Skip to main content

Posts

Showing posts from June, 2016

حقوق نسواں اور مذاہب عالم

الله سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :”ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف وللرجال علیھن درجة والله عزیز حکیم “ ( البقرہ: ۲۲۸)ترجمہ” :عورتوں کے لئے بھی معروف طریقہ پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں ،البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ ․․․فضیلت ․․․حاصل ہے۔اور الله تعالیٰ سب پر غالب اختیار رکھنے والا اور حکیم ہے“ ۔دوسری جگہ الله جل شانہ کا ارشاد گرامی ہے :”الرجال قوامون علی النساء بما فضل الله بعضھم علیٰ بعض و بما أنفقوا من اموالھم “ (النساء :۳۴)ترجمہ ”: مرد عورتوں پر قوام ہیں ،اس بناء پر الله تعالیٰ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بناء پر کہ مرد اپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیں “۔ حقوق نسواں پر بحث وتمحیص صدیو ں سے جاری ہے، لیکن کچھ عرصے سے اس میں کافی شدت آگئی ہے ۔سوال یہ ہے کہ وہ کون سے حقوق ہیں جن کے لیے خواتین یا ان کے خیر خواہ کوشاں ہیں؟ مزید یہ کہ آج تک عورت کو بحیثیت عورت جو مقام و مرتبہ حاصل رہاہے، اس کے دلانے میں کس کا کیا کردار ہے ؟عموما ً غیرمسلم دنیا میں عورتوں کے متعلق دونظریے ملتے ہیں ،اور دونوں افراط و تفریط کا شکار ہیں ۔پہلا نظریہ : کہ عورت اوصاف حمید

نصرت الٰہی سے محرومی کے اسباب

الحمدللہ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفی !گزشتہ دنوں روزنامہ جنگ کراچی کے توسط سے جناب ندیم احمد کراچی کا ایک مختصر مگر چبھتا ہوا سال موصول ہوا کہ: ”آج کل پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے اور یہ ظلم کرنے والے غیر مسلم ہیں تو مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی مدد کیوں نہیں آتی؟“بلاشبہ یہ سوال آج کل تقریباً ہر دین دار مسلمان کی زبان پر ہے اور اس کے دل و دماغ کو پریشان کئے ہوئے ہے اور اسے سمجھ نہیں آتا کہ اگر مسلمان حق پر ہیں اور یقینا حق پر ہیں، تو ان کی مدد کیوں نہیں کی جاتی اور ان کے اعداء و مخالفین یہود و نصاریٰ اور کفار و مشرکین، جو یقینا باطل پر ہیں، کے خلاف اللہ تعالیٰ کا جوش انتقام حرکت میں کیوں نہیں آتا؟ اور ان کو تہس نہس کیوں نہیں کردیا جاتا؟ یا کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کو مسلمانوں پر فوقیت و برتری کیونکر حاصل ہے؟ اور ان کو اس قدر ڈھیل کیوں دی جارہی ہے؟ اس کے برعکس مسلمانوں کو روزبروز ذلت و ادبار کا سامنا کیونکر ہے؟اس سوال کے جواب میں راقم الحروف نے جو کچھ لکھا، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے قارئین بینات کی خدمت میں پیش کردیا جائے، ملاحظہ ہو:برادر عزیز! آپ کا سوال معقول اور

یہودی مدارس میں عسکریت کی تعلیم!اورانتہا پسند یہودیوں کا مسلمانوں کے خلاف غیظ و غضب

اسلام، مسلمانوں، دین، دینی مدارس، علمأ، طلبہ اور دینی تعلیم کو مطعون و بدنام کرنے، ان کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلانے، گز گز کی زبان نکال کر ان کو بے نقط سنانے والوں اور دینی مدارس کو بند، ان میں رائج تعلیم و نصابِ تعلیم کو ختم یا تبدیل کرنے کی سفارش کرنے والے یہود و نصاریٰ، ان کے ایجنٹوں اور نام نہاد مسلمان حکمرانوں کو ذرا اس طرف بھی توجہ کرنی چاہئے کہ بی بی سی کے مطابق اسرائیل میں یہودیوں کے باقاعدہ مذہبی مدارس قائم ہیں، جہاں خالص یہودی مذہبی نصاب اور نظامِ تعلیم رائج ہے، وہاں خالص یہودی مذہبی افراد تیار کئے جاتے ہیں اور انہیں اسرائیل جیسی صہیونی اور خالص یہودی حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔ نہ صرف یہی بلکہ ان یہودی مذہبی مدارس میں باقاعدہ عسکریت اور سپاہ گری کی تعلیم و تربیت کا مکمل انتظام ہے اور وہاں مکمل فوجی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے دینی مدارس، ان کی خالص دینی، مذہبی، اسلامی تعلیم، نصابِ تعلیم اور پروگرام ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہے، تو یہودی مذہبی مدارس، ان کا یہودی مذہبی نصاب اور نظام تعلیم کیونکر قابل برداشت ہے؟ اگر اسرائیل اور ان کے سرپرست یہودی مدار

اسلام میں پردے کی اہمیت

اسلام اور اسلامی نظام ِ حیات‘ ایک پاک وصاف معاشرے کی تعمیر اور انسانی اخلاق وعادات کی تہذیب کرتا ہے۔ اسلام نے جہالت کے رسم ورواج اور اخلاق وعادات کو جو ہرقسم کے فتنہ وفساد سے لبریز تھے‘ یکسر بدل کر ایک مہذب معاشرے اور تہذیب کی داغ بیل ڈالی‘ جس سے عام انسان کی زندگی میں امن ‘ چین اور سکون ہی سکون درآیا۔ اسلام اپنے ماننے والوں کی تہذیب اور پُرامن معاشرے کے قیام کے لئے جو پہلی تدبیر اختیار کرتا ہے‘ وہ ہے: انسانی جذبات کو ہرقسم کے ہیجان سے بچانا‘ وہ مرد اور عورت کے اندر پائے جانے والے فطری میلانات کو اپنی جگہ باقی رکھتے ہوئے انہیں فطری انداز کے مطابق محفوظ اور تعمیری انداز دیتاہے‘ قرآن حکیم میں سورہ نور میں بڑی وضاحت سے ایک ایک بات کو کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے‘ ہرعمل کی تہذیب کردی گئی ہے‘ اس سورہ کی آیت نمبر: ۳۱ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:”وقل للموٴمنات یغضضن من ابصارھن ویحفظن فروجھن ولایبدین زینتھن الاماظھر منھاولیضربن بخمرھن علیٰ جیوبھن ولایبدین زینتھن۔“ترجمہ۔”اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں‘ م

دعا مانگنے کا ضابطہ اور اس کے آداب

ارشاد ربانی ہے:”ونادٰی نوح ربہ فقال رب ان ابنی من اہلی وان وعدک الحق وانت احکم الحاکمین‘ قال یا نوح انہ لیس من اہلک‘ انہ عمل غیر صالح‘ فلاتسئلن مالیس لک بہ علم‘ انی اعظک ان تکون من الجاہلین“۔ (۱)ترجمہ:․․․”اور نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا اور عرض کیا کہ اے میرے رب! میرا بیٹا میرے گھروالوں میں سے ہے اور آپ کا وعدہ بالکل سچا ہے‘ اور تو سب سے بڑا حاکم ہے‘ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: کہ اے نوح! یہ شخص تمہارے گھروالوں میں نہیں‘ یہ تباہ کار ہے‘ سو مجھ سے ایسی چیز کی درخواست مت کرو جس کی تم کو خبر نہیں۔ میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم نادانوں میں داخل نہ ہوجاؤ“۔آیات مذکورہ بالا سے فقہاء نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ دعا کے لئے ضروری ہے کہ دعا کرنے والا پہلے یہ معلوم کرے کہ جس کام کی دعا کررہا ہے وہ جائز وحلال ہے یانہیں۔ مشتبہ حالت میں دعا کرنے سے منع فرمایا گیا ہے‘ جیساکہ قاضی بیضاوی لکھتے ہیں:”فلاتسئلن مالیس لک بہ علم“ ای مالم تعلم اصواب ہو ام لیس کذلک“ (۲)ترجمہ:․․․”سو مجھ سے ایسی چیز کی درخواست مت کرو جس کی تم کو خبر نہیں یعنی جس کے بارے میں تجھے یہ علم نہ ہو کہ یہ حق وجائز ہے یا نہیں