Skip to main content

حقوق نسواں اور مذاہب عالم

الله سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :”ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف وللرجال علیھن درجة والله عزیز حکیم “ ( البقرہ: ۲۲۸)ترجمہ” :عورتوں کے لئے بھی معروف طریقہ پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں ،البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ ․․․فضیلت ․․․حاصل ہے۔اور الله تعالیٰ سب پر غالب اختیار رکھنے والا اور حکیم ہے“ ۔دوسری جگہ الله جل شانہ کا ارشاد گرامی ہے :”الرجال قوامون علی النساء بما فضل الله بعضھم علیٰ بعض و بما أنفقوا من اموالھم “ (النساء :۳۴)ترجمہ ”: مرد عورتوں پر قوام ہیں ،اس بناء پر الله تعالیٰ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بناء پر کہ مرد اپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیں “۔ حقوق نسواں پر بحث وتمحیص صدیو ں سے جاری ہے، لیکن کچھ عرصے سے اس میں کافی شدت آگئی ہے ۔سوال یہ ہے کہ وہ کون سے حقوق ہیں جن کے لیے خواتین یا ان کے خیر خواہ کوشاں ہیں؟ مزید یہ کہ آج تک عورت کو بحیثیت عورت جو مقام و مرتبہ حاصل رہاہے، اس کے دلانے میں کس کا کیا کردار ہے ؟عموما ً غیرمسلم دنیا میں عورتوں کے متعلق دونظریے ملتے ہیں ،اور دونوں افراط و تفریط کا شکار ہیں ۔پہلا نظریہ : کہ عورت اوصاف حمید ہ کا ایک حسین مرقع ،فرشتہ صفت ،پیکر حیاء ،ایثار ووفا کی مورت ، عقیدت کا مجموعہ ، سراپا شفقت اور زندگی کے تمام تر مسائل کا حل ہے،لیکن اس نظریے کا وجود درحقیقت شاعرانہ تخیل تک ہی محدود ہے۔ دوسرا نظریہ:اس کے برعکس ہے کہ: عورت ایک ناپا ک وجو د سے عبا رت ہے ،اور دنیا میں پائی جانے والی تما م تر برائیوں اور مصیبتوں کا اصل سبب اور بنیا د عورت کا وجود ہے ،چنانچہ اس ضمن میں ایک یورپین مفکرکا قول ہے کہ:”میں مرد کو اس وجہ سے پسند نہیں کرتا کہ وہ مرد ہے بلکہ اس لئے پسند کرتا ہوں کہ وہ عورت نہیں ہے “اسی طرح مشہور یونانی فلاسفر سقراط کے خیال میں” عورت سے زیادہ فتنہ و فساد کی کوئی اور چیز نہیں“ایک اور شہرت یافتہ یونانی فلاسفرافلا طون کے بقول:”سانپ کے ڈسنے کا تو دنیا میں علا ج موجود ہے ،لیکن عورت کے شر کا کوئی علاج ممکن نہیں ،اس لئے اگر ممکن ہو تو اس مجسمہٴ شر کو ذلت کے آخری غار میں پھینک دو “ ۔یونان کے ان قدیم فلاسفروں کے افکاراورنظریات کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں عورت کو باعث ذلت گردانا گیااور یونانی لوگ عورتوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بیچنے اور اسے ذاتی ملکیت کی طرح استعمال کرنے لگے ۔یہی نہیں بلکہ روم ،مصر ،عراق ،چین،عرب ، ہندوستان ، ایران ان تما م ممالک کے اندر صنف ناز ک کے ساتھ ہر طرح کا ظلم روا رکھا گیا ، بازاروں اور میلوں میں اس کی خریدوفرخت کی جاتی رہی ،ان سے حیوانوں سے بد تر سلوک کیا جاتا رہا ،یونان میں توایک عرصے تک یہاں تک بحث کی جاتی رہی کہ اس کے اندر روح موجو د ہے بھی یا نہیں۔اہلِ عرب اس کے وجود کو ہی موجب عارسمجھتے تھے ،بعض شقی القلب اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے ،ہندوستان کے بعض علاقوں میں آج بھی یہ حال ہے کہ شوہر کی میت کے ساتھ عورتوں کو بھی زندہ جلا دیا جاتاہے، راہبانہ مذاہب اسے معصیت کا سر چشمہ ،گناہ کا دورازہ سمجھتے تھے اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے کو روحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تصور کیا جاتا تھا،الغرض یہ کہ دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں اس عورت کی کوئی سماجی حیثیت نہیں تھی ،وہ حقیر اور ذلیل سمجھی جاتی تھی ،اس کے معاشی اور سیاسی کوئی حقوق نہیں تھے،وہ اپنی مرضی سے کسی قسم کا کوئی تصرف نہیں کر سکتی تھی ،وہ ابتداء میں باپ کی پھر شوہر کی اور اس کے بعد اپنی اولاد کے تابع و محکوم تھی ،ان کے اقتدار کو چیلنج کرنے کی اسے اجاز ت نہیں تھی ، اس پر ہونے والے ظلم و ستم کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں تھا اورنہ ہی اسے یہ حق اور آزادی حاصل تھی کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر داد رسی کی طلبگار بنے ۔یہ تو قدیم تہذیبوں کا حال تھا جن میں عورت کو نہ تو کوئی مقا م حاصل تھا اور نہ ہی اس کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر صدائے احتجاج بلند کر سکے ،دورِ حاضر کی جدید تہذیب کے اندربھی آزادیٴ حقوق نسواں کا جو ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے، اس کا حال بھی ان قدیم تہذیبوں سے کچھ مختلف نہیں ،بلکہ یہ کہا جائے تو بے جانہ ہو گا کہ صرف ظاہر ی لفاظی ہے ،حقیقت حال وہی ہے جو دورِقدیم میں تھی ،اس لیے کہ دورِقدیم میں عورت سے جو کام اسے سامان عیش اور خادمِ بے مول کہہ کر لیے جاتے تھے ،دورِ جدید میں وہی کا م اس سے حقوق نسواں کے خوبصور ت نعروں کی آڑ میں لیے جارہے ہیں ۔آج عورت کو گھر کی پاکیزہ اور محفوظ چہار دیواری سے کھینچ کر اسے شاہراہِ عام پرلایا گیا ہے۔ لیکن وہ عورت آج بھی اسی نوعیت کے مظالم اور مسائل کا شکار ہے جن مسائل اور مظالم کا شکار دورِ قدیم کی عورت تھی۔بحیثیتِ نوع ،عورت کے حالات میں کچھ زیادہ فرق نہیں آیا وہ مظلوم کی مظلوم ہی رہی ،اس کے حقوق پر آج بھی دست درازی کی جارہی ہے ۔آزادیٴ نسواں کے نام پر گھر کی چار دیواری سے باہر لائی جانے والی عورت پر آج بھی گھر کی ذمہ داریاں اسی طرح برقرار ہیں اور اس کے ساتھ ہی اسے ایک اور فکر بھی لاحق ہو گئی ہے وہ فکر اپنے معاشی انتظام کی ہے جس کے حصول کے لئے کوشاں یہ عورت جب معاشرے میں قدم رکھتی ہے تونا صرف یہ کہ اسے اپنی عزت کی بقا ء بلکہ ذریعہٴ کفالت کے حصول کے لئے جو جدوجہد کرنا پڑتی ہے اور آئے دن اسے اس کے لئے جس قسم کے تشویشنا ک مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے ،وہ مسائل کسی سے مخفی نہیں ۔مقام حیرت ہے کہ مغربی تہذیب کے دل دادہ خود عورت کے ساتھ جس قسم کا ناروا سلوک روا رکھتے ہیں، اس کے سامنے دورِقدیم کے مظالم بھی محض فرسودہ لگتے ہیں۔مگر اس کے باوجودوہ اس کا الزام دوسروں کے سر ڈالنے پر تُلے ہوئے ہیں۔جہاں تک اسلام میں حقوق نسواں کا تعلق ہے، اگر ہم اس صورت حال کو اس طرح دیکھیں، جس طرح اس کی عکاسی مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے کی جارہی ہے تو لا محالہ ہمیں بھی اس بات سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ اسلام نے جو حقوق خواتین کو دیئے ہیں وہ واقعی فرسودہ اور ناکافی ہیں ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب میں خواتین کی آزادی کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ درحقیقت عورت کے احترام کی نفی اور اس کی روح اور جسم کا استحصال ہے، جس پر آزادیٴ نسواں کا خوش نما پردہ ڈال دیا جاتا ہے ۔مغربی معاشرہ مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ خواتین کو حقوق دیے جائیں، لیکن خوداس معاشرے نے خواتین کو کیا دیا ہے ؟یہی کہ عملی طور پر اسے داشتہ اور طوائف کی سطح پر لے آیاہے ،اسے ایک ایسی شئے بنا ڈالا ہے جس سے مرد لطف اندوز ہو تے ہیں ،آرٹ اور کلچر کے خوبصورت پردو ں کے پیچھے اس کا کس قدر استحصال کیا جاتا ہے کہ عملاً وہ جنس کے متلاشیوں اور کاروباریوں کے ہاتھوں کھلونا بن کے رہ گئی ہے ،جس کا اسے احسا س بھی نہیں ۔جبکہ اس کے برعکس آج سے چودہ سو برس پہلے عہدِ جاہلیت میں،اسلام کی انقلابی تعلیمات نے عورت کو اس کے حقیقی حقوق اور مرتبہٴ عزت عطاکیا،اسلام کا مقصد ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ خواتین کے حوالے سے معاشرے کی سوچ ، خیالات ،احساسات اورطرزِزندگی میں بہتری لائی جائے ،معاشرے میں خاتون کا مقام بلند سے بلند تر کیا جائے ۔اس وقت دنیا کی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے ،مسلمانوں کی یہ آبادی بہت سے معاشروں میں تقسیم ہے ،ان معاشروں کا طرزِ زندگی یکساں نہیں ہے ،کچھ معاشروں میں اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جاتا ہے اور کچھ معاشرے اسلامی تعلیمات سے دور ہیں۔اسلام میں خواتین کے کیا حقوق ہیں ؟اس بات کا فیصلہ ان مسلمان معاشروں کو دیکھ کر نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سلسلے میں شریعت اسلامی کے حقیقی مصادر سے رہنمائی لی جائے گی ،اسلامی تعلیمات کے مستند اور بنیادی مصادرقرآن و سنت اوراجماع صحابہ ہیں ۔اس با ت کوسامنے رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں اسلام میں عورتوں کے کیا حقوق ہیں ؟اسلام مرداور عورتوں کو مساوی حقوق دیتاہے ،لیکن یہ حقوق مساوی ہیں ،یکساں نہیں ہیں۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تو مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے تکمیل کا ذریعہ ہیں ،ان کے درمیان باہمی شراکت کار ہوتی ہے، گویا اگر دونوں اپنااپنا کردار اسلامی احکام کے مطابق ادا کریں گے تو ان کے درمیان نہ کبھی رقابت ہوگی اور نہ مخالفت ۔اسلام نے عورت کو وہ تما م حقوق عطا کیے ہیں جو اس کا بنیادی حق ہیں ،دیگر ادیان باطلہ کی طرح اسلام نے عورت کے حقوق کی کبھی نفی نہیں کی، بلکہ عورت کو صحیح معنوں میں تمام شعبہائے زندگی کے تمام مواقع پر عملاً وہ اختیار ،وہ حقوق اور وہ مراتب عطاکیے جن کی بدولت اسے اپنا جائز مقام حاصل ہوا بنیادی طورپراسلام میں عورتوں کے حقوق کوچھ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔۱۔اسلام میں عورت کے روحانی حقوق اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دیے ہیں ،ان میں سب سے پہلے عورت کے روحانی …یعنی مذہبی…حقوق ہیں۔چنانچہ الله جل شانہ کا ارشاد ہے :”ومن یعمل من الصالحات من ذکر او انثیٰ وھو موٴمن فاو لٰئک یدخلون الجنة ولا یظلمون نقیرا“ (النساء:۱۲۴)ترجمہ :” اور جوکوئی نیک عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت ،بشر ط یہ کہ وہ مومن ہو تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہو ں گے اور ان کے حق میں ذرہ برابر بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی “۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ اسلام میں جنت کے حصول کے لئے جنس کی کوئی شرط نہیں بلکہ جو کوئی بھی مرد یا عورت ایمان کی حالت میں نیک عمل کرے گا ،اسے الله تبارک وتعالیٰ جنت عطا فر مائیں گے۔آیت بالا سے مغرب کے ان لوگوں کے اشکال کی بھی نفی ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں جنت کا تصور صرف مرد کے لئے ہے عورت کے لئے نہیں ۔دوسری جگہ سورہ احقاف میں الله تبارک وتعالیٰ والدین کے حقوق کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں :”ووصینا الانسان بوالدیہ احسٰناحملتہ امہ کرھاووصعتہ کرھا وحملہ وفصٰلہ ثلٰثون شھرا“ (الاحقاف :۱۵)ترجمہ :” اور ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کریں۔(اس لیے کہ) اس کی والد ہ نے مشقت اٹھا کر اس کو پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر اس کو پیدا کیا اور اس کے حمل اور دودھ کے چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے “۔اسلام ماں بننے کے عمل کی عظمت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے عورت کو ا س حوالے سے انتہائی اعلیٰ اور ارفع مقام عطا کرتا ہے ۔چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ اسلام عورت اور مرد پر یکساں اخلاقی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے اوردونوں کے لیے ایک جیسی حدود و قیود نافذ کرتا ہے ۔۲۔اسلام میں عورت کے معاشی حقوق اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے عورت کو معاشی حقوق فراہم کیے ،ان حقوق میں بہت سی چیزیں شامل ہیں ،مثال کے طور پر ایک عاقل و بالغ مسلمان عورت جائداد کی خرید و فروخت کرسکتی ہے ،اپنے پاس رکھ سکتی ہے ،ضرورت کے وقت بیچ سکتی ہے۔وہ بغیر کسی پابندی کے اپنی مرضی سے وہ تمام فیصلے کر سکتی ہے جو ایک مرد کرسکتا ہے ۔غور طلب امر یہ ہے کہ جو حق اسلام نے عورت کو آج سے چودہ سو سال پہلے دیا،برطانیہ نے یہی حق عورت کو۱۸۳۰ء میں آکر دیا ۔ اسی طرح اسلام نے ضرورت کے وقت عورت کے کام کرنے اور روزی کمانے کی بھی اجازت دی ہے ۔الغرض یہ کہ اسلام نے تما م جائز کاموں کے کرنے کی عورت کو بھی اتنی ہی آزادی دی ہے جتنی کہ مرد کو ،خواہ وہ طب کا شعبہ ہو یا تعلیم کایا کوئی اورشعبہ ۔دوسری طرف اسلام تما م تر معاشی ذمہ داریا ں مرد کو سونپتا ہے ،عورت پر اس قسم کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں کرتا،ہاں اگر ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ عورت کو اپنی ذمہ داری خود اٹھانی پڑے تواسلام اس سے بھی منع نہیں کرتا۔اگر حقوقِ نسواں کی محافظ شرعی حدود کی پاسداری کرتے ہوئے کوئی کام کرنا چاہتی ہے تواسلام میں اس کی بھی اجازت ہے ۔ اسلام عورتوں کو کاروبار کی بھی اجازت دیتا ہے، اس سلسلے میں ام الموٴمنین حضرت خدیجہ رضی الله عنھا کی مثال ہمارے سامنے ہے جو تجارت کیا کرتی تھیں۔۳۔اسلام میں عورت کے معاشرتی حقوقاسلام نے عورت کو معاشرتی اور سماجی لحاظ سے بھی کئی حقوق عطاکیے ہیں ، اسے معاشرے میں ایک مہذب اور باوقار مقام عطا کیا۔اسلام سے پہلے عہد مسیحی میں جب شرک کا دور دورا تھا،اس وقت بچیوں کے زندہ درگور کیے جانے کا رواج عام تھا،لوگ بیٹیوں کی پیدائش کو ذلت کا باعث گردانتے تھے اور بیٹیوں کے پیدا ہونے پر انہیں زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔اس وقت اسلام نے ہی رحمت بن کرعورت کو جان کی حفاظت فراہم کی اور بیٹیوں کے قتل کرنے کی قبیح روایت کا خاتمہ کیا۔ 

چنانچہ الله تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے :
”ولا تقتلوا اولادکم خشیة املاق، نحن نرزقھم وایاکم، ان قتلھم کان خطاً کبیرا“ ( بنی اسرائیل :۳۱)
ترجمہ:” اپنی اولاد کو افلاس کے خدشے سے قتل نہ کرو ،ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تم کو بھی،بیشک ان کا قتل ایک بڑی خطاہے“۔ چنانچہ اسلام نے آکر ایک عورت کو زندہ رہنے کا حق عطا کیا ۔یہی نہیں بلکہ ان بچیوں کی صحیح تعلیم و تربیت اچھے اند از میں کرنے کی تعلیم دی اور اس پر اجر مقرر کیا۔ چنانچہ رحمة للعالمین ا کا ارشاد مبارک ہے :”جس شخص نے اپنی دوبیٹیوں کی اچھی طرح پرورش کی اور ان کا خیال رکھا اور محبت کے ساتھ انہیں پالا وہ شخص جنت میں داخل ہو گا“اسی طرح اسلام نے عورت کو بحیثیت بیوی،ماں ، بہن ان تما م رشتوں کو حقیقی معنوں میں ایک مقام عطا کیا ،ان سب کے الگ الگ حقوق بیان کیے ،الغرض یہ کہ اسلام نے خواتین کو معاشرتی حقوق عطاکیے جن کی بدولت پاکیزہ رشتے وجود میں آئے، اسلام نے ان کا احترام کرنے ،ادب کرنے کا حکم دیا ،اسلام میں جہاں والد کے حقوق بیان کیے گئے ،وہیں والدہ کے بھی بہت سے حقوق بیان کیے گئے ۔ماں کا حق تو یہاں تک بیان کیا کہ والدہ کے قدموں تلے جنت ہے ،اس کی نافرمانی کرنے کو گناہِ کبیرہ قرار دیا گیا۔
۴۔اسلام میں عورت کے تعلیمی حقوق
اسلام نے آج سے چودہ سو برس پہلے عورت کے حقوق کی بات اس وقت کی جب عورت کو کسی بھی قسم کے حقوق حاصل نہیں تھے ،ان کی ذاتی حیثیت املاک سے بڑھ کر نہیں تھی،اسلام نے اس وقت خواتین کی تعلیم پر زور دیا،جس وقت تمام مذاہب کے موجود ہوتے ہو ئے بھی دنیا میں تعلیم نسواں کا کوئی وجود نہیں تھا ۔سیرت طیبہ اورصحابہ کے دور میں ہمیں ایسی کئی مثالیں ملیں گی ،جن میں عورتوں کی تعلیم کے لئے باقاعدہ جگہ اور اوقات مقرر تھے ،جہاں ان کو باقاعدہ سے تعلیم دی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد صحابیات عالمہ تھیں اور حضرات صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین ان سے مختلف فیہ مسائل کے متعلق رجوع کیا کرتے تھے ،سب سے اہم مثال ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنھا کی تھی۔جن سے صحابہ کرام اور خلفاء راشدین تک ہدایت ورہنمائی حاصل کیا کرتے تھے۔حضرت عائشہ صدیقہ سے تقریباً ۱۲۱۰حادیث مروی ہیں ۔ اسی طرح ایسی کئی اور صحابیا ت کا تذکرہ تاریخ میں ملتا ہے جو اپنے زمانے کی عالمہ تھیں جن سے مرد حضرات یعنی صحابہ کرام رہنمائی حاصل کیا کرتے تھے۔
۵۔اسلام میں عورت کے قانونی حقوق
اسلامی قانون کے مطابق مرد اور عورت بالکل برابر ہیں ،اسلامی شریعت مرد اور عورت کے جان و مال کو یکساں تحفظ فراہم کرتی ہے ۔اگر کوئی مرد کسی عورت کوقتل کردے تو اسے بھی سزائے موت دی جائے گی،ا سی طرح اگر کوئی عورت کسی مرد کو قتل کردے تو اس کے لئے بھی وہی سزا مقرر ہے ۔سورہ ٴ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
”یٰا ایھا الذین اٰمنوا کتب علیکم القصاص فی القتلیٰ، الحربالحر والعبد بالعبد والانثیٰ بالانثیٰ“ (البقرہ :۱۷۸)
ترجمہ:”اے لوگوں جو ایمان لائے ہو تمہارے لئے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے ۔آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے،غلام قاتل ہو تووہی غلام قتل کیا جائے اور عورت اس جرم کی مرتکب ہوتو اس عورت سے ہی قصاص لیا جائے“۔اسی طر ح دیگر جرائم کے اندر بھی عورت اور مرد میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ،چنانچہ اگر کوئی مرد چوری کرتاہواپکڑاجائے اوراس پر چوری کا جرم ثابت ہو جائے تو اس کے لئے قطع ید…یعنی ہاتھ کاٹنے …کا حکم ہے ،اسی طرح اگر کوئی عورت چوری کی مرتکب ہوتی ہے تو اس کے لئے بھی بلاتخصیص ہاتھ کے کاٹنے کا حکم ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
”والسارق والسارقة فاقطعوا ایدیھما جزآء بماکسبا نکالا من الله والله عزیز حکیم“ (المائدہ:۳۸)
ترجمہ:”اور چور خواہ مرد ہو یا عورت ،دونوں کے ہاتھ کاٹ دویہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور الله تعالیٰ کی طرف سے عبرتناک سزا۔الله کی قدرت سب پر غالب ہے اور وہ حکمت والا ہے “۔اسی طرح اسلام نے عورت کو گواہی کا بھی حق دیا ہے جس کے بارے میں یہودی ربی بیسویں صدی کے اندر غور و فکر کررہے تھے کہ آیا عورت کو گواہی دینے کا حق ہونا چاہیے یا نہیں ۔ اسلام نے کسی عورت پر بہتان طرازی کے معاملے میں چار گواہوں کی شہادت لازمی قرار دی ہے ،گویا اسلام کی نظر میں کسی عورت کی عصمت و عفت پر بلا تحقیق انگلی اٹھانا ایک بہت بڑا جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
” والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا باربعة شھداء فاجلدوھم ثمانین جلدة ولا تقبلوا لھم شھادة ابدا“ (النور :۴)
ترجمہ:” اور جولوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں اور پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں ،ان کو اسی کوڑے مارواوران کی شہادت کبھی قبول نہ کرواور وہ خود ہی فاسق ہیں“۔اس کے برعکس آج کے معاشرے میں جب جس شخص کا دل چاہتا ہے شریف عورتوں پر الزام تراشی کرنے لگتا ہے۔ ان کے کردار اور اخلاق کے بارے میں جو منہ میں آتا ہے ،کہتا چلا جاتا ہے ۔یہی وہ سب سے بڑا فرق ہے اسلام کا اور دیگر ادیان کا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں عورت کے عزت ووقارکوکس قدراہمیت دی گئی ہے۔
۶۔اسلام میں عورت کے سیاسی حقوق
اسلام نے عورتوں کوآزادیٴ اظہارِ رائے کابھی حق دیا ہے اور اس سلسلے میں قانون سازی کے دوران عورتوں کی رائے کو اہمیت بھی دی گئی ہے ،چنانچہ مشہور روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر فاروق صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کے ساتھ حق مہر کے مسئلے پر گفتگو فر مارہے تھے اور حضرت عمر کی خواہش تھی کہ حق مہر کی حد مقرر کردی جائے ۔کیونکہ نوجوانوں کے لیے نکاح کرنا مشکل ہو تا جا رہا تھا ،اسی اثنا ء میں پیچھے سے ایک بوڑھی عورت اٹھی اور اس نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی :
”وان اردتم استبد ال زوج مکان زوج واٰتیتم احدٰلھن قنطارًافلا تاخذوامنہ شیئا“ (النساء :۲۰)
ترجمہ :” اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانے کا ارادہ کرو تو خواہ تم نے اسے ڈھیرسارا مال ہی کیوں نہ دیا ہو ،اس میں سے کچھ واپس نہ لینا“۔اس کے بعد اس عورت نے کہا کہ: جب قرآن یہ اجازت دیتا ہے کہ عورت کو حق مہر میں مال کا ڈھیر بھی دیا جاسکتا ہے تو عمر کون ہوتا ہے حد مقرر کرنے والا ؟یہ سن کر حضرت عمر فاروق نے فوراً اپنی رائے سے رجوع کر لیا اور فر مایا کہ” عمرغلط تھا اور یہ عورت درست کہہ رہی تھی “۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ اسلام میں ایک عام عورت کو بھی یہ حق حاصل تھا کہ وہ خلیفہ ٴ وقت کے ساتھ اختلا ف کی جرأت کر سکے اور اس پر اعتراض کر سکے ۔
آخری گذارش
سوچنے کی بات یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کے معاملے میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود ہرسال مغربی خواتین کی ایک بڑی تعداد اسلام قبول کررہی ہے ،مغرب کی یہ الزام تراشی کہ اسلام خواتین پر پابندیاں عائد کرتاہے اور عورت کو ذیلی حیثیت دیتا ہے،اسلام دشمنی کے سوا اورکیا ہو سکتی ہے۔ وہ معا شرہ جو عورت کے مقابلے میں کتے کو زیا دہ اہمیت دیتا ہے ،اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ عورتوں کے حقوق کا علمبردار ہے، سوائے اس کے اور کیاکہاجا سکتا ہے کہ سب کچھ جان کے بھی انجا ن رہنا ،بی بی سی کی جانب سے ۲۰۰۳ء میں کیے گئے سروے کے مطابق 78فیصدمردوں اور عورتوں نے کہا کہ: اگر ان کے پڑوس میں کوئی شخص اپنے پالتوکتے کو پیٹ رہا ہوگاتو وہ پولیس کو اطلاع دے کر اسے بچانے کی کو شش کریں گے، جب کہ اس کے بر عکس کسی گھر میں کسی مرد کی جانب سے اپنی بیوی یا دوست عورت پر تشدد کیے جانے کی صورت میں پولیس کو اطلاع دینے پر صرف۵۳فیصد لوگوں نے آمادگی ظاہر کی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب میں عورت آج بھی جدیدجاہلیت کے عہدِ مظلومیت سے گذر رہی ہے ،ہدایت الٰہی سے محروم تہذیب نے عورت کو عملاً مردوں کا کھلونا بنا دیا ہے،مغرب کے اہلِ دانش اس حقیقت کابر ملا اعتراف کرتے ہیں،چنانچہ ڈاکٹر ہنری میکاوٴ(Dr.Henry Makow)اپنے ایک معرکہ آراء تجزیے میں لکھتے ہیں ،جس کا نام ہے ”امریکی نسانیت کی درگت :بکنی بمقابلہ برقعہ“ (The Debauchery of american Womanhood:Binkini vs Burka) ملا حظہ کیجیے :”اپنے کمرے کی دیوار پرمیں نے ایک تصویر برقعے میں مکمل طور پر ڈھکی ہو ئی ایک مسلمان عورت کی اور اس کے ساتھ ہی ایک اور تصویر مقابلہٴ حسن میں شریک ایک امریکی عورت کی لگا رکھی ہے،جس کے جسم پر سوائے ایک بکنی کے کچھ نہیں ہے ۔ان میں سے ایک عورت لوگوں کی نگاہوں سے پوری طرح چھپی ہوئی ہے، جب کہ دوسری ان کے سامنے مکمل طور پر عریاں ہے۔یہ دو انتہائی نام نہاد تہذیبوں کے تصادم کے بارے میں بہت کچھ بتارہی ہیں۔عورت کا کردار کسی بھی ثقافت کا دل ہے،مشرقی وسطیٰ پر مسلط کی گئی جنگ عربوں کا تیل چرانے کے علاوہ برقعے کو بکنی سے بدل کر، ان کے بدن سے ان کے مذہب اور ثقافت کا لباس اتار دینے کے لیے بھی ہے“۔ آگے چل کر ڈاکٹر میکاوٴ لکھتے ہیں :”میری نگاہ میں برقعہ اپنے شوہر اوراپنے اہل خانہ کے لیے عورت کی تخصیص اور تقدیس کی علامت ہے،صرف وہی اسے دیکھتے ہیں،برقعہ گھریلوزندگی کی رازداری اور اہمیت کو مستحکم کرتاہے،مسلمان عورت کی سر گرمیوں کا محوراس کا گھر ہے ،یہ وہ آشیانہ ہے جہاں اس کے بچے پید اہوتے ہیں اور پروان چڑھتے ہیں،وہ”گھر“ بنانے والی ہے ۔یہ گھر خاندان کی روحانی زندگی کو سیراب کرنے والا سر چشمہ ہے ،اس کے بچوں کی پرورش اور تربیت کا مرکز ہے اور اس کے شوہر کی تقویت کا باعث اور پناہ گاہ ہے ۔اس کے برعکس بکنی پوش امریکن بیوٹی کوئین ٹی وی پر عملاًعریاں حالت میں لاکھوں لوگوں کے سامنے اتراتی ہوئی آتی ہے ۔ اپنی حدتک تووہ عورتوں کے حقوق کے علمبردار اور اپنی مالک آپ ہے مگر عملاً وہ پبلک پراپرٹی ہے،وہ کسی کی نہیں اور سب کی ہے ۔وہ اپنے جسم کو سب سے زیادہ بولی لگانے والے کے ہاتھ فروخت کرتی ہے ،وہ خود کو ہمہ وقت نیلام کرتی رہتی ہے ۔امریکا میں عورت کی سماجی وثقافتی حیثیت کا پیمانہ اس کی صنفی کشش ہے ۔“… (خاتونِ مغرب کا حالِ زار اور اسلام ،ثروت جمال اصمعی ،روزنامہ جنگ۸ نومبر ۲۰۰۸ء)یہ تجزیہ کسی مسلمان شدت پسند کا نہیں بلکہ ایک انگریز دانشور کا ہے ،جواسی معاشرے کا رہنا والا ہے۔ اس تجزیے کے مطابق امریکی معاشرے میں عورت کے جنسی کھلونا بن جانے اور اس کے نتیجے میں خاندانی نظام کے بکھر جانے ،بچوں کا ممتا کی محبت سے محروم ہو جانے اوربالخصوص معاشرے کا تباہی کے راستے پر گامز ن ہوجانے کا ذکر بڑی وضاحت کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ اس تجزیے کو پڑھ کر یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ جو معاشرہ حقوق نسواں کا پرچار کررہاہے اورخودکو اس کا علمبردار گردانتا ہے، اس معاشرے کی اپنی حالت کس قدر دگرگوں ہے ،مغربی معاشرے میں رہنے والی عورت مغرب کے تمام تر دعووٴں کے باوجود آج بھی اپنا کوئی مقام حاصل نہیں کرپائی ہے ۔مغربی ذرائع ابلاغ کے تمام تر دعووں کے باوجود خود انہی کے اپنے ملک سے شائع ہونے والی رپورٹیں اور سروے ان کے اپنے منہ پر طمانچہ ہیں۔ درحقیقت اسلام ہی وہ کامل مذہب ہے جو عورت کو ماں،بہن ،بیوی اوربیٹی کی حیثیت سے احترام ،تقدس اور محبت کے بلندمدارج پر فائز کرتا ہے، مغربی تہذیب میں اس کا کوئی تصور بھی نہیں پایاجاتا۔ لہٰذا یہ کہنا اور سمجھنا کہ اسلام میں عورتوں کے حقوق کا سرے سے ہی کوئی تصور نہیں ،نہایت نادانی اور ناسمجھی کی بات ہے ۔ یاد رکھئے !صحت مند معاشرے کے قیام کے لئے عورت کا وجود اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مرد کا ۔لیکن عورتوں کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ الله تعالیٰ نے ان کے حقوق کے ساتھ کچھ قیودات بھی مقرر کی ہیں جن کی پاسداری خود انہی کی بقاء ومفاد کی ضمانت ہے ،،لہٰذا تمام مسلمانوں سے یہی گذارش ہے کہ اپنے مذہب کی قدر جانیں اور اسلام کے ہر پہلو کو اپنی عملی زندگے میں شامل کریں ،اسی میں ہماری بقاء ہے ۔غیروں کی چالبازیوں میں آکر اعتراض کرنا اوراپنے دین میں برائی نکالنا نہایت آسان ہے ،غیروں کی تہذیب اور ثقافت نے آج تک ہمیں نہ کچھ دیا ہے اور نہ ہی آئندہ ان سے کسی اچھائی کی امید کی جاسکتی ہے۔بقول شاعر :
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدا ر ہوگا

Comments

Popular posts from this blog

Yusufzai (Pashtun tribe)

The  Yūsufzai  (also  Youssofzay ,  Yousefzai ,  Yousafzai ,  Esapzey ,  Yousufi , or  Yūsufi ) (Pashto:  يوسفزی ,Persian and Urdu:  یوسف زئی ) is one of the largest Pashtun (Afghans) tribes. The majority of the Yusufzai tribe reside in parts of Western Afghanistan, Khyber Pakhtunkhwa and Provincially Administered Tribal Areas near the Afghan-Pakistan border. They are the predominant population in the districts of Konar, Ningarhar, Mardan District, Dir, Swat,Malakand, Swabi, Buner, Shangla, Haripur District [Khalabat Town Ship and Tarbela] and in Mansehra and Battagram. There is also a Yusufzai clan of Dehwar tribe in the Mastung district of Balochistan who speak Persian with some mixture of Birahvi words. The descendants of Yusuf inhabit Konar, Jalalabad, Swat, Upper Dir, Lower Dir, Malakand Swabi and Mardan. The begotten tribe of  Yusufzai' s are the Utmanzai having 3 major subdivions Alizai, Akazai and Kanazai, of Tarbela (now live in Khalabat Town Ship, District

رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم

  رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم  قرآن مجید میں پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مختلف صفات کا ذکر آیا ہے،  یہ تمام صفات اپنی جگہ اہم ہیں اور آپ کے محاسن کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم صفت یہ ہے کہ آپ کو تمام عالم کے لئے رحمت قرار دیا گیا،  وما أرسلنٰک الا رحمۃ للعالمین (الانبیاء : ۱۰۷)  —– اس تعبیر کی و سعت اور ہمہ گیری پر غور فرمائیے کہ آپ کی رحمت مکان و مقام کی وسعت کے لحاظ سے پوری کائنات کو شامل ہے اور زمانہ و زمان کی ہمہ گیری کے اعتبار سے قیامت تک آنے والے عرصہ کو حاوی ہے، یہ کوئی معمولی دعویٰ نہیں، اور شاید ہی تاریخ کی کسی شخصیت کے بارے میں ایسا دعویٰ کیا گیا ہو، یہ دعویٰ جتنا عظیم ہے اسی قدر واقعہ کے مطابق بھی ہے،  آپ کی رحمت کا دائرہ یوں تو پوری کائنات تک وسیع ہے، زندگی کے ہر گوشہ میں آپ کا اسوہ رحمت کا نمونہ ہے، لیکن اس وقت انسانیت پر آپ کی رحمت کے چند خاص پہلوؤں پر روشنی ڈالنا مقصود ہے ۔ ان میں پہلی بات یہ ہے کہ آپ نے انسانیت کو وحدت الٰہ کا تصور دیا، خدا کو ایک ما ننا بظاہر ایک سادہ سی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن بمقابلہ الحاد و انکار اور شرک و مخلوق پر

عشرة ذوالحجہ

 *✨عشرة ذوالحجہ* *✨مختصر تعارف * 🌿 ذوالحجہ کا پہلا عشره نیکیوں اور اجر و ثواب کے اعتبار سے عام دنوں کے مقابلے میں بہت اہم ہے، جس کی فضیلت قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن مجید میں الله سبحانه و تعالیٰ نے ان دس دن کی قسم کھائی ہے۔ *🌿 وَالْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ*   "قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی" (الفجر : 2-1)  اکثر مفسرین کے نزدیک *’’لَیَالٍ عَشْرٍ‘‘* سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ ان دس دنوں میں کئے جانے والے اعمال الله تعالیٰ کو دیگر دنوں کی نسبت زیاده محبوب ہیں۔ 🌿 رسول الله ﷺ نے فرمایا : "کسی بھی دن کیا ہوا عمل الله تعالیٰ کو ان دس دنوں میں کئے ہوئے عمل سے زیاده محبوب نہیں ہے،  انہوں (صحابہ ؓ) نے پوچھا : اے الله کے رسول ﷺ، جہاد فی سبیل الله بھی نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : "جہاد فی سبیل الله بھی نہیں ہاں مگر وه شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے۔" (سنن ابوداؤد) 🌿 عبدالله ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : "کوئی دن الله تعالیٰ کے ہاں ان دس دنوں سے زیاده عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل الله تعالیٰ