Skip to main content

مروجہ اسلامی بینکاری کے بارے میں سری لنکا کے علماء کا خط اور اس کا جواب

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
محترمین مکرمین حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب اور حضرت مولانا سلیمان بنوری اور حضرات اراکین شوریٰ، حفظہم اللہ ورعاہم۔امید ہے کہ مزاج بخیر ہوں گے اللہ پاک آپ حضرات کی عمر میں برکت نصیب فرمائیں اور تادیربخیر وعافیت وسلامت رکھیں۔میں بندہ رضوی بن ابراہیم اعدادیہ سے لے کر تخصص تک اس ادارہ کا تعلیم یافتہ طالب علم ہوں۔اللہ پاک نے اس بابرکت ادارے کے ذریعہ ہمیں صرف علم دین نہیں‘ بلکہ شفقت ومحبت‘ علو ہمتی اور بلند پایہ کے اخلاق وہمدردی اورباہمی اتفاق جو اس ادارے کی خاص صفات ہیں ان میں سے تھوڑا سا حصہ بھی ہمیں نصیب فرمایا ہے جس کی وجہ سے اس ادارہ کے مستفیدین سارے عالم کے اندر حسن اسلوبی اور باہمی محبت کے ساتھ دین کے مختلف شعبوں میں خدمت کررہے ہیں۔یہ سب ،اس ادارے کے بانی محدث العصرمولانا بنوری اور ان کے جانشین حضرت مولانامفتی احمد الرحمن ‘ مولانا حبیب اللہ مختار اور ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر اور دیگر اساتذہ کرام مولانا مفتی ولی حسن اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی جیسے بزرگوں کی رہبری اور دعاؤں کی برکات ہیں‘ اللہ پاک اس بابرکت ادارہ کی ہرطرح کے شرور وآفات اور نظر بد سے حفاظت فرمائے اور تاقیامت اسی مزاج کے ساتھ قائم رکھے۔امید ہے کہ آج امت مسلمہ کا جوحال ہے اس کو حضرات اساتذہ کرام مجھ سے زیادہ احساس کررہے ہیں، اور اس کے حل کے لئے لگاتار محنت اور کوشش کررہے ہیں اللہ پاک ان کوششوں کو قبول فرماکر امت کی تمام پریشانیوں کو دور فرمائے۔بندہ کی تیس سالہ دینی خدمت کے اس عرصہ میں جو چیز مجھے محسوس ہوئی وہ یہ ہے کہ علماء کرام کا آپس میں اتفاق ومحبت کے ساتھ پیش آنا عوام کے حلقوں میں بہت ہی مؤثر ہے اس میں دورائے رکھنے والے نہیں ہوسکتے‘ فی الحال اسلامک بینکنگ کے سلسلے میں اکابر کے مابین جو اختلاف ہے اوراس کے حل کے لئے جو بھی کوششیں ہیں، اللہ پاک کے یہاں سب ہی ماجور ہیں اور سب ہی کی نظر محض دین کی حفاظت اور امت کو ربا سے بچانے کی فکر ہے‘ اس سلسلے میں مولانا امداد اللہ صاحب اورمولانا عطاء الرحمن صاحب اورمولانا عاصم زکی صاحب کی محنت قابل ذکرہے، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔اس سلسلے میں ہم بنوری ٹاؤن کے فضلاء میں سے کچھ پُر خلوص رفقاء ملکر یہ عرض نامہ حضرات اساتذہ کرام کی خدمت میں حالات کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے اور اس ادارہ کے عظیم الشان مرتبہ کی حفاظت کی خاطر پیش کررہے ہیں، امید ہے کہ ملاحظہ فرمائیں گے۔اسلامی بینکاری کے مسائل گویہ بہت پہلے ۱۴۱۲ھ میں مجلس تحقیق مسائل حاضرہ کے سامنے رکھے گئے لیکن کسی وجہ سے ہمارے ادارے کے مفتیان کرام شریک نہیں تھے، لیکن جہاں تک میرا علم ہے ہم نے کبھی اس کا انکارنہیں کیا بلکہ واضح الفاظ میں دارالعلوم کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے رہے، پھر بعد میں عدم اطمینان ظاہر کیا گیا لیکن اس بینکاری کے عنوان سے ہم نے کبھی مجلس میں مسئلہ نہیں اٹھایا جیسے تصویر اور منیٰ اور بہت سے دیگر مسائل میں کیا گیا۔ عالمی طور پر اس بارے میں مختلف مشورے کئے گئے، جس میں فقہ حنفی میں مہارت رکھنے والے شیخ ابوغدہ کے رشتہ دار شیخ عبد الستار ابوغدہ اور فقہ شافعی کے ماہر شیخ وہبة الزحیلی اور فقہ مالکی کے مشہور عالم شیخ صدیق ضریر اور حنبلی مذہب کے عالم مکہ کے قاضی عبد اللہ بن سلیمان اور مفتی محمد تقی صاحب، سب نے ملکر اس بینکاری کے متعلق تفصیلی بحث کی ہے اور اس کے طریقہ کار اور ضوابط قائم کئے ہیں اور اس سلسلے میں مولانامفتی محمد تقی صاحب اور دیگر علماء کی طرف سے مختلف مقالات سامنے آتے رہے اوردنیا کے معتبر علماء کے ذریعہ اسلامک بینکنگ کے سلسلے میں ”المعاییر الشرعیة“ کے نام سے جو اصول وقواعد بیس سال کے عرصہ سے وقتا فوقتا لکھے جاتے رہے ہیں، اس کا کوئی انکار یا رد ہمارے ادارے کی طرف سے یا کسی معتبر عالمی ادارے کے ذریعہ نہیں کیا گیا اور ایک اہم چیز یہ ہے کہ اسلامی بینکاری ایک عالمی مسئلہ ہے جس کے محرک مولانا مفتی محمد تقی صاحب نہیں ہیں، بلکہ انڈیا کے علماء جمعیت علماء ہنداور دوسرے علماء اور مفکرین تقریبا چالیس سال سے بلا سود بینکاری کی محنت میں لگے ہوئے ہیں ،اب وزیر اعظم ہند نے بھی اس کے لئے ایک کمیٹی قائم کی ہے اور اس طرح مالیزیا اور سوڈان جیسے مختلف ممالک میں یہ جو نظام قائم ہے جہاں تک میرا علم ہے ان میں سے کوئی بھی مفتی محمد تقی صاحب سے رجوع نہیں کرتے۔خصوصاً ہمارے ملک میں مختلف بینکوں میں اسلامی نظام رائج ہیں، صرف ایک ادارہ میں مولانا محمد تقی صاحب سرپرست ہے باقی تکافل کے تبرع سسٹم وغیرہ کا پورا تعلق عبد الستار ابوغدہ سے ہے، مولانا محمد تقی صاحب اس کے قائل نہیں ہیں۔ان حالات میں مسئلہ کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے علماء کرام کو ایک جگہ جمع کیا جائے ،مجلس تحقیق مسائل حاضرہ کو ضرور بلایاجائے اور اس میں مختلف پہلو وٴں پر مذاکرات کئے جائیں، جس سے علماء کرام کے مابین شکوک وشبہات دور ہوں ، اتفاق اور محبت کے ساتھ کوئی رائے قائم ہوسکے اور مسئلہ مدلل اور منقح ہوکر عوام کے سامنے آجائے تاکہ عوام کے لئے فتنہ کا دروازہ نہ کھلے۔اس کے ساتھ مطلقا بغیر کسی شق کی تحدید وتعین اور قید کے اس نظام کے ناجائز ہونے کا فتویٰ اس پُر وقار ادارے سے صادر ہونا، سارے عالم میں اضطراب اور انتشار کا ذریعہ بنے گا۔ امید ہے اس پر غور فرمائیں گے اور ناجائز ہونے کے فتویٰ کے ساتھ اس کا متبادل حل بھی پیش فرمائیں گے، تاکہ امت مسلمہ سود کی لعنت سے محفوظ ہو اور جواز وعدم جواز کی تمام شقوں کو تفصیلاً فتویٰ میں ذکر فرمائیں گے۔ واجرکم علی اللّٰہ۔مندرجہ ذیل احباب اسلامی بینکاری کے سلسلہ میں لکھے ہوئے خط کے بارے میں پرزور تائید کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ آپس کی محبت کے ساتھ ہم سب سے کام لے لیں۔
رئیس جامعہ کی طرف سے خط کاجواب
عزیز القدر محترم جناب مولانا مفتی رضوی ابراہیم صاحب ودیگر فضلاء جامعہ حفظکم اللہ ورعاکم وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
دعاء ہے کہ آپ تمام حضرات بخیر وعافیت ہوں۔آپ کا مکتوب گرامی ہمیں موصول ہوا‘ آپ نے جامعہ سے متعلق اور زیر بحث مسئلے کے بارے میں جن جذبات کا اظہار فرمایا ہے وہ یقینا قابل قدر اور لائق غور وفکر ہیں، یہ بات بالکل بجا ہے کہ اہل فتویٰ کو فتویٰ دیتے وقت صورت مسئلہ کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھنا چاہئے اور اس فتویٰ کے اثرات ونتائج بھی ان کے پیش نظر ہونے چاہئیں اس کے ساتھ ساتھ اپنے اکابر کے خصوصی شعار کو بھی لازمی سمجھناچاہئے کہ کسی دینی مسئلہ کے بیان اور اظہار میں کوئی مادی مصلحت آڑے نہیں آنی چاہئے اور یہ بھی ہونا چاہئے کہ عوام الناس کے لئے دین پر عمل کرنے کو آسان سے آسان بنایا اور بتایا جائے‘ مگر شریعت کے اصل احکام میں کسی قسم کا رد وبدل نہ ہو اور ہماری کوششیں دین اسلام میں لفظی یا معنوی تحریف کی حد تک نہ پہنچیں۔بہرکیف آپ کا فکر انگیز خط میں نے دار الافتاء کے مفتی حضرات کو دیاتھا، ان حضرات نے اس کا جواب بھی لکھا ہے‘ امید ہے کہ آپ کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب آپ کی تسلی کے لئے کافی ہوگا۔ہم اپنے طور پر بھی اور دیگر اہل علم کی معاونت سے بھی اس امر پر پوری طرح کوشش کریں گے کہ اتفاق رائے کے لئے علماء کے درمیان علمی مذاکرہ ہو‘ اور مذاکرہ کو فائدہ مند بنانے کے لئے باہمی مشاورت سے اس کا ضابطہ کار بھی زیر غور لائیں گے۔اللہ تعالیٰ سے یہ دعاء کرتے رہنا چاہئے:
اللّٰہم الہمنا رشدنا واعذنا من شر انفسنا‘ واللّٰہم اجعلنا مفتاحاً للخیر ومغلاقاً للشر‘ اللّٰہم آمین۔وصلی اللّٰہ وسلم علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وبارک وسلم
فقط والسلام(ڈاکٹر) عبد الرزاق اسکندرمہتمم جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی۲۱/۱۱/۱۴۲۹ھ

Comments

Popular posts from this blog

Yusufzai (Pashtun tribe)

The  Yūsufzai  (also  Youssofzay ,  Yousefzai ,  Yousafzai ,  Esapzey ,  Yousufi , or  Yūsufi ) (Pashto:  يوسفزی ,Persian and Urdu:  یوسف زئی ) is one of the largest Pashtun (Afghans) tribes. The majority of the Yusufzai tribe reside in parts of Western Afghanistan, Khyber Pakhtunkhwa and Provincially Administered Tribal Areas near the Afghan-Pakistan border. They are the predominant population in the districts of Konar, Ningarhar, Mardan District, Dir, Swat,Malakand, Swabi, Buner, Shangla, Haripur District [Khalabat Town Ship and Tarbela] and in Mansehra and Battagram. There is also a Yusufzai clan of Dehwar tribe in the Mastung district of Balochistan who speak Persian with some mixture of Birahvi words. The descendants of Yusuf inhabit Konar, Jalalabad, Swat, Upper Dir, Lower Dir, Malakand Swabi and Mardan. The begotten tribe of  Yusufzai' s are the Utmanzai having 3 major subdivions Alizai, Akazai and Kanazai, of Tarbela (now live in Khalabat Town Ship, District

رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم

  رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم  قرآن مجید میں پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مختلف صفات کا ذکر آیا ہے،  یہ تمام صفات اپنی جگہ اہم ہیں اور آپ کے محاسن کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم صفت یہ ہے کہ آپ کو تمام عالم کے لئے رحمت قرار دیا گیا،  وما أرسلنٰک الا رحمۃ للعالمین (الانبیاء : ۱۰۷)  —– اس تعبیر کی و سعت اور ہمہ گیری پر غور فرمائیے کہ آپ کی رحمت مکان و مقام کی وسعت کے لحاظ سے پوری کائنات کو شامل ہے اور زمانہ و زمان کی ہمہ گیری کے اعتبار سے قیامت تک آنے والے عرصہ کو حاوی ہے، یہ کوئی معمولی دعویٰ نہیں، اور شاید ہی تاریخ کی کسی شخصیت کے بارے میں ایسا دعویٰ کیا گیا ہو، یہ دعویٰ جتنا عظیم ہے اسی قدر واقعہ کے مطابق بھی ہے،  آپ کی رحمت کا دائرہ یوں تو پوری کائنات تک وسیع ہے، زندگی کے ہر گوشہ میں آپ کا اسوہ رحمت کا نمونہ ہے، لیکن اس وقت انسانیت پر آپ کی رحمت کے چند خاص پہلوؤں پر روشنی ڈالنا مقصود ہے ۔ ان میں پہلی بات یہ ہے کہ آپ نے انسانیت کو وحدت الٰہ کا تصور دیا، خدا کو ایک ما ننا بظاہر ایک سادہ سی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن بمقابلہ الحاد و انکار اور شرک و مخلوق پر

عشرة ذوالحجہ

 *✨عشرة ذوالحجہ* *✨مختصر تعارف * 🌿 ذوالحجہ کا پہلا عشره نیکیوں اور اجر و ثواب کے اعتبار سے عام دنوں کے مقابلے میں بہت اہم ہے، جس کی فضیلت قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن مجید میں الله سبحانه و تعالیٰ نے ان دس دن کی قسم کھائی ہے۔ *🌿 وَالْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ*   "قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی" (الفجر : 2-1)  اکثر مفسرین کے نزدیک *’’لَیَالٍ عَشْرٍ‘‘* سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ ان دس دنوں میں کئے جانے والے اعمال الله تعالیٰ کو دیگر دنوں کی نسبت زیاده محبوب ہیں۔ 🌿 رسول الله ﷺ نے فرمایا : "کسی بھی دن کیا ہوا عمل الله تعالیٰ کو ان دس دنوں میں کئے ہوئے عمل سے زیاده محبوب نہیں ہے،  انہوں (صحابہ ؓ) نے پوچھا : اے الله کے رسول ﷺ، جہاد فی سبیل الله بھی نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : "جہاد فی سبیل الله بھی نہیں ہاں مگر وه شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے۔" (سنن ابوداؤد) 🌿 عبدالله ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : "کوئی دن الله تعالیٰ کے ہاں ان دس دنوں سے زیاده عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل الله تعالیٰ