Skip to main content

مسلمانوں کے لئے بہت نازک وقت ہے

مسلمانوں کے لئے بہت نازک وقت ہےیوں تو لوگ بہت دنوں سے کہہ رہے ہیں کہمسلمان چار وں طرف سے مصائب میں گھرے ہوئے‘ روز بروز تنزل وادبار کا قبضہ عالم اسلامی پر ہوتا جاتا ہے‘ لیکن درحقیقت نازک وقت اب ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول رب العالمین ﷺ نے اپنے خطبہ میں آئندہ زمانہ کے حالات بیان فرمائے ‘ قیامت تک پیش آنے والے فِتن اور مصائب سے آپ نے اپنی امت کو آگاہ فرمایا۔ اسی سلسلہ میں ارشاد فرمایا کہ:ایک زمانہ آنے والا ہے کہ اس وقت دین پر قائم رہنے والے کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ شاید آج وہی زمانہ آگیا۔عالم اسباب میں کسی قوم کے فنا ہوجانے کے جس قدر اسباب ہوسکتے ہیں‘ وہ سب آج ہم میں موجود ہیں اور طرہ یہ کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔آج جو حالات ہمارے بہت زیادہ افسوسناک ہیں اور عام طور پر مشاہدہ میں آرہےہیں‘ انہیں میں سے چند حسب ذیل ہیں۔۱:․․․آج ہم لوگوں میں یعنی اہل سنت وجماعت میں دین اگر ہے تو ہر چیز سے پیچھے ہے۔ کبھی ہماری یہ حالت تھی کہ مال‘ اولاد اور اس سے بھی زیادہ پیاری چیز جان اور اس سے بھی زیادہ پیاری چیز عزت وآبرو ‘ ان سب چیزوں پر دین مقدم تھا۔ ہر مسلمان ہر وقت دین الٰہی پر ان سب چیزوں کو قربان کرنے کےلئے تیار رہتا تھا اور ہر وقت اس تلاش میں رہتا تھا کہ کوئی موقع ملے تو میں کوئی قربانی پیش کروں جس خوش نصیب کو یہ موقع ملجاتا تھا‘ وہ خوش ہوتا تھا۔ جس کو نہ ملتا تھا‘ وہ اپنی عمر انتظار میں بسر کرتا تھا۔ قولہ تعالی: ”فمنہم من قضی نحبہ ومنہم من ینتظر“ آج یہ صفت نصیب دشمناں ہے۔ ہم میں اب اس کا سایہ بھی باقی نہیں‘ الا ما شاء اللہ۔۲:․․․آج دنیا میں جس قدر مذاہب ہیں سب اپنے مذہب کی تبلیغ واشاعت میں سرگرم ہیں اور سب ہمارے ہی افراد کو اپنے اندرجذب کرکے ہمیں کو مٹانا چاہتے ہیں‘ لیکن ہمیں اس کا احساس بھی نہیں اور اگر احساس بھی ہو تو پروا نہیں۔ عیسائی حملے کرتے ہیں تو ہم پر‘ آریوں کے دانت تیز ہیں تو ہم پر‘ مرزائی شکار کرتے ہیں تو ہم کو‘ شیعوں کا جال ہے تو صرف ہمارے لئے۔۳:․․․․مذہب سے بے خبری وبے تعلقی اگرچہ عام ہے مگر ہمارا دولتمند طبقہ تو اس میں ضرب المثل ہے۔۴:․․․․کبھی ہماری یہ حالت تھی کہ اگر دنیا کا کوئی کام ہم کرتے تو لوگ سمجھتے تھے کہ اس کے پردے میں اپنے دین کی کچھ خدمت ان کو منظور ہے‘ آج یہ حالت ہے کہ خالص دینی خدمت کے لئے ہم میں سے کوئی اٹھتا ہے تو اغیار کا کیا ذکر خود اپنوں کو یقین نہیں آتا‘ یہی خیال ہوتا ہے کہ اس پر دہ میں کوئی اپنی ذاتی منفعت‘ کوئی دنیاوی غرض مرکوز خاطر ہے اور ایسا خیال کیوں نہ ہو‘ جبکہ پے در پے تجربے اس کے ہو رہے ہیں۔ آج نہ ہم میں ایثار ہے نہ اخلاص ‘ہر شخص اپنے ذاتی اغراض اور ذاتی منافع کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے‘ ایک ذرا سی منفعتِ دنیاوی کی طمع دلاکر اغیار خود ہمارے ہاتھ سے ہمارے بھائیوں کا گلا کٹوا دیتے ہیں‘ چند پیسوں کی ہمیں امید ہوجائے تو ہم ساری قوم کو قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔۵:․․․آج ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان پر اعتبار باقی نہیں اور کیوں اعتبار ہو جبکہ مشاہدات وتجربات اس کی نفی کرتے ہیں۔۶:․․․․سب سے زیادہ درد انگیز نظارہ ہمارے آپس کی تکفیر وتوہیب ہے‘ ایک گروہ ہم میں سے جس نے گویا اپنے اوپر فرض سمجھ لیا ہے کہ مسلمانوں کو خاص کر اہل سنت وجماعت کو کافر اور وبابی بنایا کرے‘ دین کو انہوں نے ذریعہٴ معاش بنالیا ہے‘ وعظ کا کام جو خاص منصب نبوت کا ایک فریضہ ہے ان کے یہاں ایک پیشہ بن گیا ہے‘ جس نے ان کی سازش میں شرکت نہ کی‘ ان کے خود ساختہ خیالات سے الگ ہوا‘ اس کو وہابی کہہ دینا تو کوئی بات ہی نہیں‘ کافر تک کہہ دیتے ہیں۔آج ہماری وہی حالت ہے جو یہود ونصاری کی قرآن مجید میں بیان فرمائی گئی ہے کہ:وقالت الیہود لیست النصاریٰ علی شئ وقالت النصاری لیست الیہود علی شئ وہم یتلون الکتاب “یعنی یہود نصاریٰ کو اور نصاریٰ یہود کو بے دین کہتے ہیں‘ حالانکہ وہ دونوں کتاب اللہ یعنیتورٰت کی تلاوت کرتے ہیں ‘ بلکہ سچ پوچھو تو ہماری حالت اس سے زیادہ عبرت انگیز ہے۔ یہود ونصاریٰ تو علیحدہ علیحدہ دو امت ہیں‘ یہاں امت ایک یعنی اہل سنت الجماعت ہیں۔ ایک ہی امام کی مقلد ہیں پھر آپسمیں ایک دوسرے کو وہابی اور کافر کہتے ہیں۔ ایک دوسرے کو گردن زدنی جاننا اور ہرقسم کے تعلقات کا اس سے قطع کرنا ضروری سمجھتے ہیں: ایں قصہٴ غم بسے وراز ست۔مختصر یہ کہ ہماری حالت آج بد سے بدتر ہورہی ہے‘ اگر کوئی شخص دین خالص پر قائم ہے تو اس پر ہر طرف سے ملامت ہے‘ اس کے لئے ہرطرح کی مصیبت ہے‘ اگر چہ بمقتضائے بشارت صادق ومصدوق ادین داروںکی تائید عالم غیب سے ہوتی ہے اور ان کو کوئی مغلوب نہیں کر سکتا ‘مگر دنیا عالم اسباب ہے‘ مسلمانوں کی اس حالت کو مشاہدہ کرکے ان کا شیرازہ اس طرح بکھرا ہوا دیکھ کر جن کے دل میں دین کی محبت ہے ان کابے چین ہوجانا لازم ہے۔اس وقت ضرورت ہے کہ جن مسلماوں کے دل میں دین کا درد ہو‘ وہ جلد اٹھیں اور خوب سوچ سمجھ کر اخلاص وللہیت کے ساتھ مسلمانوں کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں‘ غیر مسلموں کو مسلم بنانے کا خیال دل سے نکال کر اپنی تمام توجہ مسلمانوں کو دین سے باخبر بنانے اور ان کا نظام درست کرنے میں صرف کریں‘ تقسیم فرائض کے اصول پر کام کیا جائے اور خدمات بانٹ دی جائیں۔تبلیغ وتنظیم کا ولولہ اس وقت لوگوں کے دلوں میں موجزن ہے اور کچھ لوگ اس کام کے لئے اٹھیں‘ خدا ایسا کرے کہ یہ ولولہ عملی صورت اختیار کرے اور خدا ایسا کرے کہ صحیح راستہ اس کام کا ان کی سمجھ میں آجائے اور شہرت و ناموری اور دوسرے فاسد خیالات سے ان کے دل پاک رہیں‘خالص اللہ کیلئے کام کرنے کی ان کو توفیق ملے۔ آمین ․

Comments

Popular posts from this blog

Yusufzai (Pashtun tribe)

The  Yūsufzai  (also  Youssofzay ,  Yousefzai ,  Yousafzai ,  Esapzey ,  Yousufi , or  Yūsufi ) (Pashto:  يوسفزی ,Persian and Urdu:  یوسف زئی ) is one of the largest Pashtun (Afghans) tribes. The majority of the Yusufzai tribe reside in parts of Western Afghanistan, Khyber Pakhtunkhwa and Provincially Administered Tribal Areas near the Afghan-Pakistan border. They are the predominant population in the districts of Konar, Ningarhar, Mardan District, Dir, Swat,Malakand, Swabi, Buner, Shangla, Haripur District [Khalabat Town Ship and Tarbela] and in Mansehra and Battagram. There is also a Yusufzai clan of Dehwar tribe in the Mastung district of Balochistan who speak Persian with some mixture of Birahvi words. The descendants of Yusuf inhabit Konar, Jalalabad, Swat, Upper Dir, Lower Dir, Malakand Swabi and Mardan. The begotten tribe of  Yusufzai' s are the Utmanzai having 3 major subdivions Alizai, Akazai and Kanazai, of Tarbela (now live in Khalabat Town Ship, District

رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم

  رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم  قرآن مجید میں پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مختلف صفات کا ذکر آیا ہے،  یہ تمام صفات اپنی جگہ اہم ہیں اور آپ کے محاسن کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم صفت یہ ہے کہ آپ کو تمام عالم کے لئے رحمت قرار دیا گیا،  وما أرسلنٰک الا رحمۃ للعالمین (الانبیاء : ۱۰۷)  —– اس تعبیر کی و سعت اور ہمہ گیری پر غور فرمائیے کہ آپ کی رحمت مکان و مقام کی وسعت کے لحاظ سے پوری کائنات کو شامل ہے اور زمانہ و زمان کی ہمہ گیری کے اعتبار سے قیامت تک آنے والے عرصہ کو حاوی ہے، یہ کوئی معمولی دعویٰ نہیں، اور شاید ہی تاریخ کی کسی شخصیت کے بارے میں ایسا دعویٰ کیا گیا ہو، یہ دعویٰ جتنا عظیم ہے اسی قدر واقعہ کے مطابق بھی ہے،  آپ کی رحمت کا دائرہ یوں تو پوری کائنات تک وسیع ہے، زندگی کے ہر گوشہ میں آپ کا اسوہ رحمت کا نمونہ ہے، لیکن اس وقت انسانیت پر آپ کی رحمت کے چند خاص پہلوؤں پر روشنی ڈالنا مقصود ہے ۔ ان میں پہلی بات یہ ہے کہ آپ نے انسانیت کو وحدت الٰہ کا تصور دیا، خدا کو ایک ما ننا بظاہر ایک سادہ سی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن بمقابلہ الحاد و انکار اور شرک و مخلوق پر

عشرة ذوالحجہ

 *✨عشرة ذوالحجہ* *✨مختصر تعارف * 🌿 ذوالحجہ کا پہلا عشره نیکیوں اور اجر و ثواب کے اعتبار سے عام دنوں کے مقابلے میں بہت اہم ہے، جس کی فضیلت قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن مجید میں الله سبحانه و تعالیٰ نے ان دس دن کی قسم کھائی ہے۔ *🌿 وَالْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ*   "قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی" (الفجر : 2-1)  اکثر مفسرین کے نزدیک *’’لَیَالٍ عَشْرٍ‘‘* سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ ان دس دنوں میں کئے جانے والے اعمال الله تعالیٰ کو دیگر دنوں کی نسبت زیاده محبوب ہیں۔ 🌿 رسول الله ﷺ نے فرمایا : "کسی بھی دن کیا ہوا عمل الله تعالیٰ کو ان دس دنوں میں کئے ہوئے عمل سے زیاده محبوب نہیں ہے،  انہوں (صحابہ ؓ) نے پوچھا : اے الله کے رسول ﷺ، جہاد فی سبیل الله بھی نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : "جہاد فی سبیل الله بھی نہیں ہاں مگر وه شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے۔" (سنن ابوداؤد) 🌿 عبدالله ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : "کوئی دن الله تعالیٰ کے ہاں ان دس دنوں سے زیاده عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل الله تعالیٰ