اللہ نے اپنی ارسال کردہ وحی کے لئے چند جدید نام تجویز کئےہیں۔یہ نام عربی کلام کے ناموں سے اجمال و تفصیل کے اعتبار سے مختلف ہیں ۔ان القاب واسماء میں اس بات کو ملحوظ رکھاگیا ہے کہ فلاں نام کیوں رکھا گیا اور اس کا مادہ اشتقاق کیا ہے ۔ان میں سے دو لقب مشہور ہیں ،(الکتاب ،۲،القرآن)۔
۱۔الکتاب:
الکتاب کے نام سے اس جانب اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس کو سطور میں جمع کیا گیا ہے۔کتابت حروف کے جمع کرنے اور الفاظ کے لکھنے کو کہتے ہیں ۔القرآن کہہ کر اس کے سینہ میں محفوظ ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ۔،القرآن اسی طرح مصدر ہے جیسے القراءۃ قراءت سے ایک چیز یاد اور محفوظ ہوجاتی ہے ۔القرآن واضح اور روشن عربی زبان میں اترا ہے اس کی حفاظت و صیانت کا اس قدر اہتمام کیا گیا کہ یہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا ۔جو لوگ اس بازیچہ طفلاں بنانے کے درپے تھے اوراس میں تحریف کرنے کے خواہاں تھے وہ مایوس ہو کر رہ گئے۔اس کی وجہ یہ کہ قرآن کو نہ تو باقی کتابوں کی طرح صرف لکھ کر محفوظ کیا گیا ،اور نہ صرف حفظ کے ذریعہ اس کی حفاظت کا اہتمام ہوا ،بلکہ کتابت کے ساتھ ساتھ تواتر اسناد بھی اس کے حصہ میں آئیں ۔مزید براں اسناد متواتر کے پہلو بہ پہلو اس کی نقل وروایت میں انتہائی امانت و دیانت کو ملحوظ رکھا گیا۔
۲۔القرآن:
قرآن کریم کے یہ دونوں نام الکتاب ،القرآن ،آرامی الاصل ہیں ۔کتابت کے معنی آرامی زبان میں حروف کا لکھنا اور نقش کرنا ہے ۔قرأت آرامی زبان میں تلاوت کو کہتے ہیں ۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے لئے یہ دونوں نام کس لئے تجویز کئے گئے۔وحی محمدی کو جملہ مراحل وادوار میں یہ امتیاز ہمیشہ حاصل رہا کہ اس کے نصوص وتعلیم کو سینوں اورسفینوں میں جگہ دی گئی۔
مگر ان دونوں ناموں میں سے القرآن کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی ۔اس کی حّد یہ ہے کہ کتاب ربانی کے لئے قرآن کے لفظ نے ایک شخصی حیثیت حاصل کر لی ۔لہٰذا نہایت موزوں ہے کہ وحی اور قرآن سے متعلق مباحث کو چھیڑنے سے پہلے ہم یہ دیکھیں کہ قرآن کا لفظ کس سے مشتق ہے ،کیونکہ لغات سامیہ میں چند اور الفاظ بھی اس سے ملتے جلتے ہیں نیز یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کے دیگر اہم اسماء کیا ہیں اور ان کا لغوی مفہوم و مدلول کیا ہے ۔خواہ السنہ سامیہ اور عربی زبان میں ان سے ملتے جلتے الفاظ ہوں یا نہ ہوں۔
علماء نے لفظ قرآن کے بارےمیں مختلف افکارو آراء کا اظہار کیا ہے ۔چنانچہ بعض اس کو مہموز اور بعض غیر مہموز کہتے ہیں ۔امام شافعی الفرّاء(الفرّاء کوفہ کے مشہور نحوی اور ائمہ لغت میں سے تھے ،حوالہ ،طبقات الزبیدی،ص۱۴۳)کے نزدیک یہ غیر مہموز ہے ۔اس ضمن اختلافا ت کا خلاصہ حسب ذیل ہے ۔
۱۔امام شافعی کہتے ہیں کہ القرآن کا لفظ جس پر تعریف کا الف اور لام داخل کیا گیا ہے نہ مشتق ہے نہ مہموز ہے ۔بلکہ یہ ایک غیر مشتق لفظ ہے اور اس کو اس کلام کے نام کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر نازل ہوا ۔امام شافعی کے نزدیک یہ لفظ قراءت سے ماخوذ نہیں ۔اور اگر قرآن کا مادہ اشتقاق قراءت کا لفظ ہوتا تو پھر پڑہی جانے والی کتاب کو ''قرآن'' کہا جاتا۔(حالانکہ یہ درست نہیں )امام شافی کے نزدیک قرآن کتاب الہی کا اسی طرح نام ہے جیسے تورات اور انجیل دونوں نام ہیں۔(تاریخ بغداداز خطیب ج،۲،ص ۶ ۲)
۲۔الفرّاء کا قول ہےکہ قرآن قرائن سے مشتق ہے ،قرائن کا واحد قرینہ (نشان،علامت)ہے ۔چونکہ آیات قرآنی باہم ملتی جلتی ہیں اس لئے وہ ایک دوسرے کے لئے قرینہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ظاہر ہے کہ قرآئن میں نون اصلی ہے (اس لئے قرآن ،قراءت سے مشتق نہیں ہوسکتا )۔ (الاتقان سیوطی،ج۱،ص۸۷(
۳۔امام اشعری اور ان کے متبعین کا قول ہے کہ قرآن کا لفظ ''قرن الشیءباشیء''(ایک چیز کو دوسری کے ساتھ ملا دینا)سے نکلا ہے ۔کیونکہ کہ قرآن کی آیتیں اور سورتیں باہم ملی جلی ہیں ۔(البرہان،ج۱۔ص۲۷۸)
مذکورہ صدر تینوں آراء میں القرآن کو غیر مہموز قرار دینا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ نظریہ قواعد اشتقاق کے اعتبار سے بعید از قیاس ہے ۔جو لوگ قرآن کے لفظ کو مہموز قرار دیتے ہیں ان میں زجّاج،لحیانی اور علماء کی ایک جماعت شامل ہے۔
۱۔ زجّاج کا قول ہے کہ القرآن بروزن فعلان مہموز ہے۔اس کا مادہ القراء (جمع کرنا) ہے عربی میں بولتے ہیں ۔قرء الماء فی الحوض(حوض میں پانی جمع کیا)۔قرآن کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اس میں سابقہ کتب کے ثمرات کو جمع کر دیا گیا ہے۔(البرھان،ج۱ص۲۷۸)
۲۔علامہ اللحیانی کا قول ہے کہ قرآن بروزن غفران مصدر مہموز ہے ۔اس کا مادہ قرء (پڑھا ) ہے۔قرآ کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ یہ پڑھا جاتا ہے ۔گویا مصدر بمعنی اسم مفعول ہے۔(الاتقان ج،۱ص۸۷)
یہ آخری رائے زیادہ دقیق اور اجح ہے ۔تو گویا قرآن اسی طرح مصدر ہے جیسے قرأت۔دونوں کے معنی و مفہوم میں کوئی فرق نہیںپایا جاتا۔اللہ فرماتا ہے:
''ان علینا جمعہ قرانہ فاذا قرأناہ فاتبع قرأنہ''
''اس کا جمع کرنا اور پرھانا ہمارے ذمہ ہے ۔جب ہم آپ کو پڑھا چکیں تو اس کے بعد آپ پڑھیں ۔''
دور جاہلیت میں جب عرب قرأت کے لفظ سے آشنا ہوئے تو انہوں نے اس کو تلاوت کے علاوہ دوسرے معانی میں استعمال کرنا شروع کردیا ۔
بقول جی برگسٹراسر:آرمی حبشی اور فارسی زبانوں نے عربی زبان پر بڑے انمٹ نقوش ثبت کئے تھے۔ج اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ ان اقوام کی زبانیں تھی جو بڑی متمدن تھی اور ہجرت سے قبل عرب کے قرب جوار میں آباد تھیں۔
جب ہم اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ آرامی طرز تلفظ بلاد فلسطین وشام دجلہ و فرات کے درمیانی علاقہ اور عراق کے بعض حصہ پر غالب تھا تو اس پر حیرت کر نے اور اس کو تسلیم نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہود کی مذہبی زبان آرامی تھی اور وہ عربوں کے پڑوس میں آباد تھے۔۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے آرامی زبان کے مذہبی الفاظ عربوں میں پھیل گئے۔ مشہور مستشرق کرنکو نے لفظ کتاب پر بحث کرتے ہوئے انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں اس طرف ازشارہ کیا ہے ۔اسی طرح مستشرق بلا شیر نے آرامی سریانی اور عربی زبانوں کے بہت سے مذہبی الفاظ کا ذکر کیا ہے جن کو عرب یہودیوںاور دیگر اہل مذاہب کی دیکھا دیکھی استعمال کرنے لگے تھے۔
مندرجہ ذیل الفاظ بھی ان میں شامل ہیں۔
قرء،کتب،تفسیر،تلمیذ،فرقان،قیوم،زندیق۔
خلاصہ کلا یہ کہ فقط قرء اپنی اصل کے اعتبار سے آرامی تھا ۔عربوں نے ظہور اسلام سے قبل اس کو تلاوت کے معنی میں استعمال کر نا شروع کردیا تھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عربوں نے اس کو معرب بنا لیا تھااور اس لئے کتاب ربانی کو قرآن سے موسوم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۳۔فرقان:
قرآن کریم کے ناموں میں سے فرقان بھی ہے قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :
''وہ ذات با برکت ہے جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا ،تاکہ وہ سب جہانوں کے لئے ڈرانے والا ہو۔(سورۃ الفرقان،آیت۱)
فرقان کا لفظ آرامی الاصل ہے ۔اس کے مادہ میں تفرقہ کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔فرقان کے نام سے اس جانب اشارہ کیا کہ یہ کتاب حق وباطل کے مابین حد فاصل ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیتی ہے ۔
۴۔الذکر:
قرآن کریم کا ایک نام الذکر بھی ہے۔قرآن میں فرمایا:
''اور یہ مبارک ذکر ہے جس کو ہم نے نازل کیا ۔''(سورۃ الانبیاء،آیت ۵۰)
ذکر خالص عربی لفظ ہے اس کے معنی عظمت و شرافت کے ہیں قرآن میں فرمایا:
''ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب نازل کی جو تمہارے لئے باعث عظمت و شرف ہے۔''(سورۃ الانبیاء،آیت ۱۰)
۵۔المجید:
قرآن کا ایک نام مجید بھی ہے ۔قرآن میں فرمایا:
''بلکہ وہ قرآن مجید ہے۔''(سورۃ البروج،آیت۲۱)
۶۔العزیز:
قرآن کریم کو عزیز بھی کہتے ہیں۔ قرآن میں فرمایا:
''یہ کتاب عزیز ہے''۔(سورۃ فصلت ،آیت ۴۱)
۷۔العربی:
قرآن کریم کا نام العربی بھی ہے ۔قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
''عربی قرآن کریم۔''(سورۃ الزمر،آیت ۲۸)
بعض علمائے کرام نے نوے سے زائد نام ذکر کیئے ہیں۔
قرآن کریم کی تعریف:
قرآن کو کسی نام سے یاد کیا جائے اس کی جامع ومانع تعریف یہ ہے کہ ''قرآن''وہ کلام معجزہ ہے جسے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر نازل کیا گیا۔ جیسے صحفوں میں لکھا جاتا ہے اور جو آپ سے متواتر منقول ہے اور جس کی تلاوت عبادت کا درجہ رکھتی ہے ۔
قرآن عزیز کی مذکورہ صدرتعریف علماء اصول و عربیت اور فقہاء کے مابین تسلیم شدہ ہے اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
Comments
Post a Comment