Skip to main content

قراء ات متواترہ کا ثبوت اور اس کے منکر کا حکم

قرآن حکیم اللہ تبارک وتعالیٰ کا انمٹ اورلاریب کلام ہے جس کی مثل لانے سے دنیا کا ہر فرد عاجز اور درماندہ ہے۔ بڑے بڑے فصحائے عرب اور فارسانِ بلاغت اس کی نظیر اورمثل پیش نہیں کرسکے اور نہ ہی قیامِ قیامت تک پیش کر سکتے ہیں۔ علمائے اسلام اور زعمائے ملت نے اس کی تفسیر وتوضیح اور مفاہیم ومعانی کی عقدہ کشائی کے لئے انتھک محنت اور قابل رشک جدوجہد کی ہے اور اس کا حقِ خدمت ادا کرنے کے لئے صعوبتوں اورمسافتوں سے بھرپور دور دراز بلاد و ممالک کے سفر طے کیے۔ اورہر کسی نے اپنی اپنی ہمت اوربساط کے مطابق اس کی خدمت کر کے اعلیٰ وارفع مقام حاصل کیا ۔جن میں ابن جریر طبری، ابن حاتم رازی، عبد الرزاق ، نسائی اور ابن کثیررحمہم اللہ جیسے گلستان ِ حدیث کے خوشبودار پھول، ابوحیان اندلسی اور زمخشری رحمہم اللہ جیسے فارسانِ بلاغت وادب اورنکتہ سنج۔ ابو عبد اللہ قرطبی اورابوبکر ابن العربی رحمہم اللہ جیسے فقاہت کے درخشندہ ستارے۔ رازی اوربیضاوی رحمہم اللہ جیسے فلاسفہ اورمتکلمین جہاں معانی ومفا،عثمان بن سعید ابو سعید ورش القبطی، احمد بن قالون المدنی، خلف بن ہشام البغدادی، ابو معبد عبد اللہ بن ہیم رحمہم اللہ کے گلستان میں گل چینی کر کے جویانِ حق وصداقت کے لئے ازہار متناثرہ یکجا کرتے رہے وہاں پر ابو عبید القاسم بن سلام الہروی ، ابومحمد مکی بن ابی طالب القیسی، ابو عبد اللہ ہارون بن موسی التغلیبی الأخفش ، ابوبکر بن الانباری ،ابوبکر عاصم بن ابی النجود الکوفی ،حمزہ بن حبیب الزیات،ابو الحسن علی بن حمزہ الکسائی کثیر الکنانی ، ابن الجزری وغیرہم رحمہم اللہ جیسے قراء کبار بھی علم وعرفان کے آفتاب جہاں تاب بن کر آسمانِ قرات کے خزینہ زرینہ رہے اور قراء تِ قرآن کے حسن وجمال سے قلوب واذہان کو تروتازگی دیتے رہے اور آج ان کی محنت ہائے شاقہ سے قراء ات متواترہ کا سورج جگمگا رہا ہے اور چہار دانگِ عالم میں قراء کرام کا دبستان وگلستان چہچہا رہا ہے اور ان کی ضبط کردہ قراء ات حافظین قرآن کے لئے مینارۂ نور ہیں۔ یہ موجود مروّجہ قراء اتِ عشرہ احادیث متواترہ سے ثابت ہیں اس کا انکار جاہل خیرہ سَر اور خیرہ چشم کے سوا کوئی نہیں کر سکتا ۔ اس کی مختصر سی توضیح درج ذیل ہے۔
(١) عن عبد الرّحمان بن عبد القاریٔ أنہ قال: سمعت عمر بن الخطاب یقول سمعت ہشام ابن حکیم بن حزام یقرأ سورۃ الفرقان علی غیر ما أقرأہا وکان رسول اﷲﷺ أقرأنیہا وکدت أن أعجل علیہ ثم أمہلتہ حتی انصرف ثم لببتہ بردائہ فجئت بہ رسول اﷲ ﷺ فقلت: إنی سمعت ہذا یقرأ علی غیر ما أقرأتنیہا فقال لي: أرسلہ ثم قال لہ: اقرأ فقرأ فقال: ہٰکذا أنزلت، ثم قال لي: اقرأ فقرأت فقال: ہٰکذا أنزلت، إن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرء وا منہ ما تیسر (صحیح البخاري:کتاب الخصومات:۲۴۱۹، وکتاب فضائل القرآن:۴۹۹۲، ۵۰۴۱، وکتاب استتابۃ المرتدین: ۶۹۳۶، وکتاب التوحید :۷۵۵۰،صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین ۸۱۸، مؤطأ امام مالک:۵۱۶، براویۃ یحییٰ بن یحییٰ :۱۳۴، بروایۃ القضبی ۴۷،بروایۃ ابن قاسم ۹۲، بروایۃ سوید بن بعد الحدثانی ، مسند الشافعی ۱۲۴،:۲؍۱۳۹۵، ۳؍۲۱۹۱، سنن ابی داؤد:۱۴۷۵، سنن النسائی:۹۳۵، صحیح ابن حبان:۷۴۱، شرح السنۃ:۱۲۲۶، مسند احمد:۲۷۷،۲۹۶،۱۵۸، مسند الطیالسی:۹، سنن الترمذی:۲۹۴۳، مصنف عبد الرزاق: ۲۰۳۶۹، مصنف ابن ابی شیبۃ:۱۰؍۵۱۷،۵۱۸،بزار:۳۰۰)عبد الرحمن بن عبد القاری رحمہ اللہ سے روایت ہے انہوں نے عمررضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے ہیں میں نے ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سورۃ الفرقان اس قراء ت سے پڑھتے ہوئے سنا جو اس کے خلاف تھی جومیں پڑھتا تھاحالانکہ مجھے قراء ت رسول اللہﷺنے سکھلائی تھی۔ قریب تھا کہ میں فوراً اس پر کچھ کربیٹھتا پھر میں نے اسے مہلت دی یہاں تک کہ وہ نماز سے فارغ ہوگیا پھر میں نے اس کے گلے میں چادر ڈال کر اسے کھینچا اور رسول اللہﷺکے پاس لے آیا میں نے کہا:میں نے اسے اس قراء ت کا خلاف پڑھتے ہوئے سنا ہے جو آپ نے مجھے پڑھائی ہے۔ آپﷺنے مجھے کہا اسے چھوڑ دو پھر اسے کہا پڑھ تو اس نے پڑھا آپﷺنے فرمایا اسی طرح نازل ہوئی ۔پھر مجھے کہا پڑھ میں نے پڑھا توآپﷺ نے فرمایا اسی طرح نازل ہوئی۔یقینا قرآن حکیم سات قراء توں پر نازل ہوا ہے تمہیں جس طرح آسانی ہو اسی طرح پڑھا لیاکرو ۔امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اَحرف سبعہ کے بارے میں اہل علم مختلف ہیں اور اس کے بارے میں انہوں نے بہت کلام کیا ہے ایک قوم نے کہا: اس سے مراد وعد، وعید، حلال، حرام، مواعظ، امثال اور احتجاج ہے اور ایک قوم نے کہا : اس سے مراد امر نہی، حظر، اباحت، ماکان، مایکون کی خبر اور امثال مراد ہیں۔پھر اس کے بعد رقمطراز ہیں:’’أظہر الأقاویل وأصحہا وأشبہہا بظاہر الحدیث أن المراد من ہذہ الحروف اللُّغات وہو أن یقرأہ کل قوم من العرب بلغتہم وما جرت علیہ عادتہم من الإدغام والإظہار والإمالۃ، والتفخیم، والإشمام والإتمام والہمز والتلیین وغیر ذلک من وجوہ اللغات إلی سبعۃ أوجہ منہا في الکلمۃ الواحدۃ (شرح السنۃ:۴؍۵۰۷،ط المکتب الإسلامی)ظاہر حدیث کے مطابق سب سے ظاہر، صحیح اور مناسب قول یہ ہے کہ سبعہ احرف سے مراد لغات ہیں ۔ ہر عرب قوم اسے اپنی لغت کے مطابق پڑھے۔ اور ایک ہی کلمہ کے بارے میں ان کی لغات میں جو ادغام، اظہار، امالہ، تفخیم، اشمام، اتمام، ہمزہ،تلیین وغیرہ کے بارے میں جاری طریقہ ہے اس پر عمل کریں۔جیسا کہ عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرمایا:’’إنی سمعت القراء فوجدتہم متقاربین فاقرئُ وا کما علمتم وإیاکم والتنطع فإنما ہو کقول أحدکم : ہلم وتعال‘‘ (تفسیر ابن جریر طبری:۴۸، ۱؍۷۶، ط دارالسلام مصر)میں نے قراء کرام کو سنا ہے اور انہیں قراء ۃ میں ایک دوسرے کے قریب پایا ہے تم اسی طرح قراء ت کرو جیسے تعلیم دیے گئے ہو ۔ غلو اورتکلف سے بچو یہ اختلاف تو اس طرح ہے جیسے تم کہتے ہو ہلم ، تعالیعنی یہ الفاظ کا اختلاف ہے معانی کا اختلاف نہیں۔ اس پر دلیل وہ حدیث بھی ہے جو ابو بکر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فر مایا:قال جبرائیل اقرأ القرآن علی حرف قال میکائیل علیہ السلام استزدہ فقال علی حرفین حتی بلغ ستۃ أو سبعۃ أحرف فقال کلہا شاف کاف ما لم یختم آیۃ عذاب بآیۃ رحمۃ أو آیۃ رحمۃ بآیۃ عذاب کقولک ہلم وتعال ’’حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا قرآن کو ایک حرف پر پڑھیے حضرت میکائیل علیہ السلام نے آپﷺسے کہا اس سے زیادہ حروف طلب کیجئے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا دوحرفوں پر قراء ت کیجئے حتی کہ چھ یا سات حرو ف تک پہنچ گئے فرمایا: یہ سب شافی کافی ہیں جب تک عذاب کی آیت رحمت کی آیت کے ساتھ یا رحمت کی آیت عذاب والی آیت کے ساتھ ختم نہ ہو۔ جیسے آپ کا کہنا ہے ہلم ،وتعال۔ ‘‘(طبری(۴۷):۱؍۷۶، مسند احمد:۵؍۵۱،۴۱،،ط قدیم شرح مشکل الآثار(۳۱۱۸) التمہید:۸؍۲۹۰،مصنف ابن ابی شیبۃ: ۱۰؍۵۱۷، مسند بزار:۳۶۲۲ اس کی سند میں علی بن زید بن جدعال ہے)
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’وفیہ علی بن زید جدعان وہوسیء الحفظ وقد توبع وبقیۃ رجال أحمد رجال الصحیح‘‘ (مجمع الزوائد،۷؍۱۵۱، ط قدیم، ۷؍۳۱۴، (۱۱۵۷۱، ط جدید)اس میں علی بن زید بن جدعان سيء الحفظ راوی ہے اور اس کی متابعت کی گئی ہے اور احمد کے باقی رجال صحیح ہیں۔اس حدیث کے صحیح شواہد بھی موجود ہیں جیسا کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ’’أقرأني النبي ﷺ آیۃ وأقرأہا آخر غیر قراء تي فقلت من أقرأکہا؟ قال أقرأنیہا رسول اﷲ ﷺ قلت: واﷲ لقد أقرأنیہا کذا وکذا، قال أبي: فما تخلج في نفسي من الإسلام ما تخلج یومئذ فأتیت النبی ﷺ فقلت: یا رسول اﷲ ﷺ ألم تقرأنی آیۃ کذا وکذا ؟قال بلیٰ قال: فإن ہذا یدّعی أنک قرأتہٗ کذا وکذا فضرب بیدہ في صدری فذہب ذاک فما وجدت منہ شیئا بعد ثم قال النبي ﷺ: أتاني جبریل ومیکائیل فقال جبریل : اقرأ القران علی حرف فقال میکائیل استزدہ قال اقرأ علی حرفین قال: استزدہ حتی بلغ سبعۃ أحرف قال: کل شاف کاف‘‘(مسند أحمد:۳۵؍۱۷(۲۱۰۹۲) ط مؤسسۃ الرسالۃ ، سنن النسائی (۹۳۹) (۹۴۰) عبد الرزاق(۲۰۳۷۱) ۱۱؍۲۱۹ المعجم الأوسط للطبرانی (۱۰۴۸) ۲؍۲۹، ط مکتبۃ العارف ریاض)’’مجھے رسول اللہﷺنے ایک آیت پڑھا ئی اور ایک دوسرے آدمی کو ابی رضی اللہ عنہ کے قراء ت کے خلاف قراء ت کرائی۔ میں نے کہا تجھے کس نے یہ قراء ت کرائی ہے؟ اس نے کہا رسول اللہﷺنے ۔ میں نے کہا اللہ کی قسم مجھے رسول اللہﷺنے اس اس طرح قراء ت کروائی ہے۔ اُبی رضی اللہ عنہ نے کہا میرے دل میں اسلام کے بارے میں اس دن جو شک گزرا اس سے پہلے کبھی نہیں گزرا۔ میں نے نبی کریمﷺکے پاس آیا میں نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ کیا آپ نے مجھے اس اس طرح آیت نہیں پڑھائی؟آپﷺ نے فرمایا کیوں نہیں کہنے لگے وہ شخص دعوی کرتا ہے آپ نے اسے اس اس طرح پڑھایا ہے ۔ آپﷺنے اپنا ہاتھ میرے سر پر مارا وہ شک مجھ سے دور ہو گیا اس کے بعد مجھے کبھی شک نہیں گزرا پھر رسول اللہﷺنے فرمایا: میرے پاس جبرائیل علیہ السلام اورمیکائیل علیہ السلام آئے تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا قرآن ایک حرف پر پڑھیں میکائیل علیہ السلام نے کہا اس سے زیادہ حروف کامطالبہ کر لو ۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا دو حرفوں پر پڑھ لو۔ میکائیل علیہ السلام نے کہا اس سے زیادہ مطالبہ کرو۔ حتی کہ جبرائیل علیہ السلام سات حروف تک پہنچ گئے آپ نے فرمایا : سب شافی کافی ہیں۔‘‘اس حدیث کا دوسر ا شاہد عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:’أقرأني جبریل علی حرف فراجعتہ فلم أزل أستزیدہ ویزیدني حتی انتہی إلی سبعۃ أحرف‘(مسند أحمد:۴؍۲۰۲(۲۳۷۵) ط مؤسسۃ الرسالۃ :۴؍۴۵۰ (۲۷۱۷) صحیح البخاری کتاب بدء الخلق (۳۲۱۹) وکتاب فضائل القران (۴۹۹۱) صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافر ین:۲۷۲؍۷۱۹)’’مجھے جبرائیل علیہ السلام نے ایک حرف پر قراء ت کرائی میں نے اس سے مراجعت کی او رہمیشہ اس سے زیادہ کا مطالبہ کرتا رہا وہ مجھے زیادہ حروف پر قراء ت کراتا رہا حتی کہ سات حرو ف تک پہنچ گیا۔‘‘امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ ، ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ والی حدیث نقل کرنے کے بعد رقمطراز ہیں:’’ فقد أوضح ہذا الخبر أن اختلاف الأحرف السبعۃ إنما ہو اختلاف ألفاظ کقولک ہلمّ وتعال باتفاق المعاني لاباختلاف معان موجبۃ اختلاف أحکام‘‘(جامع البیان عن تاویل آ ی القران:۱؍۷۶ ط۔دار السلام قاہرہ مصر)’’اس حدیث کی نص نے واضح کردیاہے کہ سبعہ احرف کا اختلاف لفظی ہے جن کے معانی متفقہ ہیں جیسے آپ کہتے ہیں ہلم،تعال ایسے معانی کا اختلاف مراد نہیں ہے جو احکام کے اختلاف کو واجب کرتے ہیں۔‘‘
ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’سبعہ احرف سے سات عر ب کی لغات مراد ہیں۔ یہ معنی ومطالب نہیں ہے کہ ایک حرف میں سات لغات ہیں لیکن یہ سات لغات قرآن میں متفرق ہیں بعض لغت قریش پر ، بعض لغت ہوازن پر، بعض ہذیل پر، بعض اہل یمن کی لغت پر ، اسی طرح دیگر لغات عرب ان تمام لغات میں ان کے معانی ایک ہی ہیں۔اس کا معنی یہ ہے کہ قرآن حکیم اس طرح نازل کیاگیا ہے کہ قاری قرآن کو اجازت ہے کہ وہ ان وجوہات میں سے جس وجہ پر چاہے قراء ت کر لے۔‘‘یہ اُمت محمدیہ پر اللہ عزوجل کی طرف سے توسع اور رحمت ہے ۔ اگر ہر فریق کواس بات کا مکلف بنایا جاتا کہ وہ اپنی لغت تر ک کر دے اور اپنی اس عادت سے عدول اختیار کرلیں جس پر وہ پیدا ہوئے تو یہ حکم ان پر گراں اور بوجھل ہوتا۔ اس بات پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جو ابی بن کعبﷺسے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہﷺنے جبرائیل علیہ السلام سے ملاقات کی توکہا اے جبرائیل علیہ السلام میں ایک ایسی امت کی طرف بھیجا گیاہوں جو اُمی ہے ان میں بوڑھے مرد وزن لڑکے اور بچیاں ہیں۔اور ایسے آدمی ہیں جنہوں کبھی کتاب نہیں پڑھی تو جبرائیل نے کہا۔ اے محمدﷺ یقینا قرآن سات حروف پر اتارا گیا ہے۔(شرح السنۃ :۴؍۵۰۸، فضائل القرآن لابی عبید:۳۳۸،۳۳۹، الإتقان فی علوم القرآن:۱؍۱۳۵، ۱۳۶،ابی بن کعب والی مذکورہ حدیث ترمذی(۲۹۴۴)مسند طیالسی(۵۴۳)مصنف ابن ابی شیبۃ(۱۰؍۵۱۸) المسند الجامع:۱؍۲۳ وغیرہا میں موجود ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں ہذاحدیث حسن صحیح)
امام بغوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’’فأما القراء ۃ باللغات المختلفۃ فما یوافق الخط والکتاب فالفسحۃ فیہ باقیۃ والتوسعۃ قائمۃ بعد ثبوتہا وصحتہا بنقل العددی عن رسول اﷲﷺ علی ما قرأ المعروفون بالنقل الصحیح عن الصحابۃ رضی اﷲعنہم‘‘ (شرح السّنۃ :۴؍۵۱۱، ط المکتب الإسلامی)
’’لغاتِ مختلفہ میں ایسی قراء ت جو خط اورکتابت میں موافق ہے اس کی کشادگی وگنجائش باقی اور رسو ل اللہ ﷺ سے عادل راویوں کی نقل کے ساتھ اس کے ثبوت اور صحت کے بعد وسعت قائم ہے اس طرز پر جسے معروف قراء کرام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نقل صحیح کے ساتھ قراء ت کیا ہے۔‘‘
سبعہ احرف والی حدیث ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے :
(١) حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مسند احمد :۵؍۴۰۵، ۴۰۶، مسند بزار :۷؍۳۱۰،المعجم الکبیر للطبراني:۳؍۱۸۵، شرح مشکل الآثار :۸؍۱۱۰، فضائل القرآن لأبی عبید:۳۳۸۔
(٢) اُم ایوب رضی اللہ عنہ سے مسند احمد: ۶؍۴۳۳،۴۶۲، مسند حمیدی: ۱؍۱۶۳، فضائل الصحابۃ لأبي نعیم: ۶؍۳۴۷۰، مصنف ابن ابی شیبۃ: ۷؍۱۸۱۔
(٣) سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مسند احمد:۵؍۲۲، مصنف ابن ابی شیبۃ:۷؍۱۸۲، فضائل القرآن لابی عبید:۳۳۹، المعجم الکبیر:۷؍۲۴۹، ۳۰۶، المستدرک للحاکم:۲؍۲۲۳۔
(٤) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری:۳۲۱۹، صحیح مسلم:۲۷۲،۸۱۹، مسند احمد:۴؍۲۶۳، ۲۶۴،۲۹۹، تفسیر طبری کتاب الجامع از معمر بن راشد المصنف:۱۱؍۲۱۹ (۲۰۳۷۰) فضائل القران لابی عبید:۳۳۸، المعجم لابن الأعرابی:۲؍۵۷۳ (۱۱۲۶) ،ط دار ابن الجوزی :۱؍۵۵۹،۵۶۰، ط دار الکتب العلمیۃ بیروت ۔الزہریات لأبی الفضل الزہري:۱؍۱۲۸
(٥) ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مسند احمد:۲؍۳۳۲، ط قدیم۔ مختصر زوائد مسند البزار:۲؍۱۲۹،۱۳۰(۱۵۵۶) کشف الاستار:(۲۳۱۳) ۳؍۹۰، مجمع الزوائد:۷؍۳۱۵ (۱۱۵۷۴) ط جدید، ابن حبان(۷۴) ابن ابی شیبۃ: ۷؍۱۸۲، الزہریات لابی الفضل الزہری :۲؍۵۴۳، شرح مشکل الآثار:۸؍۱۱۳، التمہید: ۸؍۲۸۸، السنن الکبریٰ للنسائی(۸۰۹۳) مسند أبو یعلیٰ (۶۰۱۶) تاریخ بغداد: ۱۱؍۲۶
(٦) ابو الجہم بن الحارث بن الصمۃ رضی اللہ عنہ سے مسند احمد:۴؍۱۶۹،۱۷۰، فضائل القران لابی عبید۳۳۷، شرح مشکل الآثار :۸؍۱۱۱، التاریخ الکبیر للبخاری:۷؍۲۶۲
(٧) عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مسند احمد: ۴؍۲۰۴، ۲۰۵، شعب الإیمان للبیہقی:۲۲۶۶) فضائل القران لأبی عبید:۳۳۷،۳۳۸
(٨) عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ مصنف ابن ابی شیبۃ:۱۰؍۵۲۸
(٩) ابو طلحۃ رضی اللہ عنہ مسند احمد:۴؍۳۰، مجمع الزوائد:۷؍۱۵۱، فتح الباری :۹؍۲۶، فضائل القرآن لابن کثیر :۲۱
(١٠) ابو المنہالسیار بن سلامہ عن عثمان رضی اللہ عنہ ابو یعلی، مجمع الزوائد:۷؍۱۵۲
(١١) عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ مسند بزار ،کشف الاستار(۲۳۱۲)المعجم الکبیر للطبرانی(۱۰۰۹۰) ۱۰؍۱۰۲، ابن حبان(۷۵)، مجمع الزوائد:۷؍۱۵۲
(١٢) معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ مجمع الزوائد:۷؍۱۵۴، المعجم الکبیر للطبرانی :۲۰؍۱۵ (۳۱۲)
(١٣) ابوبکرۃرضی اللہ عنہ (١٤)عمررضی اللہ عنہ (١٥)ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی احادیث کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے
الغرض سبعہ احرف والی حدیث حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہے۔ اس حدیث کو علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے’’قطف الأزہار المتناثرہ فی الأخبار المتواترۃ‘‘ رقم ۶۰ میں اکیس (۲۱) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اورعلامہ ابوالفیض رحمہ اللہ الکتائی نے ’’نظم المتناثر من الحدیث المتواتر رقم ۱۹۷میں چوبیس(۲۴) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایت کیا ہے۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ’’ تدریب الراوی‘‘ ۲؍۱۶۸ ط دارالفاحمۃ الریاض میں اصطخری کاقول نقل کیا ہے کہ متواتر کی کم از کم تعداد دس (۱۰) ہے اور لکھتے ہیں: ’’وہو المختار لأنہا أول جموع الکثرۃ‘‘’’یہی مختار قول ہے اس لیے کہ یہ جمع کثرۃ کی ابتداء ہے۔‘‘ 
سبعہ اَحرف والی حدیث اور قراء ۃ عشرہ کو امام حاکم رحمہ اللہ (شرح الزرقان علی المؤطا :۲؍۱۸) امام ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ (فضائل القران ۳۳۹ ،النشر فی القراء ات العشر ۱؍۲۱ ، نظم المتناثر:۱۱۲۔امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (جامع البیان ۱؍۳۵ ) امام غزالی رحمہ اللہ(المستصفیٰ من علم الاصول:۱؍۱۰۱) ملا علی قاری رحمہ اللہ (شرح الفقہ الاکبر:۱۶۷ ط قدیمی کتب خانہ کراچی ، مرقاۃ المفاتیح ۴؍۷۱۱)علامہ عبد الوہاب السبکی رحمہ اللہ (القراء ات العشر المتواترۃ فی ہامش القران الکریم ط دار المہاجر )
قاضی ابوبکر الباقلانی رحمہ اللہ(شرح صحیح مسلم :۶؍۸۶ ط دار الکتب العلمیۃ ) اور نواب صدیق الحسن خان بھوپالی رحمہ اللہ ( حصول المامول ۳۵، وغیرہم نے متواتر قرار دیا ہے۔
اور اکابر اَئمہ حدیث نے اپنی اپنی کتب میں باقاعدہ اس کے متعلق کتب اور ابواب منعقد کیے۔ جیسے سید الفقہاء والمحدثین امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ’’باب أنزل القران علی سبعۃ أحرف‘‘ امام المحدثین امام مسلم بن الحجاج القشیری رحمہ اللہ کی صحیح مسلم میں باب بیان أن القران علی سبعۃ أحرف ،امام ابوداؤدرحمہ اللہ نے سنن میں باب أنزل القران علی سبعۃ أحرف، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں کتاب القراء ات ، امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں باب من کم أبواب نزل القران ،علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے موارد الظمان میں باب فی أحرف القران ، مجمع الزوائد میں باب القراء ات وکم أنزل القران علی حرف ، کشف الأستار عن زوائد البزار میں باب کم أنزل القران علی حرف، امام معمر بن راشد رحمہ اللہ نے کتاب الجامع میں باب علی کم أنزل القران من حرف،ابن حجررحمہ اللہ نے مختصر زوائد مسند بزار میں باب فضائل القران والقراء ات وغیرہا۔
لہٰذا سبعہ احرف والی حدیث او رقراء ات عشرۃ متواترہ ہیں اور اس پر امت کا اجما ع ہے۔
امام ابوالخیر محمد بن محمد الدمشقی المعروف بابن الجزری رحمہ اللہ رقمطرازہیں:
’’کل قراء ۃ وافقت العربیۃ ولو بوجہ ووافقت أحد المصاحف العثمانیۃ ولو احتمالاً وصح سندہا فہی القراء ۃ الصحیحۃ التی لایجوز ردہا ولا یحل إنکارہا بل ہی من الأحرف السبعۃ التی نزل بہا القران ووجب علی الناس قبولہا‘‘
(النشر فی القراء ات العشر:۱؍۹ ط ایران نیل الأوطار :۴؍۲۳۲، ط دار ابن الجوزی ۔موسوعۃ الإجماع فی الفقہ الاسلامی :۳؍۹۰۵)
’’ہر قراء ۃ جو کسی بھی وجہ سے عربیت اور کسی مصحف عثمانی کے موافق ہو، اگرچہ احتمالاً ہو اور اس کی سند صحیح ہو وہ صحیح قراء تہے جس کا رد کرناجائز نہیں اور اس کا انکار حلال نہیں بلکہ وہ ان احر ف سبعہ میں سے ہے جن کے ساتھ قرآن نازل ہوا اور لوگوں پر اس کاقبول کرنا واجب ہے۔‘‘
پھر اس کے بعد رقمطراز ہیں :
’’وہو مذہب السلف الَّذی لایعرف عن أحد منہم خلافہ‘‘
’’یہ سلف صالحین کا وہ مذہب ہے کہ اس کا خلاف کسی سے بھی معروف نہیں۔‘‘
علامہ سعدی ابو حبیب رحمہ اللہ ناقل ہیں:
’’من زاد في القران حرفا من غیر القراء ات المرویۃ المحفوظ لمنقولہ نقل الکافۃ أو نقص منہ حرفا أو بدل منہ حرفا مکان حرف وقد قامت علیہ الحجۃ أنہ من القرآن فتماریٰ متعمداً لکل ذلک عالماً بأنہ خلاف ما فعل فإنہ کافر بالإجماع‘‘ (موسوعۃ الإجماع فی الفقہ الاسلامی :۳؍۹۰۳، رقم الفقرۃ(۳۱۴۵))
’’جس شخص نے قراء ات مرویہ محفوظ متواترہ کے علاوہ قران میں ایک حرف زیادہ یا کم کیا یا ایک حرف کو دوسرے حرف کے بدلے میں تبدیل کر دیا اور اس پر حجت قائم ہو چکی ہو کہ یہ قرآن میں سے ہے تو اس نے قصداً جھگڑا کیا یہ جانتے ہوئے کہ اس کے فعل کے خلاف ہے۔ تو وہ بالاجماع کافر ہے۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:
’’ولا یختلف اثنان من أہل الاسلام في أن ہذہ القراء ات الصحیحۃ حق کلہا مقطوع بہ مبغلۃ کلہا إلی رسول اﷲﷺ عن جبریل علیہ السلام عن اﷲ عزوجل بنقل الأمۃ‘‘ (موسوعۃ الإجماع فی الفقہ الاسلامی:۳؍۹۰۵)
’’اہل اسلام میں اس کے بارے میں دو بندوں کا بھی اختلاف نہیں ہے کہ یہ قراء اتیں صحیح وحق ہیں سب کی سب قطعی ویقینی ہیں امت مسلہ کی نقل کے ساتھ رسول اللہﷺتک پہنچی ہوئی ہیں اور رسول اللہﷺنے جبرائیل علیہ السلام اور انہوں نے اللہ عزوجل سے بیان کی ہیں۔‘‘
نیز ملاحظہ ہو۔ نیل الأوطار للشوکانی:۴۱۲ ط دار ابن حزم :۱؍۵۹۳، ط دار الحدیث قاہرہ :۴؍۲۳۲، ۲۳۳، ط دار ابن الجوزی بتحقیق محمد صبحی حسن خلاق رحمہ اللہ ، تفسیر ابن کثیر ۱؍۴۸، بتحقیق عبد الرزاق المہدی رحمہ اللہ ، مراتب الإجماع لابن حزم رحمہ اللہ :۱۷۴، ط دار الکتب العلمیۃ بیروت ، النشر فی القراء ات العشر لابن الجزری رحمہ اللہ: ۱؍۱۳ ط مکتبہ نجاریہ مصر، المرشد الوجیز لابی شامۃ، المجموع للنووی :۲؍۱۸۵، ۳؍۲۹۲، الجامع لاحکام القرآن للقرطبی :۱؍۳۵،إکمال المعلم بفوائد مسلم للقاضی عیاض رحمہ اللہ:۳؍۱۹۰، ۱۹۱، ط دار الوفاء وغیرہا۔
قراء ات کا نزول اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے لہٰذا ان کا انکار کفر ہے۔
ابو جہیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺنے فرمایا:
’’القران یقرأ علی سبعۃ أحرف فلا تماروا في القرآن فإن مرائً في القران کفر‘‘ (مسند أحمد: ۲۹؍۸۵، (۱۷۵۴۲) ط مؤسسۃ الرسالۃ)
’’قرآن کی قراء ت سات حروف پر کی جاتی ہے تم قرآن میں جھگڑا نہ کرو یقینا قرآن میں جھگڑا کفر ہے۔‘‘
عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ بلاشبہ رسو ل اللہﷺنے فرمایا:
’’القرآن نزل علی سبعۃ أحرف علی أی حرف قرأتم فقد أصبتم فلا تتماروا فیہ فان المراء فیہ کفر‘‘ (مسند أحمد: ۲۹؍۳۵۳،۳۵۴، (۱۸۸۱۹) ط مؤسسۃ الرسالۃ)
’’قرآن حکیم سات حروف پر اتارا گیا ہے جس بھی حرف پر تم نے قراء ت کی تو درست کی تم اس میں باہمی جھگڑا نہ کرو یقینا اس میں جھگڑا کفر ہے۔‘‘
ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺنے فرمایا:
’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف والمراء في القران کفر ثلاثاً ما عرفتم منہ فاعملوا بہ وما جہلتم منہ فردّوہ إلی عالمہ‘‘(صحیح ابن حبان (۷۴) ۱؍۲۷۵ ط مؤسسۃ الرسالۃ، مسند أحمد۲۷؍۳۰۰، فضائل القرآن للنسائی(۱۱۸) تاریخ بغداد:۱۱؍۲۶، تفسیر طبری (۷) ۱؍۸۳۵ ط دار الکتب العلمیۃ)
’’قرآن مجید سات حروف پر اتاراگیا ہے اور قرآن کے بارے میں جھگڑنا کفر ہے یہ بات آپ نے تین مرتبہ فرمائی ۔ قرآن حکیم میں سے جو تم پہنچانتے ہو اس پر عمل کرو اور جس سے تم جاہل و ناواقف ہو تو اسے قرآن کے عالم کی طرف لوٹا دو۔‘‘
مذکورہ بالاد لائل قاہرہ، براہین ساطعہ ، احادیث صحیحہ صریحہ مرفوعہ محکمہ اورآئمہ حدیث وقراء ۃ اورفقہاء محدثین رحمہم اللہ اجمعین کی نصوص صریحہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قراء ات قرآنیہ اور اس کے مختلف لہجات بالکل صحیح اورقطعی ہیں ان کا انکار کفر ہے۔ اس پر اجماع امت ہے ۔ اس کا منکر ویتبع غیر سبیل المؤمنین کا مصداق، ضال اور مضل ہے۔
سبعہ احرف ضروریات دین میں سے ہیں۔ ان کا انکار اور ان سے انحراف کلی یا جزی کوئی جاہل ہی کر سکتا ہے۔ لہٰذا ہر فرد مسلم پر لازم ہے کہ وہ احادیث متواترہ قطعیہ پر ایمان لائے او رہر طرح کی تشکیکات، اورشبہات سے بالاہو کر عقیدہ جازمہ اختیار کرے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں کتاب وسنت کی نصوص سمجھنے او ران پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور زیغ وطغیان و ہوائے شیطان سے کلی طور پر محفوظ و مامون رکھے۔ اورسلف صالحین رحمہم اللہ اجمعین کے اختیار کردہ راہ صواب اور جا دہ مستقیم پر گامزن رکھے۔ اور صراط مستقیم پرہی اس حیاتِ مستعار سے اٹھائے۔
آمین یارب العالمین، ہذا ما عندی واﷲ أعلم بالصواب وعلمہ أتمّ وأکمل

                                                                                ٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭

Comments

Popular posts from this blog

Yusufzai (Pashtun tribe)

The  Yūsufzai  (also  Youssofzay ,  Yousefzai ,  Yousafzai ,  Esapzey ,  Yousufi , or  Yūsufi ) (Pashto:  يوسفزی ,Persian and Urdu:  یوسف زئی ) is one of the largest Pashtun (Afghans) tribes. The majority of the Yusufzai tribe reside in parts of Western Afghanistan, Khyber Pakhtunkhwa and Provincially Administered Tribal Areas near the Afghan-Pakistan border. They are the predominant population in the districts of Konar, Ningarhar, Mardan District, Dir, Swat,Malakand, Swabi, Buner, Shangla, Haripur District [Khalabat Town Ship and Tarbela] and in Mansehra and Battagram. There is also a Yusufzai clan of Dehwar tribe in the Mastung district of Balochistan who speak Persian with some mixture of Birahvi words. The descendants of Yusuf inhabit Konar, Jalalabad, Swat, Upper Dir, Lower Dir, Malakand Swabi and Mardan. The begotten tribe of  Yusufzai' s are the Utmanzai having 3 major subdivions Alizai, Akazai and Kanazai, of Tarbela (now live in Khalabat Town Ship, District

رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم

  رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم  قرآن مجید میں پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مختلف صفات کا ذکر آیا ہے،  یہ تمام صفات اپنی جگہ اہم ہیں اور آپ کے محاسن کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم صفت یہ ہے کہ آپ کو تمام عالم کے لئے رحمت قرار دیا گیا،  وما أرسلنٰک الا رحمۃ للعالمین (الانبیاء : ۱۰۷)  —– اس تعبیر کی و سعت اور ہمہ گیری پر غور فرمائیے کہ آپ کی رحمت مکان و مقام کی وسعت کے لحاظ سے پوری کائنات کو شامل ہے اور زمانہ و زمان کی ہمہ گیری کے اعتبار سے قیامت تک آنے والے عرصہ کو حاوی ہے، یہ کوئی معمولی دعویٰ نہیں، اور شاید ہی تاریخ کی کسی شخصیت کے بارے میں ایسا دعویٰ کیا گیا ہو، یہ دعویٰ جتنا عظیم ہے اسی قدر واقعہ کے مطابق بھی ہے،  آپ کی رحمت کا دائرہ یوں تو پوری کائنات تک وسیع ہے، زندگی کے ہر گوشہ میں آپ کا اسوہ رحمت کا نمونہ ہے، لیکن اس وقت انسانیت پر آپ کی رحمت کے چند خاص پہلوؤں پر روشنی ڈالنا مقصود ہے ۔ ان میں پہلی بات یہ ہے کہ آپ نے انسانیت کو وحدت الٰہ کا تصور دیا، خدا کو ایک ما ننا بظاہر ایک سادہ سی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن بمقابلہ الحاد و انکار اور شرک و مخلوق پر

عشرة ذوالحجہ

 *✨عشرة ذوالحجہ* *✨مختصر تعارف * 🌿 ذوالحجہ کا پہلا عشره نیکیوں اور اجر و ثواب کے اعتبار سے عام دنوں کے مقابلے میں بہت اہم ہے، جس کی فضیلت قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن مجید میں الله سبحانه و تعالیٰ نے ان دس دن کی قسم کھائی ہے۔ *🌿 وَالْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ*   "قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی" (الفجر : 2-1)  اکثر مفسرین کے نزدیک *’’لَیَالٍ عَشْرٍ‘‘* سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ ان دس دنوں میں کئے جانے والے اعمال الله تعالیٰ کو دیگر دنوں کی نسبت زیاده محبوب ہیں۔ 🌿 رسول الله ﷺ نے فرمایا : "کسی بھی دن کیا ہوا عمل الله تعالیٰ کو ان دس دنوں میں کئے ہوئے عمل سے زیاده محبوب نہیں ہے،  انہوں (صحابہ ؓ) نے پوچھا : اے الله کے رسول ﷺ، جہاد فی سبیل الله بھی نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : "جہاد فی سبیل الله بھی نہیں ہاں مگر وه شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے۔" (سنن ابوداؤد) 🌿 عبدالله ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : "کوئی دن الله تعالیٰ کے ہاں ان دس دنوں سے زیاده عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل الله تعالیٰ