قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”من المؤمنین رجال صدقوا ما عاہدوا للہ علیہ فمنہم من قضیٰ نحبہ ومنہم من ینتظر وما بدلوا تبدیلا“۔ (الاحزاب:۳۳)
ترجمہ:․․․”ان ایمان والوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے جس بات کا اللہ سے عہد کیا تھا اسے سچ کرکے دکھا یا پھر ان میں کچھ وہ ہیں جو اپنی نذر پوری کرچکے اور کچھ وہ ہیں جو شہادت کے مشتاق ہیں اور انہوں نے ذرا سا بھی بدل نہیں کیا“ ۔ مجدد سرہندی اور مجدد دہلی کے فضل وکمال اور مجاہدہ : یہ سادات حسنی کا خاندان تھا‘ جس میں مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ دہلوی کی تعلیمات کا فیض آکر مل گیا تھا‘ اس خاندان کا آغاز شیخ الاسلام امیر کبیر قطب الدین مدنی سے ہوا‘ جنہوں نے ساتویں صدی ہجری کی ابتداء میں ہندوستان آکر جہاد کیا‘ اس خاندان کے آخری مورث سید علم اللہ ہیں جو عالم گیر کے زمانہ میں تھے اور حضرت مجدد الف ثانی کے مشہور خلیفہ اور جانشین حضرت سید آدم بنوری کے فیض سے مستفید اور مشرق کے دیار میں ان کے خلیفہ خاص تھے‘ اس خاندان کے ممتاز افراد مجدد دہلوی شاہ ولی اللہ کے فیض درس اور فیض صحبت سے سیراب تھے‘ اس طرح اس خاندان میں حضرت مجدد الف ثانی سرہندی اور مجدد شاہ ولی اللہ دہلوی کی برکتیں اور سعادتیں جمع ہوگئیں۔ تیرھویں صدی کا آغاز تھا کہ اس خاندان میں چودھویں کا چاند طلوع ہوا۔ یعنی ۱۲۰۱ھ میں مجاہد کبیر حضرت سید احمد شاہ شہید کی پیدائش ہوئی۔ چند سال کے بعد یہ مجاہدہ وعرفان‘ نفس کشی اور خدا شناس کا آفتاب بن گیا۔ رسول اللہ اکا ایک غیر فانی معجزہ یہ ہے کہ آپ اکے فیض کا چشمہ کبھی خشک نہیں ہونے پاتا‘ آپ ا کا نمونہ آنکھوں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتا‘ آپ کی امت کی ضرورتیں زیادہ دیر تک اٹکی نہیں رہتیں اور وہ اس طرح کہ آپ اکی مشعل نور سے براہ راست مسلسل طریقے پر سینکڑوں مشعلیں روشن ہوتی رہی ہیں اور قیامت تک ہوتی رہیں گی۔ جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ اللہ کا کام بند نہیں ہوا‘ اللہ کا دین زندہ ہے‘ رسول اللہ ا کی پیروی ہرزمانے میں ممکن ہے اور انہیں کی وجہ سے خاتم النبیین کے بعد کسی نبی کی عملاً ضرورت نہیں۔ اسلام ایک دین ہے‘ اس کے لئے ایک خاص قسم کی اعتقادی‘ دینی‘ اخلاقی تربیت اور انقلاب کی ضرورت ہے۔ نیز بہت بڑے ایثار اور قربانی کی اور جان ومال کا ایثار بھی‘ اور اس کے خلاف ہرقسم کے خیالات ورجحانات اور ارادوں اورر خواہشوں کی قربانی بھی۔ اسلامی دعوت کے علمبرداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ قدیم وجدید تمام مخالف مؤثرات ماحول اور مخالف ذہنی تربیت کے اثرات سے آزاد ہوچکے ہوں اور اس کے اصول ونظام پر پورا ایمان لاچکے ہوں اور ذہنی وعملی طور پر اس کے حلقہٴ بگوش ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں اللہ تعالیٰ دو شخصوں کو پیدا نہ کرتا اور ان سے دین کی دستگیری نہ فرماتا توہندوستان سے دین کا نام ونشان مٹ جاتا (یوں تو اللہ تعالیٰ اپنے دین کا نگہبان ہے۔ لیکن بظاہر ہندوستان کے مسلمانوں کے جلیل القدر محسن اور اسلام کے عظیم الشان پیشوا حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی اور شیخ الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ہیں۔ احیاء اسلام اور خدمت شرع کے تذکرے میں ان نائبانِ رسول اللہ اور درویشوں کے ساتھ ایک دیندار بادشاہ محی الدین اورنگ زیب عالم گیر مرحوم کا نام بھی زبان پر آتا ہے۔ ”ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء․․․“ یہ بڑائی اللہ کی ہے دیتا ہے جس کو چاہے۔سید احمد شہید کے ابتدائی حالاتآپ کی ولادت ۶/صفر ۱۲۰۱ھ -۱۷۸۶ء کو ہوئی۔سلسلہٴ نسب: سید احمد بن سید محمد عرفان بن سید محمد نور بن سید محمد ہدی بن سید علم اللہ بن سید محمد فضیل بن سید محمد معظم بن سید احمد بن قاضی سید محمد بن سید علاؤ الدین بن سید قطب الدین محمد ثانی بن سید صدر الدین ثانی بن سید زید الدین بن سید احمد بن سید علی بن سید قیام الدین بن سید صدر الدین بن قاضی سید رکن الدین بن امیر سید نظام الدین بن امیر کبیر سید قطب الدین محمد الحسنی الحسینی المدنی الکڑوی بن سید رشید الدین احمد مدنی بن سید یوسف بن سید عیسیٰ بن سید حسن بن سید ابی الحسن علی بن ابی جعفر محمد بن قاسم بن ابی محمد عبد اللہ بن سید حسن الاعور الجواد نقیب کوفہ بن سید محمد ثانی بن ابی محمد عبد اللہ الاشتر بن سید محمد صاحب النفس الزکیہ بن عبد المحض بن حسن مثنی بن امام حسن بن امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ۔ حسن مثنی کی شادی اپنے عم نامدار شہید کربلا کی صاحبزادی فاطمہ صغریٰ سے ہوئی تھی اس لئے اس خاندان کو حسنی حسینی کہا جاتا ہے۔تعلیمجب آپ کی عمر چار سال کی ہوئی تو شرفا کے دستور کے مطابق آپ مکتب میں بٹھائے گئے لیکن لوگوں نے تعجب سے دیکھا کہ آپ کی طبیعت خاندان کے اور لڑکوں اور اپنے ہم عمروں کے برخلاف علم کی طرف راغب نہیں‘ تین سال مکتب میں گذر گئے صرف قرآن مجید کی چند سورتیں یا د ہوسکیں اور مفرد ومرکب الفاظ لکھنا سیکھ سکے۔آپ کے مشاغلآپ کو بچپن میں کھیل کا بڑا شوق تھا‘ خصوصاً مردانہ اور سپاہیانہ کھیلوں کا۔ کبڈی بڑے شوق سے کھیلتے۔ اکثر لڑکوں کو دوگروہوں میں تقسیم کردیتے اور ایک گروہ دوسرے گروہ کے قلعہ پر حملہ کرتا اور فتح کرتا‘ اس طرح نادانستہ آپ کی جسمانی وفوجی تربیت کی جارہی تھی۔آپ کی ورزشاللہ تعالیٰ جس سے جو کام لینا چاہتا ہے‘ اس کے لئے اس کا سامان اور اس کا شوق پیدا کر دیتا ہے اور اس قسم کی تربیت فرماتا ہے۔ سید صاحب سے اللہ تعالیٰ نے جو کام لینا تھا‘ اس کے لئے جسمانی قوت وتربیت کی ضرورت تھی‘ چنانچہ آپ کو ابتداء سے بہت زیادہ توجہ اسی طرف تھی اور آپ کے بچپن کے کھیلوں میں بھی یہ چیز نمایاں تھی‘ سید عبد الرحمن مرحوم سپہ سالار افواج نواب وزیر الدولة مرحوم سید صاحب کے چھوٹے بھانجے تھے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ آپ کی عادت تھی کہ سورج نکلنے کے گھنٹوں بعد تک ورزش اور کشتی میں مشغول رہتے۔ میں بچہ تھا‘ آپ کے بدن پر مٹی ملتا‘ یہاں تک کہ وہ مٹی خشک ہوکر جھڑجاتی‘ پیروں پر مجھے کھڑا کر کے پانچ سو ڈنٹ لگاتے پھر کچھ دیر ٹھہر کر پانچ سو اور لگائے۔خدمت خلقجب آپ سن بلوغ کو پہنچے تو آپ کو خدمت خلق کا ایسا ذوق پیدا ہوا کہ اچھے اچھے بزرگ اور خدا پرست انگشت بدنداں رہ گئے۔ ضعیفوں‘ اپاہجوں اور بیواؤں کے گھروں پر دونوں ہی وقت جاتے‘ ان کا حال پوچھتے اور کہتے: اگر لکڑی‘ پانی‘ آگ وغیرہ کی ضرورت ہو تو لے آؤں؟ وہ لوگ آپ ہی کے بزرگوں کے مرید اور خادم تھے۔ کہتے: میاں! کیوں گنہگار کرتے ہیں‘ ہم تو آپ اور آپ کے باپ دادا کے غلام ہیں‘ ہماری مجال ہے کہ ہم آپ سے کام لیں‘ آپ ان کو خدمت گزاری اور اعانت کی فضیلت اس طرح سناتے کہ وہ زار وقطار روتے۔اور باصرار ان کی ضرورتیں معلوم کرکے پوری کرتے‘ بازار سے ان کے لئے سوداسلف لاتے‘ لکڑی لادکر اور پانی بھر کر لاتے اور ان کی دعائیں لیتے اور کسی طرح سے اس کام سے سیری نہ ہوتی ۔عباداتاسی کے ساتھ آپ کو عبادت وذکر الٰہی کا بے حد ذوق تھا‘ رات کو تہجد گزاری اور دن کو خدمت گزاری اور تلاوت ‘دعا اورمناجات میں مشغول رہتے‘ قرآن مجید میں تدبر فرماتے رہتے اور یہی آپ کا مشغلہ تھا ۔دہلی کا قیام اور حضرت شاہ عبد العزیز سے ملاقات:آپ جوان ہو چکے تھے‘ والد کا انتقال ہوچکا تھا‘ حالات کا اقتضاء تھا کہ آپ ذمہ دارانہ زندگی میں قدم رکھیں اور تحصیل معاش کی فکر کریں۔ آپ کی عمر ۱۷‘۱۸ سال کی تھی کہ ۱۲۱۸ھ یا ۱۲۱۹ھ میں اپنے سات عزیزوں کے ساتھ لکھنؤ چلے گئے‘ لکھنؤ رائے بریلی سے انچاس میل کی مسافت پر ہے۔ لکھنؤ پہنچ کر سب ساتھی روز گار کی تلاش میں اِدھر اُدھر پھرنے لگے‘ دن بھر دوڑ دھوپ کرتے مگر بے کار تھا۔ خرچ بھی ختم ہورہا تھا اور اب دو وقت کھانے کے بھی لالے پڑ رہے تھے‘سوائے سید صاحب کے ہر شخص پریشان اور متفکر تھا‘ سید صاحب اپنے عزیزوں کو سمجھاتے رہے اور فرماتے۔ عزیزو! اس تلاش وجستجو اوراس تکلیف ومصیبت کے باوجود دنیا تمہیں نہیں ملتی‘ ایسی دنیا پر خاک ڈالو اور میرے ساتھ دہلی چلو اور شاہ عبدالعزیز کا وجود غنیمت سمجھو۔ لیکن آپ کے ساتھی دوسرے عالم میں تھے‘ یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی‘ بلکہ ہنستے تھے۔ سید صاحب لکھنؤ سے دہلی پہنچ کر شاہ عبد العزیز کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شاہ صاحب نے مصافحہ ومعانقہ فرمایا اور اپنے برابر بٹھایا اور دریافت کیا: کہاں سے تشریف لائے؟ آپ نے فرمایا: رائے بریلی سے‘ فرمایا: کس خاندان سے؟ کہا: وہاں کے سادات میں شمار ہے ۔ فرمایا: سید ابو سعید صاحب اورسید نعمان صاحب سے واقف ہیں؟ سید صاحب نے فرمایا: سید ابو سعید میرا نانا اور سید نعمان صاحب میرے حقیقی چچا ہیں۔ شاہ صاحب نے اٹھ کر دو بارہ مصافحہ ومعانقہ کیا اور پوچھا: کس غرض کے لئے اس طویل سفر کی تکلیف برداشت کی۔ سید صاحب نے جواب دیا: آپ کی ذات مبارک کو غنیمت سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی طلب کے لئے یہاں پہنچا۔ شاہ صاحب نے فرمایا: اللہ کا فضل اگر شامل حال ہے تو اپنے ”ددھیال اور ننھیال“ کی میراث تم کو مل جائے گی۔ اس وقت آپ نے ایک خادم کی طرف اشارہ فرمایا اور کہا: سید صاحب کو بھائی مولوی عبد القادر صاحب کے ہاں پہنچا دو اور آپ کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے کر کہنا کہ اس عزیز مہمان کی قدر کریں اور ان کی خدمت میں کوتاہی نہ کریں۔ ان کا مفصل حال ملاقات کے وقت بیان کروں گا۔ چنانچہ سید صاحب شاہ عبد القادر صاحب کی خدمت میں اکبر آبادی مسجد میں رہنے لگے۔ یہ بھی حسین اتفاق ہے کہ آپ کو اس مبارک خاندان کے دونوں بزرگوں سے استفادے کا موقعہ ملا۔ شاہ صاحب کو سید صاحب سے بڑی محبت تھی اور ایک روایت کے مطابق انہوں نے سید صاحب کی بعض ادائیں دیکھ کر شاہ عبد العزیز سے مانگ لیا تھا۔ آپ نے شاہ عبد القادر سے کچھ پڑھنا بھی شروع کردیا تھا ۔ہر دو ممتاز علماء مولانا شاہ اسماعیل شہید اور مولانا عبد الحی صاحب کو لے کر حضرت سید صاحب ۱۸۲۰ء میں مشرقی اور جنوبی صوبہ جات کے دروہ پر روانہ ہوگئے‘ انگریز ڈبلیوہنر لکھتا ہے کہ:”۱۸۲۰ء میں اس مجاہد نے آہستہ آہستہ اپنا سفر جنوب کی طرف شروع کیا اور ان کے مرید ان کی روحانی فضیلت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ادنیٰ ادنیٰ کام کو بخوبی سرانجام دیتے تھے اور صاحب جاہ اور علماء کے لئے عام خدمت گاروں کی طرح ان کی پالکی کے ساتھ ننگے پاؤں دوڑنا اپنے لئے فخر سمجھتے تھے۔پٹنہ میں ایک مستقل مرکز قائم کرنے کے بعد انہوں نے دریائے گنگاکے ساتھ ساتھ کلکتہ کی طرف کوچ کیا‘ راستے میں لوگوں کو سلسلہٴ مریدی میں داخل کرتے جاتے تھے۔ کلکتہ میں ان کے اردا گرد اس قدر ہجوم ہوگیا تھا کہ لوگوں کو مرید کرتے وقت اپنے ہاتھ پر بیعت کرانا ان کے لئے مشکل تھا۔ بالآخر انہیں پگڑی کھول کر یہ اعلان کرنا پڑا کہ ہر وہ شخص جو اس کے کسی حصے کو چھولے گا ان کا مرید ہوجائے گا“۔ (ہمارے ہندوستانی مسلمان ص:۱۴-۱۵ ڈبلیو ڈبلیو ہنئر)حج کا عزم اور اس کی تبلیغاس سفر سے ہزاروں بلکہ لاکھوں بندگانِ خدا کی اصلاح ہوئی‘ ان کے اخلاق ‘ اعمال اور عقائد درست ہوئے‘ جہاد کی تلقین اور دعوت کے لئے زمین تیار ہوگئی ۔ پنجاب سے برابر خبریں ‘ مظالم کی آرہی تھیں‘ انگریز بھی مطمئن ہوکر اپنے مظالم کی کڑیاں اس زنجیر میں جس میں ہندوستانیوں کو باندھ رکھا تھا‘ بڑھا تا جارہا تھا۔ مگر چونکہ ہندوستان کے اہلِ ثروت فریضہٴ حج ادا کرنا چھوڑے ہوئے تھے‘ کیونکہ خشکی کے راستہ سے مکہ معظمہ جانا بہت ہی طویل مدت اور بہت زیادہ مشقت اور بہت زیادہ مصارف کا متقاضی اور طالب تھا‘ مختلف ممالک‘ افغانستان‘ ایران‘ عراق‘ نجد وغیرہ درمیان میں حائل تھے اور بحری راستہ سمندر کے تلاطم اور طوفان کی وجہ سے لوگوں کی ہمتوں کو پست کئے ہوئے تھا۔ سید صاحب نے ضروری سمجھا کہ فریضہ ٴ حج کی ادائیگی میں جو خوف اور کم ہمتی لوگوں کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے‘ اس کو نکالا جائے اور اس کی ہمت پیدا کی جائے‘ چنانچہ ۱۸۲۲ء میں ایک بڑے قافلہ کے ساتھ آپ نے کلکتہ بندرگاہ سے عرب کا سفر کیا‘ شوال ۱۲۳۶ھ میں سفر حج کے لئے وطن سے روانگی ہوئی‘ راستہ میں مختلف مقامات پر جو گنگا کے کنارے پڑتے تھے ٹھہرتے اور تبلیغی خدمات انجام دیتے ہوئے کئی مہینہ کے بعد کلکتہ پہنچے‘ کلکتہ میں بھی تقریباً تین مہینے قیام کرنا پڑا‘ قافلہٴ حجاج کی تعداد اس قدر زیادہ ہوگئی تھی کہ گیارہ جہاز کرایہ کے لئے گئے۔ وطن سے روانہ ہوکر گیارہ مہینہ بعد یہ قافلہ بخیریت وعافیت مکہ معظمہ پہنچا۔ حج کرنے کے بعد مدینہ منورہ کو روانگی ہوئی اور وہاں تین ماہ سے کچھ زائد قیام کرنے کے بعد مکہ معظمہ کو واپس ہوئے۔ یکم ذیقعدہ ۱۲۳۸ھ مکہ معظمہ سے واپس ہوئے۔ حجاز میں کل قیام چودہ مہینہ رہا۔۲۹/ شعبان ۱۲۳۹ھ کو ایک سال نو ماہ کے بعد وطن عزیز میں داخل ہوئے ۔ (نقش حیات ص: ۴۳۰-۴۳۳ مولانا سید حسین احمد مدنی)تحریک جہاد اور اس کے مقاصد۲۹/ شعبان کو جب یہ قافلہٴ حج واپس وطن پہنچا تو سید صاحب ہمہ تن جہاد کی تیاریوں میں مشغول ہوگئے‘ لیکن شاہ عبد العزیز صاحب جن کی سرپرستی میں یہ تحریک منظم کی جارہی تھی‘ اللہ کو پیارے ہوچکے تھے اور سید صاحب کو یہ موقع نہیں مل سکا کہ حج سے واپسی کے بعد حاضر خدمت ہوکر اپنی جماعت کے حالات اور آئندہ کے بارے میں شاہ صاحب سے مناسب ہدایات حاصل کرسکتے‘ ورنہ اس سے پہلے سید صاحب کی ہر اصلاحی اور تبلیغی مہم کا آغاز دہلی سے ہوا۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ سید صاحب کی تحریک جہاد کے سرگرم ارکان مولانا عبد الحئ ‘ مولانا شاہ محمد اسماعیل اور مولانا محمد یوسف پھلتی تھے‘ جن کی تحریر وتقریر اور عملی کوششوں سے یہ تحریک پروان چڑھی اور ہندوستان کے گوشے گوشے میں اس کا تعارف ہوا اور یہ تینوں حضرات خاندان ولی اللہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سید صاحب کی شہرت اور قبول عام کی ابتداء مولانا عبد الحئ اور شاہ اسماعیل کی بیعت سے ہوئی تھی اور ان حضرات کی بیعت خود شاہ عبد العزیز کی ترغیب اور مشورے کا نتیجہ تھی‘ لہذا سید صاحب کی تحریک ِ جہاد کو استقلالِ امت اور احیاءِ دین کی اس تحریک سے الگ نہیں کیا جاسکتا جس کو حضرت شاہ ولی اللہ نے شروع کیا تھا اور ۱۱۷۴ھ ۱۷۴۱ء میں نواب نجیب الدولہ کی وساطت سے احمد شاہ ابدالی کے ہاتھوں پانی پت کے تاریخی میدان میں مرہٹوں کا زور ختم کرکے دہلی کے اسلامی مرکز کو ان کے خطرات سے محفوظ کر لیا تھا‘ پھر اس تحریک کو حضرت شاہ عبد العزیز صاحب نے درس وتدریس اور وعظ وارشاد کے ذریعہ ملک کے گوشے گوشے میں پھیلادیا اور اپنے مشہور فتویٰ ”دار الحرب“ کی اشاعت سے ہجرت وجہاد کی اس تحریک کو جسے ان کے خاندان کے جگرگوشوں اور روحانی فرزندوں نے عملی جامہ پہنانے کا عزم کیا تھا‘ مزید تقویت پہنچائی تھی‘ یہ تمام حقائق اس امر پر ہیں کہ یہ تحریک تاریخی تسلسل کے ساتھ لگاتار جاری رہی۔ (بریلی سے بالاکوٹ مصنف قمر احمد عثمانی ماخوذ ص:۱۱۹-۱۲۰)۔ سید صاحب کا اصل مقصد چونکہ ہندوستان سے انگریزی تسلط واقتدار کا قلع قمع کرنا تھا‘ جس کے باعث ہندو اور مسلمان دونوں پریشان تھے اس بناء پر آپ نے اپنے ساتھ ہندؤوں کو شرکت کی دعوت دی اور اس میں صاف صاف انہیں بتادیا کہ آپ کا واحد مقصد ملک سے پردیسی لوگوں کا اقتدار ختم کرنا ہے‘ چنانچہ اس سلسلہ میں سرحد سے ریاست گوالیار کے مدار المہام اور مہاراج دولت رائے سیندھیا کے وزیر برادر نسبتی راجہ ہندو راؤ کو آپ نے جو خط تحریر فرمایا ہے وہ پڑھنے کے قابل ہے۔فرمایا:”جناب کو خوب معلوم ہے کہ یہ پردیسی‘ سمندر پار کے رہنے والے دنیا جہان کے تاجدار اور یہ سودا بیچنے والے تاجرسلطنت کے مالک بن گئے ہیں۔ بڑے بڑے امیروں کی امارت اور بڑے بڑے اہل حکومت کی حکومت اور ان کی عزت کو انہوں نے خاک میں ملا دیا ہے۔ جو حکومت وسیاست کے مرد میدان تھے‘ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں‘ اس لئے مجبوراً چند غریب وبے سرو سامان کمربستہ ہوگئے ہیں اور محض اللہ کے دین کی خدمت کے لئے اپنے گھروں سے نکل آئے‘ یہ اللہ کے بندے ہرگز دنیادار اور جاہ طلب نہیں ہیں‘ محض اللہ کے دین کے لئے اٹھے ہیں‘ جس وقت ہندوستان ان غیر ملکی دشمنوں سے خالی ہوجائے گا اور ہماری کوششوں کا تیر مراد کے نشانوں تک پہنچ جائے گا‘ حکومت کے عہدے اور منصب ان لوگوں کو ملیں گے جن کو ان کی طلب ہوگی اور ان حکام واہل ریاست کی شوکت وقوت کی بنیاد مستحکم ہوگی۔ ہم کمزوروں کو والیانِ ریاست اور بڑے بڑے سرداروں سے صرف اسی بات کی خواہش ہے کہ جان ودل سے اسلام کی خدمت کریں اور اپنی مسند حکومت پر برقرار رہیں“۔ (نقش حیات مصنف مولانا سید حسین احمد مدنی ص:۴۱۹ ج:۲‘ طبع دار الاشاعت کراچی)پنجاب اور سرحد کے حالات اور سکھسکھ پنجاب کا ایک مذہبی گروہ تھا جس کی بنیاد پندرہویں صدی عیسوی میں گروبابا نانک کے ہاتھوں پڑی‘ وہ نفس کشی‘ اخلاقیات اور سچائی کی تعلیم دیتے تھے۔ سیر المتاخرین کے بیان کے مطابق بابانانک نے فارسی اور دینیات کی تعلیم ایک بزرگ سید حسین سے حاصل کی تھی اور ان کی بابا نانک پر خصوصی نظر تھی‘ بعض روایات کے مطابق بابا گرونانک متعدد مسلمان درویشوں اور فقیروں کی صحبت میں رہے‘ ان میں پیر جلال‘ میاں مٹھا‘ شاہ شرف الدین‘ پیر عبد الرحمن اور پاک پٹن کے فرید ثانی بعض روایات کے مطابق گرو نانک نے بغداد اور حرمین شریفین کا سفر بھی کیا۔ تیسرے گرو امر داس نے سکھوں کی مذہبی اور معاشرتی تنظیم کے سلسلہ میں سب سے پہلے قدم اٹھایا‘ اکبر بادشاہ ان کے مکان پر ان سے ملنے گیا اور انہیں ایک بڑی جاگیر عطا کی‘ انہوں نے اخلاقیات کی تعلیم میں گرو نانک کی تعلیمات کی روح کو قائم رکھا‘ انہیں کے زمانہ میں امرتسر کے مذہبی مرکز کی بنیاد پڑی‘ اس طرح سکھوں کی قومی زندگی کے لئے ایک روحانی مرکز تیار ہوگیا ۔۱۵۱۸ء میں گرو ارجن اپنے باپ کے جانشین ہوئے‘ انہوں نے سکھوں کو ایک فرقہ کی حیثیت سے منظم کرنے کی مزید کوشش کی۔ گرو ارجن نے اپنے آپ کو سچا بادشاہ کے نام سے ملقب کیا ‘جو ان کے سیاسی اقتدار کی ہوس کا پتہ دیتا ہے۔جہانگیر کے حکم سے گرو کو لاہور میں قید کردیا گیا‘ اس لئے کہ انہوں نے اس کے باغی شہزادہ خسرو کی مالی امداد کی تھی‘ وہاں ان کو قتل کردیا گیا‘ ان کے جانشین ہرگورندنے علانیہ عملی مدافعت ومزاحمت کا طرز عمل اختیار کیا‘ جس سے سکھوں کی فوجی زندگی کا آغاز ہوا۔ جہانگیر نے انہیں گوالیار کے قلعہ میں نظر بند کردیا‘ لیکن کچھ عرصہ بعد رہا کردیا گیا ۔ شاہ جہان کے تخت نشینی کے فوراً بعد انہوں نے کھلم کھلا سرکشی اختیار کردی‘ وہ پہاڑیوں کی طرف نکل گئے ‘ان کے انتقال کے بعد ۱۶۶۴ء میں اورنگ زیب کے زمانہ میں ہرگووند کے بیٹے تیخ بہادر گرو منتخب ہوئے‘ انہوں نے مفروروں اور قانون شکنوں کو پناہ دی‘ اورنگ زیب کے حکم سے ۱۶۷۵ء میں انہیں سزائے موت دی گئی‘ ان کے بعد ان کے بیٹے گووند رائے کو گرو تسلیم کیا گیا‘ انہوں نے سکھوں کو ایک جنگجو قوم بنادیا‘ اورنگ زیب کے جانشین بہادر شاہ نے انہیں دکن کی فوجی کمان عطا کردی‘ لیکن انہوں نے اکتوبر ۱۷۰۸ء میں ایک افغان ملازم کے زخم سے جانبر نہ ہوتے ہوئے انتقال کیا۔ ہرگووند رائے کا جانشین بندہ بیراگی ہوا‘ اس نے پنجاب میں وسیع پیمانے پر رہزنی کی وارداتیں شروع کردیں۔ اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد سلطنت کو زوال آنا شروع ہوگیا‘ اس کے بیٹوں اور پوتوں کے مابین تخت کے لئے متواتر لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے‘ جن کی وجہ سے سکھوں کو کھلم کھلا اپنی طاقت میں اضافہ کرنے کا موقع مل گیا۔ ۱۷۱۰ء میں اس نے سر ہند پر دھاوا بول دیا اور لوٹ مار اور قتل وغارت کے لئے کھلا چھوڑدیا‘ قصبہ کے باشندوں پر ہیبت ناک مظالم توڑے گئے‘ بالآخر ۱۷۱۶ء میں اسے دہلی لاکر قتل کردیاگیا‘ اس کی قیادت میں سکھ فوجی طاقت بن گئے۔سلطنت مغلیہ کی زوالی رفتار بہت تیز تھی‘ پنجاب کی حکومت احمد شاہ ابدالی کے پے درپے حملوں کی وجہ سے کمزور ہوگئی تھی۔ سکھوں کو دوبارہ ابھرنے کا موقع ملا‘ احمد شاہ درانی کے فرزند شاہزاد تیمور کو جو پنجاب کا حاکم تھا نکالنے میں کامیاب ہوئے ‘ بلکہ لاہور پر عارضی طور پر قبضہ بھی کرلیا‘ لیکن رگھوباکے زیرکمان مرہٹوں کی آمد ۱۷۵۸ء پر وہ لاہور سے نکل گئے۔ ۱۷۶۳ء میں سکھوں نے سرہند کو تخت وتاراج کرکے ویران کردیا ۔ایک بار پھر لاہور پر قبضہ کرکے حکومت کا اعلان کردیا‘ اس کے بعد سکھ متعدد ریاستوں اور گروہوں میں منقسم ہوگئے‘ ان پر کوئی حاکم اعلیٰ متعین نہیں تھا اور مذہب کے سوا ان کے درمیان کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ تیس سال کی اس غیر مستقل صورت حال کے بعد پنجاب میں رنجیت سنگھ کا ستارہٴ اقبال بلند ہوا‘ جنہوں نے ان مخالف گروہوں کو ایک مضبوط سلطنت کی شکل میں متحد کردیا۔ ۱۷۹۹ء میں رنجیت سنگھ نے لاہور کو ان تین سرداروں سے چھین لیا جو اس پر حکومت کرتے تھے۔ رنجیت سنگھ نے ایک ایک کرکے وہ تمام ریاستیں اور صوبے جو خود مختار سکھ سرداروں اور مسلمان حکمرانوں کے پاس تھے‘ فتح کرلئے “۔ (تاریخ دعوت وعزیمت ص:۲۸۱)”ملتان کا ایک حصہ جمنا اور ستلج کے درمیان کا سب سے بڑا علاقہ سکھ رئیسوں اور سرداروں کے قبضہ میں تھا‘ جن مسلمان ریاستوں نے نذرانے سے انکار کیا اور مقابلہ کیا ان کو بے ترتیب نیم وحشی اور فتح کے نشے میں سرشار فوجوں کے ہاتھوں سخت ذلت وعذاب کا سامنا کرنا پڑا ۔ احمد خان رئیس جھنگ کی شکست کے بعد سکھوں نے شہر کولوٹ لیا اور تمام رعیت کو روٹی کے ٹکڑوں کا محتاج کردیا“۔ (تاریخ پنجاب اردو از رائے بہادر کنھیا لال ص:۱۷۰)
سن رسیدہ نواب مظفر خان والئی ملتان اور اس کے جواں مرد بیٹوں کی بدست جنگ اور دلیرانہ شہادت کے بعد ملتان حملہ آوروں کے رحم وکرم پر تھا‘ چار پانچ سو مکانات پیو ند زمین ہوگئے‘ عورتوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا گیا‘ بہت سی عورتوں نے کنوؤں میں گر کر جان دی اور عزت بچائی ۔( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: محمد لطیف کی THEHISTORY of THEPUNJABص:۴۱۲) قصور میں سکھوں نے لوگوں کے بدن کے کپڑے تک اتارلئے ‘ عورتیں ننگے سر ‘ ننگے بدن‘ بے ستر ہوکر جابجا اپنے آپ کو چھپاتی پھرتی تھیں ‘ مگر کوئی امن کی جگہ نہیں ملتی تھیں‘ بہت سی جوان عورتیں اور لڑکیاں اور لڑکے سکھوں نے شہر سے پکڑ لئے اور غلام بنانے کے ارادے سے اپنے پاس رکھ لئے۔ (تاریخ پنجاب اردو از رائے بہادر کنھیا لال ص:۱۸۲)افغانستان وسرحدافغانستان وسرحد مسلمانوں کی طاقت کا بڑا مرکز رہے ہیں‘ ہندوستان میں مسلمان فاتح یا تو اسی ملک کے رہنے والے تھے یا اس راستے سے آئے۔ آخر آخر میں بھی جب ہندوستان کے مسلمانوں اور ان کی حکومتوں پر کوئی نازک وقت آیا ہے تو اس ملک نے عین وقت پر مدد کی ہے۔ احمد شاہ ابدالی نے آخر وقت میں مسلمانوں کی عزت رکھ لی اور مرہٹوں کی طاقت کو ہمیشہ کے لئے فناکر دیا‘ لیکن احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد انیسویں صدی کی ابتداء میں جب تمام عالم اسلام میں ایک عام زوال تھا‘ یہ ملک بھی طوائف الملوکی اور بے نظمی کا شکار ہوگیا۔ نا اتفاقی اور خانہ جنگی نے اس طاقت ور ملک کو اتنا کمزور کردیا کہ ہندوستان اور پنجاب کے مسلمانوں کی مدد تو درکنار اس کو اپنی آزادی اور اپنے مقبوضات کا برقرار رکھنا مشکل ہوگیا۔پشاور پر سکھوں کا قبضہمہاراجہ رنجیت سنگھ نے افغانستان کے ان حالات سے پورا فائدہ اٹھایا ۱۸۱۸ء میں مہاراجہ کو اطلاع ملی کہ پشاور میں اس کے مقابلے کے لئے کوئی منظم فوج نہیں۔ ۲۰/ نومبر کو اس نے پشاور پر قبضہ کرلیا ۔ یار محمد خان نے سکھوں کی آمد پر پشاور چھوڑ کر یوسف زئی کے پہاڑ پر پناہ لی‘ مہاراجہ نے شہر کوتباہی سے بچالیا مگر ”بالا حصار وچمکنی“ کو جو مشہور بزرگ شیخ عمر کا مدفن ہونے کی وجہ سے متبرک مقام سمجھا جاتا ہے‘ آگ لگادی ۔ چوتھے دن پشاور کو اپنے حلیف اور وفادار جہانداد خان وزیر خیل کو سپرد کرکے لاہور کو کوچ کیا‘ بعد میں دوست محمد خان نے پچاس ہزار کی ہنڈی (چیک روپیہ کا رقعہ) اور گھوڑے پیش کرکے پشاور کو دوبارہ حاصل کرلیا‘ اس وقت سے پشاور اور یوسف زئی کا علاقہ حکومت لاہور کا باج گزار (ریاست کو محصول دینے والا) بن گیا۔ ہر سال خالصہ (یعنی سکھ) لشکر اس علاقہ میں آکر سالانہ نذرانہ اور تحائف وصو ل کرتا اور واپس چلا جاتا۔سرحد کا انتخابسید صاحب کے نزدیک اگرچہ مقصود اصلی ہندوستان تھا‘ جیساکہ خود ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:” یعنی اس کے بعد میں اپنے مجاہدین کے ساتھ ہندوستان کا رخ کروں گا‘ تاکہ اسے کفر وشرک سے پاک کیا جائے۔ اس لئے میرا مقصد اصلی ہندوستان پر جہاد ہے‘ نہ کہ ملک خراسان (سرحد افغانستان) میں سکونت اختیار کرنا لیکن پنجاب میں جس پر کچھ عرصہ سے رنجیت سنگھ کی باقاعدہ حکومت قائم ہوگئی تھی۔ مسلمانوں کے ناگفتہ بہ حالات ان کی فوری امداد کی ضرورت جو ایک شرعی فریضہ تھا نیز فوجی مصالح اور سیاسی تدبر کا تقاضا تھا کہ یہ مہم ہندوستان کی شمال مغربی سرحد سے شروع کی جائے۔ جو طاقتور وپرجوش افغان قبائل کا مرکز ہے اور جہاں سے ترکستان آزاد مسلمان حکومتوں کی ایک مسلسل زنجیر ہے‘ نقشے پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوسکتاہے کہ پنجاب کے مسلمانوں کی امداد ہندوستان کی دوبارہ تسخیر اور ایک طاقتور اسلامی حکومت کے قیام کے لئے بظاہر اس سے زیادہ موزوں مقام نہیں ہوسکتا“۔سید صاحب کی نگاہ کے سامنے ان لوگوں کا انجام تھا جنہوں نے ہندوستان کے کسی حصہ کو اپنی تحریک اور جنگی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور بہت جلد ان کے گرد سازشوں ‘مخالفتوں اور ریشہ دوانیوں کا ایک جال پھیلادیا گیا جس میں وہ جکڑتے چلے گئے‘ انگریزوں کی زیرک اور پُر فن حکومت ہر حوصلہ مند قائد اور اپنے ہرمخالف کے لئے ایسے حالات پیدا کردیتی تھی کہ اس کی جنگی کاروائیوں اور آزادانہ سرگرمیوں کا میدان تنگ سے تنگ ہوتا چلا جاتا تھا اور وہ محسوس کرلیتا کہ وہ ایک قفس میں محبوس ہے۔ یہ سید صاحب کی بہت بڑی سیاسی بصیرت تھی کہ انہوں نے ہندوستان کے اندر اپنی مجاہدانہ سرگرمیوں کا مرکز نہیں بنایا‘ جس کے لئے بہت جلد ایک ایسا جزیرہ بن جانے کے قوی امکانات تھے جس کے چاروں طرف مخالفتوں ‘ مزاحمتوں اور سازشوں کا ایک سمندر پھیلا ہوا ہوتا اور جس کو کہیں سے کمک یا رسد ملنے کی کوئی توقع نہ رہتی۔ چنانچہ خود سید صاحب نے اس انتخاب اور فیصلے کی وجہ اپنی زبان سے ایک تقریر میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”میں نے ہندوستان میں خیال کیا کہ کوئی جگہ ایسی محفوظ ہو کہ وہاں مسلمانوں کو لے کر جاؤں اور جہاد کی تدبیر کروں ۔ باوجود اس وسعت کے کہ صدہا کوس (میل) میں ملک ہند واقع ہوا ہے‘ کوئی جگہ ہجرت کے لائق خیال میں نہ آئی: کتنے لوگوں نے صلاح دی کہ اسی ملک میں جہاد کرو‘ جو کچھ مال خزانہ ‘ سلاح وغیرہ درکار ہو‘ ہم دیں گے۔ مگر مجھ کو منظور نہ ہوا‘ اس لئے جہاد سنت کے موافق چاہیئے‘ بلویٰ کرنا منظور نہیں۔ تمہارے ملک کے ولایتی بھائی حاضر تھے‘ انہوں نے کہا: کہ ہمارا ملک اس کے واسطے بہت خوب ہے‘ اگر وہاں چل کر کسی ملک میں قیام اختیار کریں تو وہاں کے لاکھوں مسلمان جان ومال سے آپ کے شریک ہوں گے‘ خصوصاً اس سبب سے کہ رنجیت سنگھ والئی لاہور نے وہاں کے مسلمانوں کو نہایت تنگ کر رکھا ہے‘ طرح طرح کی ایذاء پہنچاتا ہے اور مسلمانوں کی بے آبروئی کرتا ہے‘ جب اس کی فوج کے لوگ اس ملک میں آتے ہیں تو مسجدوں کو جلا دیتے ہیں بلکہ عورتوں اور بچوں کو پکڑ لے جاتے ہیں اورر اپنے ملک پنجاب جاکر بیچ دیتے ہیں‘ پنجاب میں وہ مسلمانوں کو اذان بھی نہیں کہنے دیتے‘ مسجدوں میں گھوڑے باندھتے ہیں‘ یہ سن کر میرے دل میں خیال آیا کہ یہ سچ کہتے ہیں اور یہی مناسب ہے کہ مسلمانوں کو متفق کرکے کفار سے جہاد کریں اور ان کے ظلم سے مسلمانوں کو چھڑائیں“۔دعوتِ جہادحج سے واپسی کے بعد تقریباً پونے دو سال دعوتِ جہاد میں صرف ہوئے۔ مولانا عبد الحئی اور شاہ اسماعیل نے تبلیغ جہاد کے لئے اطرافِ ہند کا دورہ کیا‘ ان تبلیغی اور جہادی دوروں کا یہ اثر ہوا کہ ملک کے گوشے گوشے سے لوگ جوق در جوق آکر اس تحریک سے وابستہ ہونے لگے‘ خواتین اسلام کے ایثار وقربانی کا یہ عالم تھا کہ مولانا شاہ عبد الحئی اور مولانا شاہ محمد اسماعیل کی مجالس وعظ میں جن کے پاس نقد جمع کیا ہوا نہ تھا وہ اپنے طلائی زیورات تحریک جہاد کو پروان چڑھانے کے لئے پیش کردیتی تھیں‘ نیز اس دعوت تبلیغ کا یہ اثر ہوا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے اعلیٰ خاندانوں کے ناز ونعم میں پلے ہوئے نوجوان سید صاحب کی قیادت میں سندھ کے تپتے ہوئے ریگستان سے گذر کر بلوچستان کے صحراؤں اور کابل وقندھار کے دشوار گزار پہاڑی راستوں کو عبور کرکے پشاور پہنچے‘ پہاڑوں اور جنگلوں میں مرنے مارنے کے لئے تیار ہوگئے۔ (بریلی سے بالاکوٹ ص:۱۳۶ مصنف قمر امجد عثمانی)سفر ِھجرتجب سید صاحب نے جہاد کے عزم سے ہندوستان کو خیر باد کہا اور اپنے مخلص رفقاء کے ساتھ ہندوستان سے ہجرت فرمائی اور ہندوستان کی شمال مغربی سرحد پر پہنچنے کے لئے آپ نے ہندوستان‘ بلوچستان‘ افغانستان کا نہایت طویل اور بے حد پُرمشقت سفر اختیار کیا آپ کی بلند ہمتی‘ عالی حوصلگی اور جوشِ جہاد اور مجاہدین کی جفا کشی‘ صبر وضبط اور شوقِ جہاد کا اندازہ کے لئے اتنا کافی ہے کہ ہندوستان‘ سرحد‘ افغانستان کے نقشے پر ایک نظر ڈاالی جائے اور راجپوتانے‘ مارواڑ‘ سندھ‘ بلوچستان‘ افغانستان اور صوبہ سرحد کے ان ریگستانوں میدانوں‘ پہاڑوں‘ دروں‘ جنگلوں اور دریاؤں کا تصور کیا جائے جو ان مجاہدین کو طے کرنے پڑے حقیقت میں اس ہفتخواں کا سر کرنا خود ایک مستقل جہاد تھا۔ (اصل میں ہفت خوان رستم ہے) رستم کا سات منزلوں کا نہایت پر خطر اور دشوار گزار سفر جو اس نے کیکاؤس کو شاہ ماژندران کی قید سے چھڑانے کے لئے اختیار کیا تھا ہر منزل پر اژدہا ‘ جادوگر اور دیوں سے مقابلہ ہوتا رہا اور سب کو تہس نہس کرکے نکل گیا۔ چونکہ ہر منزل پر اپنی کامیابی اور سلامتی کے شکرانہ میں دسترخوان بچھاتا تھا اس لئے یہ نام ہوا۔(تاریخ دعوت وعزیمت مصنف مولانا سید ابو الحسن ندوی ج:۶‘ ماخوذ حصہ اول)مجاہدین کی روانگیسید صاحب نے جنوری ۱۸۲۶ء بریلی سے روانہ ہوکر راہ ہجرت میں قدم رکھا اور سرزمین وطن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا مال خانہ سے رقم نکلوائی تو کل دس ہزار روپے نکلے دن بھر سٹی ندی کے کنارے دوستوں اور عزیزوں سے رخصتی ملاقاتیں جاری رہیں رات کے وقت ندی کو عبور کیا اور چند روز کی مسافت کے بعد گوالیار پہنچ گئے۔گوالیارگوالیار میں فتح علی خان کے باغ میں قیام ہوا اور مہاراجہ گوالیار دولت راؤ کی طرف سے جو سید صاحب کا معتقد تھا مہمان داری کا انتظام کیا گیا کئی مرتبہ راجہ ہندو راؤ نے پُر تکلف دعوتیں کیں اور بہت سے تحائف پیش کئے دس بارہ روز ٹھہرکر عازم ٹونک ہوگئے۔ٹونکجب سید صاحب ٹونک پہنچے تو نواب امیر خان اور ان کے فرزند نواب وزیر الدولة خود گھوڑوں پر سوار ہوکر ملاقات کے لئے آتے ‘ یہاں ایک ماہ سے زائد قیام ہوا ۔ ٹونک سے روانگی کے وقت نواب امیر خان نے اسلحہ اور دوسرے سازو سامان کے علاوہ ایک بڑی رقم بطور نقد پیش کی ۔اجمیرٹونک سے چل کر چند روز اجمیرمیں قیام فرمایا ۔سرزمین سندھاجمیر سے مارواڑ اور جودھ پور کے راستے سوہالی‘ سورہا‘ کھوسا بلوچ‘ پاڑیو اور کٹھیا رو غیرہ کی کٹھن منزلیں طے کرتے ہوئے سرزمین سندھ میں داخل ہوئے۔ تمام علاقہ ریگستان تھا راسستے میں دور‘ دور تک کہیں آب وگیاہ کا نام ونشان نہ تھا‘ سندھ میں داخل ہوکر عمر کوٹ کے قریب سے ہوتے ہوئے کارو‘ میر پور‘ ٹنڈو اللہ یار اور ٹنڈجام کے راستے حیدر آباد پہنچے۔پیر صبغة اللہ شاہ عرف پیر پگاڑاحیدر آباد سے اگلی منزل پیر کوٹ تھا جہاں سید صبغة اللہ شاہ کی ملاقات کا عزم تھا سید صبغة اللہ شاہ پیر محمد مکی کی اولاد میں سے ہیں ان کے والد پیر محمد راشد کے عہد میں مریدوں کی تعداد لاکھوں سے تجاوز کرگئی تھی۔ سید صبغة اللہ شاہ والد کی وفات کے بعد ان کے جانشین ہوئے سید صاحب ۱۷/ ذی قعدہ کو پیر کوٹ پہنچے تھے تین دن تک پیر صبغة اللہ شاہ کے یہاں سارے لشکر کی دعوت رہی یہاں کم وبیش دو ہفتے قیام رہا پیر کوٹ سے روانہ ہوکر دریا ئے سندھ کو عبور کیا ایک رات جیب کوٹ میں قیام ہوا اس کے بعد شکار پور پہنچے۔سفر کوئٹہ۲۰/جولائی ۱۸۲۶ء کو سید صاحب کا قافلہ شکارپور سے روانہ ہوا۔ ۲۶/ذی الحجہ کو بھاگ حاجی اور ریڑی کے مقامات سے ہوتے ہوئے دھاڈر پہنچ گئے۔درہ بولانیہ راستہ انتہائی خطرناک تھا دونوں جانب بلند پہاڑوں کی دیواریں کھڑی تھیں چور‘ ڈاکو پہاڑی کمین گاہوں سے نکل کر اچانک حملہ کردیتے تھے ۔ انگریز سیاح لکھتا ہے کہ : یہ لوگ یعنی بلوچستان والے بڑے ہی نادان تھے جنہوں نے ایسے درے کے ہوتے ہوئے ہمیں اپنے ملک میں آنے دیا غرض سید صاحب چار روز کا سامان خورد نوش ہمراہ لے کر یہ محرم الحرام کو درے میں داخل ہوگئے یہاں سے کوئٹہ صرف آٹھ میل کے فاصلہ پر تھا نماز فجر پڑھ کر درے سے باہر نکلے اسی روز یا اگلے روز کوئٹہ پہنچ گئے۔ ۱۸/محرم کو کوئٹہ سے روانہ ہوئے۔ ۲۸/ محرم کو قندھار پہنچے غزنی‘ کابل کے راستے نومبر ۱۸۲۶ء میں پشاور۔پشاورکیوں نہ آپ کے سامنے سید صاحب اور ان کی جماعت اور تحریک پر دشمن انگریز ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کی ”تالیف“ سے اقتباس پیش کردوں جو اس نے ”ہمارے ہندوستانی مسلمان“ کے نام سے تصنیف کی ہے۔پہلے آپ اس فقرہ کو ذہن نشین کرلیں کہ مغربی اقوام کا یہ اصرار ہے کہ ہر محب وطن اور آزادی خواہ کو پہلے لیٹرے ہی کے لقب سے یاد کرتی ہے مولانا مدنی سنیئے سید احمد نے نہایت دانشمندی سے اپنے آپ کو زمانہ کے مطابق بدل دیا۔ چنانچہ انہوں نے قزاقی کا پیشہ ترک کرکے ۱۸۱۶ء میں احکام شرعیہ پڑھنے کے لئے وہاں جاکر ایک جید عالم شاہ عبد العزیز کی شاگردی قبول کی اورر پھر تین سال کی اس طالب علمانہ حیثیت کے بعد ایک مبلغ کی زندگی اختیار کی انہوں نے پرزور طریقہ پر ان بدعات کے خلاف جہاد شروع کیا جو مسلمانانِ ہند کے اسلامی عقائد میں داخل ہوچکی تھیں اور اس طرح پر جوش اور حوصلہ مند لوگوں کو اپنا مرید بنالیا۔ ۱۸۲۰ء میں اس مجاہد نے آہستہ آہستہ اپنا سفر جنوب کی طرف شروع کیا ‘ صاحب ِ جاہ اور علماء عام خدمت گاروں کی طرح ان کی پالکی کے ساتھ ننگے پاؤں دوڑنا اپنے لئے فخر سمجھتے تھے۔ پٹنہ میں طویل قیام کے بعد ان کے مریدوں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ایک باقاعدہ نظامِ حکومت کی ضرورت پیش آگئی‘ کلکتہ میں ان کے ارد گرد اس قدر ہجوم ہوگیا تھا کہ لوگوں کو مرید کرتے وقت اپنے ہاتھ پر بیعت کرانا ان کے لئے مشکل تھا۔ بالآخر انہیں پگڑی کھول کر یہ اعلان کرنا پڑا کہ ہر وہ شخص جو اس کے کسی حصے کو چھولے گا ان کا مرید ہوجائے گا ۔ ۱۸۲۲ء میں وہ حج کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ چلے گئے اگلے سال ماہ اکتوبر میں بمبئی میں وارد ہوئے یہاں پر آپ کی تبلیغی کوششوں کو وہی کامیابی حاصل ہوئی جو کلکتہ میں ہوئی تھی مگر اس لیٹری ولی کے لئے انگریزی علاقے کے پرامن شہریوں کی بجائے ایک اور زیادہ موزوں میدان موجود تھا۔ ۱۸۲۴ء میں سرحد پشاور کے وحشی اور پہاڑی قبیلوں میں آنمودار ہوتے یہاں انہوں نے سکھ سلطنت کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کی تبلیغ شروع کردی۔ پٹھانوں کے قبائل نے نہایت جوش وخروش کی ساتھ ان کی دعوت پر لبیک کہی انہوں نے کابل اور قندھار کا سفر اختیار کیا اور جہاں کہیں بھی گئے ملک کو جہاد پر آمادہ کرتے رہے‘ اس طرح پر مذہبی احکام کی کامیابی کے لئے راستہ صاف کرنے کے بعد انہوں نے خدا کے نام پر ایک باقاعدہ فرمان جاری کیا جس میں تمام مسلمانوں کو جہاد میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی‘ پس ۲۱/دسمبر ۱۸۲۶ء کو سکھوں کے خلاف جہاد شروع ہوجائے گا۔ اس اثناء میں امام صاحب کے قاصدوں نے اس اعلان کو شمالی ہندوستان کے ان بڑے شہروں میں پہچادیا جہاں انہوں نے اپنے مرید بناتے ہوئے تھے ۔ اس کے بعد سکھوں کے خلاف ایک مذہبی جنگ شروع ہوگئی اس جنگ میں کبھی ایک فریق غالب آیا اور کبھی دوسرے فریق کو فتح نصیب ہوئی۔ اس طرح انہوں نے جنگ چپاول میں فتحمندی سے اپنا نام یہاں تک پیدا کر لیا کہ سکھ حاکم ان قبائل کی حمایت خریدنے پر مجبور ہوگیا جو چھا پہ مارنے میں سب سے پیش پیش تھے۔ ۱۸۲۹ء میں تو حالت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ میدان والوں یعنی سکھوں کو پشاور شہر کے متعلق بھی خطرہ محسوس ہونے لگا تھا‘ سرحدی صوبہ کا دار الخلافہ تھا وہاں کے صوبہ دار نے اس جنگ کو ختم کرنے کے لئے دغابازی سے امام صاحب کو زہر دینے کی کوشش کی اور اس افواہ نے کوہستانی مسلمانوں کے جوش کو انتہائی درجہ تک پہنچادیا‘ وہ نہایت ہی جوش وخروش سے میدانی علاقوں پر ٹوٹ پڑے اور کفار کی تمام افواج کو تہ تغ اور اس کے جرنیل کو مہلک طور پر زخمی کردیا صرف شہر پشاور اس فوج کی وجہ سے بچ گیا جو شہزاد شیر سنگھ اور جرنیل وینطور کی ماتحتی میں تھا ایک لشکر جرار اپنے قابل ترین جرنیل کی سرکردگی میں روانہ کیا‘ جون ۱۸۳۰ء میں شکست کھانے کے باوجود امام صاحب کی فوج نے بہت بڑی قوت کے ساتھ میدانی علاقہ پر قبضہ کرلیا اور اس سال کے اختتام سے پہلے خود پشاور کو بھی جو پنجاب کا مغربی دار السلطنت تھا فتح کرلیا پشاور کے چھن جانے کا غم رنجیت سنگھ کے بے نظیر سیاسی تدبر کو بروئے کا لایا اس چلاک سکھ نے معمولی معمولی ریاستوں کو ان کے اپنے مفاد کا واسطہ دے کر اسلامی فوج سے علیحدہ کرادیا اس صورت حال کو دیکھ کر امام صاحب پشاور کو خالی کردینے پر مجبور ہوگئے۔ ۱۸۳۱ء میں سکھ فوج نے جو شہزادی شیر سنگھ کے زیرکمان تھی ان پر اچانک حملہ کردیا اور ان کو شہید کرڈالا۔ (ہمارے ہندوستانی مسلمان مصنف ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر انگریز ص:۱۸‘۱۹‘۲۰)
پٹنہ میں طویل قیام کے بعد ان کے مریدوں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ایک باقاعدہ نظامِ حکومت کی ضرورت پیش آگئی‘ کلکتہ میں ان کے ارد گرد اس قدر ہجوم ہوگیا تھا کہ لوگوں کو مرید کرتے وقت اپنے ہاتھ پر بیعت کرانا ان کے لئے مشکل تھا۔ بالآخر انہیں پگڑی کھول کر یہ اعلان کرنا پڑا کہ ہر وہ شخص جو اس کے کسی حصے کو چھولے گا ان کا مرید ہوجائے گا ۔۱۸۲۲ء میں وہ حج کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ چلے گئے، اگلے سال ماہ اکتوبر میں بمبئی میں وارد ہوئے ،یہاں پر آپ کی تبلیغی کوششوں کو وہی کامیابی حاصل ہوئی جو کلکتہ میں ہوئی تھی، مگر اس ولی کے لئے انگریزی علاقے کے پرامن شہریوں کی بجائے ایک اور زیادہ موزوں میدان موجود تھا۔ ۱۸۲۴ء میں سرحد پشاور کے وحشی اور پہاڑی قبیلوں میں آنمودار ہوئے، یہاں انہوں نے سکھ سلطنت کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کی تبلیغ شروع کردی۔ پٹھانوں کے قبائل نے نہایت جوش وخروش کی ساتھ ان کی دعوت پر لبیک کہی، انہوں نے کابل اور قندھار کا سفر اختیار کیا اور جہاں کہیں بھی گئے، ملک کو جہاد پر آمادہ کرتے رہے‘ اس طرح پر مذہبی احکام کی کامیابی کے لئے راستہ صاف کرنے کے بعد انہوں نے خدا کے نام پر ایک باقاعدہ فرمان جاری کیا، جس میں تمام مسلمانوں کو جہاد میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی‘ کہ ۲۱/دسمبر ۱۸۲۶ء کو سکھوں کے خلاف جہاد شروع ہوجائے گا۔ اس اثناء میں امام صاحب کے قاصدوں نے اس اعلان کو شمالی ہندوستان کے ان بڑے شہروں میں پہنچادیا، جہاں انہوں نے اپنے مرید بنائے ہوئے تھے ۔ اس کے بعد سکھوں کے خلاف ایک مذہبی جنگ شروع ہوگئی، اس جنگ میں کبھی ایک فریق غالب آیا اور کبھی دوسرے فریق کو فتح نصیب ہوئی۔ اس طرح انہوں نے جنگ چپاول میں فتح مندی سے اپنا نام یہاں تک پیدا کر لیا کہ سکھ حاکم ان قبائل کی حمایت خریدنے پر مجبور ہوگیا جو چھا پہ مارنے میں سب سے پیش پیش تھے۔۱۸۲۹ء میں تو حالت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ میدان والوں یعنی سکھوں کو پشاور شہر کے متعلق بھی خطرہ محسوس ہونے لگا تھا‘ سرحدی صوبہ کا دار الخلافہ تھا، وہاں کے صوبہ دار نے اس جنگ کو ختم کرنے کے لئے دغابازی سے امام صاحب کو زہر دینے کی کوشش کی اور اس افواہ نے کوہستانی مسلمانوں کے جوش کو انتہائی درجہ تک پہنچادیا‘ وہ نہایت ہی جوش وخروش سے میدانی علاقوں پر ٹوٹ پڑے اور کفار کی تمام افواج کو تہ تیغ اور اس کے جرنیل کو مہلک طور پر زخمی کردیا، صرف شہر پشاور اس فوج کی وجہ سے بچ گیا جو شہزاد شیر سنگھ اور جرنیل وینطور کی ماتحتی میں تھا، ایک لشکر جرار اپنے قابل ترین جرنیل کی سرکردگی میں روانہ کیا‘ جون ۱۸۳۰ء میں شکست کھانے کے باوجود امام صاحب کی فوج نے بہت بڑی قوت کے ساتھ میدانی علاقہ پر قبضہ کرلیا اور اس سال کے اختتام سے پہلے خود پشاور کو بھی جو پنجاب کا مغربی دار السلطنت تھا ،فتح کرلیا۔ پشاور کے چھن جانے کا غم رنجیت سنگھ کے بے نظیر سیاسی تدبر کو بروئے کا لایا، اس چالاک سکھ نے معمولی معمولی ریاستوں کو ان کے اپنے مفاد کا واسطہ دے کر اسلامی فوج سے علیحدہ کرادیا، اس صورت حال کو دیکھ کر امام صاحب پشاور کو خالی کردینے پر مجبور ہوگئے۔ ۱۸۳۱ء میں سکھ فوج نے جو شہزادہ شیر سنگھ کے زیرکمان تھی، ان پر اچانک حملہ کردیا اور ان کو شہید کرڈالا۔(ہمارے ہندوستانی مسلمان مصنف ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر انگریز ص:۱۸‘۱۹‘۲۰)جنگ بالاکوٹبالاکوٹ مانسہرہ اور ایبٹ آباد کے آگے پہاڑی علاقہ میں واقع دریائے کنہار کے مغربی کنارے پر ہے‘ شیر سنگھ اور سید احمد کی فوجیں دریائے کنہار کے پار ایک دوسرے سے مقابل ہوئیں‘بالاکوٹ کا گاؤں دریا کے مغربی کنارے پر ایک ٹیلے پر واقع تھا‘ شیر سنگھ کی فوج کا پڑاؤ بالاکوٹ سے تھوڑی دورمشرقی کنار ہ پر تھا‘ شیر سنگھ دوراستوں سے بالاکوٹ پر حملہ آور ہوسکتا تھا:۱- بالاکوٹ کے مشرقی کنارے سے دریا پار کے۔۲- پکھلی کی طرف سے بالاکوٹ کے مغربی پہاڑ پر چڑھ کر۔مٹی کوٹ پہاڑی کے دامن اور بالاکوٹ کے آباد حصہ کے درمیان کھیتوں کا ایک نشیبی علاقہ تھا۔ سکھوں کے اقدام کو روکنے کے لئے اس نشیبی علاقہ میں بہت پانی چھوڑ دیا گیا تھا۔اور اسے دلدلی بنادیا گیا تھا۔ سید احمد نے پہاڑی پر جانے والی پوشیدہ پگڈ نڈیوں کی نگرانی کے لئے ایک مختصر سا دستہ تعینات کردیا تھا‘ مگر یہاں بھی غداری اپنا کام کرگئی‘پوشیدہ پگڈ نڈیوں کا پتا سکھوں کو بتا دیا گیا اور کسی کمک کے پہنچنے سے پہلے محافظ دستہ کو اچانک زیر کر لیا گیا۔ مجاہدین کے نقشہٴ جنگ پر یہ بہت بڑی ضرب تھی، کیونکہ اس کے فوراً بعد سکھ تمام پہاڑی پر چڑھ دوڑے جو بالاکوٹ پر سایہٴ افگن تھی۔جنگ شروع ہوئی ،مجاہدین کی مختصر فوج چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم اور ایک دوسرے سے لا تعلق ہوگئی‘ جنگ جم کر ہوئی اور دست بدست۔ سید احمد پہاڑی کے دامن میں بہادری سے لڑتے ہوئے گر گئے۔ کسی نے ان کو گرتے ہوئے نہیں دیکھا ،جو مجاہدین ان کے ساتھ لڑ رہے تھے وہ ان کے ساتھ شہید ہوگئے‘ سید صاحب اور ان کے رفقاء کی شہادت ۲۴/ ذوالقعدہ ۱۲۴۶ھ ۶/مئی ۱۸۳۱ء تقریباً بروز جمعہ قبل از دو پہر ہوئیمعرکہٴ بالاکوٹ میں سکھ فوجوں کی تعداد تقریباً کم وبیش بیس ہزار تھی، جب کہ بالاکوٹ میں موجود مجاہدین کی تعداد ایک ہزار بھی نہ تھی۔ خلاصہ یہ کہ ابتداء میں حضرت سید صاحب کو بہت عمدہ کامیابیاں حاصل ہوئیں، مگر بعد میں اپنوں کی غداریوں ‘ انگریزوں اور سکھوں کی مسلسل سازشوں وغیرہ سے کامیابیاں سست پڑ گئیں، اگر چہ مخلصین کا جوش وخروش بڑھتا ہی رہا ،بالآخر ۱۸۳۱ء میں بمقام بالاکوٹ جنگ وجہاد کرتے ہوئے ایک سرحدی مسلمان کی سازش سے مع شاہ محمد اسماعیل ودیگر رفقاء شہید ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعوناب ہم مختصر طور پر چند باتوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں:۱- یہ تحریک آزادی ہند ۱۸۰۶ء یا ۱۸۰۳ء سے شروع ہوئی اور ۱۹۴۷ء کی آزادی ہند تک باقی رہی ،اس کی جنگی کارروائی صوبہ سرحد میں ۱۸۲۶ء میں شروع ہوتی ہے، چھ برس متواتر جنگ رہنے اور اکثر فتح مند ہونے اور اپنوں کی غداریوں کی بناء پر جبکہ ۱۸۳۱ء میں حضرت سید صاحب اور شاہ محمد اسماعیل صاحب اور بہت سے مجاہدین شہید ہوجاتے ہیں اور باقی ماندہ لوگوں میں سے بہت سے حضرات اپنے اپنے وطن کو واپس آجاتے ہیں ،تب بھی ایک جماعت مسلمان مجاہدین کی وہاں باقی رہتی ہے اور اپنی تمام جد وجہد کی کارروائیوں کو سرگرمی کے ساتھ عمل میں لاتی رہتی ہے، وہ مایوس نہیں ہوتی، وہ جماعت ہزاروں سے بڑھتے بڑھتے بعض اوقات لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ڈاکٹر ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر لکھتا ہے: ”جب ہم نے پنجاب کا الحاق کیا تو تعصب کی اس رو کا رخ جو پہلے سکھوں کی طرف تھا، ان کے جانشینوں یعنی انگریزوں کی طرف پھر گیا، سکھوں کی سرحد پر جس بدامنی سے ہم نے چشم پوشی کی تھی یا جس سے بے پروائی کی تھی، وہ ایک تکلیف دہ وراثت کی صورت میں ہم تک پہنچی تھی۔“(باب اول ص:۲۳)”۱۸۲۱ء میں امام صاحب نے اپنے خلفاء کو منتخب کرتے وقت ایسے آدمیوں کا انتخاب کیا جو بے پناہ جوش وخروش کے مالک اور بہت ہی مستقل مزاج تھے ،ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس کس طرح متعدد بار جب یہ تحریک ناکام ہونے کے قریب تھی، انہوں نے بار بار جہاد کے جھنڈے کوتباہی سے بچاکر از سر نو بلند کردیا۔ پٹنہ کے خلفاء جو انتھک واعظ‘ خود اپنے آپ سے بے پرواہ‘ بے داغ زندگی بسر کرنے والے‘ انگریز کافروں کی حکومت کو تباہ کرنے میں ہمہ تن مصروف اور روپیہ اور رنگروٹ جمع کرنے کے لئے ایک مستقل نظام قائم کرنے میں نہایت چالاک تھے ۔“ (باب دوم ص:۶۳‘۶۴) ”روپیہ اور آدمی ہمارے علاقہ سے تھانہ کیمپ کو متواتر جارہے تھے، اس سلسلہ میں حکومت پنجاب نے ہماری فوج کے ساتھ سازشی خط وکتابت بھی پکڑ لی تھی، یعنی انہوں نے کمال ِ عیاری کے ساتھ ہماری نمبر ۴ دیسی پیادہ فوج کے ساتھ سازش کی تھی جو اس وقت راولپنڈی میں مقیم تھی، ان خطوط سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی تھی کہ بنگال سے باغی کیمپ تک روپیہ اور آدمی پہنچانے کے لئے ایک باقاعدہ نظام موجود ہے ۔ سرحد پر مجنونوں کے کیمپ تک روپیہ اور آدمی پہنچانے کے لئے جو باغیانہ نظام قائم تھا، اس کی طرف سے انگریزی حکومت اب زیادہ دیر تک آنکھیں بند نہ کر سکتی تھی‘ اسی سال یعنی ۱۸۵۲ء میں انہوں نے ہمارے حلیف ریاست رمب کے نواب صاحب پر حملہ کردیا ،جس کی وجہ سے انگریزی فوج بھیجنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ۱۸۵۳ء میں ہمارے بہت سے سپاہی غداروں کے ساتھ خط وکتابت کرنے کے جرم میں سزا یاب ہوئے۔ ایک ہی واقعہ تمام حالات کو واضح کردے گا ۔یعنی ۱۸۵۰ء سے ۱۸۵۷ء تک ہم علیحدہ علیحدہ سولہ فوجی مہمیں بھیجنے پر مجبور ہوئے، جس سے باقاعدہ فوج کی تعداد پینتیس ہزار ہوگئی تھی اور ۱۸۵۶ء سے ۱۸۶۳ء تک ان مہمات کی گنتی بیس تک پہنچ گئی تھی اور باقاعدہ فوج کی مجموعی تعداد ساٹھ ہزار تک ہوگئی تھی۔ بے قاعدہ فوج اور پولیس اس کے علاوہ تھی ،اب ہم تقریباً انہی حالات سے دوچار تھے جو ۱۸۲۰ء و۱۸۳۰ء کے درمیان پیدا ہوگئے تھے اور جس کے نتیجہ پر اس متعصب لشکر نے پنجاب پر اپنا تصرف اور قبضہ جما لیا تھا، یہاں تک کہ سرحدی دار الخلافہ ان کے قبضہ میں ہوگیا، اب جنگ سے گریز کرنا بالکل ناممکن ہوگیا تھا۔۱۸۶۳ء کی لڑائی میں ہم نے کافی نقصان اٹھانے کے بعد یہ سبق حاصل کیا تھا کہ مجاہدین کے کیمپ کے خلاف مہم روانہ کردیناکہ ۵۳ ہزار جنگجو اور بہادر انسانوں کی مجموعی طاقت کے ساتھ جنگ کرنا ہے، ایک ایک دن کی تاخیر دشمنوں کے تعصبی جوش ،ان کی طاقت اور امیدوں کو بہت بڑھا دیتی ہے ۔ کمک کے باوجود ہمارے جرنیل کے لئے آگے بڑھنا ناممکن تھا ۔ ہفتوں تک برطانوی سپاہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ڈر کے مارے درے میں دبکی پڑی ہے اور وادی چومالہ میں بڑھنے کا حوصلہ نہیں رکھتی ۔“ (باب اول ص:۲۴‘۲۵‘۲۸‘۳۴)”بہت مدت تک مجاہدین سرحد کی اس حیرت انگریز قوت کا سرچشمہ ایک راز بنارہا، اس ہندوستان حکومت نے جو ہم سے پہلے پنجاب پر حکمران تھی یعنی سکھ، اسے تین مرتبہ منتشر کیا اور تین دفعہ یہ انگریزی فوج کے ہاتھوں تباہ وبرباد ہوئے ،لیکن باوجود اس کے یہ ابھی تک زندہ ہیں اور دیندارمسلمانوں کے معجزانہ طور پر زندہ رہنے کو ہی ان کے آخر کا ر غالب ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ جس وقت اس سرحدی نو آبادی کو ہم فوجی قوت کے بل بوتے پر تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس وقت ہماری مسلمان رعایا کے متعصب عوام ان لاتعداد آدمیوں اور روپیوں سے مدد دے کر گویا ان چنگاریوں کو ہوا دیتے رہتے ہیں ۔ “ (باب دوم ص:۴۲)”اب میں نے اپنی سرحد پر اس باغی کیمپ کی تمام تاریخ ۱۸۳۱ء سے جبکہ اس کی ابتداء ہوئی ۱۸۶۸ء تک جبکہ انہوں نے ہم کو جنگ میں دھکیل دیا، بیان کردی ہے۔ وہ تمام پرانی مصیبتیں جو انہوں نے سکھ حکومت کے وقت سرحد پر نازل کی تھیں، وہ تمام ایک تلخ وراثت کی صورت میں ہم تک پہنچیں، اس نے تمام سرحد میں تعصبی جذبات کو برقرار رکھنے کے علاوہ تین مرتبہ قبائل کو یکجا اکٹھا کردیا، جس کی وجہ سے برطانوی ہند کو ہرایک موقعہ پر بہت ہی مہنگی لڑائیاں لڑنی پڑیں، یکے بعد دیگرے ہرگورنمنٹ نے اعلان کیا کہ یہ ہمارے لئے ایک مستقل خطرہ ہے، لیکن اس کے باوجود ان کو تباہ کرنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں، ہم نہیں جانتے کہ کس وقت ہم قبائل کی خانہ جنگیوں کی لپیٹ میں آجائیں گے جو وسط ایشیاء میں ہر وقت جاری رہتی ہیں، مگر اس وقت یہ عین ممکن ہے کہ اس سال کے ختم ہونے سے پہلے ایک اور افغانی جنگ لڑنی پڑے، یہ جنگ جب کبھی بھی ہوگی اور جلد یا بدیر ہوکر رہے گی تو ہماری سرحد پر غدار آبادی ہمارے دشمنوں کو ہزار ہا آدمی مہیا کر سکے گی ،ہمیں ان غداروں کی اپنی ذات سے کوئی ڈر نہیں، اگر ہمیں ڈر ہے تو ان شورش پسند عوام سے جن کو یہ مجاہدین ہمارے خلاف جہاد کرنے کے لئے باربار اکٹھا کرتے رہتے ہیں۔ “ (باب اول ص:۴۱)مندرجہ بالا واقعات جوکہ ایک اس دشمن انگریز کے بیانات کے اقتباسات ہیں جس نے اس بارہ میں بہت چھان بین کی ہے اور بہت سے امور کا خود معائنہ کیا ہے، ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تحریک مسلمانوں کی اٹھائی ہوئی نہایت منظم اور دیر پا اور موثر تھی اور اس نے تمام ملک میں اندر اور باہر ایسی بڑی ہلچل پیدا کردی کہ مدبران برطانیہ لرزہ براندام ہوگئے، اس تحریک نے اس قدر جوش اور قربانی کے جذبات پیدا کر دیئے کہ جس کی نظیر اس ملک میں کبھی پائی نہیں گئی ،یہ تحریک اور اس کے چلانے والے اس قدر عالی ہمت‘ مستقل مزاج‘ جفاکش اور منظم تھے کہ انگریزوں کی انتہائی بربریت اور درندگی بھی ان کو فنا نہ کر سکی ،اس تحریک کی رازداری‘ اور اخلاص ودیانت داری اعلیٰ پیمانہ پر تھی ،بے شمار مقدمات چلائے گئے اور ہرقسم کی شیطانی تدبیریں کام میں لائی گئیں، مگر انگریزوں کو کامیابی نہیں ہوئی ۔ ڈاکٹر ہنٹر ص:۷۲ باب دوم پر لکھتے ہیں : ”۱۸۷۰ء میں جب ایسے دوضلعوں کے مراکز کو توڑ دیا گیا تو ان کے رئیسوں کے خلاف غیر جانبدارانہ طور پر عدالت میں مقدمہ چلا گیا تھا ،جہاں ان کو عمر قید ببعبور دریائے شور یعنی کالا پانی اور ضبط املاک کی سزا ہوئی، اس وقت جو واقعات گواہیوں سے ظاہر ہوتے، وہ ہر اس غیر ملکی حکومت کو خوف دلانے کے لئے کافی ہیں جو انگریزی ہو، ہندوستان کی طرح اپنے آپ کو اتنی مستحکم خیال نہ کرتی ہو ۔ ص: ۷۶ پر لکھتا ہے: گذشتہ سات سال کے دوران میں ان غداروں کو یکے بعد دیگرے مجرم ثابت کرکے عمر قید بعبوردریا شور کی سزا دی گئی ۔ الحاصل یہ کہ مجاہدین اور ان کے مددگار مسلمان وہ شریف النفس اور شریف اخلاق والے لوگ تھے جن کو ڈاکٹر ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر باربار مجبور ہوکر انتہائی تعریفی کلمات سے یاد کرتا ہے ،مگر ان کو ہر طرح ستایا گیا۔ان کوسخت سے سخت سزائیں‘ پھانسی‘ عبوردریائے شور‘ عمر قید‘ توہین وتذلیل وغیرہ کی دی گئیں، تاہم نتیجہ کیا ہوا؟ خود ڈاکٹر ہنٹر سے پوچھئے :لیکن ۱۸۶۴ء کا سیاسی مقدمہ غداروں کے جوش کو ٹھنڈا کرنے میں ویساہی ناکام ہوا، جیساکہ ۱۸۶۳ء کی تادیبی مہم ۔“ (باب دوم ص:۸۹)سرحد پر تباہ کن جنگیں اور اندرونی ملک میں عدالتی سزائیں اس قابل نہ ہوئیں کہ مجاہدین کے اتحاد کو توڑ سکیں۔( ص:۹۳) مندرجہ بالا تاریخی اقتباسات جوکہ عموماً صحیح ہیں، مبالغہ کا ان میں شائبہ بھی نہیں ہے ،بلکہ واقعات سے بہت کم ہیں، ناظرین غور فرمائیں اور دیکھیں کہ مسلمانوں کی جد وجہد اور تحریک آزادی ہند میں جانبازی اور سرفروشی کس قدر عظیم الشان اور کس بلندی پر پہنچی ہوئی اور کس قدر پرانی ہے ‘ کیا کوئی دوسری جماعت اس کے مقابل تاریخی اعتبار سے اپنا یا اپنی جماعت کا نام پیش کر سکتی ہے؟۔ ہرگز نہیں۱- یہ جماعت حقیقةً ۱۸۰۳ء سے وجود میں آئی یعنی جس وقت شاہ عبد العزیز صاحب نے ہندوستان دار الحرب ہے کا فتویٰ دیا ۔۲-اس جماعت نے کھلے بندوں آزادی کی تحریک کی قیادت کی اورلوگوں کو جہاد کے لئے آمادہ کیا۔۳-اس جماعت نے ملک کے اکثر حصہ میں دورہ کرکے آزادی کا جوش وخروش پیدا کیا۔۴-اس جماعت نے باقاعدہ تنظیم کی، ہر ہر ضلع‘ صوبہ اور قصبات وغیرہ میں مراکز بنائے اور عہدے دار مقرر کئے۔۵- یہ جماعت سرحد تک کئی ہزار میل سفر کرکے جب کہ ریل‘ ہوائی جہاز ‘ موٹریں نہ تھیں ،ہرقسم کی تکالیف جھیلتی ہوئی ہزاروں جان فروشوں کو لئے ہوئے پہاڑوں‘ دشوار گذار دروں‘ ریگستانوں کو عبور کرتے ہوئے سندھ‘ قندھار‘ کابل‘ درہ خیبر صوبہ سرحد میں پہنچتی ہے، کیونکہ انگریزنے کسی دوسرے راستے سے جانے نہیں دیا تھا اور آزادی کی جد وجہد عملی طور پر شروع کرنی تھی۔۶-یہ جماعت غریبوں کی ہے، اس کے پاس رسد وغیرہ کا پورا سامان نہیں ہے ،فاقوں پر آدھے پیٹ کھانے پر موٹے جھوٹے پرگزارہ کرتی ہے اور پھر بھی دشمن پر یلغار کرتی ہے۔۷- اس جماعت کی پارٹیاں تقریباً ڈیڑھ ہزار میل سے مالی اور جانی امداد کرتی ہیں، راستہ میں انگریز پکڑتے ہیں ،سزائیں دیتے ہیں، مگر یہ نظام جاری ہے۔۸- یہ جماعت انگریزوں کی طرف سے ہر قسم کی ہلاکتوں اور ایذاؤں کا نشانہ بنتی ہے اور تحمل کرتی ہے، مگر آزادی کی جد وجہد اور انگریز دشمن سے باز نہیں آتی، انگریز لالچ دیتا ہے قبول نہیں کرتی، انگریز ڈراتا ہے، مگر نہیں ڈرتی۔۹- اس جماعت کو سرحدی قبائل نے انگریزی سازشوں میں آکر برباد کرنا چاہا، اس کے امام کو زہر دیا، میدان جنگ میں غدر کیا ،کئی مرتبہ متفق ہوکر اس جماعت کے منتشر لوگوں کو جہاں پایا قتل اور شہید کیا، دشمنوں سے مل گئے مگر یہ سخت جان جماعت آزادی کی متوالی آج تک اپنی جگہ پر پہاڑ کی طرح جمی ہوئی ہے۔۱۰- انگریزوں نے بار بار اس پر چڑھائی کی اور اس کے گھر بار کو بزعم خود جلا کر اور فنا کرکے چلے آئے پھر بھی وہ باقی ہے اور لڑائیوں میں وہ پچاس ہزار ساٹھ ہزار، حتی کہ لاکھ تک مردان میدان کو انگریزوں کے خلاف افغانیوں کی مدد میں پیش کردیتی ہے ۔۱۱-اس حال پر ایک صدی سے زیادہ اس پر گزرتا ہے، ہندوستان کے آزاد ہونے تک یہ اسی طرح جمی رہتی۔ (نقش حیات ص:۶۴۴ مصنف مولانا سید حسین احمد مدنی)
Comments
Post a Comment