انسانی فطرت وسرشت ہے کہ وہ کہانیوں اور داستانوں کو پڑھ ‘ سن کر اپنے اندر ایک باطنی تأثر محسوس کرتا ہے‘ ایک سلیم الفطرت شخص اپنے اردا گرد پیش آمدہ حادثات وسانحات میں غور کرتا ہے اور اس کے مبادیات ومقدمات اور ان پر مرتب ہونے والے نتائج کا تتبع کرتا ہے‘ تاکہ مثبت ومنفی پہلوؤں کو واشگاف کرے اور پھر اپنے ہدف ومقصد کے حصول میں وہ ان منفی پہلوؤں سے اجتناب کرتا ہے اور مثبت پہلوؤں کو اختیار کرتا ہے‘ یوں اپنے مقصد میں اکثر کامیاب ہی رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم جو قیامت تک آنے والے انسانوں کی راہبری وراہنمائی کرنے والی خدائے پاک کی آخری کتاب ہے‘ جس کو خداوند تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر عربی محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل فرمایا‘ نے بھی فطرتِ انسانی کے اس تارکو چھیڑا ہے اور چونکہ قرآن کریم نے انسانی ارتقاء وکامیابی اور فوز وسعادت کا مدار‘ آخرت میں حاصل کامیابی اور فلاح کو ٹھہرایا ہے‘ اسی خاطر وہ اس سعادت کے حصول پر برانگیختہ کرنے کے واسطے‘ انسانیت کو انہی قسم کے سعداء واشقیاء کے احوال گذشتہ زمانوں میں وقوع پذیر حقیقی واقعات کے آئینہ میں دکھلاتا ہے۔اور پھر ان الف لیلوی داستانوں کو قرآنی قصص وحکایات سے کیا نسبت؟ جن کا اگر تأثر ہوتا بھی ہے تو ان حکایات کی بنسبت وہ گہرائی اور ہوشربائی کیونکر حاصل ہوسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم میں ذکر کردہ یہ واقعات گرانقدر مقام ومنزلت رکھتے ہیں‘ اس لئے کہ یہ محض داستانیں نہیں ہیں جن میں پچھلے لوگوں کی زندگیوں اور ان پر گذرے حالات وواقعات کی معمولی صورت میں افسانہ نگاری کی گئی ہو‘ جن میں حقیقت شنوائی کے بجائے بیشتر حصہ ملمع سازی کا ہوتا ہے‘ بلکہ یہ قصص خیر وشر کے مابین پیش آمدہ معرکہ آرائیوں کے بہترین عکاس ہیں جو قاری کے سینے میں ایک جذبہ وولولہ پیدا کرتے ہیں اور اسے اخیار کے راہ عمل کو اختیار کرنے اور اسی پر گامزن رہنے کے لئے آمادہ کرتے ہیں‘ قرآنی قصص وحکایات کی اسی اہمیت کے پیش نظر اور قرآن کریم کے ان واقعات کی طرف شدید اعتناء کی بناء پر ان قصص کو قرآنی مضامین میں ایک اہم مضمون شمار کیا جاتاہے اور علوم القرآن پر تصنیف شدہ کتب کے مصنفین نے مختلف عناوین کے تحت اس باب کی اہمیت وحیثیت کو آشکارا کیا ہے‘ ان قصص وحکایات کے دو بنیادی فوائد قرآن کریم نے اپنی جامع ومانع عبارات میں اپنے اسلوب ایجاز واختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑے دلنشین پیرائے میں بیان کئے ہیں ،نبی کریم ﷺ کے لئے ان قصص کے بنیادی فائدے کو یوں بیان کیا:
”وکلاً نقص علیک من انباء الرسل ما نثبت بہ فؤادک،وجاء ک فی ہذہ الحق وموعظة وذکریٰ للمؤمنین“۔(سورہ ہود:۱۲)
ترجمہ:․․․”اور ہم پیغمبروں کے قصوں میں سے یہ سارے (مذکورہ) قصے آپ سے بیان کرتے ہیں جن کے ذریعے سے ہم آپ کے دل کو تقویت دیتے ہیں اور ان قصوں میں آپ کے پاس ایسا مضمون پہنچا ہے جو خود بھی راست (اور واقعی ) ہے اور مسلمانوں کے لئے نصیحت ہے اور یاد دہانی ہے“۔ (بیان القرآن)اور دانشوران امت جنہیں قرآن نے ”اولوا الالباب“ (ای اولوا العقول کما فی تفسیر ابن کثیر) کہہ کر مخاطب کیا ہے ان کے لئے ان قصص کی اہمیت کو یوں اجاگر کیا ہے:
”لقد کان فی قصصہم عبرة لاولی الالباب‘ ‘ (سورہ یوسف:۱۱۱)
ترجمہ:․․․․”ان (انبیاء وامم سابقین) کے قصہ میں سمجھ دار لوگوں کے لئے بڑی عبرت ہے“۔ (بیان القرآن)پانچویں صدی ہجری کے قابل قدر عالم ابواسحاق احمد بن محمد نیشاپوری نے اپنی کتاب ”عرائس المجالس“ جو انہی قصص وحکایات کی توضیح وتشریح پر مشتمل ہے کے مقدمہ میں ان قصص کی پانچ عظیم حکمتیں ذکر فرمائی ہیں جو وہاں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔چونکہ راقم کے پیش نظر محض ان قصص کی اہمیت اجاگر کرنا نہیں‘ بلکہ انہی قصص کے متعلق لکھی جانے والی انیسویں صدی عیسوی کی قابل قدر مایہ ناز شخصیت ‘ آزادئ ہندوستان کے لئے اٹھنے والی عظیم جماعت آل انڈیا مسلم کانگریس کے فعال سیاسی کارکن مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی جنہیں زمانہ مجاہد ملت کے نام سے جانتا پہچانتا ہے‘ ان کی گرانمایہ کتاب ”قصص القرآن“ کے متعلق تبصرہ پیش کرنا ہے‘ لہذا اب ذیل میں مقصود بحث رقم کرتا ہے۔
مصنف کا مختصر حیاتی خاکہ
آپ ضلع بجنور کے علاقہ سیوہارہ میں مولوی شمس الدین صدیقی کے ہاں ۱۹۰۱ء بمطابق ۱۳۱۸ھ کو پیدا ہوئے‘ مولوی شمس الدین کا گھرانہ علمی تھا اور زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتے تھے ‘ مولانا کا اصل نام ”معز الدین“ طے پایا‘ جبکہ ”حفظ الرحمن“ (جب الرحمن الف کے ساتھ لکھا جائے) مولانا کا تاریخی نام ہے۔ آپ کے دونوں بھائی علی گڑھ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور مولوی شمس الدین‘ مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی سے نسبت رکھتے تھے‘ گویا مولانا کا گھرانہ دینی ودنیوی ہر دو رخ رکھتا تھا ۔مولانا کے لئے انگریزی تعلیم کے بجائے عربی تعلیم کی قضاء مقدر تھی‘ چنانچہ والدہ ماجدہ کی درخواست پر آپ کے والد نے آپ کو فیض عام مدرسہ سیوہارہ میں داخل کروادیا‘ یہیں آپ کے اساتذہ میں مولانا سید عبد الغفور سیوہاروی خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو مولانا یعقوب نانوتوی کے تلمیذ رشید مولانا آفتاب علی کے شاگرد تھے‘ یوں مولانا کو بواسطہ دو اساتذہ ‘مولانا یعقوب نانوتوی سے جو ہندوستان کے مشہور ومعروف بزرگ صوفی گذرے ہیں‘ نسبت حاصل ہوئی۔بعدزاں آپ نے اپنے تعلیمی سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے ہندوستان کی معروف دینی درسگاہ جس کی آبیاری قاسم العلوم مولانامحمد قاسم نانوتوی نے کی تھی اور گرانقدر اساتذہ کی زیر نگرانی وہ گلشن خوب پھل پھول رہا تھا کا رخ فرمایا‘ چونکہ انیسویں صدی کے اوائل ہی سے ہندوستان شدید سیاسی کشمکش اور خطرناک ہنگامی گہما گہمی سے بھر پور تھا‘ اسی لئے مولانا بھی اپنی تعلیمی تکمیل کے دوران ہی سیاست کی طرف مائل ہوئے اور ۱۹۱۹ء میں جب جمعیة علماء ہند کا قیام عمل میں آیا، تب مولانا اس جماعت کے دل وجان سے حامی اور اس کے موقف کے مؤید وممبر بن گئے۔ ۱۹۲۲ء میں پہلی مرتبہ گرفتار ہوئے‘ اس گرفتاری سے رہائی ملنے پر بقیہ علوم وفنون کی تکمیل کے لئے دوبارہ داخل درس ہوئے‘ دارالعلوم دیوبند کی اس طالب علمانہ زندگی میں مولانا کو جن اکابر اساتذہ سے فیض حاصل ہوا‘ ان میں حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری‘ حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن‘ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیاورحضرت مولانا سید اصغر حسین وغیرہ حضرات سرفہرست ہیں۔ تدریسی زندگی کا آغاز مولانا نے اپنی مادر علمی دارالعلوم دیوبند ہی سے بطور معین المدرسین کیا‘ اس اثناء میں مولانا محمد انور شاہ کشمیری سے قلبی تعلق میں خوب اضافہ ہوا اور آپ ان کے مخصوص نظر شمار کئے جانے لگے۔ دریں اثناء آپ معین المدرسین کے منصب پر دارالعلوم سے وابستہ تھے ‘ مدراس سے آنے والی ایک فرمائش پر مولانا کشمیری نے آپ کو وہاں بھجوادیا‘اسی زمانہ ٴ تدریس میں آپ نے ”حفظ الرحمن لمذہب النعمان“ تصنیف فرمائی۔ مولانا سجاد میرٹھی لکھتے ہیں: ”․․․․․مولانا نے بالکل ابتدائی زمانے میں ایک کتاب مناظرانہ رنگ میں ”حفظ الرحمن لمذہب النعمان“ بھی لکھی تھی‘ اس کا علم مجھے حضرت مولانا عتیق الرحمن صاحب کی زبانی ہوا‘ مگر مولانا بہت جلد فرقہ وارانہ نزاعات کے مقام سے بلند ہوگئے اور مولانا کی یہ کتاب بھی نسیاً منسیاً ہوگئی“۔ یہاں کچھ عرصہ تدریس کے بعد فریضہ ٴ حج کی ادائیگی کے لئے روانہ ہوئے اور واپسی پر ڈابھیل کی طرف علامہ کشمیری کے مدرسہ میں تدریسی خدمات کی انجام دہی کے لئے رخت سفر باندھا ۔۱۹۳۳ء میں انجمن تبلیغ الاسلام کلکة کی دعوت پر کلکة آئے‘ وہاں مولانا عتیق الرحمن صاحب کے ساتھ مل کر اپنی سعی وکوشش سے قلب الہند دہلی میں ندوة المصنفین کی بنیاد رکھی‘ مولانا میرٹھی رقمطراز ہیں:”۱۹۳۸ء میں فضلائے دیوبند کی اس نوجوان پارٹی نے قرول باغ (دہلی) میں” ندوة المصنفین “ کے نام سے ایک تصنیفی وتالیفی ادارہ قائم کیا‘ فضلائے دیوبند کے متعلق بعض حلقوں میں کہا جاتا تھا کہ وہ میدان تحریر میں پس ماندہ ہیں‘ درس وتدریس اور وعظ وتقریر کے ہی مرد میدان ہیں ‘یہ اعتراض اس لحاظ سے تو غلط تھا کہ بعض فضلائے دیوبند کا تنہا تصنیفی وتالیفی کام بڑے بڑے اداروں پر بھاری ہے‘ مگر اس پہلو سے یہ نکتہ چینی درست تھی کہ اکابر دیوبند کی سرپرستی میں کوئی اجتماعی کام اس سلسلے میں نہیں ہوا تھا“۔مولانا کی زندگی کا ایک بڑا باب سیاسیات سے متعلق ان کے کارہائے نمایاں کا ہے‘ دوران طالب علمی جمعیت علمائے ہند میں بحیثیت ممبر شمولیت پھر اپنے اخلاص کی بدولت اپنے اساتذہ کرام جو عرصہ سے میدان سیاست میں شہسواری کررہے تھے‘ کی نظر کرم سے خصوصی استفادہ‘ پھر جرأت واستقلال‘ دور اندیشی اور گہری فکری صلاحیتیں اور مولانا حسین احمد مدنی جیسی باکمال شخصیت کی ہمراہی نے مولانا کی شخصیت کو چار چاند لگا دیئے۔ مولانا کی ہمہ گیر وہمہ جہت شخصیت واقعی اس بات کی مستحق تھی کہ ان کے متعلق چہار دانگ عالم سے خراج تحسین وصول کیا جاتا اور ان کے تمام علمی ‘ عملی اور سیاسی کارناموں کو اجاگر کیا جاتا۔ ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہان پوری نے مولانا سیوہاروی کے متعلق لکھے گئے مضامین ومقالات تالیف فرماکر مرتب کئے تو تقریباً پونے چار سو صفحات پر حاوی ایک ضخیم جلد تیار ہوگئی‘ اسی کتاب کے اخیر میں تقریباً سوا دو سو صفحات میں مولانا کے مختلف خطبات وتحریرات اور حسین مرقعات کو یکجا کردیا گیا ہے‘ یہ کتاب (جو کل ۵۰۸ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے) مئی ۲۰۰۱ء میں جمعیت پلیکیشنز کے زیر اہتمام شائع ہوئی‘ اس کتاب میں بنیادی طور پر مولانا کے سیاسی رخ زندگی کے متعلق لکھے گئے مضامین یکجا کئے گئے ہیں‘ تاہم اس کتاب کو مولانا کی سوانح حیات کہنا بے جا نہ ہوگا‘ دیگر یہ کہ شائقین سیاست کے لئے یہ کتاب اپنے اندر بیش بہا خزانے سموئے ہوئے ہے‘ جس کے ضمن میں قاری پر مولانا کے سیاسی موقف کے درست خد وخال نمایاں ہوتے ہیں۔تقسیم ہند کے بعد اپنی سیاسی کاوشوں کو یوں رائیگاں دیکھ کر مولانا کے معاصرین خود مولانا کی دل شکنی اور اندرونی غم محسوس کرتے تھے‘ لیکن اپنے اس بے پایاں اخلاص کی بدولت تقسیم ہند کے بعد بھی ارباب علم ودانش کے حلقہ میں بہرحال مقبول رہے اور مسلم وغیر مسلم میں یکساں مقبولیت حاصل کرتے رہے‘ گردوں کا کینسر جان لیوا ثابت ہوا‘ کھانسی نے مزید نقاہت میں اضافہ کردیا‘ عمر بھر کی جانفشانی اور محنت سے چور جسم وجان نے یکم ربیع الاول ۱۳۸۳ھ بمطابق ۲/ اگست ۱۹۶۲ء کو ان بکھیڑوں سے نجات پائی اور مولانا داعئی اجل کو لبیک کہتے ہوئے رفیق اعلیٰ سے جا ملے‘ انا للہ وانا الیہ راجعون۔آپ کی تصانیف میں سے ”قصص القرآن“ (جو ہمارا موضوع سخن ہے) البلاغ المبین‘ اسلام کا اقتصادی نظام‘ ”اخلاق اور فلسفہٴ اخلاق“ اور ”رسول کریم“ خوب شہرہ رکھتی ہیں‘ مولانا ابو الحسن علی ندوی فرماتے ہیں:”اس طویل سیاسی جد وجہد کے ساتھ جس کا مزاج علمی کاموں اور تحقیق وتصنیف سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا‘ انہوں نے اپنے علمی ذوق‘ تصنیف وتحقیق کی صلاحیت اور لکھنے پڑھنے سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی‘ وہ ندوة المصنفین دہلی کے بانیوں اور مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی اور مولانا سعید احمد اکبر آبادی کے نہ صرف شریک کار اور ندوة المصنفین کے ایک معمار تھے‘ بلکہ ان دونوں حضرات کو ان سے تقویت اور ندوة المصنفین کو ان سے اعتبار وعزت حاصل تھی‘ اس سلسلے میں ان کی دو تصنیفات ایک تو ”قصص القرآن“ دوسرے ”اسلام کا اقتصادی نظام“ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اردو میں ہمارے علم میں قصص القرآن‘ انبیاء علیہم السلام کی سوانح حیات اور ان کی دعوت حق کی مستند تاریخ وتفسیر (جو قرآن مجید کے گہرے مطالعے اور صحف قدیم اور جدید تحقیقات کی مدد سے مرتب کی گئی ہو‘ اس سے پہلے نہیں تھی‘ عربی میں البتہ مصر کے نامور عالم شیخ عبد الوہاب نجار کی قصص القرآن موجود ہے (غالباً قصص القرآن طباعت کی غلطی ہے‘ اصل نام قصص الانبیاء ہے)“
کتاب ”قصص القرآن“ کا تفصیلی تعارف
قرآنی قصص وحکایات جن کی کچھ اہمیت گذشتہ سطور میں اجاگر کئی گئی‘ وہ موضوع ہے جس میں متقدمین ومتأخرین اہل علم اپنی کاوشیں اور کوششیں صرف کرتے رہے ہیں‘ خصوصاً عربی زبان میں یہ موضوع خاصی اہمیت کا حامل موضوع شمار ہوتا ہے‘ ان قصص وواقعات کو ادبی‘ افسانوی اور ناولز وغیرہ کئی انداز میں لکھا گیا ہے‘ ان میں بھی بیشتر کتب تمام قرآنی قصص سے بحث نہیں کرتیں، بلکہ صرف انبیائے کرام کے متعلق قصص وحکایات کے بیان پر مشتمل ہیں‘ لیکن اردو زبان اس موضوع کے متعلق عرصہ تک بانجھ رہی اور اس موضوع کے متعلق کوئی لائق التفات اور قابل قدر کتاب جو تحقیق وتدقیق اور تنقیح وتفتیش کے اعلیٰ معیارپر اتر سکے‘ عرصہ تک مفقود رہی‘ جو کچھ کتابیں ہندوستان میں ان قصص کے متعلق رائج تھیں‘ ان کی حیثیت بس کہانیوں کی سی تھی جو توارثا منقول ہوتی آرہی تھیں‘ جس کی بناء پر ان قصص کی اصل روح باقی نہ رہی‘ بلکہ کہیں کہیں تو ان واقعات میں ذہنی اٹکل اور محض قیاس آرائیوں سے وہ اضافے ہوتے چلے گئے جن پر بڑی تاریخی اخلاط منتج ہوئیں۔عربی لٹریچر میں تحقیق وتفتیش کے بلند معیار پر مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی قصص القرآن سے کچھ عرصہ قبل ایک عرب عالم شیخ عبد الوہاب النجار کی ”قصص الانبیاء“ منصہٴ شہود پر آچکی تھی اور عرب دنیا میں خاصا شہرت رکھتی تھی‘ یہ کتاب عمدگئی تحریر وسلاست بیان‘ نیز تحقیق وتدقیق کی بلند معیارگی کے ساتھ ساتھ مستشرقین کی ہرزہ سرائی کے دندان شکن جوابات پر مشتمل تھی۔راقم عرض گزار ہے کہ اس پائے کی تحقیق ”قصص الانبیاء“ سے قبل کے تمام عربی لٹریچر سے بھی بالکل مفقود رہی ہے اور مولانا معین الدین ندوی صاحب (ایڈیٹر معارف‘ اعظم گڑھ) کایوں کہنا کہ:”کلام اللہ میں عبرت وبصیرت کے لئے بہت سے انبیاء ورسل علیہم السلام اور ان کی امتوں کے حالات بیان کئے گئے ہیں مگر ان کا مقصد تاریخ اور سوانح نگاری نہیں‘ بلکہ سبق آموزی اور عبرت پذیری ہے (یعنی کلام اللہ انبیاء کے حالات کا پہلا ماٰخذ ہیں)․․․․“کچھ آگے چل کر یوں فرماتے ہیں:” ان کے یعنی انبیاء کے حالات کا دوسرا ماٰخذ احادیث نبوی‘ تیسرا روایات عہد عتیق کے صحیفے‘ قدیم تاریخی کتابیں‘ تاریخی آثار اور اسرائیلی روایات ہیں‘ جن کی مدد سے ان انبیاء علیہم السلام اور ان کی امتوں کے حالات مرتب کئے جاسکتے ہیں ‘ مگر عہد عتیق کے صحیفے محرف ہیں‘ ان میں اور کلام مجید کے بیانات میں بعض اختلافات ہیں‘ اسرائیلیات میں خرافات کا حصہ بھی شامل ہے‘ اس لئے ان سے اخذ واستفادہ میں بڑی احتیاط اور تحقیق وتنقید کی ضرورت ہے‘ عربی میں تو اس نقطہٴ نظر سے ”قصص القرآن“ پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں“۔بہرحال یہ محل نظر ہے‘ اس لئے کہ اس خاص ”نقطہٴ نظر“ سے عربی لٹریچر بھی عبد الوہاب نجار کی قصص الانبیاء کے منصہٴ شہود پر آنے تک بانجھ رہا ہے۔ ”مجاہد ملت“ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ایک سیاسی مطالعہ (جس کا کچھ تذکرہ گذشتہ سطور پر درج کیا گیا) کے باب چہارم ”تصنیفات وتالیفات“ کے ذیل میں دومضامین ذکر کئے گئے ہیں:۱- مجاہد ملت کا تصنیفی درجہ تحریر کردہ: مولانا معین الدین ندوی۲- مجاہد ملت ایک مصنف کی حیثیت سے تحریر کردہ:قاضی زین العابدین سجاد میرٹھیتعجب خیز بات یہ ہے کہ ان ہر دو حضرات نے مولانا سیوہاروی کی قصص القرآن کے عبد الوہاب نجار کی قصص الانبیاء سے انتہائی مستفاد ہونے کو تفصیلاً بیان نہیں فرمایا‘ بلکہ انتہائی اجمال وابہام کے ساتھ قصص الانبیاء کی محض دوسطری تعریف کی ہے‘ حالانکہ خود مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نجار کے طرز تحریر اور انداز بیان سے کافی متأثر محسوس ہوتے ہیں‘ قصص القرآن میں اس تأثر کا جابجا عکس دکھلائی دیتا ہے‘ بلکہ قصص القرآن اور قصص الانبیاء کا بنظر غائر مطالعہ کرنے والا یہ کہے بغیر نہ رہ سکے گا کہ قصص القرآن دراصل قصص الانبیاء میں ذکر کردہ واقعات وابحاث کی ادبی اردو نگار ی اور حسین انشاء پرداز کی صورت میں تشریح وتوضیح ہی ہے‘ جس میں زائد مباحث کی تنقیح کی گئی ہے اور لائق قدر والتفات ابحاث کا اضافہ کردیا گیا ہے اور کتاب کو عبد الوہاب نجار کے طرز وطرق پر ازسرے نو اردو زبان میں تنظیم وترتیب کے خصوصی اسلوب پر مدون کیا گیاہے۔چنانچہ شیخ نجار نے اپنی کتاب کے مباحث میں جن پہلوؤں کو خصوصی توجہات سے نوازا ہے‘ قریباً وہی وجوہات مولانا سیوہاروی کے ہی مدنظر رہی ہیں ”قصص الانبیاء“ کے مقدمہ میں نجار یوں رقمطراز ہیں:
”۱- اخذت نفسی بان ابدأ باسم النبی الذی ارید الکلام فی شانہ رأیین کم مرةً ورد ذکرہ فی القرآن الکریم‘ وادل علی رقم الآیات التی ذکر فیہا من السور المختلفة وقد استعنت علی ذلک بالقاموس او المفہرس الذی عملہ الدکتورفلو جل العالم الالمانی غیر انی جعلت الارقام علی مقتضی المصون الکریم الذی طبعتہ الحکومة المصریة فی سنة ۱۳۴۲ھ ۔۲- اقسم قصص النبی من الانبیاء الی عدة مواقف استوفی کل موقف شانہ فیہ ثم اتبع ذلک بالایات الکریمة التی تدل علیہ مع ذکر رقم کل آیة بعدہا غالباً۳- یغلب ان اذکر ذلک الموقف ان کان لہ ذکر فی العہد القدیم (التوراة) او العہد الجدید (الانجیل) وہو احیاناً یوافق القرآن واحیاناً یخالفہ ولایعزب عن فکر للقاری الکریم ان القرآن جاء مصدقاً لما بین یدیہ من الکتاب ومہیمناً علیہ فما جاء بہ ہو الحق الذی لامراء فیہ وکل ما یخالفہ لایغول علیہ۔۴-ان ابین اوجہ العظة والعبرة التی فی القصة علی وجہ الاختصار۔“
اس مذکورہ اقتباس کے تقابل میں اب مولانا سیوہاروی کے بھی اختیار کردہ اصول ملاحظہ ہوں‘ جنہیں جانچ پرکھ کر یقینا قاری راقم السطور کے تخمینے کی صحت پر شاہد صادق ہوجائے گا‘ مولانا تحریر فرماتے ہیں:”اپنی سادہ طرز نگارش کے باوجود اس مجموعے میں چند خصوصیات کا خاص طور پر لحاظ کیا گیا ہے:۱- کتاب میں تمام واقعات کی اساس وبنیاد قرآن عزیز کو بنایاگیا ہے اور احادیث صحیحہ اور واقعات تاریخی سے ان کی توضیح وتشریح کی گئی ہے۔۲- تاریخ اور کتب عہد قدیم کے درمیان اور قرآن عزیز کے یقین محکم کے درمیان اگر کہیں تعارض آپڑا ہے تو اس کو روشن دلائل وبراہین کے ذریعہ یا تطبیق دی گئی ہے اور صداقت قرآن کو وضاحت سے ثابت کیا گیا ہے۔۳- اسرائیلی خرافات اور معاندین کے اعتراضات کی خرافت کو حقائق کی روشنی میں ظاہرکیا گیا ہے۔۴- خاص خاص مقامات پر تفسیری‘ حدیثی اور تاریخی اشکالات پر بحث وتمحیص کے بعد سلف صالحین کے مسلک کے مطابق ان کا حل پیش کیا گیا ہے۔۵- ہر پیغمبر کے حالات قرآن عزیز کی کن کن سورتوں میں بیان ہوئے ہیں‘ ان کو نقشہ کی شکل میں ایک جگہ دکھا یا گیا ہے۔۶- ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ نتائج وعبر یا عبر وبصائر کے عنوان سے اصل مقصد اور حقیقی غرض وعنایت یعنی عبرت وبصیرت کے پہلو کو خاص طور پر نمایاں کیا گیا ہے۔“لیکن اس اتفاق واتحاد کے باوجود مولانا نے کورانہ تقلید کو راہ نہ دی‘ بلکہ کئی مقامات پر عبد الوہاب نجار کی آراء کے متعلق شدید اور بے لگ تنقید بھی فرمائی ہے اور اپنے مسلک ومشرب کو واضح انداز میں بیان کردیا ہے۔ دیگر یہ کہ قصص الانبیاء باوجود اپنی افادیت کے بہرحال تمام قصص قرآنی سے بحث نہیں کرتی‘ بلکہ اس میں مشہور وخاص انبیاء کرام کے قصص ذکر کئے گئے ہیں‘ جن کی تعداد تقریباً اکیس (۲۱) بنتی ہے‘ خواص انبیاء کرام کے علاوہ دیگر انبیاء (مثلاً یوشع بن نون اور حمویل وغیرہ) کے قصص ضمنی طور پر مختلف عناوین کے تحت مناسبت کے پیش نظر ذکر کئے گئے ہیں۔یہ کتاب بڑی تقطیع کے ۴۶۸ صحفات پر محیط ہے‘ مصر میں یہ کتاب کافی متنازع رہی اور علمائے مصر نے کئی ایک اشکالات اس کتاب کے متعلق مختلف رسائل میں شائع کئے‘ جن کے جوابات نجار نے ان مقامات کے ذیل حواشی میں ذکر کئے ہیں۔اسی طرح قصص الانبیاء کے علاوہ مشہور ومعروف کتب تفاسیر سے بھی اخذ واستفادہ کیا گیا ہے‘ جن میں تفسیر روح المعانی‘ تفسیر ابن کثیر‘ تفسیر ترجمان القرآن‘ ترجمہ شیخ عبد القادر سرفہرست شمار کئے جانے کے لائق ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی تفسیر ”ترجمان القرآن“ ان قصص کے متعلق جدید تحقیقات اور مستشرقین کی نئی ریسرچ سمیت متقدمین علمائے طبقات الارض کی ذکر کردہ جغرافیائی ابحاث سے بھر پور تفسیر ہے۔ مولانا آزاد نے ان قصص کے متعلق کہیں کہیں بڑی حکیمانہ اور علمی طرز وطریق پر ابحاث رقم فرمائی ہیں‘ جس کی بناء پر ان کی یہ تفسیر معاصر علماء کی تفاسیر پر انہی جدیدریسرچز کے وافر مواد کی بناء پر جغرافیائی ابحاث میں ایک گونہ ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن باوجود اس امتیاز کے بہرحال ان کی اس تفسیر میں کئی ایک مقامات قابل مؤاخذہ ومناقشہ پائے جاتے ہیں‘ جن میں سے کچھ کی نشاندہی محدث العصر حضرت علامہ محمد یوسف بنوری نے اپنی مایہ ناز کتاب ”یتیمة البیان“ میں فرمائی ہے۔ مولانا سیوہاروی ان کی علمی ابحاث کو تحسیناً وتردیداً بڑی نکتہ بینی اور محتاط طرز سے پرکھتے ہیں اور تقلید محض کے بجائے تحقیق وتفتیش کے بعد رائے قائم فرماتے ہیں۔احادیث کی تشریحی مباحث کے متعلق مولانا سیوہاروی نے صحیح امام بخاری کی قابل قدر شرح فتح الباری (لابن حجر العسقلانی) کے چشمے سے فیضیابی کی ہے اور جابجا ”فتح الباری“ کے حوالجات ملتے ہیں‘ کتب عہد قدیم یعنی تورات وانجیل نہایت بدترین تحریف کی صورت میں گویا مسخ ہوچکی ہیں اور تحریف در تحریف کا سلسلہ تاحال جاری ہے‘ ایسی صورت میں تورات وانجیل کی ابحاث اور ان کے ذکر کردہ بیانات پر محض کورانہ اعتماد ضیاعِ ایمان کے خطرہ سے خالی نہیں۔ ایسی ہی صورت کو مد نظر رکھتے ہوئے مولانا سیوہاروی اسرائیلی روایات اور تورات وانجیل کے ذکر کردہ واقعات کی خوب جانچ پڑتال فرماتے ہیں اور تناقض وتباین کی صورت کو واضح فرماکر تطبیق وتردید کا محاکمہ فرماتے ہیں‘ حضرت موسی وہارون حضرت حظقیل‘ حضرت یوشع‘ حضرت صمویل اور حضرت عیسی علیہ السلام کے قصص میں جابجا ان کتب عہد قدیم سے اقتباسات نقل فرماکر ان قصص کی مختلف اور بکھری اقساط کو یکجا کردیا ہے۔ فللہ درہ محققاً۔سرزمین عرب سے متعلقہ قصص وواقعات کے متعلق جغرافیائی مباحث کے اعتبار سے حضرت مولانا سید سلیمان ندوی کی ”تاریخ ارض القرآن“ ہندوپاک میں خصوصی شہرہ رکھتی ہے‘ مولانا ندوی کا قابل قدر معیار تحقیق وتفتیش راقم کی کوتاہ نظر میں اس کتاب میں نمایاں معلوم ہوتا ہے۔متقدمین ومتأخرین کی آراء کو یکجا فرما کر مولانا ندوی نے جس انداز میں بحث فرمائی ہے‘ وہ واقعی دل موہ لینے والی ہے‘ سرزمین عرب کی تواریخ کے سلسلے میں ”تاریخ ارض القرآن“ ایک ہندی نژاد عالم کا حسین مرقع ہے اور ان کی یہ کاوش قابل صد مدح وتحسین ہے‘ قصص القرآن کے متعلق تبصرہ میں ”تاریخ ارض القرآن“ کا تذکرہ اس لئے ضروری ہے کہ کئی ایک مقامات پر مولانا سیوہاروی نے اس کتاب سے اخذ واستفادہ فرمایا ہے‘ لیکن یہاں بھی اپنے طرز تنقید وتصویب سے صرف نظر نہیں فرمایا جو طرز قاری جابجا نمایاں محسوس کرے گا۔مولانا سیوہاروی نے قصص القرآن کو چار حصص میں تقسیم فرمایا ہے‘ حالیہ طباعت میں ان چار حصص کو دو جلدوں میں یکجا کردیا گیا ہے اور اب حالیہ طباعت (جو پہلا کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن ہے اور ۲۰۰۲ء میں شائع ہوا) کے تقریباً بارہ سو صفحات پر مشتمل ہے۔حصہ اول: میں حضرت آدم علیہ السلام تا حضرت موسی علیہ السلام وحضرت ہارون علیہ السلام ترتیب وار مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کے قصص بیان فرمائے ہیں۔حصہ دوم :میں حضرت یوشع علیہ السلام تا حضرت یحیی علیہ السلام مختلف انبیاء نبی اسرائیل کا تذکرہ فرمایاہے۔حصہ سوم :میں اصحاب الجنة تا اصحاب الفیل کے قصص قرآنی ترتیب پر تاریخی نقطہٴ نظر کا لحاظ رکھتے ہوئے بیان فرمائے ہیں۔حصہ چہارم: تو گویا حضرت عیسی علیہ السلام کی مکمل سوانح حیات اور خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی جامع قرآنی سیرت مبارکہ ہے ۔ حصہ چہارم کے پیش لفظ ۹/صفر المظفر ۱۳۶۵ھ ۱۲/ جنوری ۱۹۴۶ء کی تاریخ درج ہے‘ ۱۹۴۶ء کے اثناء تقسیم ہند کے سلسلے میں پیش آمدہ خونی حوادث وسانحات پر مطلع شخص مولانا سیوہاروی جیسی سیاسی شخصیت جن کے ملی کارنامے پوشیدہ نہیں‘ ان کی اس علمی کاوش کو کرامت حق کے بغیر نہ رہ سکے گا۔ازاں بعد مولانا زین العابدین سجاد میرٹھی نے بھی ایک کتاب ”قصص القرآن“ کے نام سے تالیف فرمائی‘ جس کی مختلف ابحاث میں جابجا قصص الانبیاء (للنجار) کے حوالجات ملتے ہیں‘ مختصر وقت میں علمی ابحاث کے استفادہ کے لئے اس ”قصص القرآن“ کی طرف مراجعت کی جاسکتی ہے۔ انتہائی ناسپاسی ہوگی اگر قصص القرآن کے متعلق پیش کردہ تبصرہ میں ’وقصص الانبیاء واصحاب صالحین“ کا تذکرہ نہ کیا جائے‘ سید تنظیم حسین جو انجمن اشاعت قرآن عظیم کراچی کے شعبہ تصنیف وتالیف کے رکن رکین رہے ہیں‘ انہوں نے قصص القرآن کا خلاصہ بنام قصص الانبیاء واصحاب صالحین تحریر فرمایا۔ ابتدائیہ میں سید صاحب یوں رقمطراز ہیں:”یہ کتاب (قصص القرآن) چار جلدوں میں تقریباً دو ہزار صفحات پر مشتمل ہے‘ موجودہ مصروفیات کے دور میں بیشتر افراد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ کتاب مختصر اور جامع ہو‘ راقم الحروف نے اس خیال کو ذہن میں رکھ کر انگریزی ادب کے (Abridged edition) کے انداز پر قصص القرآن کا اختصار صرف ۶۰۰ صفحات کی ایک جلد میں پیش کردیا ہے‘ اس اختصار میں ان علمی‘ فلسفیانہ اور تاریخی بحثوں سے صرف نظر کیا گیا ہے جن کا تعلق پند ونصیحت سے نہیں ہے“۔کتاب کی افادیت بھی مسلم ہے اور بہرحال مقصد تلخیص کے پیش نظر ہر شخص باآسانی بالاستیعاب موعظت وبصیرت کے لطائف ومعارف حاصل کرسکتا ہے‘ لیکن قصص القرآن کا علمی خاصہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘ بلکہ یہی علمی‘ تحقیقی اور تنقیدی مضامین ومباحث ہی قصص القرآن کا وہ اہم ترین حصہ ہے جس سے اس موضوع کے متعلق لکھی گئی تمام کتب یکسر عاری ہیں۔زیر نظر مضمون میں درج ذیل مراجع سے استفادہ کیا گیا:۱- عرائس المجالس ابو اسحاق احمد بن محمد نیشاپوری دار احیاء الکتب العربیة۲- قصص الانبیاء الشیخ الدکتور عبد الوہاب النجار مطبعہ مصر شرکة مساہمة مصریة۳- یتیمة البیان علامہ محمد یوسف بنوری مجلس دعوت وتحقیق۴- ترجمان القرآن مولانا ابو الکلام آزاد ۵- تاریخ ارض القرآن مولانا سید سلیمان ندوی مجلس نشریات اسلام۶- قصص الانبیاء واصحاب صالحین سید تنظیم حسین انجمن اشاعت قرآن۷- مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ایک سیاسی مطالعہ مولانا ابوسلیمان شاہجہان پوری جمعیت ۸- پرانے چراغ مولانا زین العابدین سجاد میرٹھی ادارہ اسلامیات
Comments
Post a Comment