نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ِگرامی ہے
”لا یوٴ من احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والنا س اجمعین۔“ (مشکوة،ص:۱۲)
ترجمہ : ”تم میں سے اس وقت تک کوئی شخص مو من نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے والد، اس کی اولاد اورتما م لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاوٴں ۔“حضورِ علیہ الصلوٰة والسلام کے اس ارشاد مبارک سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مسلما ن کے ایمان کی تکمیل کے لئے ضرور ی ہے کہ اس کے دل میں حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی محبت اتنی زیادہ ہو کہ اس کی موجودگی میں اس کواپنے تمام حقیقی رشتے بھی ہیچ نظر آئیں ۔مسلمان کی اسی کیفیت کو ایک حدیث شریف میں ایمان کی معراج بتا یا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ حضور اقدس ا کی مجلس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا :یا رسول الله! مجھے اپنی اولاد اور والدین کے بعد سب سے زیادہ آپ سے محبت ہے ۔حضورا نے ارشاد فرمایا کہ: ابھی نہیں …یعنی ابھی آپ کاایمان مکمل نہیں ہوا … کچھ دیر کے بعد حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے عرض کیا :یا رسول الله! اب مجھے اپنی اولاداوراپنے والدین سے بھی زیادہ آپ سے محبت ہو گئی ہے، آپ نے فرمایا ”ہاں اب ٹھیک ہے…یعنی اب تمہار ا ایمان مکمل ہو گیاہے…۔ اس حدیث کے ذیل میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ مسلمان کے ایمانِ کامل کا یہ تقاضاہے کہ آپ علیہ الصلوٰ ة والسلام کی ذاتِ اقدس سے اتنی محبت ہو جائے کہ اس کی موجود گی میں دنیا کے تما م رشتے اور تمام چیزیں ہیچ نظر آئیں۔ اس کے برخلاف مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ آج اگرآپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ سے متعلق کسی امر کے بارے میں سوال کیا جائے تومسلمانوں کی اکثریت اس سے ناآشنا نظر آتی ہے ۔اس کی بنیادی وجہ یہود ونصاریٰ کے پھیلائے ہوئے جالوں میں سے ایک میڈیاکاجال ہے ، جس نے طرح طرح کی اخلاق باختہ اور انسانیت سوز مظالم سے بھر پور فلمیں دکھا کر آج کے مسلمان کو دین ومذہب سے دور کر دیا ہے، جس کالازمی نتیجہ دین سے دوری اور اپنے اسلاف سے لاتعلقی اور نا واقفیت کی صو ر ت میں نکل رہا ہے۔ وہ مسلما ن جس نے اسلا می معاشرے میں آنکھ کھولی ،جس کی تربیت اسلامی ما حول میں ہوئی ،جو اسلامی معاشرے میں پروان چڑھا ،مگر وہ مسجدومدرسہ اوردین ومذہب سے دوراورٹی وی کے قریب رہا ،تو وہ کیونکر اپنے نبی ا کے اسوہ حسنہ اور آپ کی سنتوں کوجا ن سکے گا ؟وہ کیونکر یہ جان پائے گا کہ اس کے محسن یا اس کے آئیڈیل کو ن تھے؟ اس میں قصور اُ ن والدین کا بھی ہے جنہوں نے اپنے بچوں کی چھوٹی سے چھوٹی خواہش تک کو پورا کرنا تواپنا فرض جانا لیکن انہیں یہ تک نہیں سکھایا کہ دین کیا ہے؟ اسلا م کیا ہے؟یہ دین ہم تک کیسے پہنچا؟لے دے کے ایک راستہ مسجد کا رہ گیا تھا جہاں سے وہ کچھ سیکھ سکتا، لیکن اس ٹی وی نے اسے اتنی مہلت ہی نہیں دی کہ وہ مسجد تک جا سکتا اور نہ ہی ماں باپ نے اس بات پر توجہ دی ،رہی بات دنیاوی تعلیم گا ہوں کی تو اُ ن کی حالت آج معاشرے کے سامنے ہے،اس پر کچھ لکھنے اور کہنے کی ضرورت نہیں ۔ آج اگر کسی کا بچہ انگریزی کے مضمون میں فیل ہو جائے یا اس کے نمبرات کم آئیں تو ماں باپ پریشان ہو جاتے ہیں کہ ہمارا بچہ انگریزی میں کمزور ہے ،لیکن اگر وہی بچہ اسلا میات کے مضمون میں فیل ہو جاتا ہے تو والدین کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ہو سکتا ہے کسی کو یہ میرا انداز پسند نہ آے یااس کو شدت و تلخی کا نام دیدے، لیکن کیا کیجئے کہ ان حقائق کو نظر انداز بھی تو نہیں کیا جا سکتا ۔کیونکہ یہ مسئلہ کسی ایک گھرانے کا نہیں ،بلکہ ہم سب ہی اس میں مبتلا ہیں۔ واضح رہے کہ ہم یا ہمارا ہم خیال طبقہ اسکول و کالج کے بارے میں جس قسم کے جذبات کا اظہار کرتاہے ،اس کا ہر گز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ عربی مدارس کے فارغ التحصیل حضرات اور علماء انگریزی تعلیم کے خلاف ہیں ،یہ حضرات انگریزی تعلیم کے خلاف نہیں بلکہ انگریزی رنگ ڈھنگ میں رنگ جانے کے مخالف ہیں ،علماء اس بات کے مخالف ہیں کہ آج کا مسلم نوجوان آقائے نامدار کے حلیے مبارک کو چھوڑ کر،اسلامی تعلیمات کو بھلا کراورلا دین و ملحدین کی نقالی اور ان کے حلیے کو اپنا نے پر فخر محسوس کرتا ہے او ر بر سرِعام شعائرِ اسلام کا مذاق اُڑاتا ہے،اربابِ مدارس اس بات کے مخالف تھے،ہیں اور مخالف رہیں گے ۔ اس لیے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے
” من تشبہ بقوم فھومنہم“
یعنی جو شخص جس قوم کی مشا بہت اختیار کرے گا وہ قیا مت کے دن اُ ن ہی میں شمار ہو گا ۔ کچھ عرصہ قبل ڈنمارک کے اخبارت نے سید الکونین، فخرموجودات،سید الاولین والاآخرین حضرت محمدرسول الله صلی الله علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں کارٹونز بنا کر جو گستاخی کی تھی ،اُس سے عالَمِ اسلام نا صرف واقف ہے بلکہ آج تک تمام مخلص مسلمانوں کے دل اس دردناک واقعہ کی وجہ سے آزردہ بھی ہیں اوراسی پر بس نہیں،بلکہ حال ہی میں دوبارہ یہ ناپاک جسارت دہرائی گئی اور دیگر اقوامِ کفراس جرم میں نہ صرف یہ کہ ان کی ہمنواہیں،بلکہ ان کی اس مذموم حرکت کو آزادیٴ صحافت کی آڑ میں چھپانے کی کو شش کر رہی ہیں ۔اس فعلِ قبیح کی جتنی بھی مذمت کی جائے ،کم ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جب تک اس واقعہ میں ملوث افراد اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ جاتے اُس وقت تک مسلمانوں کے دلوں کو سکون نہیں مل سکتا۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اسلامی دنیا کی قیادت (لیڈر شپ)کی جانب سے کسی قسم کی مذمت یا ردعمل سامنے نہیں آیا،جو حدیثِ بالا کی رو سے ان کے ایمان اور ایمانی غیرت پر سوالیہ نشان ہے ۔ ہمیں اس وقت سنجیدگی اورغیرتِ ایمانی کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ذرا ان محرکا ت کا جا ئزہ لینا چاہئے کہ آخر یہود و نصاریٰ کو اتنی جرأت کیسے اور کیوں ہوئی؟ اوریہ کہ اُنہوں نے ناصرف مسلما نوں کی اسا سِ ایمان پر ڈاکا ڈالاہے ، بلکہ اس بدترین اور شرمناک کردار پر تمام اقوامِ کفر یکجا و متحدبھی ہوگئیں تو کیوں اور کیسے؟ سچ یہ ہے کہ جب بھی حق کے نور نے دنیا کو منو ر کیااور باطل پرکاری ضرب لگا ئی، تو باطل کبھی حق کے مقابلے میں نہیں ٹھیر سکااور اس نے دلیل و برہان سے مقابلہ کرنے کے بجائے ہمیشہ اوچھے ہتھکنڈ ے استعمال کرناشروع کر دئیے۔ ازل سے یہ ستیزہٴ کا ر رہا ہے کہ جب بھی باطل حق کے مقا بلے میں آیا اُسے منہ کی کھا نی پڑی کیونکہ الله جل شانہ کاارشاد ہے :
”جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کا ن زھوقا“(بنی اسرائیل:
ترجمہ :” حق آیا او رباطل مٹ گیا اس لئے کہ بیشک با طل ہمیشہ مٹنے کے لئے ہے“۔اس غلیظ اور ناپاک گستاخی سے اسلام دشمنوں کو ایک تو یہ اندازہ لگانا تھاکہ مسلمان کس حد تک کمزور ہو چکے ہیں ،اس لئے کہ یہودو نصاریٰ نے جس طرح کے جال مسلمانوں کے ارداگرد پھیلارکھے ہیں اور مسلمانوں کو جس طرح دین ومذہب سے دور کیاجارہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے ، آج کی نوجوان نسل اپنے محسنین کے مبارک حالات اور اپنے اسلاف کے کارناموں سے توبے خبرہے ، لیکن اغیار کے حالات سے پوری طرح باخبر اور واقف نظر آتی ہے۔ امت مسلمہ کے حالات پر اگر آپ غورکریں تو معلوم ہو گا کہ دنیا میں ہر طرف مسلمان اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں، وہ قوم جسے الله جلّ شانہ نے اس دنیا میں تمام انسانیت کی امامت وسیادت کے لئے پیدا کیا تھا ،آج وہ قوم محض اپنی بات منوانے اور اپنی بقا کے لئے بھی اغیار کی محتاج ہے ۔خواہ وہ کشمیر کے مسلمانوں کے حق خودارادیت کا مسئلہ ہو یافلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کا،خواہ وہ مسئلہ افغانستان کی سا لمیت کا ہو یا عراق کی آزادی کا ۔یہ تمام وہ عالمی مسائل ہیں جو ان کافروں کے پیدا کردہ ہیں لیکن ان پر کوئی توجہ ہی نہیں دی جاتی۔ یہود ونصاریٰ اپنے خبث ِ باطن کا اظہار کرتے ہوئے کبھی مسلمانوں کے دین و مذہب کا مذاق اُڑاتے ہیں،اور کبھی آپ کے لائے ہوئے دین واسلام اور کتاب کو نشانہ پر رکھا جاتا ہے۔ وہ ذاتِ گرامی جس کا نامِ نامی آسمانوں پر بھی بصد احترام لیاجاتاہے آج اسی ذات اقدس کو یہود و نصاریٰ نے …العیاذ بالله… تختہٴ مشق بنا یاہواہے ۔ یہ سوچ کر دل کانپ اٹھتا ہے کہ اگر روزِ محشر اصحاب نبی میں سے کسی نے ہماراگریبان پکڑ کر یہ سوال کر لیا کہ بتاوٴ ہم نے تو اپنے آقا کی ناموس کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں اورگردنیں کٹوا دی تھیں ،تم نے محبوب دوجہاں کی عزت وعظمت اور عصمت کاتحفظ کیوں نہ کیا ؟ بتائیے ہم کیا جواب دیں گے؟اور کس منہ سے سرورِ کونین کے سامنے حاضر ہوں گے؟یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم اپنے آقا کی عزت وناموس کی کما حقہ حفاظت نہیں کر پارہے ۔اورطرفہ تماشہ یہ کہ مسلمان اگر یہود و نصاریٰ کی ان گھناوٴنی حرکات پر اپنے جذبات کا اظہار کریں ان پر تو فوراً دہشت گردی کا لیبل لگا دیا جاتاہے،لیکن اگر ان کی افواج اور ان کے کارندے دنیا جہاں میں جہاں چاہیں حملہ کریں،قتل وغارت کریں یا فتنہ وفساد پھیلائیں، ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہی بدناموہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اسلا م کی روشنی میں اس مسئلے کا حل کیا ہے؟اس کا حل تلاش کر نے کے لئے آئیے ذرا غور کیجئے کہ حضور اکرم ا نے اپنی مد نی زندگی کے دوران بحیثیت قانون ساز اور سربراہِ مملکت ،توہین رسالت ا کے مجرموں کے ساتھ کیا سلو ک کیا او ر انہیں کیا سزا دی ؟ اس سلسلہ میں سیر تِ نبوی ا کی کتابوں کے مطالعے سے جو نظائر سامنے آتے ہیں ان میں سے کچھ کا اجمالی تذکرہ درج ذیل ہے :سنہ: ۲ھ میں بد ر سے فتح مند انہ مدینہ منورہ لوٹتے ہوئے حضور ا اثنائے سفر وادی صفرا کے درے سے باہر نکلے تو آپ ا کو لشکر اسلامی کے ہمراہ آنے والے مشرک اسیرانِ جنگ میں ایک شخص نصر بن حارث نظر آیا جو حضور ا کو ان کی مکی زندگی کے دوران توہین وایذا رسانی کا نشانہ بنایا کرتا تھا ،حضور ا کے حکم پر حضرت علی کرم الله وجہہ نے اس شخص کو فوراً قتل کر دیا ،اس کے بعد اسی سفر کے دوران آپ اجب عرق النطیبہ پہنچے ، توحضور نے انہی اسیران جنگ میں ایک اور شخص عقبہ بن ابی محیط کو دیکھا ،جس نے ایک مرتبہ مکہ معظمہ میں حضور ا پر حالتِ نماز میں اونٹ کی اوجھ ڈال دی تھی ،نیز حرم کعبہ میں حضور ا کی گردن مبارک میں کپڑا کس کر انہیں ایذا پہنچائی تھی ، حضرت علی کرم الله وجہہ نے حضور اکرم ا کے ارشاد مبارکہ کی تعمیل کرتے ہوئے اس شخص کی بھی گردن ماردی ۔اس کے اگلے سال یعنی سنہ:۳ھ میں توہین رسالت ا کے چار مجرموں کو یکے بعد دیگرے قتل کی سزا دی گئی ،ان چار مجرموں میں سے ایک مجرم،عقمانامی یہودی شاعرہ تھی جو حضور اکرم ا کی شان اقدس میں ہجویہ اشعار کہا کرتی تھی ،اسے ایک نابینا صحابی عمیر بن عدی نے واصل جہنم کیا ،اہانت رسول ا کا دوسرا مجرم ابوعفک نامی ایک اور شاعر تھا جسے حضور اکرم ا کے حکم پرایک بدری صحابی سالم بن عمر نے کیفر کردار تک پہنچایا،اہانت رسول کا تیسرامجرم کعب بن اشرف تھا ،کعب بن اشرف کے واقعہ قتل نے عہد رسالت ا میں شاتمان رسول ا کے تذکرے میں بہت شہرت پائی ہے ۔احادیث میں کعب بن اشرف یہودی کی دریدہ دہنی اور اس کا انجام تفصیل سے ملتا ہے ،چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت جابر سے مروی ہے کہ رسول اکرم ا نے فرمایا: تم میں سے کعب بن اشرف کے قتل کے لئے کون تیار ہے، اس نے الله اور اور اس کے رسول کو بہت ایذا پہنچائی ہے؟یہ سنتے ہی محمد بن مسلمہ کھڑے ہو گئے اور عرض کیا :یا رسول الله! کیا آپ اس کا قتل چاہتے ہیں ؟آپ ا نے فرمایا: ہاں!چنانچہ حضرت محمد بن مسلمہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ گئے اور جا کر اس گستاخ کا کام تما م کر دیااور جب رات کے آخری حصے میں آپ ا کی خدمت میں پہنچے تو آپ ا نے دیکھتے ہی ارشاد فرمایا
”افلحت الوجوہ“
ان چہروں نے فلا ح پائی اور کامیاب ہوئے ۔ان لوگوں نے جواباً عرض کیا :
”ووجھک یا رسول الله“
اس کے بعدکعب بن اشرف کا سر آپ ا کے سامنے ڈال دیا، آپ ا نے الله کا شکر ادا کیا۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ”الصارم المسلول علی شاتم الرسول“ص :۷۰ تا : ۹۱ پر مفصل کلام کیا ہے کہ منجملہ اور اسباب کے کعب بن اشرف کے قتل کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ وہ رسول اکرم ا کی شان اقدس میں دریدہ دہنی اور سب وشتم کیا کرتا تھا، جس کی بنا ء پر آپ ا نے اس کے قتل کا حکم دیا۔توہین رسالت کے جرم کا مرتکب چوتھا شخص ایک نہایت امیر تاجر ابو رافع بھی تھا ،اسے بھی حضور اکرم ا کی ایما سے ایک صحابی حضرت عبد الله نے اس کی خوابگاہ میں مو ت سے ہمکنار کیا ۔ چنانچہ تاریخ کے مطالعے سے ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ رسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ میں بھی بعض ایسے شیاطین پیدا ہوئے جنہوں نے جناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی شان اقد س میں گستاخی کا ارتکاب کیا ، ایسے اشخاص کی سرکوبی کے لئے خود آنحضرت ا نے حضراتِ صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کوروانہ کیا اور حضرات صحابہ کرام نے ایسے اشخاص کو واصل جہنم کر کے دربارِ رسالت سے جنت کا پر وانہ حاصل کیا ، ان تما م واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں نبی اکرم ا کی شان اقدس میں دریدہ دہنی ، سب وشتم اور گستاخانہ کلمات کا زبان سے نکا لناکتناناقابل معافی جرم ہےتاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی نے یہ مذموم حرکت کرنے کی کوشش کی تو ایسے شخص کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا، اس لیے کہ یہ مسئلہ مسلمانوں کے دین ومذہب اور ایمان کی بقا کا مسئلہ ہے ،تاریخ میں ان عاشقان رسول کے اسمائے گرامی آج بھی روشن ہیں جنہوں نے ایسے شیاطین کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا۔ ناصرف یہ کہ اسلام بلکہ سابقہ ادیا ن کے اند ر بھی اہانت انبیا ء اور تضحیک ادیان ایک ایسا مسئلہ رہا ہے جس کی سزا منجملہ اسلام کے باقی تمام مذاہب میں بھی موجود رہی ہے ،خواہ وہ سنگسار کی صورت میں ہو یا قتل اور زندہ جلائے جانے کی صورت میں ۔ چنانچہ موسوی قانون کے تحت قبل مسیح کے انبیاء کی اہانت اور توراة کی بے حرمتی کی سزا سنگسار مقررتھی،اس کے بعد جب رومن سلطنت کے شہنشاہ جسٹینین (Justinian) کا دور حکومت جو اسلام سے چند سال قبل۵۲۸تا۵۶۵صدی پر محیط ہے اور رومن لاء کی تدوین کا سہرا بھی اسی کے سر ہے اور اس کو عدل و انصاف کا مظہر بھی سمجھا جاتا ہے،اس نے جب دین مسیحی قبول کرلیا تو قانون موسوی کو منسوخ کر کے انبیاء بنی اسرائیل کے بجائے صرف یسوع مسیح کی توہین اور انجیل کی تعلیمات سے انحراف کی سزا سزائے مو ت مقرر کی ،اس کے دور سے قانون توہین مسیح سارے یورپ کی سلطنتوں کا قانون بن گیا ۔روس اوراسکاٹ لینڈ میں اٹھارویں صدی تک اس جرم کی سزا سزائے موت ہی دی جاتی رہی ۔ تاریخ کی یہ بھی ایک معروضی حقیقت ہے کہ ماضی میں برطانیہ ،امریکہ ،روس اور یورپ کے کسی ملک میں بھی جب تک چرچ اور اسٹیٹ (دین اور ریاست) ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہوئے تھے ،اس وقت تک ان سارے ملکوں میں چرچ کو مملکت پر برتری حاصل تھی اور وہاں یسوع مسیح کی پرستش ہو تی تھی ،لیکن جب دین اور سیا ست کی تفریق عمل میں آئی اور ان ممالک نے لادینی یعنی سیکولرزم کو اپنا طرز حکومت بنا لیا ،تب بھی ان ممالک سے ذوق پرستش ختم نہیں ہو سکا، بلکہ اس نے ایک نئی صورت اختیار کرلی ،اب یسوع مسیح کی تعلیمات کی پیروی کے بجائے ریا ست کوہی سب کو سمجھ لیا گیا گیا،چنانچہ دنیا میں جہاں کہیں بھی سیکولر حکومتیں قائم ہوئیں،وہاں ریاست کی مخالفت کو سنگین جرم ،بغاوت اور غداری قرار دیا گیا ۔ آج دنیا کے تمام ملکوں میں ․․․․․خوا ہ وہ سیکو لر ہو ں یا غیر سیکو لر․․․․ جرم بغاوت کا قانون موجود ہے ،جس کی سزا سزائے موت مقرر ہے ،جو لو گ بھی اس جرم کے الزا م میں ماخوذ ہوں، انہیں گولیوں سے اڑا دیا جاتا ہے یا پھر انہیں تختہٴ دار پر کھینچا جاتا ہے ، امریکہ جیسے مہذ ب اور ترقی یافتہ ملکوں میں بھی انہیں گیس چیمبر ز،الیکٹرک چئیر میں بٹھا کر اذیت نا ک طریقے سے ماردیا جاتا رہا ہے اور جن ممالک میں اس جرم کی سزا ،عمر قید ہے وہا ں ایسے ملزموں کوعقوبت خانوں میں تڑپ تڑپ کر مرنے کے لئے بند کر دیا جا تا ہے ،مگر اس قانون کے خلا ف آج تک کسی نے لب کشائی نہیں کی، تو کیا پھر وہ ذات مبارک جس کی وجہ سے یہ دنیا معرض وجود میں آئی ،جن کا نامِ نامی ہی اس دنیا کے قیام اور بقا کا ضامن ہے، اس کی عزت اور ناموس پر حملہ کرنے والوں کے خلا ف قانون توہین رسالت ،قابل اعتراض قانون ہے؟قانون توہین رسالت پر اعتراض دراصل دین و مذہب بلکہ خود اپنی عقل و دانش اور فہم و فراست سے یکسر انکار ہے ۔ لہٰذا یہود و نصاریٰ کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ مسلمان اپنے آپ کو گالی دینے والے کو تو سو بار معاف کر سکتا ہے لیکن اپنے نبی مکرم اکی شان اقدس میں گستاخی کا ارتکاب کرنے والے کو ایک لحظہ بھی برداشت نہیں کر سکتا،کیونکہ یہ اس کے ایمان کا حصہ ہے ۔ لیکن صد افسوس کہ ہم ذاتی فوائد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی مصنوعات کو سر عام ڈھٹائی کے ساتھ استعمال کرتے رہتے ہیں اور تاویل یہ پیش کرتے ہیں کہ کیا کریں جی ! اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ،کیا دین ومذہب اور خاص کر ہمار ے نبی صلی الله علیہ وسلم کی محبت کا یہی تقاضا ہے ؟ آج کے مسلمانوں کابھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ دین و مذہب ،شعائرِ اسلام،انبیاء کرام اور خاص کرجناب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی محبت میں اتناسرشار ہوں کہ جو ممالک بھی اسلام ،شعائرِ اسلام یا کسی بھی نبی کی شا ن میں اشارے، کنائے سے ذرا سی بھی گستاخی کریں توہم ایسے تمام ممالک سے سفارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ ان کی تمام مصنوعا ت کا مکمل بائیکا ٹ کردیں ، اس کے ساتھ ساتھ مسلم حکمرانوں کوبھی اپنے آقا کی عزت وناموس کی حفاظت کے لیے بید ار ہونا ہو گا۔ یہاں ایک اوروضاحت کردوں کہ اسلام دہشت گردی یا تشدد کی راہ کو ہر گز ہموار نہیں کرتا، بلکہ اسلام ان تما م چیزوں کی روک تھام کر تا ہے لیکن جب مسئلہ ایمانی حمیت وغیرت اور دین کی اساس کا ہو تو اس وقت کوئی بھی مذہب اس چیز کومعاف نہیں کرسکتا۔ آئیے یہ عہد کریں کہ ہم باہمی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر سب سے پہلے اپنے نبی ا کے ناموس کی حفاظت کریں گے، تاکہ سرورکائنات صلی الله علیہ وسلم کے سامنے ہم اس بات کا اقرار کرسکیں کہ ہم نے اپنی کم ہمتی کے باوجود آپ کے نامِ نامی کے تقد س کی حفاظت کے لئے لمحہ بھر بھی توقف نہیں کیا ، نہ معلوم ہمار ا یہ عہد ہی ہماری بخشش اور نجات کا باعث بن جائے ۔ الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ الله تعالیٰ ہمیں اور ہمارے مسلم حکمرانوں کو اپنے پیارے نبی ا سے سچی محبت کرنے اورآپ صلی الله علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی حفاظت کی توفیق عطا فر مائے ۔آمین ۔
Comments
Post a Comment