَۃٍ وَّاﷲُ اَعْلَمُ مُفْتَرٍ بَلْ اَکْثُرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ قُلْ اَنَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ۔ (پارہ:14۔ع:2)
اور جب ہم کسی آیت کی جگہ کوئی دوسری آیت بدل کر لاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے منزلات کی حکمت ومصلحت سے خوب واقف ہوتا ہے مگروہ کہتے ہیں کہ توافتراپرداز ہے ۔حق بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر خود بے علم ہیں ۔اے رسول ان سے کہو کہ اسے روح القدس نے تیرے پروردگار کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو مضبوط کرے اور یہ مسلمانوں کے لیے ہدایت وبشارت ہے ۔
اضحاک نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ،کہ ''روح القدس '' ایک ''اسم'' ہی جس سے عیسٰے علیہ السلام مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے۔عبدالرحمٰن ابن زید بن اسلم سے مروی ہے کہ ''وہ انجیل ہے '' ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
اَوُلٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَ ھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ۔(پارہ:27۔ع:3)
یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان نقش کردیا اوراپنی روح سے ان کی تائید کی ۔
وَکَذَالِکَ اَوْحَیْنَااِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا،مَاکُنْتَ تَدْرِیْ مَالْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰکِنْ جَعَلْنَاوُ نُوْرًانَّھْدِیْ بِہٖ مَنْ انَعَآمُ مِنْ عِبَادِنَا۔(پارہ:25۔ع:6)
اور اسی طرح ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے ایک روح وحی کی تجھے تو اتنا بھی معلوم نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کس حقیقت کا نام ہے ؟ لیکن ہم اس روح یعنی قرآن کو ایک نور بنایا جس کے ذریعے سے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ، راہ ہدایت دکھاتے ہیں۔
یُنَزِّلُ الْمَلٰئِکَۃَ بِالرُّحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَائُ مِنْ عِبَادِہٖ۔(پارہ:14۔ع:4)
وہ اپنے حکم سے فرشتوں کو وحی دے کر اپنے بندوں میں سے جس کے پاس چاہتا ہے بھیجتا ہے ۔
سو اللہ تعالیٰ جو چیز اپنے انبیاء کے قلوب میں نازل کرتا ہے اور جو ایمان خالص سے ان کے دلوں کو زندہ کرتی ہے اس کا نام اس بزرگ وبرتر ذات نے ''روح'' رکھا ہے ،اور وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تائید کیوں نہ کرتا اور مسیح علیہ السلام تو جمہور انبیاء ورسل کی نسبت اس تائید کی زیادہ مستحق ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے :
تَلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ ۔مِّنْھُمْ مَّنْ کَلَّمَ اﷲُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجَاتِ وَاٰتَیْنَا عِیْسٰی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَاَیَّدْنَاہُ بِرُوُحِ الْقُدُسِ۔(پارہ:3۔ع:1)
ان رسولوں میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ،ان میں سے بعض کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اور بعض کے درجات بلند کیے اور عیسٰے ابن مریم کو ہم نے کھلے کھلے معجزے دیے اور پاک روح کے ساتھ اس کی تائید کی ۔
زجاج نے اس تائید کی تین صورتیں بیان کیں ،ایک یہ کہ اس نے اپنے امر اور اپنے دین کے اظہار کے لیے مسیح علیہ السلام کی تائید کی ۔دوسرے یہ کہ جب بنی اسرائیل نے مسیح کے قتل کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے بچانے میں مدد کی ۔تیسرے یہ کہ مسیح کے جمیع حالات میں اس کی تائید فرمائی۔
یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ ''ابن'' کا لفظ ان کی نسبت میں مسیح کے ساتھ مختص نہیں ہے ۔ بلکہ ان کی رائے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توراۃ میں اسرائیل سے بھی کہا ہے کہ تو میرا اولین بیٹا ہے ،اور مسیح علیہ لسلام فرمایا کرتے تھے،''میرا باپ اور تمہارا باپ ''اس سے ثابت ہو تا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو سارے لوگوں کا باپ بناتے تھے اور جس طرح اپنے آپ کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے ،اسی طرح دوسروں کوبھی کہتے تھے ۔سو معلوم ہوا کہ مسیح علیہ السلام کو اس باب میں کوئی خصوصیت حاصل نہیں ہے لیکن نصارٰی تو یہ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا طبعی بیٹا ہے اور دوسرا جو شخص بھی ہے ،وہ اس کا وضعی بیٹا ہے ۔حالانکہ ان کے پاس یہ فرق قائم کرنے کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ہے مزید براں مسیح علیہ السلام کو طبعی بیٹا قرار دینے سے بعض حالات عقلی وسمعی لازم آتے ہیں جن سے اس قول کا بطلان بالصراحت معلو م ہو جاتا ہے ۔
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتَابَ وَقَفَّیْنَاہُ مِنْ بَعْدِہٖ بِالرُّ سُلِ وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرَیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۔(پارہ:1۔ع:11)
اور البتہ ہم نے موسٰی علیہ السلام کو کتاب دی ،اس کے بعد پے در پے پیغمبر بھیجے ۔اور ہم نے عیسٰے ابن مریم کو کھلے کھلے معجزے دیے اور پاک روح یعنی جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے سے ہم نے اس کی تائید کی ۔
جمہور مفسرین کے نزدیک ''روح القدس '' حضرت جبرئیل ہیں ،ابن عباس رضی اللہ عنہ ،اضحاک اسدی وغیرہ کا قول یہی ہے ،اور اس قول کی دلیل یہ ہے :
وَاِذَابَدَّلْنَا اَٰۃً مَّکَانَ ایَۃٍ وَّاﷲُ اَعْلَمُ مُفْتَرٍ بَلْ اَکْثُرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ قُلْ اَنَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ۔ (پارہ:14۔ع:2)
اور جب ہم کسی آیت کی جگہ کوئی دوسری آیت بدل کر لاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے منزلات کی حکمت ومصلحت سے خوب واقف ہوتا ہے مگروہ کہتے ہیں کہ توافتراپرداز ہے ۔حق بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر خود بے علم ہیں ۔اے رسول ان سے کہو کہ اسے روح القدس نے تیرے پروردگار کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو مضبوط کرے اور یہ مسلمانوں کے لیے ہدایت وبشارت ہے ۔
اضحاک نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ،کہ ''روح القدس '' ایک ''اسم'' ہی جس سے عیسٰے علیہ السلام مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے۔عبدالرحمٰن ابن زید بن اسلم سے مروی ہے کہ ''وہ انجیل ہے '' ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
اَوُلٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَ ھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ۔(پارہ:27۔ع:3)
یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان نقش کردیا اوراپنی روح سے ان کی تائید کی ۔
وَکَذَالِکَ اَوْحَیْنَااِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا،مَاکُنْتَ تَدْرِیْ مَالْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰکِنْ جَعَلْنَاوُ نُوْرًانَّھْدِیْ بِہٖ مَنْ انَعَآمُ مِنْ عِبَادِنَا۔(پارہ:25۔ع:6)
اور اسی طرح ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے ایک روح وحی کی تجھے تو اتنا بھی معلوم نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کس حقیقت کا نام ہے ؟ لیکن ہم اس روح یعنی قرآن کو ایک نور بنایا جس کے ذریعے سے ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ، راہ ہدایت دکھاتے ہیں۔
یُنَزِّلُ الْمَلٰئِکَۃَ بِالرُّحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَائُ مِنْ عِبَادِہٖ۔(پارہ:14۔ع:4)
وہ اپنے حکم سے فرشتوں کو وحی دے کر اپنے بندوں میں سے جس کے پاس چاہتا ہے بھیجتا ہے ۔
سو اللہ تعالیٰ جو چیز اپنے انبیاء کے قلوب میں نازل کرتا ہے اور جو ایمان خالص سے ان کے دلوں کو زندہ کرتی ہے اس کا نام اس بزرگ وبرتر ذات نے ''روح'' رکھا ہے ،اور وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تائید کیوں نہ کرتا اور مسیح علیہ السلام تو جمہور انبیاء ورسل کی نسبت اس تائید کی زیادہ مستحق ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے :
تَلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ ۔مِّنْھُمْ مَّنْ کَلَّمَ اﷲُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجَاتِ وَاٰتَیْنَا عِیْسٰی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَاَیَّدْنَاہُ بِرُوُحِ الْقُدُسِ۔(پارہ:3۔ع:1)
ان رسولوں میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ،ان میں سے بعض کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اور بعض کے درجات بلند کیے اور عیسٰے ابن مریم کو ہم نے کھلے کھلے معجزے دیے اور پاک روح کے ساتھ اس کی تائید کی ۔
زجاج نے اس تائید کی تین صورتیں بیان کیں ،ایک یہ کہ اس نے اپنے امر اور اپنے دین کے اظہار کے لیے مسیح علیہ السلام کی تائید کی ۔دوسرے یہ کہ جب بنی اسرائیل نے مسیح کے قتل کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے بچانے میں مدد کی ۔تیسرے یہ کہ مسیح کے جمیع حالات میں اس کی تائید فرمائی۔
یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ ''ابن'' کا لفظ ان کی نسبت میں مسیح کے ساتھ مختص نہیں ہے ۔ بلکہ ان کی رائے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توراۃ میں اسرائیل سے بھی کہا ہے کہ تو میرا اولین بیٹا ہے ،اور مسیح علیہ لسلام فرمایا کرتے تھے،''میرا باپ اور تمہارا باپ ''اس سے ثابت ہو تا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو سارے لوگوں کا باپ بناتے تھے اور جس طرح اپنے آپ کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے ،اسی طرح دوسروں کوبھی کہتے تھے ۔سو معلوم ہوا کہ مسیح علیہ السلام کو اس باب میں کوئی خصوصیت حاصل نہیں ہے لیکن نصارٰی تو یہ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا طبعی بیٹا ہے اور دوسرا جو شخص بھی ہے ،وہ اس کا وضعی بیٹا ہے ۔حالانکہ ان کے پاس یہ فرق قائم کرنے کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ہے مزید براں مسیح علیہ السلام کو طبعی بیٹا قرار دینے سے بعض حالات عقلی وسمعی لازم آتے ہیں جن سے اس قول کا بطلان بالصراحت معلو م ہو جاتا ہے ۔
Comments
Post a Comment